نیکیوں کا موسم بہار

مولانا رضوان احمد ندوی

آپ جس علاقہ، گاؤں یا شہر میں رہتے ہیں وہاں یقینا بہت سے ایسے ماہر طبیب اور حکیم کا مطب، کلنک بھی ہوگا، جس میں مریض کی ایک لمبی قطار ہوگی اور ڈاکٹروں کی تشخیص و علاج سے مریضوں کو فائدہ بھی پہونچ رہا ہوگا۔ حکیم کے اس کامیاب جسمانی علاج کی وجہ سے آپ کو ان کی تشخیص پر پورا اعتمادو بھروسہ اور یقین ہے کہ اگر ہم ان کی تشخیص پر عمل کریں گے تو جلد شفایاب ہو جائیں گے۔ اور ایسا ہوتا بھی ہے جب ڈاکٹر کسی مرض کے لئے کوئی دوا تجویز کرتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ پر ہیز بھی بتاتا ہے، مثلا نشہ آور گولیوں کے استعمال سے پرہیز کیا جائے، کھٹی تلخ اورمرغن غذا ئیں نہ کھائیں، دواؤں کے استعمال اور ممنوعات سے پر ہیز کرنے کے بعد مریض کی صحت اچھی ہونے لگتی ہے، اور وہ تندرست و توانا ہو جاتا ہے لیکن اگر ایک طبیب مریض کے لئے کوئی دوا تجویز کرتا ہے اور اس سے جس فائدے کے مرتب ہونے کی امید کرتا ہے وہ مرتب نہیں ہوتا ہے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ دواؤں کا استعمال صحیح نہیں کیا گیا یا تشخیص درست نہیں ہوئی، یہی حال ہمارے روزوں کا ہے کہ روزہ سے روحانی واخلاقی امراض سے شفا حاصل ہوتا ہے، اور وہ مادی زندگی میں توازن پیدا کرتا ہے، جس طرح مادی دوائیں مریض کی بے احتیاطی اور بد پر ہیزی سے زود اثر نہیں ہوئیں۔ روزے کی حالت میں بدگوئی، غیبت، اور چغل خوری، اور لایعنی باتوں سے روزے کے حقیقی اثرات اور روحانیت ختم ہو جاتے ہیں، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کتنے روزے دار ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک کے کچھ حاصل نہیں اور کتنے تہجد گذار و شب و بیدار ہیں جن کی نماز تہجد سے بیداری کے سوا کچھ فائدہ نہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے جسم نے روزہ رکھا لیکن دل نے روزہ نہیں رکھا، ان کی زبان پیاسی تھی لیکن دل پیاسا نہ تھا بہت افسوس کا مقام ہے کہ آج بہت سے روزے دار روزہ کاٹنے کے لئے موبائل پرگیم کھیلتے ہیں، وی سی آر اور ٹی دی پر فلموں کے دیکھنے کا پروگرام بناتے ہیں، وقت گذاری کے لئے ہنسی اور دل لگی کے لئے دوستوں کی محفلیں جماتے ہیں، لوگوں کی عیب جوئی کرتے ہیں، یہ وہ اعمال ہیں جن سے روزے کی روحانیت اور قلب و نظر کی تطہیر متاثر ہوتی ہیں، اور روزہ جو تادیب نفس اور خواہشات نفس کی طغیانی کو کم کرنے کیلئے رکھنے کا حکم ہے اس سے اس کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

مولانا عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں کہ روزہ جسم و روح کا قدرتی مصلح اور صحت بدنی و صحت اخلاقی دونوں کا ضامن ہے، ہم نے اپنی شامت و بدبختی سے اس کی یہ دونوں خوبیاں زائل و برباد کر دی ہیں، اول تو ایک بڑی آبادی سرے سے روزہ رکھتی ہی نہیں پھر جو روزہ دار ہوتے ہیں، وہ دن میں ہر قسم کی بد مزاجی اور چڑ چڑاہٹ کو روزہ کے عذر پر اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں اور افطار کے وقت سے لے کر سحری تک کھانے پینے کی ہر بے اعتدالی روا رکھتے ہیں، اس کا نام روزہ نہیں، روزہ دار کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ غیبت، حسد، غصہ طمع، ہرقسم کی اخلاقی گندگی سے اپنے تئیں پاک رکھے، غصہ اور اشتعال کے موقع پر بھی ضبط وتحمل سے کام لے، اور بد گوئی وسخت کلامی کے مقابلہ میں نرمی و فروتنی اختیار کرے، یہ روزہ روح کا ہوا، جسم کا روزہ یہ ہے کہ افطار کے بعد غذا میں افراط اور اسراف و سخت کلامی کے مقابلہ میں نرمی و فروتنی اختیار کرے، روزہ کی روح اور اس کی حکمتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے عالم اسلام کے ایک عظیم مفکر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ شریعت اسلامی نے روزہ کی ہیئت اور ظاہری شکل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روح کی طرف بھی پوری توجہ دی ہے۔ اس نے صرف کھانے پینے اور جنسی تعلقات ہی کو حرام نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے جو روزہ کے مقاصد کے منافی اور اس کی حکمتوں اور روحانی و اخلاقی فوائد کے لئے مضر ہے، اس نے روزہ کو ادب و تقوی دل اور زبان کی عفت و طہارت کے حصار میں گھیر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے نہ شور و شرابہ کرے، اگر کوئی اس کو گالی دے اور لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ا تواللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے، وہ روزہ جو تقوی اور عفاف کی روح سے خالی اور محرم ہو وہ ایک ایسی صورت ہے جس کی حقیقت نہیں، ایسا جسم ہے جس کی روح نہیں۔ (ارکان اربعہ ص 762)

روزہ ایک خاموش اور مخفی عبادت ہے جو ریا اور نمائش سے بری ہے دوسری عبادت نماز، حج، اور زکوۃ ادا کرنے والے کے ذہن و دماغ میں یہ تصور ہویا نہ ہوکم از کم دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص نمازی ہے، یہ حاجی ہے، سخی ہے مگر روزے میں صرف روزے دار اور خالق کائنات کے درمیان رابطہ تعلق رہتا ہے، اس لئے حدیث میں فرمایا: الصوم لی وانا اجزی بہ، روزہ صرف اللہ کے لئے ہے، اور اس کا بدلہ وہ خود دیں گے۔ نماز، حج، وغیرہ عبادتوں کا صلہ فرشتوں کے ذریعہ دلوائیں گے لیکن روزہ کا بدلہ خالق کائنات خود دیں گے، یا اس کا بدلہ خود اللہ ہوگا۔ کیوں کہ روزہ ایک آدمی کے اندر یہ اہلیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان دیکھے خدا کے حکم پر خدا کی حلال کی ہوئی غذاؤں سے ایک کو وقت متعین کے لئے اجتناب کرنا ہے، عبادت کی کوئی شکل ایسی نہیں ہے جس میں انسان کو صرف خدا کے حضور جواب دہ ہونے کا تصور اتنی شدت کے ساتھ دلایا جاتا ہو اس لئے قرآن پاک نے متعدد مقامات پر عالم آخرت میں جنت اور دائمی سکون کا ستحق متقیوں کو قرار دیا۔ اور روزہ انسان کے اندر یہی ملکہ پیدا کرتا ہے، روزہ قلب و نظر کو پاکیزگی اور اخلاص کی دولت عطا کرتا ہے، سال بھر کی لغزشیں اور گناہ مہینہ بھر کے روزوں سے دھل جاتے ہیں۔ روزہ کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ جس طرح روحانی گناہوں کے لئے کفارہ ہے اسی طرح ہمارے مادی جراثیم کے لئے دوا بھی ہے، طب کے تجربہ اور مشاہدے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں انسان کا بھوکا رہنا اس کی صحت کے لئے ضروری ہے۔

مختلف امراض جسمانی کا یہ قطعی علاج ہے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ہی کھانے پینے کو ترک کر دینے سے کیا جاتا ہے، اسی لئے حضور اکرم ﷺ نے ارشا در فرما یا صوموا تصحو ا روزہ رکھو کہ صحت مند رہو گے، جو مسلمان رمضان کے روزے رکھتے ہیں ان کو ذاتی طور پر تجربہ ہوگا کہ ایک ماہ کا روزہ کتنی بیماریوں کو دور کرتا ہے، روزہ کی ہی برکت ہے کہ اس سے روزہ دار کی مالی حالت بھی اچھی ہو جاتی ہے، صالح روح، صالح کردار، اچھی صحت اور اچھی زندگی پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ روزہ سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اس ماہ میں رب کریم اپنے بندوں کو ذاکر و شاغل تقدیس و تحمید اور غم خواری و مساوات کرتے دیکھنا چاہتا ہے بقول حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اگر کوئی محبوب یوں کہے کہ ہم کو تکتے رہو تو جو عاشق ہو گا وہ کبھی نہ کہے گا کہ کیا دو گے اس لئے علماء ومشائخ رمضان کی آمد سے اتنے خوش ہوتے ہیں کہ چھ مہینے سے ذکر کیا کرتے تھے کہ کب رمضان آئے گا، پھر رمضان آتا ہے تو وہ عبادت و تلاوت اور فیاضی و سخاوت کا دریا بہا دیتے تھے، اللہ رب العزت کے حضور روتے اور گڑگڑاتے اور مغفرت کے طلب گار ہوتے تھے،

افسوس ہے کہ آج ہم میں بکثرت لوگوں کی نگاہ میں رمضان کی وقعت شاید اتنی رہ گئی جتنی سونے وچاندی کی، ایک سادہ لوح معصوم بچے کی نظر میں ہوتی ہے ہم دنیاوی زرق و برق اور مادی و جھوٹی نمائش کے پیچھے اس قدر دوڑتے ہیں کہ رمضان کے انوار و برکات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی دنیاوی اغراض و نفس پرستی، دنیا طلبی سے بالاتر ہو کر خدا کو راضی کرنے اور اپنی آخرت کو بنانے کے لئے ثواب کی نیت سے رمضان کا اہتمام، تلاوت و عبادت سے ایک جوش و ولولہ اور ایک نئی نشاط پیدا کرے اور یہ ہم کہ سکیں کہ روزے نے ہمیں سچا مسلمان اور اچھا انسان بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply