نقوش ادب : ایک تاثر
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
جناب حافظ محمد اسلم رحمانی (ولادت 10/اپریل 1991ء) بن محمد وسیم ساکن مجھولیا، مشرقی محلہ، پارو،ضلع مظفرپور، حال مقیم مٹھن پورہ، مظفرپور، نوجوان اہل قلم ہیں، جامعہ عربیہ ہتھوڑہ باندہ یوپی سے تعلیم پائی ہے. نتیشور کالج مظفرپور کے شعبۂ اردو سے گریجویشن کررہے ہیں. کامران غنی صباؔ(صدر شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور) کے شاگرد رشید ہیں جو مردم سازی اور رجال کاری میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں. انہیں مس خام کو کندن بنانا آتا ہے. اسلم رحمانی کے قلم کار بننے میں ان کی حوصلہ افزائی، تربیت اور محنت کا بڑا حصہ ہے۔
اسلم رحمانی کے کام کا دائرہ وسیع ہے، وہ صحافی ہیں اور مضمون نگار بھی، ملی کاموں میں بھی سرگرم رہتے ہیں، جوان ہیں، خون گرم ہے، اس لئے کوئی بات انہیں غلط معلوم ہوتی ہے تو اس کا برملا اظہار کرتے ہیں، اس معاملہ میں انہیں لَومَۃِ لائم کی پرواہ نہیں ہوتی یہ سنی سنائی نہیں. بعض موقعوں پر میرا مشاہدہ ہے. ایسے آدمی کو منافقت نہیں آتی یہ ان کی شخصیت کا ایجابی پہلو ہے. اس وجہ سے ان کی ذات کم عمری ہی میں شخصیت کے عناصر ترکیبی کے حصول کے ساتھ تشکیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
”نقوش ادب“ ان کے ادبی،تجزیاتی، تنقیدی، اور تاریخی مضامین کا مجموعہ ہے. اب کتابیں نہیں لکھی جاتیں، مضامین کے مجموعے ہی کثرت سے شائع ہورہے ہیں. نقوش ادب بھی مضامین کا ایک مجموعہ اور اسلم رحمانی کی پہلی کاوش ہے. جس میں شعروادب کے حوالے سے کچھ بڑے اور بعض گمنام لوگوں پر بھی انہوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔
ولی دکنی، محمد رفیع سودا، میر درد، میر تقی میر، محمد ابراہیم ذوق،مومن، محمد حسین آزاد، علامہ شبلی نعمانی، علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، جگرمرادآبادی،پطرس بخاری، ماہر القادری، منور رانا،منظر اعجاز اور امام اعظم وغیرہ علم و ادب کے اساطین ہیں. ان سب میں سے کئی کی شہرت عالمگیر اور کئی کی ملک گیر ہے. اسلم رحمانی نے ان حضرات کی اردو زبان و ادب میں خدمات اور ان کی فکری و فنی پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ جن شعراء کے یہاں شعر میں تصوف کی آمیزش ہے اور جنہوں نے تصوف کے نظریات کو شعری سانچے میں ڈھالا ہے،ان کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے اس امتیاز کو بھی انہوں نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے. تصوف اور اس کی اہمیت پر بھی اس فن کے حوالے سے گفتگو کی ہے، البتہ تصوف ایک بحر ناپیدا کنار ہے، اس لیے (خَيْرُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ) اچھی بات مختصر اور مدلل ہوتی ہے کو سامنے رکھا ہے. شعراء اور ادبا پر لکھے ان مضامین کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قاری کو ان مضامین کو پڑھتے وقت تکرار کا احساس نہیں ہوتا ہے،بات کو مدلل کرنے کے لیے مضامین میں اقتباسات نقل کا رواج زمانہ قدیم سے ہے. اب مقالہ نگار حضرات طول دینے کے لیے بھی طویل اقتباسات نقل کرنے لگے ہیں،جس سے مضمون اور مقالہ کی ضخامت تو بڑھ جاتی ہے،لیکن قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس میں اقتباس کے علاوہ مضمون نگار کا اپنا کیا ہے. کبھی کبھی تو خوردبین سے مضمون نگار کی آراء تک رسائی نہیں ہوتی. کیوں کہ وہ محبوبہ کی کمر کی طرح موہوم اور فرضی ہوا کرتا ہے۔
صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جاری روش سے ہٹ کر اسلم رحمانی نے اقتباسات کم لیے ہیں، جس قدر ضرورت تھی اسی پر اکتفا کیا ہے. اس سے قارئین کو بوریت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا. علامہ اقبال پر کئی مضامین اس مجموعہ میں شامل ہیں، فکر اقبال اور قرآن مجید، اقبال کی شخصیت کا تجزیاتی مطالعہ اور ڈاکٹر منظر اعجاز کو اقبال شناس کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، انہوں نے کلام اقبال کا ماخذ قرآن مجید کو قرار دیا ہے،اور اس کے حوالے سے کئی ذیلی عناوین مثلا خانۂ کعبہ مرکز ہدایت، دعوت تدبیر، درس تغیر، ترغیب پیام اتحاد، حسن اخلاق قائم کرکے قرآن و احادیث کی روشنی میں ان موضوعات کو سمجھایا ہے اور پھر اقبال کے اشعار نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبال کے ان اشعار کا ماخذ قرآن مجید ہے۔
کتاب کے دوسرے باب میں شخصیات پر اسلم رحمانی نے قلم اٹھایا ہے. ان میں مجاہد آزادی وارث علی، تعلیمی انقلاب کے بانی سید امداد علی، محمد جمیل ایڈووکیٹ، مولانا شفیع احمد اصلاحی، مولانا نور عالم خلیل امینی، حافظ محمد شمیم جامعی کی شخصیت، خدمات کا جو ذکر خیر کیا ہے اور جو سراپا کھینچا ہے. وہ ان کی زندگی کوہمارے سامنے مجسم کردیتا ہے،ان میں کئی وہ ہیں، جن سے میرے مراسم رہے ہیں اور مختلف موقعوں سے یہ دونوں ایک دوسرے کو برتا ہے، مثال کے طور پر مرحوم مولانا نور عالم خلیل امینی، مولانا شفیع احمد اصلاحی اور مولوی محمد جمیل ایڈووکیٹ رحم اللہ کے ساتھ میری مجالس رہی ہیں، اور ان حضرات کو قریب سے دیکھنے کا سمجھنے کا موقع ملا ہے،لیکن اسلم رحمانی نے ان کے تذکرے میں بعض ایسے گوشوں کی طرف رہنمائی کی ہے جو عام طور پر ہم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔
تسیرا باب متفرقات ہے، اس میں پانچ مضامین شامل ہیں، آئینۂ مظفرپور، اردو شاعری کی پرورش و پرداخت میں شعرائے مظفرپور کا کردار، تحریک آزادی میں اردو شاعری کا کردار، اردو شاعری میں عید جیسے عنوانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فہرست کے اعتبار سے یہ کتاب تین ہی باب پر ختم ہورہی ہے، لیکن ایک چوتھا باب تعارف و تبصرہ کا بھی ہونا چاہیے، جس میں دو مضامین انوارالحسن وسطوی کی تصنیف ” آتی ہے ان کی یاد” "مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی شخصیت اور خدمات۔ایک تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ، ثالث کا عالمی افسانہ اور سلور جبلی نمبر، ایک مطالعہ، امام الدین امام کی کتاب فکر و فہم، ایک مطالعہ کو شامل کرنا چاہیے، یہ مضامین کتاب میں شامل ہیں، لیکن باب کے ذیل میں نہیں ہیں، اور نہ ان کا اندراج فہرست میں ہوسکا ہے. ممکن ہے چھپتے چھپاتے اس کی ترتیب میرے مشورے کے مطابق ہو جائے۔
میں علم و ادب کے خوشہ چیں کی حیثیت سے "نقوش ادب” کا علمی دنیا میں استقبال کرتا ہوں اور اسلم رحمانی کےلئے نیک خواہشات کے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں کرتا ہوں، اللہ کرے کے ان کا قلم اسی طرح رواں دواں رہے، ان کے پاس قوت اخذ بھی ہے اور طاقت عطا بھی۔
٭٭٭