میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے

عبید انور شاہ

مدارس کے جو طلبہ اس سال فراغت حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے بالخصوص اور باقی تمام زیرِ تعلیم طلبہ کے لیے بالعموم چند نصیحتیں اور گزارشات پیش ہیں، ان معروضات کی بنیاد ذاتی تجربہ، مشاہدہ، مطالعہ، غور و فکر، متعدد متعلقین و احباب کی آپ بیتی اور سینکڑوں علما کی عبرت و نصیحت آموز داستانِ حیات ہے.

میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے

سب سے پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ آج تک آپ نے کتابوں میں جو کچھ پڑھا، جو کچھ درسگاہوں میں سنا، دنیا اس سے بہت زیادہ مختلف اور متضاد ہے. یہ دنیا اور دنیا میں بسنے والے افراد نہ انسانوں کے ذریعہ لکھی گئی کتابوں کے مطابق چلتے ہیں، نہ آسمانی کتابوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں. دنیا کا اپنا اصول، اپنا دستور اور اپنا نظریہ ہے. دنیا کے بیشتر لوگ دو ہی اصول جانتے اور مانتے ہیں.

ایک اصول یہ ہے کہ "بس اپنا حق لینا ہے”. دوسروں کا حق کیا ہے؟ اور اس حق کی ادائیگی ضروری ہے، یہ لوگوں کے تصور و ارادے تک سے خارج ہے. آخرت میں ایسا ایسا ہوگا اور خدا تعالیٰ اعمال کا اس طرح بدلا دیں گے، اس پہلو کی تمام تر حقیقت دل و جان، ایمان و ایقان سے تسلیم ہو جانے کے بعد دنیا کا دستور جان لیجیے کہ یہاں آپ کی نیکی، بھلائی، ایمانداری، سچائی، اخلاص کا اچھا بدلا ملے ہرگز ضروری نہیں. یہاں اکثر مخلص کو دیوانہ، ناصح کو ظالم اور انصاف کی بات کہنے والے کو مجرم قرار دیا جاتا ہے. سچ بولنے والوں کو گالیاں دی جاتیں اور زنداں میں پھینک دیا جاتا ہے. یہاں محنتی، با صلاحیت لوگ عمر بھر جوتیاں چٹخاتے، طعن و تشنہ سنتے، قرض کا بوجھ اٹھائے بیماریوں سے لڑتے، روتے سسکتے، ایک دن کسمپرسی کے حال میں اپنے حجرۂ ظلمت میں بستر پر پڑے پڑے "مر جاتے” ہیں اور بے صلاحیت، عیار، چاپلوس، زبان زور لوگ جوتیاں چاٹتے، ترقی پاتے، موج اڑاتے، لذت کام و دہن اٹھاتے، عمر بھر دولت، شہرت، آسودگی حاصل کرتے، اور ایک دن مہنگے ترین ہسپتال کے مہنگے ترین بستر پر شان سے "انتقال فرما” جاتے ہیں!

 

لہٰذا عملی میدان میں اترنے سے پہلے اپنے آپ کو خیالی دنیا سے باہر لائیے. ہر طرح کے دھوکے، حق تلفی ،حادثے کے لیے ذہن و جذبات سے تیار رہیے اور خود کو مضبوط بناییے. کئی بار دیکھا ہے کہ خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں آنے والے بعض افراد جب اس قدر تضاد، نفاق، جھوٹ اور فریب دیکھتے ہیں تو ذہنی و عملی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں. وجہ یہ کہ انہوں نے عرصۂ دراز تک جو خواب دیکھے اور جو امیدیں باندھیں وہ چند ماہ و سال میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہیں. اور یہ ان کی برداشت سے باہر ہوتا ہے. اس لئے ہر طرح کے اشخاص اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار رکھیے!! جس کا جو حق ہے وہ پوری ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کریں، لیکن اس کے بدلے لوگ بھی آپ کا حق ادا کریں گے یہ امید ہرگز نہ رکھیں!

 

دنیا کی یہ سفاکانہ رسم کبھی انسان کو ردِ عمل کی غلط سمت میں لے جاتی ہے. اس سے بھی بچنا ضروری ہے. لوگ برا کریں تو بھی اپنی جانب سے اچھا ہی بدلہ دیجئے، یہی حسن سلوک ہے. کسی کے شر، برائی اور بدسلوکی کی بنا پر آپ خیر اور بھلائی کا دروازہ بند نہیں کریں گے. نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ ، وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِى إِذَا قطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا [بخاری: 5991]

بدلہ پورا کرنے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں کہلائے گا؛ بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہوتا ہے جو (دوسرے کی غلطی معاف کرکے اس کے) قطع رحمی کے جواب میں صلہ رحمی کے کام کرے.

 

دنیا میں خوش رہنے اور سکونِ دل برقرار رکھنے کی تمام تر حکمتوں اور تدبیروں کا خلاصہ میں نے جو سمجھا ہے، وہ یہ ہے کہ توکل صرف اللہ پر، بھروسہ صرف اس ذات وحدہ لا شریک پر، اچھے بدلے اور اجر کی امید صرف اس خدائے شاکر و علیم سے، غم کا اظہار، رونا، آنسو بہانا صرف اس لطیف و خبیر کے سامنے، مانگنا، ہاتھ پھیلانا، اپنی ضرورت پیش کرنا، صرف اس مالکِ ارض و سماء کی بارگاہ میں. لوگوں سے امید و توقع اٹھا لیجیے، تکلیفیں بڑی حد تک کم ہو جائیں گی. کوئی شخص اپنے کردار و عمل کی بنا پر ناقابل برداشت حد کو پہنچ جائے تو خاموشی سے اس سے دوری بناتے چلے جائیں. خود کو ناقابلِ تحمل اذیت میں مبتلا کرنا بھی اسلامی تعلیم کے خلاف ہے… لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو).

 

دوسرا اصول (جو پہلے اصول کے ساتھ کئی لحاظ سے مربوط ہے) یہ ہے کہ یہ دنیا صرف دولت کی پوجا کرتی اور چڑھتے سورج کو سلام کرتی ہے. دولت نہ ہو تو آپ کی ہر خوبی بیکار ہے اور دولت ہو تو آپ کا ہر عیب کمال ہے. اس کارزارِ حیات میں مظلومیت کی زندگی سے بچنے کے لیے مالی استحکام لازم ہے. مالی استحکام کے راستے پر چلتے وقت دو باتیں ہمیشہ ملحوظ رکھنی ہیں.

 

(1) مال و دولت کی طلب میں آپ ہرگز غلط راہوں پر نہ چلیں، کبھی بھی حلال و حرام کے فرق کو نہ بھولیں، دولت حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی ناجائز اور غیر اخلاقی راستہ اختیار نہ کریں اور ان سب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جائز راستوں کی سمجھ، عقل اور عملی تجربہ حاصل کریں. یہ تجربہ حاصل ہوگا ان لوگوں سے جو عملی دنیا سے وابستہ ہیں. جو تجارت و کاروبار میں لگے ہوئے ہیں. جن کا تعلق بازار سے ہے. جو لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے، خرید و فروخت کرتے، مارکیٹ کے احوال، لوگوں کی نفسیات، کسٹمرز کی اقسام و عادات کو جانتے ہیں. عملی زندگی کے مبادی و اصول کوئی کتاب پڑھنے سے نہیں سیکھے جا سکتے. بازار میں بیٹھنے والا ایک کپڑہ فروش آپ کو کاروبار کی وہ نزاکتیں، وہ راز کی باتیں اور احتیاطیں بتا و سکھا سکتا ہے جو کسی کتاب البیوع سے کبھی نہیں سیکھی جا سکتیں!!

 

(2) آپ نے بارہ پندرہ سال لگا کر علمِ دین کی بیش بہا دولت حاصل کی ہے، دنیا کی (حقیر) دولت کمانے کے چکر میں دین کی (عظیم) دولت کو گنوانا نہیں ہے. کوئی درمیانی راہ نکالنی ہے جس سے دنیا کا بھی نقصان نہ ہو اور دین بھی ہاتھوں سے نہ نکلے. ہمیں کم ظرف لوگوں کا محتاج بھی نہیں بننا ہے اور جو علم حاصل کیا ہے، اس کی بقا، ترقی اور ترویج کی بھی کوشش کرنی ہے. اپنے احوال کے مطابق کم یا زیادہ مطالعہ کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیے. جب تک مطالعہ جاری رہے گا علم زندہ رہے گا. تدریس و تبلیغ، تحریر و تقریر، امامت و خطابت جیسا موقع اور مزاج ہو اس کے مطابق اس علمِ دین کے ابلاغ و نشر کی کوشش کریں. اگر آپ اپنے احوال کی بنا پر مستقل طور پر تدریس سے وابستہ نہیں ہو سکتے تو ایک یا دو اسباق پڑھانے کی ہی ذمہ داری لے لیں، یہ ممکن نہ ہو تو محلے کے بچوں کو فی سبیل اللہ پڑھانا شروع کر دیں. تفسیر یا درسِ حدیث کا سلسلہ قائم کریں… کوئی بھی شکل ہو بس کتابوں سے، علم سے، اہل علم و طالبینِ علم سے جڑے رہیے!

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare