!مولوی ذاکر، تم بھی

از ـ محمود احمد خاں دریابادی

مرزا غالب نے مومن خاں مومن کی موت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ

"سنا ہوگا تم نے کہ مومن خاں مرگئے، آج ان کو مرے دسواں دن ہے۔ دیکھو بھائی ہمارے بچے مرے جاتے ہیں۔ ہمارے ہم عصر مرے جاتے ہیں۔ قافلہ چلا جاتا ہے اور ہم پا در رکاب بیٹھے ہیں۔ "

آج صبح جب ایک گروپ میں مولوی ذاکر کے انتقال کی اطلاع دیکھی تو ایسا لگا کہ یہ کوئی اور ذاکر ہیں، مگر چند سیکنڈ بعد اسی گروپ میں ایک دوسری تحریر آگئی جس میں کینا مارکیٹ کے مدرسے اور جمیعۃ علماء کا بھی ذکر تھا تب سمجھ میں آیا کہ یہ تو ہمارے والے ہی مولوی ذاکر ہیں، تب سے مرزا غالب کا مذکورہ بالا اقتباس بار بار ذہن میں آرہا ہے ـ ذہن ماوف ہے، خیالات منتشر ہیں، یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر یقین تو کرنا ہی پڑے گا،……… آنے والی آچکی اور جانے والا جاچکا، ہم لوگ بھی کب تک بچیں گے، جانا تو پڑے گا۔

جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم

خوش اخلاق، خوش اطوار، خوش گفتار، خوش کردار، خوش بیان، خلیق، متین، مرنجاں مرنج، یار باش مولانا ذاکر صاحب جنرل سکریٹری جمیعۃ علماء مہاراشٹرا، مہتمم مدرسہ تعلیم القران کینا مارکیٹ گوونڈی، جنرل سکریٹری تنظیم اہل سنت والجماعت گوونڈی، اور ممبئی کی تقریبا تمام ملی وسماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے والی شہر کی ایک معتبر و ذمہ دار شخصیت تھے ـ اس کے باوجود ہم لوگ بے تکلفی میں انھیں صرف مولوی ذاکر کہا کرتے تھے ـ اگرچہ ہم سے عمر میں چھوٹے تھے اور ہمیں حضرت کہہ کر مخاطب کرتے تھے مگر ہمارا اُن سے برادرانہ اور بے تکلفانہ تعلق تھا، قاری صادق صاحب، مولوی صغیر اور مولوی ذاکر ان تینوں حضرات نے اس علاقے میں زبردست تعلیمی، دینی، ملی وسماجی کام انجام دئے ہیں، جب بھی ممبئی آتے عموما تینوں ساتھ آتے، ہم نے جب بھی اس علاقے کے لئے پرسنل لاء بورڈ یا علماء کونسل وغیرہ کے سلسلے کا کوئی عوامی کام سپرد کیا ہے تو تینوں نے ایک دوسرے کے تعاون سے وہ کام پوری ذمہ داری سے انجام دیا، …………. افسوس آج اس ٹیم کا ایک آدمی کم ہوگیا، اللہ بقیہ دو کو تادیر سلامت رکھے ـ جب بھی ہمارا گوونڈی کی طرف جانا ہوتا تو ذہن میں یہ بات ضرور رہتی تھی کہ مولوی ذاکر سے بھی ملنا ہے ـ اب اُن کے نہ رہنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جب مولوی ذاکر نہیں ہیں تو اب کاہے کا گوونڈی، اب وہاں جاکر کیا کریں گے ـ

مگر سچ یہ بھی ہے کہ مولوی ذاکر اگرچہ نہیں رہے لیکن گوونڈی اب بھی اپنی جگہ قائم رہے گا، کل کو ہم بھی نہ رہیں گے مگر یہ سارا کارخانہ قدرت یوں ہی چلتا رہے گا، کسی کے رہنے نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وقت کے ساتھ لوگ فراموش کردیتے ہیں، اچھے اچھے آئے چلے گئے دوچار دن چرچا رہا پھر سب اپنی اپنی دال روٹی میں مشغول ہوگئے۔

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

البتہ مرحوم کے اہل خانہ وپسماندگان ہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں مرحوم کی یاد باقی رہتی ہے اور وہ نام لے کر ایصال ثواب کرتے رہتے ہیں، اس لئے مولوی ذاکر مرحوم کے تمام پسماندگان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش ہے، اللہ مغفرت فرمائے مولوی ذاکر تو بزبان حال یہ کہتے ہوئے عالم جاودانی کی طرف روانہ ہوچکے ہیں کہ ……….

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلےہی چلےجائیں گےاس منزل سےہم

محمود احمد خاں دریابادی
16 اپریل 2024 بعد ظہر

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply