مولانا نجیب اللہ مظاہری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

مولانا نجیب اللہ مظاہری چمپارنی کا دہلی میں 2/ اگست 2024ء مطابق 26/ محرم الحرام 1446ھ بروز جمعہ انتقال ہو گیا،ان کی عمر بہتر سال تھی، اکتوبر 2023ء میں ان کے دونوں جبڑے اس طرح مل گیے تھے کہ منہ کھولنا اور کھانا پینا دشوار ہو گیا تھا، زندگی لیکویڈ غذا، دلیہ، یخنی، جوس وغیرہ پر گذر رہی تھی، گذشتہ جولائی میں انہوں نے اپنی مادر علمی مظاہر علوم کا سفر کیا، تین دن وہاں قیام رہا، وہاں سے سرہند حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضری دی، وہاں سے دہلی گیے، ایمس میں علاج شروع کروایا، عافیت نہیں ہوئی، اور مالک حقیقی کے پاس چلے گیے، ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں، جھٹکاہی ضلع مشرقی چمپارن میں ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا محمد زاہد نے پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، تین لڑکے مولانا محمد زکریا، مولانا محمد راشد، مولانا محمد زاہد اور دو لڑکیاں زاہدہ اور طاہرہ ہیں۔

مولانا نجیب اللہ مظاہری
مولانا نجیب اللہ مظاہری

مولانا نجیب اللہ ؒ بن شیخ یار محمد بن شیخ حنیف بن شمس عالم عرف شمس علی بن شیخ گلاب کی ولادت پاسپورٹ پر درج تاریخ کے مطابق 20/ ستمبر 1953ء کو ہوئی، ان کی نانی ہال جموا مشرقی چمپارن اور سسرال مرلی ڈھاکہ مشرقی چمپارن تھی، اہلیہ شیخ خلیل احمد کی دختر اختر ہیں، جو ان سے رشتہ ازدواج میں 1393ھ میں منسلک ہوئیں۔

ابتدائی تعلیم آزاد مدرسہ ڈھاکہ، ضلع مغربی چمپارن میں ہوئی،وہاں سے انہوں نے سہارن پور کا رخ کیا، وہاں ابتدائی کے طلبہ کو مدرسہ خلیلیہ میں داخل کیا جاتا تھا، جو مظاہر علوم کی شاخ ہے اور اس زمانہ میں وہاں کے طلبہ کا کھانا بھی مظاہر علوم سے جایا کرتا تھا، چند سال کے بعد مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ ہو گیا، تو یہاں منتقل ہو گیے اور فراغت 1392ھ میں پائی، دوران قیام حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی خدمت میں مسلسل حاضر باش رہے، آپ کا شمار حضرت کے معتمد میں ہوا کرتا تھا، انہوں نے زمانہ طالب علمی ہی میں حضرت سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔

تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ خزینۃ العلوم پوپری سے کیا یہاں کا ماحول راس نہیں آیا تو حضرت قاری صدیق احمد باندویؒ کی خدمت میں حاضر ہو گیے، حضرت نے ضلع فرخ آباد یوپی کے ایک مدرسہ میں تدریس کی خدمت پر لگا دیا، دو سال بعد یہاں سے استعفیٰ دے کر حضرت شیخ کی خدمت میں چلے گیے، اور وہاں سے اللہ رب العزت نے مدینۃ منورہ پہونچنے کی سبیل پیدا فرمادی، حج وزیارت کی غرض سے حرمین شریفین کا سفر کیا اور 1397ھ حضرت شیخ کی خدمت کی غرض سے مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہو گیے، سفروحضر میں حضرت شیخ کے ساتھ ہوا کرتے تھے، ان کے خطوط کے جوابات مولانا نجیب اللہ ؒ کے قلم سے ہوتا اور آخر میں وہ بقلم نجیب اللہ لکھا کرتے تھے۔

حضرت شیخ کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنا مستقر بدل لیا، وہ مولانا عبد الحفیظ مکی کی خانقاہ میں مکۃ المکرمہ منتقل ہو گیے اور کم وبیش بیس سال خانقاہی وتدریسی خدمات انجام دیتے رہے، بعد میں وہ اپنے وطن آگیے یہاں وہ ذکر واحسان کی مجلسیں منعقد کرتے، علاقہ کے پروگرام میں بھی شرکت ہوتی اور لوگ ان سے دعا وغیرہ کرایا کرتے۔حضرت نے چند لوگوں کا خلافت بھی دی تھی۔

مولانا سے میری صرف ایک ملاقات تھی، موقع تھا جامعہ زکریا ڈھاکہ مشرقی چمپارن کے اجلاس دستار بندی کا، پروگرام دن کا تھا، مولانا بھی رونق اسٹیج تھے، میری تقریر کے بعد انہوں نے اٹھ کر مجھے گلے لگایا اور فرمایا کہ میں آپ کو حضرت شیخ کے سلسلہ کی خلافت دیتا ہوں، میں ہکا بکا رہ گیا، عرض کیا، حضرت میں تو ابھی آپ سے منسلک بھی نہیں ہوں، اورادوظائف کا بھی بہت اہتمام نہیں ہے، فرمانے لگے کہ سارا کچھ بعد میں ہوگا، میں نے جو بات کہہ دی، کہہ دی، میں خاموش ہو گیا،اس وقت ان کے دوسرے صاحب زادہ حافظ محمد راشد بھی موجود تھے، ان سے فرمایا کہ مفتی صاحب کا موبائل نمبر لے لو، میں چوں کہ پہلے سے ایک پیر طریقت سے منسلک تھا، اس لیے اس طرف توجہ نہیں ہوئی اور جب توجہ نہیں رہی تو رابطہ بھی نہیں ہوا، آج سوچتا ہوں تو اپنی اس بے اعتنائی پر صدمہ محسوس ہوتا ہے، صالحین کی صحبت کا اپنا فیض ہوتا ہے، میں ان کے اس فیض سے محروم رہا۔

مولانا مرحوم کو اس ملاقات میں میں نے شاغل وذاکر وکم گوپایا، مخلوق خدا سے محبت کا مزاج تھا، میں اس خاندان کو زیادہ تو نہیں جانتا، لیکن ان کے بڑے بھائی قاری اطیع اللہ مظاہری بانی ومہتمم مدرسہ معراج العلوم کٹھملیا، مشرقی چمپارن اور ان کے چھوٹے بھائی مفتی حبیب اللہ قاسمی بانی ومہتمم دار العلوم مہذب پور اعظم گڈھ سے روابط اور تعلقات ہیں، مفتی حبیب اللہ صاحب سے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمیناروں میں ملاقات ہوجاتی ہے، قاری اطیع اللہ صاحب مدظلہ ایک بار میرے گھر میری عیادت کے لیے تشریف لا چکے ہیں، ساتھ میں حضرت مولانا عبد المنان صاحب مدظلہ خلیفہ حضرت ہر دوئی بھی تشریف لائے تھے، اس طرح دیکھا جائے تو مولانا نجیب اللہؒ کے سب بھائی پیر ہی ہیں، کوئی حضرت مولانا عبد الحلیم جونپوری ؒ کا فیض پہونچا رہا ہے اور کوئی حضرت شیخ الحدیث کے سلسلے کو آگے بڑھا رہا ہے، دین سے بیزاری کے اس دور میں رجال کار کی تیاری اور اصلاح نفس کا کام بڑا کام ہے، جہاں کہیں ہو رہا ہے اور جس کی طرف سے بھی ہو رہا ہے لائق ستائش ہے۔

مولانا کی اپنی زندگی زہد وورع سے عبارت تھی، غلطیاں، کوتاہیاں، خامیاں انسانی سرشت ہے، اللہ رب العزت کی طرف سے صرف انبیاء معصوم اور صحابہ کرام کو محفوظ رکھا گیا ہے، اس لیے مولانا کے لیے مغفرت اور ترقی درجات کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply