مولانا حسرت موہانی کی قلندرانہ زندگی

مولانا حسرت موہانی کی قلندرانہ زندگی
مولانا حسرت موہانی کی قلندرانہ زندگی

معصوم مرادآبادی

آج سید الاحرار مولانا حسرت موہانی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 13مئی1951کو لکھنؤ میں وفات پائی۔انتقال کے وقت حسرت موہانی کی عمر 76 برس تھی۔ان کی پیدائش یکم جنوری 1875 کو ضلع اناؤ کے قصبہ موہان میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام سید فضل الحسن تھا اور تخلص حسرت موہانی۔ وہ سرسید کے قایم کردہ ایم اے او کالج کے انتہائی ہونہار طالب علم تھے۔ وہ ایک عظیم مجاہد آزادی تھے اور انھوں نے ہی 1921میں ”انقلاب:زندہ باد“ کا نعرہ دیا تھا، جوآج بھی پوری دنیا میں حریت پسندوں کا سب سے محبوب نعرہ ہے۔وہ آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے۔خاص بات یہ ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود شری کرشن کے معتقد بھی تھے۔حسرت موہانی نے قلندرانہ زندگی بسر کی اور اپنی اس ادا کے گہرے نقوش چھوڑے۔

حسرت موہانی ایک بلند پایہ شاعر،ایک بے باک صحافی، نقاد اور محقق سب ہی کچھ تھے۔ انھیں ایک ناکام سیاست داں کے طور پر بھی جانا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں مختلف اور متضاد نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کی۔وہ کانگریس، مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی اور جمعیۃ علماء جیسی جماعتوں سے وابستہ رہے۔انھوں نے ہی سب سے پہلے ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔وہ تقسیم وطن کے مخالف تھے۔ اردو شاعری میں انھیں غزل کے ایک بڑے شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ان کی ایک عشقیہ غزل کو شہرت دوام حاصل ہوئی، جس کا ایک شعر یوں ہے۔

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

حسرت موہانی اودھی تہذیب ومعاشرت میں پلے بڑھے ایک انتہائی نستعلیق انسان تھے۔ ان کے والد اظہر حسین اگرچہ ایک جاگیر دار تھے لیکن حسرت کی طبیعت ”ایک طرفہ تماشا“سے کم نہیں تھی۔ ان کا بچپن ننہیال میں گزرا۔ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کرنے کے بعد مڈل اسکول کے امتحان میں سارے صوبے میں اوّل آئے اور وظیفہ کے حقدار بنے۔پھر انٹرنس کا امتحان فتح پور سے پاس کرکے علی گڑھ روانہ ہوگئے، جہاں ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اودھی تہذیب کے پروردہ حسرت جب علی گڑھ میں وارد ہوئے تو کچھ اس طرح کہ ایک ہاتھ میں پاندان تھا، بدن پر نفیس انگرکھا اور پیروں میں قدیم طرز کے جوتے۔پہنچتے ہی انھیں علی گڑھ کے کھلنڈروں نے ”خالہ اماں“ کے خطاب سے نوازا۔یہاں تک کہ سجاد حیدر یلدرم نے ان پر ”مرزا پھویا“ کے عنوان سے ایک نظم لکھ ڈالی۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نہایت نازک خدوخال کے مالک حسرت موہانی اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی علی گڑھ کے ادبی حلقوں میں مقبول ہوگئے۔اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے علی گڑھ سے نکالے بھی گئے، لیکن اپنے موقف پر اٹل رہے۔

مولانا حسرت موہانی نے بی اے کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی علی گڑھ سے ”اردوئے معلی“ کے نام سے ایک ماہنامہ کا ڈکلیریشن داخل کردیا۔ مسٹن روڈ پر ایک کرائے کا مکان لے کر حسرت اپنے رسالے کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے۔ ’اردوئے معلی‘ کا پہلا شمارہ جولائی 1903میں منظرعام پر آیا۔ حسرت موہانی کو علی گڑھ کالج کی انجمن اردوئے معلی کے سیکریٹری کی حیثیت سے قومی مسائل اور ادبی موضوعات پرغور وفکر کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر قدرت حاصل ہوچکی تھی۔ان کے مضامین اور شعری نگارشات اس عہد کے ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔اپنے ان تجربات سے ماہنامہ ’اردوئے معلی‘ کی ترتیب واشاعت میں حسرت میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔ان کے سامنے’تہذیب الاخلاق‘(علی گڑھ) ’دلگداز‘ (لکھنؤ) ’عصر جدید‘ (میرٹھ) اور ’مخزن‘ (لاہور) جیسے رسالوں کے نمونے تھے، لیکن اعلیٰ ادبی معیار کے باوجود ان میں سے کسی بھی جریدے کو حسرت موہانی جیسا حق پسند، بے باک، سرفروش اور آزادی کے جذبے سے سرشار ایڈیٹر نصیب نہیں ہوا، کیونکہ اس دور میں اکثر مدیران اپنے رسالوں میں سیاسی موضوعات پر مضامین کی اشاعت کو مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے۔حسرت نے اپنی صحافت کے ذریعہ اس دور کے مسلمانوں کا مذاق درست کرنے اور ان میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی اور ’اردوئے معلی‘ کے ذریعہ ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا۔

حسرت موہانی ایک انتہائی سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے باوجود انھوں نے ہمیشہ ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبہ میں سفر کیا اور بحیثیت ممبر پارلیمنٹ ملنے والی سہولتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ اکثر رکشہ پر بیٹھ کر پارلیمنٹ پہنچتے تھے۔وہ دہلی میں اخبار’وحدت‘یا ایک مسجد کے حجرے میں قیام کرتے۔ انھوں نے دستور ساز اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے 75 روپے یومیہ لینے سے انکار کردیا تھا اور اس پر احتجاج کیا تھا کہ ممبروں کے لیے اتنی بڑی رقم یومیہ بھتہ لینا ہندوستان کے غریب اور فاقہ کش عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ راولپنڈی کے ایک مشاعرے میں ایک بار انھیں پانچ سو روپے کا جو نذرانہ ملا تھا، وہ انھوں نے ایک مقامی یتیم خانے کو عطیہ کر دیا تھا۔اسی طرح لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے انھیں جو نذرانہ پیش کیا گیا تھا، اسے انھوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اتنی رقم لے کر وہ کیا کریں گے۔ ریڈیو والوں کے بے حد اصرار پر انھوں نے اس میں سے صرف تین آنے لینا منظور کیا۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمارے عہد کے ایک بڑے صحافی کلدیپ نیر نے دہلی میں آزادی کے فوراً بعد اپنے صحافتی کیریر کا آغاز ایک اردو اخبار روزنامہ ”انجام‘‘سے کیا تھا اور انھوں نے اخبار ” وحدت ” کے دفتر میں مولانا حسرت موہانی کی صحبت اٹھائی تھی۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare