مولانا سید شاہ شرف عالم ندویؒ

مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کی مجلس شوری کے رکن، نامور عالم دین خانقاہ پیر دمڑ یا خلیفہ باغ بھاگلپور کے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ شرف عالم ندوی بن سید شاہ فخر عالم (م 1976) بن شاہ فتح عالم عرف منظور حسن (م1929) بن اسعد اللہ (1902) بن عنایت حسن (م1882) کا نواسی سال (ہجری تاریخ کے اعتبار سے) کی عمر میں 25 ربیع الثانی 1426ھ مطابق 3 جون 2005 بروز جمعہ سات بجے وصال ہو گیا ”انا لِلّٰہِ وانا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ شاہ صاحب کی ولادت 28 مارچ 1962ء کو اپنی نانی ہال لکھنؤ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم کا حفظ اپنے وطن بھاگلپور میں ہی کیا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت پائی، قرآن کریم اچھا پڑھتے تھے، اس لیے 36 سال تک مسلسل رمضان میں خانقاہ کی مسجد میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل ہوئی اور امامت تو معذور ہونے کے پہلے تک کرتے رہے، 17مئی 1976 کو والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور تا عمر اس اہم منصب کے علمی، فکری اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے میں لگے رہے، بھاگل پور فساد کے موقع پر آپ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں مؤثر رول ادا کیا، آپ سینٹرل وقف کونسل، اور سنی وقف بورڈ بہار کے بھی برسوں تک ممبر رہے، اور اوقاف کی جائداد کی حفاظت اور اس کو نفع بخش بنانے میں اپنی حصہ داری نبھائی۔

شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1984 میں ہوئی تھی۔ جب میرا پہلی بارخانقاہ جاناہوا، ان دنوں میں خانوادہ پیردمڑ یا پر کام کر رہا تھا، اور اس خانقاہ کے مورث اعلیٰ مخدوم شاہ ارشد الدین عرف سید شاہ دانشمند (م 945) کے مزار حسن پورہ سیوان اور سید احمد عرف پیرد مڑیا (م972) حاجی پور نیز کمال الدین میرسید زین العابدین پیر دمڑ یا ثانی (م1024) کے مزار سے ہوتا ہوا بھاگل پور پہنچا تھا۔ مقصد اس خانقاہ اور خانوادہ سے متعلق مخطوطات اور مطبوعات کا مطالعہ کرنا تھا، جس کا بڑا ذخیرہ حضرت شاہ صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھا، حاضری نیاز مندانہ نہیں، طالب علمانہ تھی، اور ایک ایسے شخص کی تھی جو بساط علم و ادب پر نو وارد تھا، جس کا نہ کوئی کارنامہ تھا، اور نہ ہی شہرت، اس کے با وجود اس پہلی ملاقات میں ایک طالب علم پر جو شفقت انھوں نے فرمائی اور جس طرح علمی تعاون کیا، اس کے اثرات اب تک دل و دماغ پر مسلط ہیں، میں نے اس ملاقات میں ان کی متانت و سنجیدگی، مریدین و متوسلین کی تربیت، تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان کی فکرمندی کو قریب سے دیکھا، اور کافی متاثر ہوا، مریدوں سے تحائف کے قبول کرنے کا مزاج بھی نہیں تھا، کوئی پیش کرتا تو فرماتے کسی ضرورت مند کو دے دو۔ یہ استغناء اس خانقاہ کی وراثت ہے، بتایا جاتا ہے کہ خانقاہ پیرد مٹر یا کا نام دمڑ یا اسی مناسبت سے ہے کہ یہ حضرات نذرانہ کی بڑی بڑی رقموں میں سے دل رکھنے کے لیے ایک دمڑی قبول کیا کرتے تھے، دولت کے جمع کرنے کا مزاج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
دوسری ملاقات یتیم خانہ بھاگلپور کے جلسہ میں ہوئی، مولانا سید سلمان الحسینی صدر جمعیت شباب اسلام کی معیت میں یہ سفر ہوا تھا، خانقاہ ہی میں قیام رہا، ہر قسم کے آرام کا خیال خود بھی رکھا، اور اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ حسن مانی کوبھی اس طرف متوجہ کرتے رہے، اس سفر میں مجھے جا گیر کی ان تمام دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملا، جو مغل بادشاہوں نے اس خانقاہ کی عظمت کے پیش نظر جاگیر کے وثیقہ کی شکل میں پیش کیا تھا، کئی سلاطین کے دستخط مجھے پہلی بار وہاں دیکھنے کو ملے، جائداد سے قطع نظر، خود ان قیمتی دستاویزات کی مالیت لاکھوں میں تھی، لیکن استغناء کا یہ عالم کہ ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ کوئی اہتمام نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے خانقاہ کی عظمت کا کوئی بیان ہوتاہے، جیسے یہ کوئی قابل ذکر چیز ہے ہی نہیں۔
امارت شرعیہ سے شاہ صاحب کا بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ تھا آپ ہمیشہ اس کے کاموں میں معین و مددگار رہتے، یہی وجہ ہے کہ انتقال کی خبر آنے پراس وقت کے امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ کے حکم اور اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ہدایت پر راقم الحروف (محمد ثناء الہدی قاسمی) اور مولا نا محمد سہیل اختر قاسمی موجودہ نائب قاضی امارت شرعیہ نے جنازہ میں شرکت کی، بعد نماز عشاء جنازہ کی نماز ہوئی، لوگوں کا جم غفیر تھا جو آخری دیدار، اور جنازہ کے لیے جمع تھا، خانقاہ کی مسجد کے صحن میں صفیں لگائی گئیں، مولانا شاہ حسن مانی ندوی کے حکم سے شاہ صاحب کے پوتے مولانا محمد حسن ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی، اور نصف شب میں آفتاب علم وفن، سلوک و فضیلت و شرافت کو خانقاہ کے قبرستان میں مسجد سے متصل سپردخاک کر دیا گیا، اللہ رب العزت سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare