مولانا سید عبدالرؤوف ندوی اورنگ آبادی کے خود نوشت حالات
طلحہ نعمت ندوی
مولانا سید عبدالرؤوف اورنگ آبادی ندوی معروف عالم اور اہل قلم تھے ، بالخصوص صوبہ بہار کے علمی حلقہ میں وہ اپنے دور میں ایک شناخت رکھتے تھے ، ان کے دو صاحبزادے نامور ہوئے ،ایک مشہور ادیب پروفیسر عبدالمغنی تھے ،دوسرے اردو کے معروف فاضل مظفر اقبال صاحب تھے ،دونوں مصنف تھے ،تیسرے صاحبزادے حافظ وعالم وقاری مولانا عبدالغنی تھے جو مدرسہ اسلامیہ اورنگ آباد کے استاد تھے۔ مولانا نے اپنے علاقہ میں رہ کر بھی علم وتحقیق سے اپنا تعلق قائم رکھا ،اور معارف وندیم جیسے رسائل میں مستقل تاریخی اور علمی مضامین لکھتے رہے جو آج بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے اپنے شہر اورنگ آباد کی تاریخ بھی لکھی ہے جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے ، ایک مضمون اورنگ آباد کے تاریخی حالات کے عنوان سے ماہنامہ معاصر پٹنہ میں شائع ہوا تھا ،مولانا کی یہ خود نوشت اسی تاریخ اورنگ آباد کا حصہ ہے۔ مولانا موقرعلمی رسائل میں مستقل مضامین لکھتے رہے ، معارف اور ندیم گیا میں نے ان کے علمی اور تاریخی مضامین مستقل شاقئع ہوتے رہے ، المجیب (پھلواری ) سے بھی ان کا رشتہ مضبوط رہا، جیسا کہ اس مضمون سے معلوم ہوگا ۔ فصیح الدین بلخٰی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ مولانا جس مقام ومرتبہ کے مالک تھے اس حیثیت سے ان کا تعارف نہیں ہوسکا۔ مولانا نے ۵۲ دسمبر ۶۷۹۱ کو اورنگ آباد ہی میں وفات پائی۔ ذیل میں ان کی لکھی گئی تحریر پیش خدمت ہے۔

خودنوشت سوانح عمری بعنوان حیات مستعار
بندہ ہیچ مداں کو بایں ہمہ کم علمی وبے ہنری سوانح حیات قلمبند کرنے کا شوق دامن گیر ہوا ،تاکہ اخلاف کو عبرت وبصیرت ہو۔
ولادت وسنہ ولادت:
اورنگ آباد نیا قاضی میں اپنے آبائی جدی مکان میں ملکہ وکٹوریہ کے عہد حکومت ۱۸۹۶رمضان المبارک میں ولادت ہوئی ۔
سلسلہ نسب جدی وپدری:
بواسطہ شیخ الاسلام سید فخر الاسلام ابن سید شاہ حسین نیشاپوری امام حسن تک اس طرح پر منتہی ہوتا ہے۔
سید عبدالرؤوف ابن سید عبدالغفور ابن مولانا سید قاضی سید شاہ رجب علی الحسنی والحسینی ابن سید شاہ امام بخش بن شاہ عطاء اللہ بن شاہ صمد بن شاہ فیروز بن شاہ سالم بن شاہ قاسم بن شاہ ناصر عرف نصیر بن شاہ بہاء الدین ثانی فخر الاسلام بن سید شاہ حسین ثانی نیشاپوری بن شاہ عبدالواحد بن شاہ عبداللہ بن شاہ جعفر بن حضرت امام تقی بن امام علی رضا بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام الحسین بن فاطمۃ الزہرابنت حضرت رسول اللہ ﷺ۔
سلسلہ نسب جد فاسد یعنی سلسلہ مادری:
بواسطہ قاضی شاہ ابوالقاسم قاضی پرگنات دادر ،گوہ ومنورہ اور بواسطہ قاضی القضاۃ حضرت مولانا شاہ صدرالدین صوفی کابری ذی النورین حضرت عثمان تک اس طرح پہنچتا ہے ۔
حمیدہ بنت بندہ علی بن قطب علی بن خیرات علی بن غلام علی بن محمد امیر صوفی بن نور محمد بن قاضی عنایت اللہ بن قاضی فیض اللہ بن قاضی شاہ ابوالقاسم بن قاضی شاہ بایزید بن قاضی القضاۃ حضرت مولانا شاہ صدرالدین صوفی خلیفہ حضرت مخدوم الملک بہارشریف بن شاہ عطاء اللہ بن مولانا شاہ فتح اللہ فاضل بن شاہ خلیل سیاح بن شاہ قمرالدین جیلی بن شاہ عبداللہ بن عباد اللہ بن شاہ غلام احمد بن شاہ یعقوب نوری جیلی بن اسحاق دانشمند بن حضرت قادر دیوی؟بن شاہ زکریا بغدادی بن شاہ حاجی سلیمان بن شاہ یوسف بن حضرت نوح ؟؟بن شاہ ادریس بن قطب الاقطاب گنج ہارون بن عارف باللہ حضرت شیخ عبداللہ اصغر بن امیر المومنین ذو النورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تعالی عنہم۔
تعلیمات فارسی وعربی اور اساتذہ کرام:
مولوی حافظ معین الدین صاحب سہسرامی سے بسم اللہ خوانی ،اور مولوی سید روشن علی صاحب آستانہ کٹمبہ مدرس مدرسہ قدیمہ اورنگ آباد سے ابجد خوانی ،مولوی شاہ عبدالرب صاحب صوفی نومسلم مدرس مدرسہ قدیم اورنگ آباد سے اردو اور حساب کتاب۔
حفظ قرآن پاک کا آغاز حافظ معتبر صاحب تاجر اورنگ آباد سے ہوا اور ان کے استاد حافظ انوار محمد صاحب نابینا سہسرامی سے سورہ بقرہ حفظ کیا ،اور مستقل حافظ امیر علی خاں صاحب سہسرامی سے حفظ قرآن کا درس درس لے کر ۱۹۳۱ء میں تکمیل کرکے پہلا ختم حافظ صاحب کی موجودگی میں جامع مسجد اورنگ آباد میں پڑھا اور پھر اسی رمضان میں دوسرا ختم حافظ معتبر صاحب موصوف کی موجودگی میںبزرگوں کے اصرار پر اپنے گھر پر سنایا ۔
حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد حضرت الاستاد مولانا سید شاہ محمد طاہر صاحب قادری داودنگری فاضل مدرسہ عالیہ کلکتہ اور فاضل دارالعلوم دیوبند سے فارسی کی چند ابتدائی کتابیں پڑھ کر عربی کی ابتدائی کتابیں صرف ونحو شروع کرکے بلا قید نصاب ودرجہ مدرسہ اورنگ آباد میںپڑھ کر جونیر پنجم نصاب مدرسہ کلکتہ میں داخلہ لیا ،اور چند سال کے بعد سینیر سال سوم کے کلکتہ کے بورڈ امتحان میں شریک ہوکر ۱۹۱۹ء میں سکنڈ ڈویزن درجہ دوم میں پاس ہوا ،مدرسہ عالیہ کلکتہ سینیر پنجم یعنی آخر امتحان بورڈ میں تھا کہ تحریک خلافت اور ترک موالات کے سبب ۱۹۲۱ء کے بورڈ امتحان میں شریک نہیں ہوسکا ،دوسرے سال ۱۹۲۲ء میںمدرسہ خانقاہ سہسرام سے سنییر سال پنجم کا فائنل امتحان دے کر فرسٹ ڈویزن اول درجہ میں پاس ہوا ۔
مدرسہ اسلامیہ اورنگ آباد کے ہمارے اساتذہ کرام میں حضرت مولاناسید شاہ محمد طاہر صاحب قادری داودنگری ،مولانا نورالدین صاحب مجددی بہاری ،فاضل مدرسہ ریاست مینڈھو اور فاضل دارالعلوم دیوبند ،اور مولانا عبدالغنی شیخ پوروی مونگیری ،مولانا فرزند علی صاحب چمپا پوری تھے ۔ اساتذہ فارسی ،مولوی محمد اسماعیل صاحب ذبیح ،کراپ رفیع گنج۔مولوی عبدالسبحان صاحب اورنگ آبادتھے۔
اور مدرسہ خانقاہ سہسرام کے اساتذہ عربی وفارسی حضرت مولانا رحم الہی صاحب مظفر نگری مدرس اول مدرسہ خانقاہ سہسرام ،مولانا سید موسیٰ صاحب کاکوی ،مولوی سید شاہ غلام مخدوم صاحب سجادہ نشین خانقاہ دیوان سہسرام ،مدرس فارسی تھے۔
درس مدرسہ عالیہ کلکتہ کی چند عربی کی کتابیں ۔
شرح وقایہ جلدین۔، ہدایہ آخرین ۔ سلم ، مسلم الثبوت ۔ ہدایۃ الحکمہ ، تفسیر جلالین ، مشکاۃ شریف۔ مقامات حریری ومقامات بدیع الزماں ۔ دیوان حماسہ ۔ دیوان متنبی ۔ سبعہ معلقہ۔
درس مدرسہ عالیہ کی چند فارسی کی کتابیں
دیوان حافظ۔قصائد قاآنی ۔ قصائد خاقانی۔ حدیقہ حکیم سنائی ۔ مثنوی مولانا روم، جلد اول۔
دارالعلوم دیوبند کا داخلہ اور تعلیم:
مدرسہ عالیہ کلکتہ کے امتحان سے فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں۱۹۲۳ میں داخلہ لیا ، اور چند معیاری کتابیں[کذا] مشاہیر اساتذہ دارالعلوم دیوبند سے درس لینے کا موقع آیا۔
ہدایہ اولین از حضرت مولانا اعزاز علی ، ملا حسن وملا جلال از مولانا عبدالسمیع ؒ ، میبذی وہدایۃ الحکمہ از مولانا ادریس کاندھلوی ، مقامات حریری ، متنبی از مولانا اعزاز علی ، مشکاۃ شریف ازمولانا حافظ احمد صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند۔
ندوۃ العلماء لکھنؤ کا داخلہ :
۱۹۲۴ء میں چند اور کتابوں کے درس لینے کا موقع ہاتھ آیا
بخاری شریف از مولانا شبلی جیراج پوری ، ترمذی شریف از مولانا عبدالودود صاحب محدث ،دیوان حماسہ اور مقامات حریری از مولانا عبدالسبحان صاحب دیسنوی
امتحان فاضل اکزامنیشن بورڈ بہار واڑیسہ ۱۹۲۸ء میں مندرجہ ذیل موضوع وکتابوں کے امتحانا ت ہوئے ۔تفسیر بیضاوی ،صحیح البخاری،شرح مواقف مع الحواشی الزاہدیہ ۔قاضی مبارک ، شرح سلم شرح المخلص للچغمنی ، دلائل الاعجاز ، شمس بازغہ ،قانون الشیخ ،(حمیات)کامل الصناعۃ (تشریحات )
اس وقت مدرسہ اکزامنیشن بورڈ کے فاضل امتحان کے موضوعات مختلف تھے ، اور ہر موضوع کی منتہی کتابیں تھیں ، میںنے پرائیوٹ امتحان دیا تھا اور سکنڈ ڈویزن میں ۱۹۲۸ء میں پاس ہوا تھا ۔ حضرت مولانا ابوالحسن صاحب خوش دل سہسرامی نے تاریخ کہی تھی۔’’ایم اے عبدالرؤوف فاضل ۱۹۲۸ء‘‘۔
درس نظامیہ کی سند اور کتابیں :
حضرت مولانا ابوالحسن صاحب خوش دل نقشبندی سابق مدرس اولاً خانقاہ سہسرام اور الحال مدرس اول مدرسہ قادریہ کارا، تلمیذ رشید حضرت مولانا احمد حسن کانپوری اور مولانا محمد فاروق صاحب چریاکوٹی اور سید حفیظ الدین صاحب وسید عثمان صاحب مہاجر مکی۔ حضرت مولانا ممدوح نے پرائیویٹ مندرجہ ذیل کتابوں کا درس لے کر فاضل کی سند دی تھی۔
احادیث :بخاری شریف ۔ترمذی شریف ،موطئین للامام مالک ،للامام محمد ۔
تفسیر :بیضاوی شریف
معقولات :شرح سلم ،ملا حسن ،مولوی احمد اللہ ورسالۃ الزاہدیہ لمیرزا زاہد ،ملا جلال ۔
ادبیات عربی :دیوان حماسہ ،دیوان متنبی ،مقامات حریری والبدیع۔
ادبیات فارسی :منثورات ومنظومات ،سہ نثر ظہوری والوقائع ،قصائد خاقانی وقاآنی۔’’ سنۃ المرقوم فی السند تاریخ فی السابع والعشرین من الجمادی الاولی ۱۳۴۲ھ‘‘۔
امتحان پٹنہ یونیورسٹی بی اے اردو ،امتحان یونیورسٹی ۱۹۴۶ء ۔ڈپارٹمنٹل امتحان پٹنہ ٹریننگ اسکول ۱۹۳۴ء۔
احباب وبزرگان جن سے استفادہ کا موقع ملا۔
۱۔مولانا منظور احمد ندویؒ فاضل ندوہ وفاضل مدرسہ الہیات کانپور قمیص پوری بہاری ،مؤلف نتائج العبث کی صحبت میں مضمون نگاری کا ذوق پیدا ہوا۔
۲۔پروفیسر محفوظ الحق ساکن سعداللہ پور پٹنہ پروفیسر فارسی پریسڈنسی کالج کلکتہ ،مرتب دیوان کامران کی صحبت سے قلمی کتابوں کی تحقیقات کا ذوق حاصل ہوا۔
۳۔پروفیسر سید حسن عسکری پروفیسر تاریخ پٹنہ کالج ساکن کھجوہ سے تاریخی تحقیقات کا شوق پیدا ہوا۔
۴۔محقق عصر سید فصیح الدین بلخی عظیم آبادی مولف تاریخ مگدھ وبہار کتبات سے تاریخ کے مطالعہ کا ذوق ہوا۔
۵۔حضرت مولانا سید ولایت حسین صاحب متوطن اثاث دیورہ خلیفہ حضرت مولانا سید شاہ عبدالرشید صاحب گنگوہی صاحب سجادہ خانقاہ قدوسیہ گنگوہ یوپی کی صحبت میںا رادت وبیعت کا حوصلہ ہوا ۔
۶۔حضرت علامہ عصر مولانا سید سلیمان صاحب ندوی رحمہ اللہ تعالی سے دین وایمان حاصل ہوا۔
مقالات ومضامین وتراجم مطبوعہ وغیر مطبوعہ
۱۔ترجمہ از عربی اوجز السیر سیرت خیر البشر مصنفہ امام الحجہ علامہ ابوالحسن احمد بن فارس زکریا قزوینی۔شائع شدہ دررسالہ پیشوا رسول نمبر دہلی بابت ماہ ربیع الاول ۱۳۵۵ھ۔
۲ ۔ترجمہ سوانح حیات شاعر عرب ابوالعتاہیہ اور اس کی عربی شاعری ،شائع شدہ ندیم گیا ،بابت ماہ دسمبر ۱۹۴۰ء۔
۳۔ترجمہ کتاب الانساب عربی اورقاضی محمد راضی مکی حصاری کی حیات اور نسب نامہ ،معاصر پٹنہ بابت ماہ مارچ ۱۹۴۵ء۔
۴۔ترجمہ نبوت اور ختم نبوت از عربی رسول نمبر پیشوا دہلی بابت ماہ ربیع الاول ۱۳۵۶ھ۔
مقالات ومضامین
۱۔مکتوبات شیخ الاسلام مولانا مظفر شمس بلخی اور سلطان غیاث الدین شاہ بنگالہ ،معارف بابت ماہ اگست ۱۹۵۸ء۔
۲۔شیخ الاسلام مولانا مظفر شمس بلخی اور سند حدیث ،معارف بابت ماہ دسمبر ۱۹۵۲ء۔
۳۔شیخ الاسلام معز شمس بلخی نوشہ توحید ،معارف بابت ماہ مارچ واپریل ۱۹۴۹ء۔
۴۔نواب داود خاں علوی صوبہ دار بہاراور جنگ پلاموں کا تاریخی مرقع،معارف بابت ماہ اکتوبر ونومبر ۱۹۳۷ء۔
۵۔حضرت مخدوم املک بہار اور علم وادب ،معارف بابت ماہ دسمبر ۱۹۵۹ء
۶ ۔قلعہ رہتا س اور آثار قدیمہ ،ندیم بہار نمبر ،بابت ماہ نومبر ۱۹۴۰۔
۷۔قلعہ رہتاس اور مورخین ہند ،ندیم بابت ماہ جولائی واگست ۱۹۴۰ء۔
۸۔فرمان محمد شاہ غازی اور مخدوم قاضی شاہ صدرالدین صوفی ،معارف بابت ماہ فروری ۱۹۴۹ء۔
۹۔شاہ غلام مرتضی المتخلص بہ جنوں اور تفسیر مرتضوی اردو منظوم ،معاصرپٹنہ بابت ماہ اپریل ۱۹۶۷ء اور معارف اعظم گڑہ ۔
۱۰۔میرکمال علی شاد المتخلص بہ کمال اور ان کی مثنوی اردو،ندیم بابت ماہ دسمبر ۱۹۴۰ء۔
۱۱۔حورالنساء بیگم بنت مولانا غلام طباطبائی مؤرخ سیر المتاخرین کے مزار کا کتبہ ،ندیم بابت ماہ نومبر ۱۹۳۷ء۔
۱۲۔جنات ،جن وجان،رسالہ المجیب ،بابت ماہ جولائی ۱۹۷۲ء
۱۳۔حضرت نوح اور ان کی قوم۔رسالہ المجیب ،بابت ماہ اگست وستمبر ۱۹۷۲ء۔
۱۴۔مولانا شیخ نور علی محدث سہسرامی ،معارف بابت ماہ ۳۲ء
۱۶۔مخدوم شیخ فرید الدین فردوسی قادری ،المجیب ماہ صفر وجمادی الاولی ،۱۳۸۰ھ۔
۱۷۔وصلی حضرت غوث الاعظم اور فتاویٰ مسعودی ،معارف بابت،ماہ نومبر۱۹۳۴ء۔
۱۸۔مولانا ابوالحسن خوش دل سہسرامی ،المجیب ،پھلواری شریف ۔
۱۹۔پٹنہ یونیورسٹی کے مخطوطات ،معاصر بابت پٹنہ ،ماہ جولائی ۱۹۶۰ء۔
۲۰۔قرآن مجید کے دو نایاب نسخے اور چند قلمی کتابیں ،معارف بابت ماہ جنوری ۱۹۳۴ء۔
ترجمہ از فارسی :
فتاوی شانزدگانہ از مولانا شاہ محمد فصیح غازی پوری ۔
ترک تعزیہ لہدایۃ البریہ از مولانا شاہ محمد فصیح غازی پوری۔
امامت وخطابت اور قضاء:
از ابتداء ۱۹۲۲ء امامت وخطابت جمعہ وعیدین کی ادائیگی پر اول نائب امیر شریعت حضرت مولانا ابوالمحاسن سید شاہ سجاد حسین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے دور تحریک خلافت میں مامور کیا ،اور اورنگ آباد میں جب موجود رہا تو مفوضہ خدمت امامت وخطابت جامع مسجد وعیدگاہ مخلصانہ انجام دیتا رہا ۔بندہ کے غائبانہ میں حسب دستور عم محترم جناب مولوی قاضی سید عبدالحافظ صاحب امامت وخطابت کے خدمات کو انجام دیتے رہے،گیٹ ایچ ڈی اسکول اورنگ آباد میں ملازمت کے باعث مستقل قیام اورنگ آبادکا حاصل ہوا تو اواخر ۱۹۳۳ء سے تا حال ۱۹۷۲ء تک خدمات امامت وخطابت انجام دے رہا ہے۔۷۲ء میں اس خدمت کو انجام دیتے ۳۸ سال پورے ہوجائیں گے ،۲۴ سال بلامعاوضہ اور ۱۴ سال معاوضہ کے ساتھ خدمات کوہوئے۔
علاوہ ازیں حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی مونگیری امارت شرعیہ کے دارالقضاء کی توسیع کے سلسلہ میں ۱۹۵۹ء میںا ورنگ آباد تشریف لاکر بندہ ہیچ مداں کو قاضی دارالقضاء اورنگ آباد کا فریضہ تفویض فرمایا ،اس ملی وقومی فریضہ کو راقم ناچیز اعزازی طور پر ہنوز انجام دے رہا ہے۔بحمدا للہ تعالی۔
از ۱۹۲۲ء تا ۱۹۷۲ء نماز عیدین وخطابت کی خدمت انجام دے کر ۷۲ء عیدین کی امامت وخطابت سے معذور ہوکر سبکدوش ہوگیا۔
ملی وقومی خدمات :
اساتذہ کرام مولانا نورالدین صاحب مجددی بہاری متوطن موہنی[بہارشریف] نائب مدرس اول مدرسہ اسلامیہ اورنگ آباد اور مولوی عبدالسبحان صاحب انگلش ٹیچر مدرسہ اسلامیہ اوررنگ آباد کی صحبت اور فیض صحبت سے ملی وقومی کا موں کا جذبہ اور شغف پیداہوا ،۱۹۱۹اور ۱۹۲۰میں مولانا مجددی بہاری نے انجمن البلاغ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ،اور اس کے تحت دارالمطالعہ تھا ،ادارہ اور دارالمطالعہ کی نظامت ونگرانی کا کام راقم ناچیز کے سپرد کیا گیا ، اور ایک مدت تک نظامت کی خدمت کی انجام دیتا رہا ۔
انجمن ترقی اردو اور اردو لائبریری :
راقم ناچیز نے ۱۹۴۴ء اور ۱۹۴۵ء میں احباب کرام کے مشورہ اور حمایت سے ماہ رمضان المبارک کے مبارک مہینہ میں انجمن ترقی اور دارالمطالعہ (اردو لائبریری )شیر شاہی سڑک پر اتر طرف ایک کرایہ کے مکان میں قائم کیا ،مطالعہ کے لئے کتابیں ،ماہانے اور روزنامے فراہم کئے ،اعوان وانصار کے چندہ سے کام ہوتا رہا ، اس کے بعد سرکاری امداد کے حصول کے لئے سلسلہ جنبانی کی گئی ،اس دور کے کانگریس منسٹر ایجوکیشن بابوبدری ناتھ ورما تھے ،ملاحظہ لا ئبریری کے لئے ان کو دعوت دی گئی ، وہ آئے ، ملاحظہ کیا ،ملاحظہ نامہ ٹائپ کرکے بھیج دیا گیا ،مگر رقم امدادی کا صرف وعدہ کیا جو شرمندہ ایفا نہ ہوا ،اس مکان کی تنگی اور نامناسب ہونے کے باعث انجمن اور لائبریری کو دوسری عمارت میں منتقل کردینا مناسب تصور کیا گیا ،لہذا مہابیر مندر کے سامنے ڈی راؤ کی دومنزلہ عمارت کی اوپر کی منزل میں دفتر انجمن اردو لائبریری منتقل کردی گئی ،انتقال مکان کے بعد لائبریری میں ایک گونہ ترقی کی صورت پیدا ہوئی ،بنچ اور کرسی ،ڈسک فراہم ہوگئے ،اور الماری کا بھی انتظام اور بجلی پنکھا اور بجلی روشنی کا انتظام بھی ہوگیا ،شہر میں ایک ڈی ایس پی ایک صاحب یعقوب نام کے تھے ،علمی ذوق رکھتے تھے ،ان کی ترغیب وتحریض سے مولوی حاجی احمد سعید قادری رئیس کڑا اور مولوی مختار احمد خاں صاحب رئیس کورائی پور اوبرا نے تین تین سو روپے اردو لائبریری کو دئے جن سے میں نے معیاری کتابیں حسب ذوق ومشورہ عزیزان سید بدرالدین قاادری آفیسر اے جی آفس رانچی ،اور سید شاہ نعیم الحق اکسائز انسپکٹر لائبریری کے لئے منگائیں،جو ہنوز لائبریری کی زینت ہیں ۔
مسجد شاہ جی نیا قاضی محلہ کی توسیع ومرمت اور امداد:
مسجد شاہ جی بہت قدیم ہے ،پہلے کھپریل تھی ،تو ہمارے بزرگوں نے اس کو پختہ تعمیر کیا ،پختہ تعمیر کے بھی تخریب کی ایک صورت پیدا ہوگئی تھی جس کو بزرگوں نے درست کیا تھا مگر بایں ہمہ صحن مسجد تنگ تھا ،در اور کواڑ اور آذان گاہ بہت کہنہ تھا ،جس کی توسیع وترمیم کے لئے اور مزید مسجد کے اخراجات ،ماہانہ چراغ بتی اور موذن کے لئے پشت مسجد پر جب دکانیںغلام رسول خاں صاحب مرحوم مالک موٹر بنانے لگے تو توسیع صحن، دروازہ اور کواڑ بدلنے اور آذان گاہ بنانے کے لئے میں نے کہا ،اور پشت والی دکانوں کو بحق مسجد اور وہ پڑتی زمین جو مسجد اور قبر شاہ جی کے متصل ہے وقف کرنے کو کہا تو بحمد اللہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے بحق مسجد وقف کردیا جس سے مسجد کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔
انجمن جامع مسجد اورنگ آباد کا قیام اور تنظیم :
راقم ناچیز نے ۱۹۵۲ء میں خدام جامع مسجد اورنگ آباد کے نام سے ایک انجمن جامع مسجد کے اخراجات ماہانہ روزانہ پورا کرنے کے خیال سے قائم کیا ،اور خیر خواہ اور ہمدرد پیدا کرکے جائیدادا وقف شدہ متعلقہ جامع مسجد کے حاصل کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے خیال سے صاحب اقتدار عبدالرحمن خاں صاحب مختار اور رئیس اورنگ آباد کو صدارت کے لئے منتخب کیا ،مختار صاحب موصوف نے بجائے خدام جامع مسجد انجمن اسلامیہ جامع مسجد اورنگ آباد کا نام قائم کرنے کو مشورہ دیا ،لہذا اسی نام سے انجمن قائم ہوئی اور مجلس انتظامیہ قائم کرکے مختار صاحب موصوف کو صدر منتخب کرکے پندرہ ممبروں کی کمیٹی بنائی اور وہ کل موقوفہ جائیداد جو بندوبست میعادی اور بندوبست دوامی کے باعث قبضہ سے باہر اور دوسروں کے تصرف میں تھیں ان کو حاصل کیا ،بندوبست دوامی کو مقدمہ بازی سے توڑ دیا گیا ،اور بندوبست میعادی شرح جدید پر از سرنو بندوبست کی گئی،تو اخراجات ماہانہ وروزانہ متعلقہ جامع مسجد پورے ہونے لگے ،مزید برآں اسٹال وگومٹیاں شیر شاہی کے کنارہ بٹھائی گئیں ۔سابق جائیداد موقوفہ میں اضافہ کی صورت یہ پیدا کی گئی کہ جامع مسجد کے مین دروازہ پورب طرف سڑ ک کے کنارے جو پلوٹ زمینداروں کا تھا اس کو جناب ڈاکٹر سید محمد اسحاق صاحب زمیندار پلوٹ نے بحق جامع مسجد اورنگ آباد دامی بندوبست کراکر اس سرزمین پر سبزی کا مارکٹ قائم کرکے سبزی فروشوں کو بٹھایا گیا ،اور اس سبزی مارکٹ کو سالانہ بندوبست کرنے کا انتظام کیا جانے لگا۔
موقوفہ جائیداد کی آمدنی پس انداز کرکے سب سے پہلے مسماۃ گل بہار بیگم زوجہ عبدالرحیم خاں کے موقوفہ منہدم مکان کو تعمیر کرایا گیا، اور دو منزلہ تعمیر کرایا گیا ،جس پر مسجد بلاک لکھا ہوا ہے ،اس کے بعد موقوفہ مکانات اور سبزی مارکٹ اور اسٹال کی آمدنی کو پس انداز وجمع کرکے جامع مسجد کی بوسیدہ اور کہنہ عمارت کو تجربہ کار اورسیرورں اور ٹھیکہ داروں کے مشورہ سے منہدم کرکے ایک نقشہ تیار کراکر بلند وبالا دو منزلہ عمارت تیار کرائی ،اس کے بعد جامع مسجد کا صدر دروازہ اور آہنی گیٹ تیار کرایا گیا ،تعمیر ات کے سلسلہ میں اخراجات کا اندازہ چالیس پینتالیس ہزار ہے، دوسری منزل پراذان گاہ تعمیر کا منصوبہ ہے ،اللہ پورا کردے ،تعمیر جامع مسجد کی دیرینہ تمنا میری اور ممبران انجمن کی پوری ہوئی ،صد شکر ہے۔
بیعت وارادت اور مجاہدات نفس:
مولانا حکیم شاہ ظہیر احمد صاحب عظیم آبادی کے قیام اورنگ آباد اورصحبت میں مجاہدات نفس اور حصول نعمت روحانی کا شوق دامنگیر ہوا ،تو انہیں کی تربیت میں ذکر جہری اورسری اور پاس انفاس کی ریاضت اور مشق شروع ہوئی ،مزید دلائل الخیرات کی زکا ۃ ہفت روزہ کی اور دیگر ادعیہ کی زکاۃ اور اجازت حاصل کی ،مکرر دلائل الخیرات کی اجازت شیخ الہند پیر طریقت حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ سے اجازت حاصل کی ،اورحزب البحر کی اجازت اولی حضرت مولانا شاہ سلیمان صاحب قادری پھلواری شریف سے دیگر بار مولانا شیخ الہند ممدوح اور مکرر حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی سے اجازت حاصل کرکے سہ بارہ خود زکاۃ ادا کیا ،اور چند اور احباب اور لوگوں سے بھی ادا کرایا ،اور آج تک دلائل الخیرات اورحزب البحر کا ورد ہے ۔بزرگ محترم حضرت مولانا سید شاہ ولایت حسین صاحب دیوروی خلیفہ حضرت مولانا سید شاہ عبدالرشید صاحب سجادہ نشیں خانقاہ حضرت عبدالقدوس قدس سرہ گنگوہی کی صحبت میں بیعت وارادت کا شوق پیدا ہوا تو آں جناب نے حضرت مولانا حافظ قادری حکیم الامت سید شاہ اشرف علی صاحب تھانوی سجادہ نشیں خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر سے ارادت حاصل کرنے اور بیعت کرنے کا مشورہ دیا ،لہذا حکیم الامت رحمہ اللہ تعالی سے مراسلت ومکاتبت کرکے ارادت حاصل کرنے کا شوق ظاہر کیا ،حاضری اور قدم بوسی کی اجازت کے لئے شرط لگادی کہ ہمارے خلفائے نامزدۂ فہرست مطبوعہ سے کسی سے تربیت حاصل کرکے ان کی سند پیش کیجیے تو ارادت حاصل کرنے کے لئے حا ضر ہوجائیے،چنانچہ حسب الحکم ان کے خلیفہ اول ماسٹر مولانا محمد عیسی صاحب مینڈاری الہ آبادی سے مراسلہ کے ذریعہ تعلیم وتربیت شروع کی مگر موصوف کے ایک لفظ کم ظرف لکھ دینے سے بند ہ کو کبیدگی پید ا ہوئی تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی روشن ضمیری سے میری کبیدہ خاطری سے باخبر ہوکر لکھ بھیجا کہ اگر ماسٹر عیسی صاحب سے بددلی پیدا ہوگئی اور تسکین نہیں ہے تو ہمارے کسی دوسرے خلیفہ کی طرف رجوع ہوکر تربیت شروع کیجیے ،جناب موصوف سے دریافت کیا کہ ارشاد ہوکہ کس خلیفہ کی طرف رجوع کروں ،تو جواب دیا کہ اپنی طبیعت کے مناسب کسی کو منتخب کرکے تربیت شروع کردیں ،میںنے اپنی صواب دید سے ان کے خلفاء میں محبوب خلیفہ حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی ؒ کو منتخب کرکے پہلے مراسلہ ومکاتبہ کے ذریعہ تربیت شروع کردیا ،اول انہوں نے رذائل اخلاق ،تزکیہ نفس اور نیز تحلیہ اخلاق حسنہ کی تعلیم دی ۔
اس اثناء میں بندہ نے ایک خواب دیکھا کہ کسی لامعلوم مقام پر ہوں اور پیش نظر ایک عالی شان محل ہے ،محل کے صدر دروازہ پر خود حضرت تھانوی رحمہ اللہ بیٹھے ہوئے مناجات اور دعا کی کوئی کتاب اس دلنشیںا ور بلند آواز سے پڑھ رہے ہیں کہ دل کو ایسی کشش ہوئی کہ بندہ بڑے دروازہ کی ایک کھڑکی سے کسی طرح اپنے کو اندر پہنچا کر حضرت کے نزدیک جا پہنچا ،اس خواب کے بعد حضرت تھانوی ؒ نے خط کے ذریعہ میری بیعت قبول کرلی،اور ہدایت کی کہ میرے خلفاء میں سے جس سے جی چاہے اس سے بیعت حاصل کرکے تربیت حاصل کرو، چنانچہ حضرت دیسنوی سے مراسلت ومکاتبت کے ذریعہ تربیت حاصل کرتا رہا اور ان کی خد مت میں بھی حاضر ہوتا رہا ،آخر میں حسب طلب ۶رجب ۱۳۶۵ھ مطابق ۶جون ۱۹۴۶ء میں بمقام دیسنہ حاضر ہوکر دست بوس ہوا ،اور چند روز قیام کرکے حضرت ممدوح سے فیوض حاصل کرتا رہا،بالآخر روز جمعہ بعد مغرب دوگانہ نماز توبہ ادا کرنے کی فرمائش کی اور خود بھی علاحدہ دوگانہ اداکیا ،اور چند کلمات خیر متعلقہ بیعت مسنونہ فرماتے ہوئے توبہ کرایا اور متعلقہ بیعت تضرع کے ساتھ چند کلمات ادا کرتے ہوئے بیعت سے شرف یاب وفیض یاب کیا ،چنانچہ ۷ رجب روز جمعہ بعد نماز مغرب دیسنہ کی مسجد میں بیعت ہوکر سلسلہ اشرفیہ امدادیہ میں داخل ہوا ،اور حسب ہدایت بہ توفیق الہی سلسلہ کے وظائف انجام دیتا رہتا ہے ۔مولانا ممدوح نے از راہ شفقت روز جمعہ نماز جمعہ پڑھانے کو بڑھایا ،اور پنج گانہ میں بھی دو تین بار بڑھاتے رہے ،میں نالائق، برگزیدہ بزرگ کی امامت کے لائق تو نہ تھا شاید اس ذریعہ سے حضرت کا کچھ اور منشاہوگا ۔ہمارے سلسلہ اشرفیہ امدایہ میں اسم اعظم اللہ اللہ کا ورد روزانہ سوالاکھ اور نہیں تو ۲۴ ہزار بار ہے ،چنانچہ بندہ نالائق نے ایک بار اسم اعظم کا سوالاکھ ورد کیا تو شب میں بحالت خواب ایک نورانی ستون دیکھا، اور دل کہہ رہا ہے کہ یہ اللہ تعالی کا نور ہے ،یہ شرف اسم اعظم کے ورد کے باعث ہوا ، زہے عزوشرف۔اور اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم کہ اپنے نور کی دیدار سے شرف بخشا،بمنہ وکرمہ۔
ازدواجی زندگی اور آل اولاد:
پدر محترم اور اعمام کرام نے بڑے بھائیوں کی شادی کے ساتھ بندہ کی شادی بھی ۱۹۱۹ ء میں جب کہ نصاب مدرسہ عالیہ کلکتہ کے تحت سینیر سال سوم میں اور مدرسہ اسلامیہ اورنگ آباد میں پڑھتا تھا عم زاد ہمشیرہ بنت قاضی مولوی سید عبدالحافظ صاحب مرحوم سے کردی تھی ،جس سے ایک اور صرف ایک اولاد ۱۹۲۲ء میں ہوئی ۔(۲)بعد ولادت اہلیہ مرحومہ نے عوارض رحمی میں مبتلا ہوکر دائمی مفارقت کیا ،اس کے بعد تاہل اور مناکحت پر مادر مشفقہ مرحومہ نے زور دیا توبزرگوں کی عنایت سے دوسرا رشتہ ہوا، جو بالآخر ۵،ذی الحجہ ۱۳۴۸ھ روز جمعہ بمقام اورنگ آباد مولوی شاہ غلام یحییٰ صاحب صاحب سجادہ خانقاہ بوڈھن دیوان سہسرام کی دختر سے شادی ہوئی اور مولانا شیخ ابوالحسن صاحب خوش دل سہسرامی نے عقد نکاح کیا ،اور ذیل کا قطعہ برجستہ کہہ کر حوالہ کیا
قطعہ
درشب جمعہ پانزدہم ذی حجہ بارک اللہ عقد زوجین است
حافظ عبدالرووف فاضل یافت نو عروسے کی مہر آن دین است
تا بتاریخ سال آں خوش دل گفت امشب قران سعیدین است
زوجہ ثانی سے پہلی ولادت میں لڑکی پیدا ہوئی ،جو چند گھنٹہ میں فوت ہوئی ،اناللہ الخ۔متوفیہ صبیہ والدین کے لئے حسب دعائے شافعہ ومشفعہ باعث رحمت ہوئی ۔اس کے بعد اولاد ذکور چار اور اولاد اناث صرف ایک ہوئی ۔اول عبدالمغنی سلمہ ،۲۔اس کے بعد مظفر اقبال ،۳۔ اس کے بعد عبدالحسیب ،۴ ۔ان کے بعد سید اور سیدہ توام پیدا ہوئے ۔(۳)
خاتمہ سوانح ،اولیات :
یعنی راقم ناچیز کو مندرجہ ذیل کاموں میں اورنگ آباد میںا ولیت حاصل ہے۔
۱۔موجودہ اردو لائبریری اورنگ آباد جس شکل وصورت میں بروقت ہے ،اس کی ابتدا انجمن ترقی اردو اور دارالمطالعہ (لائبریری)سے ہوئی تھی ،جس کو ناچیز نے ۱۹۴۵ء میں قائم کرکے اس کی مجلس انتظامیہ مرتب کردی تھی ۔
۲۔انجمن اسلامیہ جامع مسجد اورنگ آباد کو راقم ناچیز نے ۱۹۵۲ء میں قائم کیا ،اور اس کی صدارت کے لئے صاحب اقتدار دوست عبدالرحمن خاں صاحب مختار اورنگ آباد کو منتخب کیا اور ضروریات جامع مسجد کے انصرام وانتظام کے لیے مجلس انتظامیہ قائم کرکے آمدنی کے ذرائع دو صورت سے پیدا کئے ،ایک تو وہ موقوفہ مکانات جو سابق سکریٹری مدرسہ اورنگ آباد کے ہاتھوں بندوبست کرانا شروع کیا ،اور دوسری صورت یہ ہوئی کہ مخیر لوگوں کو ترغیب دے کر اور مکانات وجائیداد قف کرایا ۔
۳۔مکانات اور جائیداد موقوفہ کی آمدنی کو پس انداز کرکے تعمیر جامع مسجد کا منصوبہ حسب مشورہ مولوی حبیب الرحمن صاحب وکیل صدر انجمن تیار کرکے جامع مسجد کو از سرنو تعمیر کرایا ،بحمداللہ خاطر خواہ تعمیر ہوئی ۔
۴۔جمعہ وعیدین میں مطبوعہ عربی خطبات بنائے جاتے تھے ،راقم ناچیز نے حمد ونعت کے بعد بلسان قوم اردو میں بخیال ہدایت ونصیحت خطبات شروع کئے ،اس سلسلہ میں بعض نادان علماء سے تنازعے بھی ہوئے مگر بالآخر وہ قائل ہوگئے ۔
۵۔مقامی نامی گیٹ ایچ ای اسکول میں جب ۱۹۳۳ء میںتقرر ہوا تو اس اسکول اور دیگر کل اسکولوں میں نماز جمعہ مسجدوں میں جاکر اداکرنے کی اجازت نہ تھی ،ہمارے پہلے سابق مدرس اول اسکول اسکول ہی کے ایک کمرہ میں بعض نمازی طلباء کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرکے یقین کئے ہوئے تھے کہ نماز جمعہ ادا کرلیا ہے ،حالاں کہ جمعہ کے قائم کرنے کے لئے اذن عام ہونا ضرور ہے،اور اذن عام حاصل نہ تھا ،وہ بہت مشکلوں سے اس فقہی وشرعی مسئلہ کے قائل ہوئے۔لہذا راقم ناچیز نے حسب شریعت نماز جمعہ ادا کرنے کی مہم اور ایجی ٹیشن شروع کردیا ،طلبائے اسکول کے مسلم گارجین سے صدر مینیجنگ کمیٹی اسکول جناب سید محمد امیر صاحب ،(۴)اس وقت کے ایس ڈی او اورنگ آباد کے حضور میں درخواستیںد لوائیں ،جس پر ایس ڈی او موصوف نے پرزور نوٹ لکھ کر انسپکٹر اسکول ،ڈائریکٹر محکمہ تعلیمات ،اور وزیر تعلیمات صوبہ جناب سر فخر الدین صاحب کے یہاں بھیجا ،اور پوری پیروی کی گئی ،تو بحمد اللہ وزیر تعلیمات ممدوح کا سرکلر شائع ہوگیا کہ[وزارت] نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے صوبہ بہار کے کل اسکول کے لئے ایک گھنٹہ پورا چھٹی دے گی ۔
۶۔آزادی ہند کے بعد کانگریس گورمنٹ کے دور میں کل ہائی اسکولوںا ور ٹریننک اسکولوں میں یہ فتنہ پیدا ہوا کہ کلاس شروع ہونے سے پہلے کل ٹیچر اور اسٹوڈنٹ جماعت کے ساتھ بآواز بلند پراتھنا کریں ،اس پراتھنا کے الفاظ مشرکانہ تھے ،جس سے ایمان برباد ہوجانے کا خطرہ تھا ،ناچیز کو بے حد فکر بقائے ایمان کی ہوئی ،لہذا ایک جماعت طلباء اسکول وٹریننگ اسکول کی لے کر گیا اس موقع پر پہنچا جب حضرت شیخ الہند پیر طریقت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ تشریف فرماتھے ،ان کے حضور میں درخواست دی اور زبانی بیان کیا ،حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے درخواست پیش کردہ پر پرزور نوٹ لکھ کر خود مولانا ابوالکلام آزاد منسٹر ایجوکیشن ہند کے حضور میں روانہ کردیا ،جس پر آزاد صاحب نے اپنے وزارت کے پاور سے آل انڈیا سرکلر جاری کردیا کہ اسکولوں کے مسلم طلباء اور مسلم مدرسین اس پراتھنا سے بالکل مستثنی رہیں ،آئندہ مزاحمت نہ کی جائے ،بحمداللہ تعالی ،وما توفیقی الا بااللہ العلی العظیم۔(۵)
اعز الاسناد :
علامہ عصر حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی دیسنوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت اعزازی سند جنوری ۱۹۴۷ء میں عطا کی تھی ،جس کا مضمون درج ذیل ہے۔
’’انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھوپال دارالقضاء۔
میں مولوی سید عبدالرؤوف ندوی سے مدت سے واقف ہوں ،انہوں نے ندوۃ العلماء ،مدرسہ عالیہ کلکتہ ،اور پٹنہ یونیورسٹی کے امتحانات پاس کئے ہیں ،جن کی تفصیلات ان کے اسناد سے ظاہر ہوں گی ، ان کا بیشتر حصہ زندگی تعلیم وتعلم میں گذرا ہے ۔ان کو تاریخی وعلمی وتحقیقی مضامین سے خاص مناسبت ہے ،اور قلمی کتابوں اور ذخیروں کی دریافت اور تحقیق سے برابر دلچسپی رہی ہے ،اور اس باب میں اکثر مجھ سے خط وکتابت کرتے رہے ہیں ، ان کے مضامین دارالمصنفین کے رسالہ معارف اور دوسرے اردو رسائل میں نکلتے رہے ہیں ،مجھے امید ہے کہ وہ اس قسم کے کاموں کی انجام دہی بخوبی کرسکتے ہیں ،ان کی اس علمی زندگی کی کامیابی سے مجھے بدل خوشی ہوئی‘‘۔
میں نے خود نوشت سوانح میں جو کچھ تحریر کیا ہے سراپا صداقت وحقیقت پر مبنی ہے ،ذرہ برابر لن ترانی نہیں ہے ،مخالف اصحاب اس کو تعلی اور شہرت پسندی اور خود ستائی سمجھیں گے ،مگر وہ مخلص احباب جن کو واقفیت ہے اس کو خود سچ سمجھیں گے ،اور دوسروں کو سمجھائیں گے ۔وما توفیقی الا باللہ۔
حواشی:
(۱)چونکہ نیا قاضی محلہ کی مسجد شاہ جی اس وقت زیر تعمیر تھی ،مردانہ نششت گاہ کے صحن میں محلہ اور شہر کے چند اشخاص کے ساتھ اس طرح پر ختم سناتا تھا کہ روزانہ ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ میں چائے کا دور چلایا جاتا تھا اورسماور گرم رہتا تھا،اور مزید برآں۱۹۱۴ ء تا ۱۹۲۲ ختم قرآن جامع مسجد اورنگ آباد میں سناتا رہا ،اور ۶۳ء سے معتذرہوکر عزیزم حافظ قاری مولوی سید عبدالغنی سلمہ کو اس خدمت پر مامور کردیا ہے۔
(۲)جس کا نام خواجہ شرف الدین احمد مولانا حکیم شاہ ظہیر احمد صاحب صوفی اعظم آبادی نے رکھا تھا ،اور بتاریخ ۵فروری ۱۹۲۲ء مطابق جمادی الاخریٰ ۱۳۴۰ھ روز یک شنبہ وقت ۹ بجے دن ولادت ہوئی ۔سید اعظم قادری ولد سید سراج حسین قادری متوطن شیر پور منیر متعلقہ داناپور کی صاحب زادی سے ہوئی ،جن سے پانچ لڑکے ،اول تہذیب ،دوسرے شبلی ،تیسرے فیروز ،چوتھے ،ذوق ،پانچویں امان اللہ ۔لڑکی کا حور النساء نام ہے۔
(۳)۔۱۔عبدالغنی سلمہ کی پیدا ئش پانچ رمضان ۱۳۵۱ھ مطابق ۱۲ جنوری ۱۹۳۳ء روز پنج شنبہ وقت ۱۰ بج کر ۵۴ منٹ پر ہوئی ،اور سید ضمیر الدین سب انسپکٹر پولیس ولد سید سراج الدین ولد سید سلیم الدین متوطن پھلواری شریف پٹنہ کی دختر سے ہوئی ،جن سے دو لڑکے احمد مسعود اور احمد محمود اور چار لڑکیاں ،عزیزہ ،عذرا، علیا ،عمارہ ہیں۔
۲۔ مظفر اقبال کی پیدائش ۳صفر ۱۳۵۴ھ مطابق ۷مئی ۱۹۳۵ء روز سہ شنبہ وقت ۱۱ بجے دن ہوئی۔پروفیسر سید حسن صاحب ساکن شیخ پورہ ومونگیر کی دختر سے ہوئی ،جن سے دولڑکیاں ،قدسیہ ،نصرت اور لڑکے روفی ،رومی ،عین الاقبال ہیں۔
۳۔ عبدالحسیب کی پیدائش ۱۱ربیع الثانی ۱۳۵۹ھ مطابق ۳۰مئی ۱۹۴۰ء روز پنج شنبہ وقت صبح ۵ بج کر ۲۲ منٹ پر ہوئی ۔ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی ہے۔
۴۔سید ،سیدہ کی پیدائش بتاریخ ۲۴ ذی الحجہ ۱۳۶۳ھ مطابق ۱۱دسمبر ۱۹۴۴ء روز دوشنبہ، شب سہ شنبہ وقت۱۲ بجے سید پہلے پیدا ہوئیں اس کے بعد ۱۲ بج کر۲۵ منٹ پر سید پیدا ہوئے ،سیدہ کی شادی فیض احمد ولد پروفیسر سید حسن شعیبی شیخ پورہ سے ہوئی جن سے ایک لڑکا جامی اور ایک لڑکی سیدہ ۔۔ہے۔
(۴)۔سید محمد امیر صاحب ساکن کجھوا چھپرا۳۳ ءسے ۳۵ء تک اورنگ آباد میںا یس ڈی او اور اس کے بعد پٹنہ کے کلکٹر تھے ،پھر کمشنر ہوکر ریٹائرڈ ہوکر ہزاری باغ میں مقیم ہیں ،گرچہ یہ امامیہ مذہب کے پابند تھے مگر اسلام کا درد تھا ،اور مسلمانوں کے خیرخواہ تھے۔
(۵)میں نے اولیات کے زیر عنوان جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت ہے ،خدا شاہد ہے ،تعلی اور نام آوری مقصود نہیں ہے۔