نکاح ؛خوش حالی کا مؤثر ترین ذریعہ !!!

معاذ حیدر کلکتوی

(١) نکاح پر وعدۂ قرآنی:

اسلام کے عفیفانہ نظام کا ایک اہم عنصر ” نکاح” ہے ، اس کی ترویج میں عفت و عصمت کی تعمیم مضمر ہے، اس پر عمل کرنے میں وسعتِ رزق کا وعدہ ہے،جیسا کہ قرآن میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

"إن يكونوا فقراء يعنهم الله من فضله” [ النور : ٣٢]

(٢) اِس باب میں حضور پر نور -علیہ السلام- کا طرزِ عمل:

(١) ایک اہم مسئلہ ہمیں یہ درپیش ہوتا ہے کہ نکاح کی ضرورت تو دامن گیر رہتی ہے ، مگر وسعت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا غیر شرعی متبادِل بلا خوف و خطر اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم- نے نکاح کو سببِ رزق قرار دیا ہے۔

نکاح ؛خوش حالی کا مؤثر ترین ذریعہ !!!
نکاح ؛خوش حالی کا مؤثر ترین ذریعہ !!!

أخرج الثعلبي والديلمي عن ابن عباس – رضي الله تعالى عنها – أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال : التمسوا الرزق بالنظام "

(روح المعاني للآلوسي : ٣٤٣/٩ ، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

ترجمہ : ابن عباس -رضی اللہ عنہما- سے مروی ہے کے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تی : "نکاح کے ذریعہ روزی تلاش کرو”.

(٢) ایک موقع پر آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- سے ایک نوجوان نے اپنی زبوں حالی کی شکایت کی تو آپ -علیہ السلام- نے اسے نکاح کرنے کا حکم دیا

أخرج الخطيب في تاريخه عن جابر – رضي الثر عنه – قال : ” جاء رجل إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – يشكو إليه الفاقة فأمره أن يتزوّج "

(روح المعاني للآلوسي : ٢٤٣/٩)

(۳) حضرت عائشہ -رضي الله عنها– کی کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں روزی میں بڑھوتری کا سبب بنتا ہیں:

روى البزار والخطيب والدارقطني من حديث عائشة – رضي الله عنها – قالت : قال رسول اللہ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم – : "تزوجوا النساء فإنه يأتين بالمال”

(التفسير المظهري للشيخ ثناء الله: ٦/ ٥١١، مكتبة الرشيدية، پاکستان)

ترجمہ : حضرت عائشة -رضي الله عنها- فرماتی ہیں کہ حضور اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا : عورتوں سے نکاح کرو، اس لیے کہ وہ روزی کا سبب بنتی ہیں۔

(٣) ایک مرتبہ آپ -علیہ السلام- نے ایک انتہائی خستہ حال شخص کا نکاح کروا دیا جس کے پاس صحیح سے کپڑا نہیں تھا ، اور نہ ہی مہر کی ادائیگی کا مستطیع تھا۔

آپ نے اس کا مہر یہ قرار دیا ہے وہ اپنی بیوی کو قرآن کی تعلیم دیں ، جیب کے مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے :

روى الإمام أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه وقد زوج النبي – صلى الله عليه وسلم – ذلك الرجل الذي لم يجد عليه إلا إزاره ، ولم يقدر على خاتم من حديد، ومع هذا فزوجه بتلك المرأة ، وجعل صداقها عليه أن يعلمها ما معه من القرآن، والمعهود من كرم الله تعالٰی ولطفه أن يرزقه ما فيه كفاية لها وله . (التفسير لابن كثير : ٤٨/٦ ، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

(٣) صحابۂ اکرام – رضوان اللہ علیہم اجمعین- کے اقوال :

(١)قال ابن أبي حاتم : حدثنا أبي ، حدثنا محمود بن خالد الأزرق ، حدثنا عمر بن عبد العزيز ، قال : بلغني أن أبا بكر الصديق – رضي الله عنه – قال : ” أطيعوا الله فيما أمركم به من النكاح ينجز لكم ما وعد كم من العنى ، قال تعالى : "إن يكونوا فقراء يعينهم الله من فضله "

(التفسير لابن كثير : ٤٧/٦ – ٤٨ ، ط: دار الكتب العلمية ، بيروت )

"حضرت ابو بكر صديق – رضي الله عنہ- نے فرمایا : تم نکاح کر کے اللہ کی اطاعت کر لو ، اللہ تعالٰی اپنی تونگری کا وعدہ پورا فرمادیں گے، اس کے بعد آپ نے آیت "إن يكونوا فقراء يعنهم الله من فضله” تلاوت فرمائی” ۔

(۲)قال عمر – رضي الله عنه – : ” عجبني ممن لا يطلب الغني في النطاح وقد قال تعالى : إن يكونوا فقراء الخ ".

( التفسير للقرطبي : ١٢٥ / ٢٤١ ، ط: دار الكتب المصرية القاهرة )

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : مجھے تعجب اُن لوگوں پر جو نکاح میں اپنی مالداری و خوش حالی تلاش نہیں کرتے جب کہ اللہ کا فرمان ہے "اگر وہ فقیر ہیں تو نکاح کی برکت سے انھیں خوش حال کر دیں ہے” ۔

* أخرج عبد الرزاق وابن أبي شيبة في المصنف عن عمر بن الخطاب – رضي الله عنه – قال : ” ابتغوا الغنى في الباءة.

وفي لفظ : "ابتغوا الغنى في النظام، يقول الا تعالى : إن يكونوا فقراء الخ

(روح المعاني للآلوسي: ٣٤٣/٩ ، ط: دار الكتب العلمية ، بيروت )

ایک دوسری روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اس طرح نقل کی گیا ہے : "تم لوگ نکاح میں خوش حالی تلاش کرو، اس کے بعد انہوں نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔

(۳)قال ابن مسعود "التمسوا الغنى في النكاح، وتلا هذه الآية ” ( التفسير للقرطبي : ١٢ / ٢٤١، التفسير لابن كثير :٤٨/٦)

"فقیہِ اعظم حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نکاح میں خوش حالی تلاش کرو، اس کے بعدآپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔

(٤) عن ابن عباس – رضي الله عنهما – رغّبهم الله في التزويج ، وأمر به الأحرار والعبيد، ووعدهم عليه الغنى”

(التفسير لابن كثير : ٤٧/٦)

مفسر قرآن حضرت عبد الله بن عباس – رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے اس آیت میں لوگوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے ، آزاد و غلام کو اس بات کا حکم دیا ، اور اس پر خوش حالی کا وعدہ کیا ہے۔

(٤) مفسرین کرام کی صراحت:

موضوع سے متعلق حضرات مفسرین کی عبارتوں پر ترجمہ باندھ کر مندرجۂ ذیل سطور میں درج کیا جاتا ہے:

(١) فقر کی وجہ سے نکاح سے مت رُکو :

امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ "لا تمتنعوا عن التزويج بسبب فقر الرجل والمرأة”

( التفسير القرطبي: ١٢ / ٢٤١)

مرد و عورت کی تنگ دستی کی بنا پر ان کی شادی کروانے سے کروانے سے گریز مت کرو۔

(ب) مال کی کمی کو نکاح نہ کرنے کی علت نہیں بنایا جا سکتا :

دكتور وہبۃ زحیلی – رحمہ اللہ- نے اس امت کی ہوں تفسیر کی ہے کہ

"أزال الله التعلل بعدم وجران الحال ، فقال : ” إن يكونوا فقراء …. الخ ” هذا وعد بالمغنى للمتزوج ، فلا تنظروا إلى مشكلة الفقر ، سواء فقر الخاطب أو المخطوبة ، ففي فضل الله ما يغنبهم، والله غني ذو سعةٍ، لاتنفذ خزائنه، ولاحدّ لقدرته، عليم بأحوال خاقه، يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر على وفق الحكمة والمصلحة”

( التفسير المنير للزحيلي : ١٨ / ٢٣٢، ط: دار الفکر بیروت)

(ج) جب اولاد یا ما تحت نکاح کرنا چاہے تو گارجین ان کے فقر کو علت بنا کر انہیں نکاح سے نہ روکیں :

علامہ آلوسی – رحم الله – اس آیت کی مراد واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کے والمراد منھا، أي: من هذه الآية نهي الأولياء عن التعلل بفقرهم إذا استنكحوهم ” (روح المعاني الآلوسي : ٩ / ٣٤٤)

(د) خوش حال بنانے کا کیا مطلب ہے ؟ کیا نکاح کرتے ہی روزی کی بوچھار لگ جائے گی ؟

نکاح سببِ وسعت ہے ، بادی النظری میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوں ہی نکاح ہوا ویسے ہی اموال کی آمد شروع ! حالاں کے مطلب یہ نہیں ہے ، بلکہ نکاح کے بعد رزق راہیں اللہ کھولتے ہیں،اسی مضمون کو مفسر ابن عاشور – رحم اللہ ۔ نے بڑے انوکھے انداز میں ذکر کیا ہے :

” وإغناء الله إياهم توفيق ما يتعاطونه من أسباب الرزق التي اعتادوها مما يرتبط به سعيهم الخاص من مقارنة الأسباب العامة أو الخاصة رباحاً ” التي تفيد سعتهم نجاحاً وتجارتهم.”

( التحرير والتنوير لابن عاشور : ١٨ / ۲۱٧، ط: الدار التونسية تونس)

نکاح کے سبب وسعت ہونے پر منطقی دلیل :

حضرت امام آلوسی ۔رحمہ اللہ- نے اس پر عقلی و عرفی اعتبار سے کلام کیا ہے ، ذیل میں اُن کی عبارت ملاحظ ضہ فرمائیں:

(أ) "ولعنى الفقير إذا تزوج سبب عادي ، وهو مزيد اهتمامه في الكسب والجود القام في السعي حيث ابتلى بمن تلزمه نفقتها شرعاً وعرفاً” .

(ب) "و ينضم إلى ذلك مساعدة المرأة له وإعانتها إياه على أمر دنياه ، وهذا كثير في العرب وأهل القرى، فقد وجدنا فيهم من تكفيه امرأته امر معاشة ومعاشها بشغلها .”

(ج) "وقد ينضم إلى ذلك حصول أولاد له فيقوى أمر التساعد والتعاضد .”

(د) "وربما يكون للمرأة أقارب يحصل له منهم الإعانة بحسب مصاهرته إياهم ، ولا يوجد ذلك في العزب .”

(روح المعاني للآلوسي : ٣٤٣/٩ – ٣٤٤)

علامہ آلوسی -رحمہ اللہ- کی عبادت کا خلاصہ :

الف : فقیر کے مال دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے بعد پوری ذمہ داری سے تجارت کی مشغول اختیار کرتا ہے جس کی وجہ سے کامیابی ملتی ہے ۔

ب : بیوی بسا اوقات معاشی امور میں ساتھ دیتی ہے، اور اس کی مالیت سے شوہر کو نفع ہوتا ہے۔

ج : نکاح کے نتیجہ میں اولاد ہوتی ہے جو والد کا سہارا بنتی ہے ، اور اس کی ذمہ داریوں کے بار کو ہلکا کرتی ہے۔

د: بیوی کے اقرباء کا بھی تعاون رہتا ہے جس سے کچھ خفت ہو جاتی ہے ، یہ سہولت غیر شادی شدہ کو میسر نہیں آتی۔

(نوٹ: اس تحریر بے شمار پہلو ہیں جو ابھی تشنہ ہیں، خصوصاً فقہاۓ امت کی آراء ابھی ذکر نہیں کی گئ ہے، آئندہ إن شاء الله اس کو اور اس کے علاوہ دیگر گوشوں حوالۂ قرطاس کیا جاۓ گا)

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply