مولانا سید نجم الہدی ندوی کے قلم سے دیسنہ کی چند شخصیات کا تعارف
طلحہ نعمت ندوی
مولانا سید نجم الہدی ندوی دسنوی ممتاز عالم اور دیسنہ کے قابل فخر فرزند تھے ،وہ اس مردم خیز بستی کے مورخ بھی تھے ،انہوں نے سادات وملوک دیسنہ مرتب کی ،تاریخ دیسنہ لکھی ،اور شخصیات دیسنہ کا بڑا حصہ بھی مرتب کرلیا تھا ،اول الذکر کتاب تو شائع ہوگئی ،دوسری کا خلاصہ ان کے بھتیجے کے قلم سے شائع ہوا ،اصل کتاب شاید ضائع ہوگئی ،شخصیات پر انہوں نے کچھ حصہ مرتب کیا تھا ،اغلب یہ ہے کہ اس کی تکمیل نہیں کرسکے تھے ،اگر ان کے قلم سے مکمل کتاب آجاتی تو اہم دستاویز ہوتی ،اب اتنی مدت گذرنے کے بعد وہ معلومات تو ضائع ہی ہوگئیں ،ہمیں ان کی کتاب سادات وملوک دیسنہ کے ایک نامکمل مسودہ کے کچھ اوراق ہاتھ آئے ،ان صفحات کے دوسرے حصہ پر خام روشنائی سے چند شخصیات کا تذکرہ محفوظ تھا ،جو اغلب ہے کہ کہیں اور محفوظ نہیں ہوگا ،ہم نے یہ امانت اہل علم کی خدمت میں پیش کردینا مناسب سمجھا تاکہ ضائع ہونے سے بچ جائے،بہت مشکل سے مسودہ پڑھاجاسکا ،جابجا حروف مٹ گئے ہیں ،بہت سا حصہ سمجھ میں نہیں آسکا جن کی جگہ سوالیہ نشان ڈال کر اپنی طرف سے مربعین میں بات مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوا کہ ان کے وطن کے ملوک کا تذکرہ ہے ،سادات کا تذکرہ شاید کسی الگ مسودہ میں مرتب کیا گیا ہوگا ۔
ڈاکٹر احمد کریم عرف ڈاکٹر حسیٰ:
آپ کا نام احمد کریم ہے لیکن عام طور پر وطن میں حسیٰ کے نام سے مشہور ہیں ،آپ ملک محمد ناظر خلف خلیفہ انور علی کے بڑے صاحبزادے ہیں ،آپ کی پیدائش دسنہ ہی میں ۱۸۷۹ء میں ہوئی ،اس وقت بچوں کو سب سے پہلے قرآن شریف پھر اردو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا تھا ،اس کے بعد فارسی کی تعلیم شروع ہوتی تھی ،آپ نے اس منزل کوگھر پر ہی طے کرلیا تھا ،اور اپنے والد ماجد کے ساتھ جو گیا کی کچہری میں ملازم تھے ساتھ گئے ،اور وہیں انگریزی تعلیم شروع کی، اور انٹرنس کا امتحان وہیں سے پاس کرکے پٹنہ کالج کے ایف اے کلاس میں داخلہ لیا ،اور چوہٹہ میں میر محبوب صاحب کے مکان میں جن کا تعلق سادات مسیاں سے ہے قیام کیا ،ایف اے کا امتحان پاس کرکے کلکتہ کے میڈیکل میں داخل ہوئے ،اور عزت ووقار کے ساتھ ہردرجہ میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے آخری امتحان مدرسہ میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا ،مسجد کی پرانی گھڑی انہیں ڈاکٹر احمد کریم کا عطیہ ہے جو اپنے آخری امتحان میں شاندار کامیابی کی یادگار پر کلکتہ سے خرید کر لائے تھے اورمولوی سید عبدالحکیم متولی مسجد کے سپرد کیا۔
امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ دنوں تک مکان پر اپنے وطن دسنہ میں قیام کیا ،اور ڈسپنسری کھولی ،اور بستی میں ہر امیر وغریب کے علاج معالجہ میں مشغول ہوئے ،اکثر مریضوں کو بغیر کسی امتیاز کے مفت دوا اپنے پاس سے دیتے رہے ۔بااخلاق ،درمند ،ملنسار ،منکسر مزاج توپہلے ہی سے تھے ،لیکن ان اوصاف کا اب اور زیادہ مشاہد ہ ہونے لگا ،اور عزیزوں کے مشورہ سے مونگیر میں مطب کھولنے اور قیام کرنے کی رائے ہوئی ۔آخر ۔۔۔۔آپ بھی تیار ہوگئے اور مونگیر میں باقاعدہ جاکر ایک ڈسپنسری کھولی اور قیام کیا ،وہاں دلاور پور میں نواب عبدالوہاب خاں صاحب سے خاص مراسم اور تعلقات رہے۔وہاں بھی آپ نے اپنے اخلاق اور تجربہ سے لوگوں کو فائدہ پہنچاکر اپنا گرویدہ بنالیا۔
تھوڑے دنوں کے بعد آپ کا کلکتہ اسپتال میں ہوس سرجن کی جگہ تقرری کا پروانہ آیا ،آپ نے اس جگہ کو پسند کرلیا اور مونگیر کی ڈسپنسری بند کرکے تمام فرنیچر ،ٹیبل ،کرسی ،الماری ،دسنہ لائبریری کو عطا کرکے کلکتہ روانہ ہوگئے ،پھر عارضی جگہوں پر مختلف اسپتالوں میں کام کرتے رہے ،آخر میں مستقل طور پر باڑھ ضلع پٹنہ کے اسپتال میں تقرری ہوئی ،آپ نے تھوڑے ہی دنوں میں وہاں کے عوام اور خواص کو اپنے اخلاق اور شریفانہ وہمدردانہ برتاؤ اور حسن سلوک سے اپنا گرویدہ بنا لیا۔وطن سے قربت کی وجہ سے اکثر غرض مندلوگ یہاں سے آپ کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں ،اور آپ اپنے قیمتی مشوروں اور امکانی اعانت وہمدردی سے سب کو مستفید فرماتے ہیں،اور اسپتال میں ٹھہراکرپوری تندہی اورخلوص ومحبت سے علاج کرتے ہیں ،ضرورت کے وقت ان کی اعانت بھی کرتے ہیں ۔
آپ کے دادا خلیفہ انور علی صاحب مرحوم حسن پور میں چودھری کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے ،اس لئے وہاں کے لوگوں سے بہت مراسم اور تعلقات قائم ہوگئے تھے ،چودھری صاحب کے خاندان کی ایک لڑکی باڑھ سب ڈویزن کے کسی گاؤں میں بیاہی گئی تھیں ،جب ان کو معلوم ہوا کہ دسنہ کے خلیفہ جی کے پوتا ڈاکٹر ہوکر باڑھ کے اسپتال میں آئے ہیں تو ان کے گھر کے لوگ والہانہ طور پر اسی عقیدت مندی کے ساتھ آتے اور اپنا تعارف کراتے تھے ،اور قدیم مراسم وتعلقات کو اپنے برتاؤ اور عقیدت مندی سے آبیاری کرکے تروتازہ کیا ،ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنے کریمانہ اخلاق اور شریفانہ حسن سلوک سے اور بھی اپنا گرویدہ بنایا ،اور انہیں کے گھر میں اپنے عزیز واقارب کی آمد ورفت شروع ہوگئی،وہاں سے تبدیل ہوکر آپ بہار شریف اسپتال میں آگئے ،یہاں بھی وہی رنگ اور اثر پیدا کیا ،بہار آنے پر وطن کے لوگوں کو اور بھی زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا ۔عزیزی مقتدیٰ کریم ایم اے عرف بہار ی کی ولادت اسی زمانہ میں ہوئی تھی اسی لئے بہاری کے نام سے مشہور ہیں ،غرض مختلف جگہ ،آرہ ،ڈمراؤں،دربھنگہ ،بالا سور اور دو مرتبہ دانا پور تبدیلی ہوتی رہی ،ہر جگہ اپنے اخلاق سے لوگوں کو گرویدہ اور اپنے تجربہ اور طبی مہارت سے فائدہ پہنچا تے رہے،آخر سنہ ۔۔۔۔ میں پنشن پاکر خانہ نشیں ہوئے اور اس وقت تک باوجود خرابی صحت اور ضعف وپیری کے لوگوں کی بے غرضانہ خدمت کرتے ہیں ۔
بیمار لوگوں کے ساتھ اور خاص کر اپنی بستی والوں کے ساتھ جانی اور مالی امداد سے بالکل دریغ نہیں کرتے ،غریب ونادار لوگوں کی دوکان ،مطب اور مختلف کاروبار کے لئے بغیر کسی قسم کے معاوضہ یا منافع کے ہمیشہ امداد کرتے رہتے ہیں ،ایسے لوگوں کے نام گنانے اور پتہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، اس معاملہ میں اپنے اور پرائے کا امتیاز نہیں برتا،لوگوں نے کچھ دنوں فائدہ بھی اٹھایا ۔
اس ناچیز مؤلف کے ساتھ بہارشریف کے قیام کے زمانہ میں تو ایسا حسن سلوک کیا اور ایسے وقت میں کام آئے کہ اپنے پرائے سب نے جواب دے دیا تھا ،اور ہم لوگ عجب پریشانی کی حالت میں گرفتار تھے ،مولوی سید عبدالحکیم صاحب سکریٹری انجمن اصلاح ولائبریر ی دسنہ اٹھے اورہم لوگوں کو تشفی ،تسلی دے کر بہارگئے ،اور جناب ڈاکٹر صاحب سے میرا حال بیان کیا ،اس باعث اس سراپا ایثار ومحبت ہستی نے محض یہ سن کر مخلصانہ اور بے غرضانہ دست اعانت بڑھایا اور ہماری منجدھار میں پھنسی کشتی کو ساحل تک پہنچایا ۔گرچہ مادی اور دنیاوی حیثیت سے خداوند کریم نے سبکدوشی کا موقع عنایت فرمایا ،لیکن ایسے آڑے وقت میں جو میری عزت وآبرو بچائی اور ہمارا بھرم باقی رہنے دیا ،اس سے سبکدوشی تو زندگی بھر ہوہی نہیں سکتی ہے ،ایسے کتنے واقعات ہیں جن پر پردہ پڑا ہوا ہے ۔
بستی کے ہر قومی کام میں نہایت سرگرمی سے شرکت کرتے اور حصہ لیتے رہے ،مدرسہ ،لائبریری ،قبرستان کی چہاردیواری ان سب میں امداد کی امتیازی حیثیت قائم رکھا ،جب مدرسہ میں دینی تعلیم بند ہوگئی اور مقررہ نصاب تعلیم کی پابندی ہونے لگی تو نہایت دلیری اور حوصلہ مندی سے لوگوں کو جمع کرکے کہہ دیا کہ دینی تعلیم کے لئے میں مصارف دینے کو تیار ہوں ،آپ لوگ انتظام کریں ۔چنانچہ سرکاری امداد بند ہوجانے کے بعد دوسرا مدرسہ علامہ سید سلیمان ندوی کے دیے بنگلہ میں قائم کیا گیا ،علامہ سید سلیمان ندو ی کی معیت میں پروفیسر صاحب نے تمام کام انجام دیا، یہ خاکسار نجم الہدیٰ اور سید صاحب نصاب تعلیم کی تیاری اور معلم کے انتخاب کے لئے مقرر ہوئے ،نصاب تیار ہوا ،اور ملک محمد عظیم صاحب جو ایک تجربہ کار معلم تھے مقرر ہوئے ،کام شروع ہوگیا ،لیکن خود باشندگان دسنہ کی غفلت اور بے نیازی سے مدرسہ بند کرنا پڑا ۔
آپ کی دوشادیا ں ہوئیں ،پہلی شادی خاندان میں اپنے چھوٹے چچا ملک محمد صدیق صاحب مختار کی بڑی صاحبزادی بی بی میمونہ سے انجام پائی ،اس عفیفہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں ،بڑے صاحبزادے کا نام مصطفی کریم عرف چاندہے، پہلے ندوہ لکھنؤ میں تعلیم دلائی ،اتفاق وقت کہ ندوہ میں اسٹرائک ہوجانے کے باعث آخری امتحان میں شریک نہ ہوسکے ،اس کے بعد آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اس سی پاس کیا ،اور اس وقت دربھنگہ کالج میں محکمہ نباتات میں سائنس کے پرفیسر ہیں ۔
دوسرے صاحبزادے کا نام مرتضیٰ کریم ہے ،ان کی تعلیم آئی اس سی تک ہوئی ،اس کے بعد پٹنہ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری پاس کرکے ملازم ہوئے ،تیسرے لڑکے مقتدیٰ کریم عرف حارث ہیں ۔
ملک کبیرالدین مختار :
آپ کا نام کبیر الدین ہے ،والد کا نام ملک حسن علی عرف ملک حسنو ہے ،ناگزیر اسباب کے بنا پر ملک حسنو صاحب کو مروجہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا ،اس لئے بعض لوگوں کے یہاں کاشتکاری کے کام میں مشغول تھے ،کبیر الدین صاحب بھی مجبوراً اسی راہ پر چلنے کے لئے مجبور ہوئے ۔
میرے بڑے چچا مرحوم حکیم سید ناظر حسن خاندانی کاشت کے نگراں اور منتظم تھے ،اس کے علاوہ طبابت کے مشغلہ کی وجہ سے اس طرف زیادہ متوجہ ہونے کا موقع نہیں ملتاتھا ،اس لئے ملک حسنو صاحب کے حوالہ انتظام کردیا ،اس لئے دونوں میں خاص تعلقات قائم ہوگئے تھے ،جناب کلیم صاحب کے ہم زلف جناب شاہ حکیم ظہور الحق مرحوم جو عزیزی مولوی ابوظفر صاحب ندوی اور عزیزی فخر الملک حیدر آبادی کے نانا تھے جو پنہرکے نواب فدا علی خاں صاحب کے یہاں فیملی طبیب تھے ،ان سے سفارش کرکے کبیر الدین صاحب کو تعلیم وتربیت کے لئے ساتھ کردیا ،اس لئے کبیر الدین صاحب نے تعلیم اردو اور فارسی کی دسنہ اور پنہر میں جناب شاہ صاحب سے حاصل کی ،پھر بہار میں رہ کر مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رہا ۔
جب سن شعور کو پہنچے اور فکر معاش ہوئی اور کوشش وپیروی کے باوجود حسب خواہش کام نہیں ملا تب اوروں کی ترغیب سے مختار کاری کا خیال ہوا ،امتحان کی تیاری میں لگے اور خدا نے کامیابی عطا فرمائی ،اورموتیہاری میں مختار کاری شروع کی ،وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو فروغ دیا،اور اچھے مختار کاروں میں شمار ہونے لگے ،آپ کی جرح بر گواہاں مشہور تھی ،اچھی حیثیت اور حکام میں اچھا وقار پید ا کیا ،وہیں آپ نے اپنا خاص مکان بنوایا ،اور اچھی خاصی جائیداد اور کھیت وغیرہ حاصل کیا اور گویا موتیہاری باش ہوگئے، اپنے والدین کے اوقات بسری کے لئے دسنہ میں اور آس پاس کے مواضعات میں کھیت اورجائیداد خرید کر کے ان کے حوالہ کیا ،اپنی سگی بہن بی بی عمرن جو بیوہ اور لا ولد تھیں ان کے رہنے کے لئے خاص مکان بنوادیا ،اور ماہواری مصارف کے لئے پابندی کے ساتھ روپیہ بھیجتے رہے۔
سب سے بڑی صفت آپ میں اقربا نوازی اور کنبہ پروری تھی ،آپ نے اپنے عزیزوں کو ساتھ رکھ کر اور متکفل ہوکر سب کو اچھی تعلیم دلائی ،پھر ان کی ملازمت کے لئے کوشش کی ،ان کی شادی بیاہ کاکام انجام دیا ،داروغہ ضمیر الدین مرحوم پولیس سب انسپکٹر ،توحید مرحوم ڈپٹی سپرٹنڈنٹ پولیس ،محمد وحید (مرحوم)وکیل ،عبدالحلیم مرحوم منسٹری انسپکٹر بکسر، جو مختار صاحب کے سوتیلے بھائی تھے ،انہیں مختار صاحب کی بدولت پروان چڑھے اور کامیاب زندگی بسر کرتے رہے۔
اس کے علاوہ بستی کے لوگوں کی اعانت اور امداد میں امکانی کوشش سے باز نہیں آتے تھے ،داروغہ ملک محمد مقبول مرحوم ریٹائرد پولیس سب انسپکٹر ،داروغہ عبدالحفیظ مرحوم برادر خورد شاہ عبدالرشید مرحوم خلف ناظر شاہ محمد افضل صاحب کی ملازمت کے لئے پوری کوشش کی ،اورکامیاب ہوئے ،اس کے علاوہ اور بستی کے جو حاجتمند پہنچ جاتے تھے ان کے لئے بھی پوری کوشش کرتے تھے ۔بڑے ہی مخلص اور منکسر مزاج تھے ،نام ونمود اور نمائش سے پاک تھے ،بستی کے ہر قومی کا م میں حصہ لیتے اور شریک رہتے تھے ،دامے درمے ،قدمے سخنے ،ہر طرح سے ہمت افزائی کرتے تھے ۔
آپ کی دوشادیاں ہوئیں ،پہلی شادی پڈھوکہ میں مولوی بہادر حسین کی صاحبزادی سے ہوئی ،آپ اور جناب محمد صدیق صاحب مختار دونوں ہم زلف تھے ،پھر اپنی سنجھلی سالی سے اپنے چھوٹے بھائی داروغہ ضمیر الدین مرحوم کی شادی کی ،جب مختار صاحب کو عفیفہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی ،تب آپ نے دوسری شادی بستی میں ملک محمد منظور صاحب سمستی پور باشی کی بھانجی بی بی رسولن جو محمد منظور صاحب کی بیوہ بہن تھیں ،ان کی لڑکی بی بی فاطمہ سے شادی کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں اولاد نہیں لکھا تھا [کذا]،اس بی بی سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی ،آخر میں مسماۃ بی بی فاطمہ نے مختار صاحب مرحوم کے وصال کے بعد اپنے چھوٹے دیور محمد حیدر مرحوم وکیل کی لڑکی کو متبنیٰ لیا اور اپنی کل چیزیں اس متبنیٰ بیٹی کو لکھ دیا ،اور موتیہاری ہی میں وقت ۔۔۔گذار کر دونوں میاں بی بی وہیں سپرد خاک ہوئے ۔
خلیفہ انور علی ملک:
آپ کا نام انور علی تھا ،چوں کہ لڑکوں کی تعلیم کا مسئلہ تھا ،اس لئے لوگ خلیفہ جی کہتے اور خلیفہ انور علی کہلاتے ۔ایک عرصہ تک تلاش کے باوجود آپ کے والد کا نام اور اوپر کا سلسلہ امتداد زمانہ کے باعث نہیں معلوم ہوسکا ،اور جاننے والے یا بتانے والے بھی اب باقی نہیں رہے ۔بہر کیف اپنے زمانہ کے مروجہ تعلیم کے لحاظ سے آپ بھی تعلیم یافتہ تھے۔
حسن پور کے چودھر ی کے یہاں ان کے لڑکوں کی اردو ،فارسی تعلیم کے لئے رہے ،اوراپنا بہت اچھا اثر اور وقار قائم کیا ،وہ لوگ اور اس خاندان کے لوگ عرصہ تک عز ت ووقار کی نظر سے دیکھتے رہے ،اب زمانہ بدل گیا ہے ،اس لئے وہ باتیں اب باقی نہیں رہیں ۔
حکیم سید محمد شیر عرف حکیم محمدی علامہ سید سلیمان ندوی کے جد امجد سے گہرے مراسم تھے ،اور حکیم صاحب کے چھوٹے بھائی سید حسن شیر سے بھی بہت اچھے تعلقات تھے ،میں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا کہ صبح کے وقت روزانہ سید حسن شیر صاحب کے گھر جو پرانی حویلی کے نام سے مشہور تھا اور ہے ،اور برادرم نجیب اشرف ندوی کانانہال ہے، وہاں دریافت حال کے لئے جایا کرتے تھے ،نجیب اشرف صاحب کی چھوٹی خالہ مسماۃ بی بی تمیزن کا بچپن تھا ،وہ ہم سے ایک سال بڑی ہیں ،اور میرا مکان ان کا مکان آمنے سامنے ہے ،دیکھتا تھا کہ کبھی کبھی کوئی چیز بھی لاتے تھے ،اور بی بی تمیزن کو بلاتے ،ان سے باتیں کرتے ،گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ ٹھہرتے اور چلے جاتے ۔
میرے والد مرحوم اور علامہ سید سلیمان ندوی کی والد ہ کے نانا کا نام میر قاسم علی تھا ،استھاواں کے رہنے والے تھے ،بڑے غصہ ور تھے ،اور خاموش رہنے کی عادت تھی ،ہم دونوں یاہم دونوں میں سے کسی ایک کو بھی دیکھتے تو بڑے پیار اور محبت سے پکارتے ،’’یہ ہیں میر قاسم علی‘‘ اور کبھی فرماتے ،’’ کہاں میرقاسم علی کہاں چلے‘‘،بڑے ہی ہنس مکھ اور ملنسا ر تھے ،چھوٹے بڑے ،اپنے پرائے ،سب سے ایسے اخلاق سے ملتے کہ دل خوش ہوجاتا ، اپنی وضع کے بڑے پابند تھے ۔
منشی تاج علی ملک جو حکیم محمدی صاحب کے عطار تھے اور ملک حسن علی عرف ملک حسنو کے بھائی تھے، ان کی دوکان پہلے مسجد کے زینہ کے سامنے والی کوٹھری میں تھی ،ضروری دوائیں اور روز مرہ استعمال کی چیزیں ،نمک ،تیل ،تمباکو وغیرہ رکھتے تھے ،زینہ کے سامنے والے برآمدہ پر چھپر پڑا ہوا تھا ،بعد نماز عصر خلیفہ جی ،عطار صاحب اور شاہ ناظر محمد افضل صاحب کی بیٹھک رہتی تھی ،جناب شاہ صاحب موصوف چاندپورا کے تھے ،یہاں ان کی سسرال تھی ،جناب حکیم محمد ی صاحب کے نسبتی بھائی تھے ،اس لئے خلیفہ جی اور عطار صاحب دونوں ان سے ہنسی ،تفریح مذاق بھی کیا کرتے تھے ،بعد نماز مغرب سب اپنے اپنے گھر چلے جاتے ۔
بڑے ہی ہمدرد اور مخلص تھے ،جو کچھ کرتے محبت اور دل سے کرتے ،نمائش اور ظاہرداری سے ان کا دامن پاک تھا۔مولوی سید ابوتراب صاحب جو حکیم محمدی صاحب کے منجھلے صاحبزادے اور حکیم صاحب کے چھوٹے بھائی سید حسن شیر کے بڑے خویش اور برادر نجیب اشرف کے بڑے خالو اور عزیزان شاہ محمد عالی اور سید حسام الحق کے نانا تھے ،ان کو اپنی بڑی لڑکی کی شادی کے موقع پر کچھ روپیہ کی ضرورت پڑی ،مولوی محمد صدیق صاحب مختار موتیہاری خلف خلیفہ انور علی صاحب کو روپیہ کے لیے ایک خط لکھا ،ساتھ ہی ایک ہینڈ نوٹ بھی لکھ کر رکھا کہ یہی بڑے قرض کی ضمانت ہے ،دوسرے دن جب خلیفہ انور علی صاحب حسب معمولی پرانی حویلی تشریف لائے تو دروازہ پر ایک پرچہ کاغذ کا پڑا ہوا دیکھا ،اٹھا یا اور پڑھا تو وہ وہی نوشتہ ہینڈ نوٹ تھا ،وہاں سے افسردہ دل آئے اور ایک خط مختار صاحب کو موتیہاری لکھا اور اپنے دلی دکھ اور روحی تکلیف کا اظہار صرف چند لفظوں میں کیا ،’’ افسوس ،تم نے بوتراب کی بیٹی کی شادی کے لئے قرض روپیہ ہینڈ نوٹ پر دیاہے ،تم مجھ کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے ،اس کا مختار صاحب نے جو جواب دیا ،فرزندانہ اطاعت گذاری اور سعادت مندی سے بھرا تھا ،باپ کا غصہ تو کم ہوگیا لیکن اطمینان اور روحی تسکین اور تشفی نہیں ہوئی ،جب مختار صاحب کسی تعطیل کے موقع پر وطن آئے تو پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے ،مزاج پرسی کے قبل ہی ہینڈ نوٹ کا پرچہ پیش کردیا گیا ،مطلب ظاہر تھا ،سعادت مند بیٹے نے دست بستہ عرض کیا کہ ’’نہ تو آج سے قبل اس مضمون کا ہینڈ نوٹ میں نے دیکھا ،اور نہ ،میرے پاس کسی ذریعہ سے پہنچا ،باقی رہا روپیہ کا سوال تو عرض ہے کہ میں نے کس قدر دیا ،کس غرض سے دیا ،کن شرائط پر دیا ،اگرمجھ سے نہیں دریافت کیا جائے تو مجھ کو بڑی خوشی اور مسرت ہوگی ‘‘۔باپ کا دل پہلے ہی صاف ہوچکا تھا ،اب رہا سہا گرد وغبار بھی دل سے جاتا رہا ،سعادت مند بیٹے کو سراپا محبت باپ نے دعا دیتے ہوئے رخصت کیا ،اس دعا کا اثر اس خاندان میں جس طرح آپ آ ج دیکھ رہے ہیں اظہار کی ضرورت نہیں ۔
یہ برتاؤ اور خلوص واطاعت اس زمانہ کا شیوہ اور دستور تھا ،اور اب تو ایسی باتیں دیکھنے اور سننے کو تو آنکھیں اورکان ترستے ہیں ۔
اس وقت کے رواج اور دستور کے مطابق محرم بھی مناتے تھے ،لوگوں اور نوجوانوں کو مرثیہ خوانی کی ترغیب دیتے ،ان کی عزت افزائی فرماتے ،لوگوں میں رباعی ،سوز ،تحت لفظ پڑھنے کے مقابلے بھی ہوتے ،دسویں محرم کی شب گذارکر سحری کے وقت تعزیہ بستی کی گشت کو نکلا کرتا تھا ،اس وقت وہ بھی ا پنے ہم عمر اور ہم مذاق لوگوں کے ساتھ شرکت کرتے تھے،لیکن خاموش ،اور جیسے ہی تعزیہ امام باڑہ کے پھاٹک سے باہر نکلتا اپنے احباب کے گلے مل کر ایسے سوز وگداز سے روتے اور ایسے درد انگیز کلمات منھ سے نکالتے کہ اور تو اور ہم لوگ کم عمروں کے دل بھی بھر آتے تھے ۔
طبیعت نہایت ہی پر مذاق اور بذلہ سنج واقع ہوئی تھی ،ایک مرتبہ اچار کا تذکرہ ہورہا تھا ،آپ نے فرمایا ،میں نے بھی اول ایک قسم کا پودا کا اچار بنالیا ہے ، مولوی ابو تراب صاحب نے عرض کیا ،‘‘چچا جان ،بھتیجے کا بھی اس میں کچھ حق ہے ‘‘، آپ نے فرمایا ،پوچھنے کی کیا بات ہے آدمی بھیج کر منگوالینا ،مولوی ابوتراب صاحب نے چینی کا بڑا پیالہ دائی کی معرفت بھیجا ،دل میں سمجھے ہوئے تھے کہ چچا جان کتنا ہی کم دیں گے پیالہ کا تو خیال کریں گے ،دائی جب پیالہ لے کر سامنے گئی تو آپ پیالہ دیکھ کر بہت ہنسے ،پیالہ کو اوندھاکر اس کے پیندے میں بقدر گنجائش اچار دے کر واپس کیا ،لیکن اس کے پیچھے پیچھے خود بھی چلے ۔
مولوی ابوتراب صاحب دروازہ پر گلی میں ٹہل رہے تھے اور دل ہی دل میںخیال کرکے مسکرارہے تھے کہ آج چچا جان سے بازی لے جاؤ ں گا ،لیکن جب دائی کے ہاتھ پیالہ اوندھا ہوا دیکھا تو کچھ گھبراگئے ، چچا جان دروازہ کی آڑ سے بھتیجے کو جھانک کر دیکھ رہے تھے ،جب یہ حالت دیکھی تو سامنے آگئے اور مسکراتے ہوئے بولے ،بھتیجے اچار ادھر ہی رکھ کر کھاتے ہیں ،(سیدھے طرف پیالہ کو بتا کر)اور ادھر دال اور ترکاری کھاتے ہیں ،اب سمجھ گئے نا؟ دونوں خوش خوش چلے ،پھر گھر جاکر اور اچار بھیج دیا۔
آپ کی دوشادیاں ہوئیں ، پہلی شادی قرابت اور کنبہ کی لڑکی سے ہوئی ،ان عفیفہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے دو بیٹا اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں ،بڑے صاحب زادے کا نام ملک محمد ناظر ،چھوٹے کا نام ملک محمد صدیق ۔ایک بیٹی استھانواں میں ملک ابوالبرکات سے اور دوسری بین کھیرا میں عبدالغنی مختار سے بیاہی تھیں ۔بحمد اللہ سب صاحب اولاد اور خوش ہیں ۔دوسرے محل سے جو غیر کفو میں شادی ہوئی ،ان سے ایک بیٹی اور ڈاکٹر سبحان ہے۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد کریم سول سرجن انہیں بزرگ کے پوتا ہیں ۔
ایک مرتبہ محمد عمر صاحب نے بغیر اجازت چپکے سے حلوہ کھالیا تھا ،آخر میں معلوم ہوگیا ،خلیفہ انور علی صاحب نے نہ تو ڈانٹا اور نہ مار پیٹ کیا ،بلکہ کہا کہ تم سب کے گھروں میں جاکر ہاتھ جوڑ کر کہو کہ ہم نے چوری کی تھی اور حلوہ چراکر کھالیا تھا ،سب لوگ مجھ کو معاف کردیں ،اس کا اثر تھا ہوا کہ آئندہ کے لئے ان کی اصلاح ہوگئی۔
حکیم عبدالجلیل نظر دسنوی :
ان کا نام عبدالجلیل تھا ،نظر تخلص کرتے تھے ،آپ کے والد کا نام نہیں معلوم ہوسکا ۔آپ تین بھائی تھے ، حکیم رحیم الدین سب سے بڑے تھے ،ان سے چھوٹے بھائی کا نام حکیم محمد باقر تھا ،اور حکیم عبدالجلیل سب سے چھوٹے بھائی تھے۔
حکیم رحیم الدین بہارشریف محلہ شیرپور میں مطب کرتے تھے ، اور اپنے وقت میں بہارشریف کے شہر طبیب تھے ،بہت اچھا مطب تھا ،اور خداوند کریم نے دست شفا بھی عطا کیا تھا ،مسجد کا موجودہ کنواں آپ ہی نے اپنے جیب خاص سے بنوایا تھا ،اور یہ کنواں آپ ہی کی یادگار ہے ۔
بہارشریف محلہ شیر پور کے عبدالغفور مرہم پچاس جو مقدمات کی پیروی میں ید طولیٰ رکھتے تھے ،اور ٹھیکہ لے کر مقدمہ کی پیروی کیا کرتے تھے آپ ہی کے نامور فرزند تھے ۔
دوسرے بھائی حکیم محمد باقر مظفرپور میں مطب کرتے تھے ،لیکن کامیاب حکیم نہیں تھے ،ان حکیم صاحب کے تین صاحبزادے ہوئے ،سب سے بڑے عبدالشکور ،دوسرے وزیر الدین ،سب سے چھوٹے داروغہ عزیزالدین تھے۔
حکیم عبدالجلیل صاحب نہ صرف حکیم تھے ،بلکہ اردو ،عربی ،فارسی کی اچھی استعدا د تھی ، ادبی مذاق بہت اچھا رکھتے تھے ، اسی لئے طبابت کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے تھے ،اور مظفر پور کے کسی اسکول میں اردو فارسی کی مدرسی قبول کرلی تھی ،اس سے ان کو اپنے ادبی مذاق جاری رکھنے کا پورا موقعہ ملتا تھا ،نظم ونثر دونوں میں مہارت تھی، کس سے شرف تلمذ تھا یہ نہیں معلوم ہوسکا ۔
طب کی تعلیم لکھنؤ میں پائی ،اس وقت وہاں حکیم محمد یعقوب صاحب جد امجد حکیم عبدالولی مرحوم کا طوطی بولتا تھا ،دسنہ کے اکثر بزرگوں نے اس زمانہ میں انہیں حکیم صاحب سے علم طب حاصل کیا ، یہی زمانہ میر انیس اور مرزا دبیر کا تھا ،ان کی شہرت کا آفتاب نصف النہار پر تھا ، ان کی مجلسوںمیں حکیم صاحب کو بھی شرکت کا موقع ملا ہوگا ۔چوں کہ ادبی مذاق اور فطری صلاحیت پہلے ہی سے موجود تھی ،لکھنؤ کی صحبتوں اور انیس ودبیر کی مجلسوں میں شرکت کی وجہ سے اور بھی چار چاند لگ گئے ۔
ایام محرم میں یہاں مرثیہ خوانی کا خوب چرچا اور رواج تھا ،دسنہ اور استھانواں کے نوجوان طبقہ میں ادبی مقابلے ہوتے ،اور خوب خوب نوک جھونک ہوتی رہتی ،یہ ان کی ہجو کہتے ،وہ ان کی خامیاں دکھاتے ،یہ ان کے طرز ادا پر بھپتی کستے ،وہ ان کے محاوروں اور غلط تلفظ کا خاکہ اڑاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شخصیت بہار میں اردو کے ابتدائی مصنفین میں اہمیت کی حامل ہے ،اور بہار کی اردو کی تاریخ میں ان کی بعض نثری تحریروں کا ذکر آتا ہے ،افسوس کہ اس مضمون کا کچھ حصہ عکس میں واضح نہیں ہوسکا ،اس لئے مزید حالات رہ گئے ۔طلحہ
مولوی محمد صدیق مختار مرحوم :
آپ کا نام محمد صدیق تھا ،والد کا نام خلیفہ انور علی تھا ،مروجہ زمانہ کے موافق اردو فارسی کی تعلیم مکان ہی پر پائی ، قرینہ ہے کہ اپنے والد ماجد ہی سے تعلیم پائی ہوگی ،کیوں کہ ان کا مشغلہ معلمی تھا ،پھر مدرسہ احمدیہ آرہ میں داخل ہوئے ،جس کے بانی مولانا محمد ابراہیم مرحوم آروی تھے ،جس کی اس زمانہ میں بہت شہرت تھی ،کچھ دنوں کے بعد ضرورت نے ترک تعلیم پر مجبور کیا ،اور مختاری کاری کا امتحان پاس کیا ۔
اس وقت صرف الہ آباد یونیورسٹی میں مختارکاری کا امتحان اردو میں ہوتا تھا ،اسی زمانہ میں مولوی عبدالوہاب نورپوری ،مولوی ابو تراب صاحب دسنوی ،مولوی عبدالرحمن صاحب خلف مولوی اصغر حسین مرحوم دسنوی ،مولوی محمد صدیق صاحب دسنوی ،مولوی کبیر الدین صاحب دسنوی اسی یونیورسٹی سے یکے بعد دیگرے امتحان پاس کرتے گئے ۔
مولوی محمد صدیق صاحب مختار کاری پاس کرنے کے بعد اول اول باڑھ میں پریکٹس شروع کیا ،اس زمانہ میں آپ کی شادی موضع جمساری میں مولانا محمد جمیل صاحب مدرس حال مدرسہ مظفر پور وحال مقیم بہارشریف کی چچا زاد بہن سے ہوئی تھی ،اس وقت کا جمساری گزشتہ اسلاف کا ٹمٹماتا ہوا چراغ تھا،وہاں کے لوگ خوشحال اور فارغ البال تھے ،مساجد آباد۔لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں سے بستی خالی ہوتی گئی ،صرف چھوٹی قوم کے چند گھرانے رہ گئے تھے ،۱۹۴۶ء کے ہنگامہ میں وہ بھی اپنے وطن کو خیر باد کہ کر ادھر ادھر منتشر ہوگئے ،کچھ لوگ دسنہ میں آباد ہیں ،کچھ بہارشریف جاکر بسے ،اس وقت جمساری کی بھی وہی حالت ہوگئی جو تار بیگہہ کی ہوئی ۔
جناب مختار صاحب کو اس عفیفہ سے کوئی اولاد نہ ہوئی ،اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد اللہ جل شانہ کو پیاری ہوگئیں ،دوسری شادی مولوی بہادر حسین پڈھوکہ کی منجھلی صاحبزادی سے ہوئی ،ان کے بطن سے ایک بیٹاڈپٹی وحید مرحوم ہوئے جو عین عالم شباب میں جب کہ ان کے پھولنے پھلنے کے دن تھے اپنے والد کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے ،مختار صاحب موصوف کے دل میں اس جاں گداز سانحہ سے ایسا ناسور پڑا جو کبھی مندمل نہیں ہوا ،اور چار لڑکیا ں ہوئیں ،بڑی لڑکی اہلیہ ڈاکٹر احمد کریم صاحب ،دوسری لڑکی اہلیہ عبدالحلیم مرحوم ملٹری انسپکٹر بکسر ،تیسری لڑکی اہلیہ حکیم حبیب الرحمن صاحب پڈھوکہ ،چوتھی لڑکی اہلیہ فخر الدین مرحوم وکیل استھانواں ،یہ لاولد تھیں ،بقیہ تینوں لڑکیوں کی بحمد اللہ اولاد ،احفاد ہیں ،خدا ان کو صحت وتندرستی کے ساتھ رکھے ،اور اقبال مند بنائے ۔
اس اہلیہ کے انتقال کے بعد مولوی بہادر حسین ساکن پڈھوکہ کی چھوٹی لڑکی سے جو آپ کی سالی تھیں شادی ہوئی ،ان عفیفہ سے بطن سے دو بیٹیاں ،ایک اہلیہ ڈاکٹر صلاح الدین صاحب خلف مولوی حافظ شرف الدین مرحوم استھانواں ،دوسری لڑکی اہلیہ مولوی سعیدا لحق عاشق عرف محمد عاشق خلف برادرم مولوی عبدالرشید صاحب ملک جو مولوی بشیر الحق صاحب بیدل دسنوی کے چھوٹے بھائی ہیں ۔
جب باڑھ میں مختار کاری حسب خواہش اور مرضی نہیں پائی تب وہاں سے چھوڑ کر موتیہاری میں پریکٹس شروع کیا ،وہاں بحمد اللہ تھوڑے ہی دنوں میں خوب چمکے ،اور اللہ تعالیٰ نے عروج عطا فرمایا ،حکام اور عوام میں دونوں میں ہر دل عزیز ہوئے ،ہرجگہ عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ،مگراسی زمانہ کا آپ کا حکام کے ساتھ کا ایک پرلطف واقعہ ہے ،اور آپ کی ہردل عزیزی کا ایک ادنیٰ کرشمہ۔
بابو انود پرشاد ڈپٹی مجسٹریٹ بحال ہوکر ٹریننگ کے لئے موتیہاری کچہری بھیجے گئے ،وہاں مولوی محمد صدیق صاحب سے ملاقات ہوئی ،اور رفتہ رفتہ ان کے قانون دانی کا سکہ ان کے دل میں بیٹھتا گیا ،وہاں سے ڈپٹی صاحب کی تبدیلی مونگیر ہوئی ،پھرچند ہی دنوں میں جموئی سب ڈویزن کے اس ڈی او ہوگئے ،اسی زمانہ میں مولوی سید نورالہدیٰ مرحوم خلف سید محمد ہادی جمعدار پولیس اور پدربزرگوار مولوی سید قمرالہدیٰ اور سید شمس الہدیٰ کی برات موضع مانہ مسماۃ بی بی قطبن کے یہاں گئی تھی ،انہیں کی لڑکی سے شادی تھی، ان مسماۃ کی وہاں کچھ زمینداری تھی ،ایک صاحب علی کریم جو جموئی میں مختار کاری کرتے تھے ،مسماۃ کی زمین پر قبضہ کرلیا تھا ،اور اسی سلسلہ میں عین برات کی شب فوجداری کرادی ،جب طرفین سے لاٹھیاں چلنے لگیں تو ہرگانواں کے میر حسینی صاحب نے جواب دیا۔
طرفین سے نالش جموئی سب ڈویزن میں ہوئی ،مولوی یاور حسین پدر بزرگوار جناب مولوی عبدالحلیم صاحب سکریٹری انجمن اصلاح جو مسماۃ بی بی قطبن کے عزیز قریب تھے یہ خبر پاکر جموئی کے ایس ڈی او جن سے اور جناب مختار محمد صدیق صاحب سے گہرے مراسم تھے ان کے یہاں پہنچے اور تمام حالات بیان کئے ،وہ ان کو لئے ہوئے سیدھے جموئی آئے ،جیسے ہی مختار صاحب اجلاس میں داخل ہوئے تو جناب اس ڈی او نے دیکھتے ہی کام بند کردیا ،اوراجلاس سے اترکر بہت ہی پرجوش اور عقیدتمندانہ طریقہ سے استقبال کیا ،اور اپنی کوٹھی پر پہنچے ،باتیں ہوئیں مختار صاحب نے روداد مقدمہ مفصل بیان کیا کردیا اور کہاکہ اس کی پیروی میں کرتا ہوں،ڈپٹی صاحب نے اطمینان دلایا اور مقدمہ سن کر فیصلہ حسب خواہ اسی وقت دے دیا ۔
اسی علم دوستی اورموتیہاری میں اعزاز اور وقعت کے باعث علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایجوکیشنل کانفرنس کی رکنیت اور ممبری حاصل ہوئی ،کانفرنس کا کوئی جلسہ اور کالج کی کوئی میٹنگ ان سے نہیں چھوٹتی تھی۔سرسید احمد خاں صاحب کے بہت عقیدت مند تھے ،ان کا پورا لٹریچر ان کے پاس تھا ،اور سب کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے تھے ،اور اسی عقیدت اور خیال کے پابند تھے ،دامے ،درمے ،قدمے ،سخنے ہرطرح کانفرنس کی کامیابی میں سرگرم رہتے تھے ۔
کتب خانہ الاصلاح دسنہ کے تو روح رواں تھے ،جس قدر ہمدردی اور مختلف طور پر عطیات دیتے رہے اس کا شمار اور تفصیل غیر ممکن ہے۔ان کا عام حکم تھا کہ لائبریری کے لئے اگر کسی وقت کسی چیز کی ضرورت ہو اور وہ چیز میرے یہاں موجود ہوتو بغیر میرے پوچھے اٹھا لاؤ، اور کتب خانہ کے کام میں لاکر خبر دے دیا کرو،چنانچہ کتب خانہ کی عمارت بنتے وقت اینٹ گھٹ گئی اور کچھ کڑی کی ضرورت پڑ گئی ،ڈاکٹر احمد کریم صاحب کے مکان کے لئے مختار صاحب نے اینٹیں بنوائی تھیں ،اور کڑی بھی تھی ،سکریٹری صاحب بغیر ان کو خبر دئے یا کسی سے پوچھے ماتے بغیر اینٹ ڈھلواڈالی اور کڑی اٹھا لائے ،اور کتب خانہ کی عمارت کی تکمیل ہوگئی ،پھر جب چھت پاٹنے کا وقت آیا اس کے لئے پتھر کی سلیٹ جناب عم محترم حکیم رشید النبی صاحب کے ذریعہ اور مشورہ سے منگوائی گئی ،آخر میں چھت پاٹتے وقت سلیٹ کم ہوگئی ،جناب مختار صاحب بھی اپنے مکان کی چھت کے لئے سلیٹیں منگواکر رکھے ہوئے تھے ،جناب سکریٹری صاحب پھر بدستور سابق گئے اور بغیر استمزاج کئے اور خبر کئے سب سلیٹ اٹھوالائے ،اور کتب خانہ کی چھت تیار ہوگئی ،دیکھنے میں یہ معمولی باتیں معلوم ہوں گی ،لیکن ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھئے تب معلوم ہوگا کہ ایسے کاموں کے لئے کتنے بڑے ظرف کی ضرورت ہے۔
بستی کے لوگوں کی خدمت کے لئے ہروقت آمادہ ،عزیزواقارب کی ہر ضرورت کے لئے ہمیشہ تیار اور مستعد رہتے ،جب وطن تشریف لاتے کتب خانہ کے لئے نئی نئی تجویزیں اور مشورے اس کی ترقی اور فلاح کے لئے دیتے رہتے ،نوجوانوں کی ہمت افزائی فرماتے ،ہر چھوٹے بڑے سے بڑے اخلاق اور محبت کے ساتھ ملتے ،اور اسی کے مذاق کے موافق گفتگو فرماتے ۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ کسی وجہ سے انجمن کا سالانہ جلسہ منعقد نہ ہوسکا ،اسی اثناء میں آپ دسنہ تشریف لائے اور عدم انعقاد جلسہ کی خبر ملی تو افسوس کیا ،مولوی سید عبدالحکیم صاحب سکریٹری سے باتیں ہوئیں ،فرمایا ،اس وقت جو پانچ آدمی موجود ہیں جلسہ کے لئے کافی ہیں ،کل یہ جلسہ ہوجانا چاہئے ،چنانچہ تیار ی کی گئی ، جناب سکریٹری صاحب آپ ہی کی تحریک سے صدر جلسہ بنائے گئے اور عزیزی سید نجیب اشرف صاحب ندوی کو تقریر کرنے اور جلسہ کی ضرورت اور کتب خانہ کی اہمیت پر تقریر کرنے کے لئے آمادہ کیا گیا ،بعد ختم تقریر مبلغ ۲۵ روپے کتب خانہ کو یہ کہہ کر عنایت فرمایا کہ عزیزی نجیب اشرف سلمہ کی تقریر بہت پسند ہوئی اس خوشی میں یہ حقیر رقم کتب خانہ کو دیتا ہوں ۔اسی طرح جب موقع پاتے بلکہ خود موقع نکال کرنوجوانوں کی ہمت افزائی فرماتے رہتے۔اپنا کتب خانہ جو سید احمد خاں صاحب کی کل تصانیف کا مجموعہ تھا کتب خانہ دسنہ کو عطا فرمایا ۔
آخری ایام میں طبیعت کا رجحان دوسری طرف ہوا ،اس وقت برادرم مولوی عبدالعظیم صاحب شاغل دسنوی بہ سلسلہ ملازمت موتیہاری میں تھے ،اور قیام جناب مختار صاحب موصوف کے یہاں تھا ۔مولوی عبدالعظیم صاحب کو حضرت مولانا محمد علی صاحب مونگیری خلیفہ حضرت مولانا شاہ فضل رحمن قدس سرہ گنج مرادآبادی سے بیعت تھی ،رات دن کی صحبت اور گفتگو سے جناب مختار صاحب کا دل تصوف کی طرف مائل ہوتا چلا گیا ۔
مولوی محمد صدیق صاحب کا یہ دستور شروع سے رہا کہ جس بات اور کام کو اختیار کیا اس کو پوری طرح انجام تک پہنچاتے ،آرہ مدرسہ احمدیہ کی تعلیم کے بعد توہب کا پورا زروز تھا ،پھر جب سرسید احمد خاں صاحب کے معتقدین میں ہوئے تو نیچریت کے سرگرم ممبر بن گئے ،اس وقت تصوف کی طرف رجحان ہوا تو پوری سرگرمی سے بڑھے ،اس وقت مولانا محمد علی صاحب کا وصال ہوچکا تھا ،گنج مرادآباد میں حضرت مولانا فضل رحمن صاحب کے نواسی داماد جناب مولانا عبدالکریم صاحب یکے از خلفائے اربعہ جناب ممدوح موجودتھے ،انہیں سے برادرم عبدالعظیم صاحب کے ایما سے خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا ،جب ہر طرح سے جناب مختار صاحب کو تشفی ہوگئی تو صرف اپنے وفادار اور معتمد خادم محمد امیر کو ساتھ لے کر مرادآباد تشریف لے گئے ،اور بیعت کرنے کے بعد تعلیم حاصل کرکے موتیہاری تشریف لائے اور ایسا رنگ چڑھا کہ خداوند کریم ہر مسلمان کو یہ نعمت عظمی عطافرمائے ۔اور جب داعی اجل کو لبیک کہنے کا وقت آیا تو نہایت اطمینان،سکون خاطر اور خوش خوش ذکر اور شغل کرتے ہوئے جوار رحمت میں گئے ،خداوند کریم ان کی قبر کو ٹھنڈی رکھے ،اور پس ماندگان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔