مولانا وصی احمد شمسی

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا محمدوصی احمد بن محمد شہاب الدین بن شیخ طولن بن شیخ سعد علی (شیخ سعدو) بن شیخ روشن علی بن شیخ بہادر علی بن شیخ محمد بھولا ساکن روپس پور دھمسائن تھانہ علی نگر ضلع دربھنگہ نے آئی جی ایم ایس پٹنہ میں مختصر علالت کے بعد19؍ جمادی الاخری 1445 ھ مطابق 2؍ جنوری 2024بروز منگل اس دنیا کو الوداع کہا، وہ شوگر اور قلب کے مریض تھے، لیکن مرض وفات بائیک سے گرنا قرار پایا ، جس سے ان کے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہ صاحب فراش ہو گیے تھے، ہر وقت رواں رہنے والی شخصیت جب بستر سے لگ جائے تو بہت سارے امراض ایسے ہی سامنے آجاتے ہیں، اس لیے وہ مجموعہ ٔ امراض بن گیے، جنازہ ان کے آبائی گاؤں لے جایا گیا اور ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم کی امامت میں ہزاروں سوگواروں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور گاؤں کے قبرستان میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ، پس ماندگان میں اہلیہ صالحہ بشریٰ بنت مولانا عبد الرحمن صاحب امیر شریعت خامس اورپانچ لڑکے محمد زکریا (خرم بابو) محمد یحیٰ (فرخ بابو) محمد یعلیٰ (معظم عارف) ، محمد مرتضیٰ (کاشف رضا) ، محمد مجتبی (مناظر صدیقی) اور ایک لڑکی نشاہ فاطمہ (عشرت بتول) کو چھوڑا، سبھی نیک صالح اور والد کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، مولانا اپنے پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے، سب سے بڑے بھائی علی احمد مرحوم تھے، جو مشہور سیاسی قائد عبد الباری صدیقی سابق وزیر حکومت بہار کے والد محترم ہیں۔

مولانا محمد وصی احمد شمسی کی ولادت مارچ1946ء میں روپس پور دھمسائن میں ہوئی، سرکاری کاغذات میں 29مئی 1949درج ہے، والد کا نام محمد شہاب الدین (عرف شہبود میاں جی فورمین) والدہ کا نام زینت النساء ، بنت منشی بشارت علی ہے ، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بلکہ اپنے دالان میں مولوی محی الدین اور ان کے والد حافظ محمد یوسف (کلٹو حافظ جی) سے پائی۔ 1956میں اپنے بڑے ماموں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ؒ کے ساتھ مدرسہ حمیدیہ گودنا ، ضلع سارن چلے گیے اور یہاں ناظرہ قرآن سے لے کر فوقانیہ تک کی تعلیم پائی۔ 1967میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں درجہ مولوی میں داخلہ لیا اور یہیں سے فضیلت تک کی تعلیم حاصل کی، اسی دوران آپ نے پرائیوٹ سے گورمنٹ کالجیٹ اسکول بانکی پور، پٹنہ سے میٹرک سکنڈ ڈوزن سے پاس کر لیا، 1976-77میں عربی فارسی ریسرچ انسٹی چیوٹ پٹنہ سے ڈپلوما ان ایجوکیشن (DIP.IN.ED)کیا، تعلیمی ادوار کے ختم ہونے کے بعد آپ کی بحالی بحیثیت مدرس ان کی مادر علمی مدرسہ حمیدیہ گودنا میں ہو گئی، مدرسہ کی مالیات کی فراہمی کے لیے ان کا سفر قرب وجوار کے مواضعات میں ہوا کرتا تھا، جس سے ان کے ذہن میں کشادگی پیدا ہوئی، چندہ کے تعلق سے ہی مولانا کا گذر سون پورہوا، وہاں ایس پی ایس سمینری ہائی اسکول میں مولانا سید عبد الحلیم صاحب چالیس سالوں سے ہیڈ مولوی تھے، انہوں نے اس جو ہر قابل کو پہچانا اور ایک سو روپے ماہانہ پر مولانا وصی احمد صاحب کی بحالی اس اسکول میں ہو گئی ،آپ نے 25جنوری 1974سے مئی1981تک اس اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیں، مزاج داعیانہ اور جذبہ سماجی خدمات کا تھا اس لیے دو تین جگہ اردو اور اردو پرائمری اسکول بھی قائم کرایا،مئی 1981میں آپ نے اپنا تبادلہ پوہدی بیلا ہائی اسکول میں کرالیا، اس طرح وہ گھر کے قریب تو آگیے لیکن وہ اس تبادلہ کو اپنی زندگی کی بڑی بھول کہا کرتے تھے، اسی درمیان سرکار کی اجتماعی تبادلہ کی پالیسی آئی اور مولانا کا تبادلہ پوہدی بیلا اسکول سے واٹسن پلس ۲ ہائی اسکول مدھوبنی میں ہو گیا، چنانچہ نومبر 1995میں آپ نے اسکول جوائن کر لیا، اور جب آپ کے سینئر ریٹائر ہو گیے تو آپ اس اسکول کے پرنسپل بنے اور یہیں سے مدت ملازمت پوری کرکے 3؍ مئی2009 سبکدوش ہوئے، آپ کے ہزاروں شاگرد ملک اوربیرون ملک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مولانا مرحوم کی شناخت علمی، تعلیمی ، سماجی اور مذہبی انسان کی حیثیت سے تھی ،ا س حوالہ سے ان کے تعلقات ملک کی بڑی شخصیات سے تھیں، وہ ایک خوش اخلاق ، خوش اطوار ، خوش لباس آدمی تھے، اپنے خیالات کے اظہار میں بے باک تھے، بعض سے بالمشافہہ وہ ملاقات کرتے اوربعضوں سے خط وکتابت تھی ،و ہ زمانہ دراز تک امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے اور ان کے مفید مشورے ہمارے کام آتے رہے، ملی کونسل کے رکن اور بہار ملی کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات قابل قدر ہیں، ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا، وہ حاصل مطالعہ لکھنے کے عادی تھے، ڈائری لکھا کرتے تھے، جو مضامین پسند آئے،ا سکے اقتباسات محفوظ کرلیا کرتے تھے، انہیں لکھنے کا اچھا سلیقہ تھا، حیات عبد الرحمن اور یادوں کی بہار ان کی تصنیفی یادگار ہے، حیات عبد الرحمن منظوم بھی انہوں نے شائع کرائی تھی ، ان کی کتاب یادوں کی بہار معلومات کا خزینہ اور یادوں کی انسائیکلو پیڈیا ہے، آٹھ سواٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادب وتاریخ کی لائبریری میں قابل قدر اضافہ ہے، وہ اس کتاب کی اشاعت کو حاصل زندگی قرار دیتے تھے،ا س کی طباعت پر بے انتہا خوش تھے اور دوسرا ایڈیشن لانے کے لیے انتہائی فکر مند تھے، عبد الباری صدیقی صاحب نے اس کے صرفہ کی ذمہ داری قبول کر لی تھی ، اسی دن وہ عبد الباری صدیقی صاحب کی رہائش گاہ سے اپنے مستقرایک بائیک پر سوار ہو کر لوٹ رہے تھے کہ وہ پھینکا گیے، جس سے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی اوروہ بستر سے لگے تو پھر اٹھ نہیں سکے۔

مولانا مرحوم سے میرے تعلقات کم وبیش تیس سال سے زائد سے تھے، پہلی ملاقات تو یاد نہیں ہے، مولانا نے خود ہی یادوں کی بہارمیں لکھا ہے کہ آل انڈیا ملی کونسل کے پہلے اجلاس نومبر 1992میں ہم دونوں ہم سفر تھے، اس سفر میں ساتھ ساتھ ہم دونوں نے ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضری دی تھی،اور سبیل الرشاد بنگلور کا سفر بھی ہم نے ساتھ ساتھ کیا ھا، واپسی پر بہار میں ملی کونسل کی تشکیل ہوئی اور مفتی نسیم احمد قاسمی کے ساتھ جو ٹیم بنی اس کے وہ اہم رکن تھے، بہار ملی کونسل کا جب میں سکریٹری بنا تو وہ میرے دست وبازو بنے، کئی سالانہ اجلاس میں میرا ان کا ساتھ رہا، حیات عبد الرحمن منظوم پر مجھ سے مقدمہ بھی انہوں نے لکھوایا ، امارت شرعیہ جب آتے تو گھنٹوں میرے پاس بیٹھتے، اپنے گھر بلا کر دعوت کھلاتے، تبادلۂ خیال کرتے ان کی کتاب ’’یادوں کی بہار‘‘ چھپ کر آئی تو جن چند لوگوں کو انہوں نے بلا قیمت کتاب فراہم کرائی،ا ن میں ایک نام میرا بھی تھا، مولانا اسرار الحق صاحب پر انہوں نے یادوں کی بہار میں اپنا مضمون شامل کیا تو قارئین کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا کے اوپر میرے( محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) مضمون کو ضرور پڑھیں،ا نہوں نے میرے اس مضمون کو خوبصورت پر کشش اور معلوماتی قرار دیا تھا، انہوں نے اس کتاب میں ایک مضمون میرے اوپر بھی شامل کیا، جس کے حرف حرف سے ان کی محبت کا اظہار ہوتا ہے، ان کے اسی اقتباس پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں:
’’مفتی صاحب جب سے نقیب کے مدیر با اختیار بنائے گیے ، اس کے معنوی وظاہری رنگ وروپ میں نکھار آگیا ہے، یہ اخبار مجھے مولانا وحید الدین خاں کی ادارت میں جمعیۃ علماء ہند کے ترجمان الجمعیۃ کے جمعہ ایڈیشن کی یاد دلاتا ہے، گو ہمارے نقیب کا معیار الجمعیۃ کے جمعہ ایڈیشن سے بھی بڑھا ہوا ہے، اسی وجہ سے مجھے نقیب کا ہر ہفتہ انتظار رہتا ہے، مفتی صاحب کے لکھے ہوئے سوانحی خاکے جو پکے آم کے مانند ٹپکتے ہوئے دنیا سے سدھارتے ہیں،یہ خاکے اسلوب کے اعتبار سے خوبصورتی کے ساتھ پر کشش اسلوب تحریر کیساتھ سفینۂ عبرت بھی ہوتا ہے، میں سطر سطر پڑھتا ہوں، ان کا حاصل مطالعہ اور بلا تبصرہ اتنا مختصراور پُر اثر ہوتا ہے کہ مجھے داد دینی پڑتی ہے، مفتی صاحب کی قدیم روایت کی پابندی یعنی مرحومین کی مرثیہ خوانی ، کبھی زندہ ملی شخصیات پراپنے قلم کی جولانی دکھاتے ہیں، ان پر غصہ بھی آتا ہے کہ ا تنی خوبصورت اورپر اثر تحریر کیوں لکھتے ہیں، اللہ کرے مفتی صاحب کا زور خطابت ، طلاقت لسانی، اسلوب نگارش ،شعور وادراک ، فصاحت وبلاغت، سلاست اور مثبت فکر وخیال ،شیریں انداز تحریر، اوران کا فکر باقی رہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں