نیا سال ، پرانی یادیں

آج کا دن اہم ہوسکتا ہے کہ کل سے عیسوی سال کا آغاز ہو رہا ہے ، اہمیت تو ہجری سال کی ہی ہے ،اور ابتداء سال بھی اسی وقت سے سمجھتا ہوں ، محرم الحرام میں کئی سارے ارادے کیے، بلند عزائم کیے، نیکی میں آسمان چھونے والا حوصلہ کرلیا، خدا سے قربت کا پختہ عہد، مگر غور کرنے بیٹھا تو احساس ہوا کہ صرف ایک ہفتے تک ہی اس کا اثر دکھا تھا،پھر وہی ڈھاک کے تین پات ۔
اب پھر سے شمسی سال کی شروعات ہورہی ہے ، وہی نئے عزائم پرانی باتوں کے ساتھ ، وہی ولولہ کچھ اچھا کرنے کا ،اللّٰہ بس استقامت نصیب فرمائے ۔

پھر نیا سال نئی صبح ،نئی امیدیں 
اے خدا خیر کی خبروں کے اجالے رکھنا

گزشتہ پورا سال کیسا رہا، اس کو جاننا بہت ضروری ہے ، ذرا کھل کر، غیر جانبداری کے ساتھ پورے بارہ مہینے کی روداد لکھنے کی ضرورت ہے ، اور خوبیوں کو اپنانے اور کمیوں سے پیچھا چھڑانے کی ضرورت ہے ۔
گزشتہ جنوری کا آغاز ہوا تھا، جب ہم دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث شریف کے طالب علم تھے،اس سے گزشتہ سال ایک بڑے حادثے سے دوچار ہوا تھا، اسی کے زیر اثر نیا سال 2022ء شروع ہوا، ارادہ کیا تھا کہ ماضی کی اچھی یادوں کو ساتھ لے کر مستقبل کو روشن کریں گے، لیکن کچھ ہی دنوں بعد پول کھلی کہ ماضی سے مرتے دم تک چھٹکارا نہیں ، اچھی اور بری یادیں سب ہی زندگی کا انمول حصہ ہیں ، اور یہ مان کر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ، سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے ،جب بیتتے لمحوں کے ساتھ کچھ اپنے بھی پیچھے چھوٹ جائیں ، لوگوں کے لیے کہنا آسان ہوتا ہے کہ "ارے جو ہوگیا ،بھول جا، اب آگے بڑھ”مگر عملی طور پر اسے کرنے میں زندگی جہنم بن جاتی ہے ، پھر بھی چاروناچار زندگی کا ساتھ تو دینا ہی پڑتا ہے ، جینے کے لئے مرنا ہی پڑتا ہے ۔

یہ پورا سال مطالعہ کے اعتبار سے اچھا رہا، من چاہی کتابیں اور من پسند چیزیں خوب کیں، پورے سال ہی ڈائری لکھا ، یادوں کو سنجوگ کر لفظوں میں ڈھال کر اطمینان محسوس کرتا تھا ، ایک دن جب پرانی ڈائری پڑھنا شروع کیا تو دل خوش ہوگیا کہ زندگی میں اتنے خوبصورت لمحے آئے تھے، بس ڈائری کی خفیہ نویسی کو بے نقاب کرتے ہوئے اندیشہ اور بےنام سی الجھن میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔

خاص بات یہ ہے کہ جب تنہائی کو راز تنہائی کی نیت سے لکھتا ہوں،تو برآوازدل نہایت ہی عمدہ تحریر سامنے آتی ہے،لیکن جیسے ہی شیئر کرنےکا خیال آتا ہے،خیال کی آمد رک سی جاتی ہے۔ویسے بھی کئی وجہوں سے زیادہ تر ڈائری اپلوڈ کرنی بھی بند کردی۔
خیر سے:اس سال جتنا میں خود کو سمجھا، اتنا شاید ہی کبھی سمجھا تھا، اپنے بارے میں ہی کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا، کئی ساری چیزیں جو ارادہ اور سوچ تھی، اس سال پوری ہوتی دکھائی دی۔

بلکہ بظاہر بری ہونے والی چیزیں بھی اپنے ساتھ مسرت کا سامان لائی، لوگ کہتے ہیں کہ” اب تو تو ایسا بولے گا ہی”
لیکن میرا دل جانتا ہے کہ اس بار مجھے بھی یقین ہونے لگا کہ” اللّٰہ جو کرتا ہے اچھا کرتا ہے” اللّٰہ کی حکمتوں کو اس سے بہتر کون جان سکتا ہے ۔
لاشعوری سے لیکر شعور تک کا پورا سفر دارالعلوم میں طے کیا، اپنی بہن ،بھانجا بھانجی پاس میں تھے، پرانے دوستوں کی پوری ٹولی کے ساتھ سال بہ سال گزرتا چلا گیا ، اور جب بخاری کا آخری پرچہ دےکر باہر نکلا تو احساس ہوا کہ زندگی کے سب سے خوبصورت پل تھے،جو گزر گئے، مخلص دوستوں کی جماعت تھی، جو الگ راہوں پر چل پڑیں گی ۔

پھر اندازہ ہوا کہ دنیا میں ہرکوئی ایک مقام کے بعد جدا ہوجاتا ہے ، ایک مدت کے بعد الگ ہونا ہی فطرت کا اصول ہے ، بس ان کی یادیں اور باتیں زندگی بھر ساتھ رہ جاتی ہیں ۔
عقدہ کھلا کہ اب ذمہ داریوں کے دن آرہے ہیں ، اتنے دنوں تک کھلانے پلانے والے،ہماری ضروریات کا خیال رکھنے والے بوڑھے ہورہے ہیں ، اب ہمیں ان کے لئے کچھ کرنا ہے ، اور کرنا ہی پڑے گا ، اس سے گھبراہٹ بھی ہوئی، اور نئے سفر کی خوشی بھی ہوئی ، چند دوست ہی اب رابطے میں ہیں ، خیر خیریت کرلیتے ہیں ، ورنہ بہت سے دعوے دار زندگی کی الجھنوں میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں دوستوں کی یاد ہی نہیں آتی ،کہ بقول فیض احمد

"کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے۔

✍️: غالب شمس ۔
(غالب کی ڈائری سے)
7،جمادی الثانی /1444ھ—31دسمبر/2022ء__بروز سنیچر ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply