وقف ایکٹ کی مجوزہ تر میمات ناقابل قبول
مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
مظفر پور ١٦اگست۔(پریس ریلیز) وقف ایکٹ کی مجوزہ ترمیمات واقف کی منشا کو تبدیل کرنے، اوقاف کی جائیداد کو سرکاری منصوبوں کے مطابق استعمال کرنے، وقف علی الاولاد اور زبانی وقف کردہ اراضی کو سرکاری تحویل میں لینے کی منظم کوشش ہے۔ ترمیمات جو پیش کی جارہی ہیں اس کی وجہ سے وقف بورڈ کی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی اور وہ کلکٹر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ جائےگا ۔ اسلیے یہ تر میمات ہمیں قطعاً منظور نہیں۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھاڑ کھنڈ کے نایب ناظم مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے اپنے بیان میں کیا۔ وہ مظفرپور کے زکریا کالونی کی جامع مسجد میں جمعہ سے قبل مسلمانوں کے بڑے اجتماع سے خطاب فر ما رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ وہ اوقاف کی جائیداد کا رپوریٹ گھرانوں کو دینے کے لیے راہ ہموار کر نا چاہتی ہے۔ اسکی منشا یہ بھی ہے کہ اوقاف کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے اس کی حیثیت عرفی کو ختم کیا جائے وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو نمائندگی دے کر وہ اپنی من مانی کے دروازے کھولنا چاہتی ہے، اس لیے وقف ایکٹ کی مجوزہ ترمیمات ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ اس بل کو واپس لے لے۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھی ان حالات کے پیش نظر بل کو واپس لینے کا حکومت کو مشورہ دینا چاہیے۔ مفتی صاحب نے عوام سے اپیل کی کہ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ اور امارت شرعیہ کی جانب سے جو رہنمائی ہو اس کے مطابق عمل کو تیار رہیں۔ اور اپنی مساجد قبرستان ، خانقاہ، مزارات اور مدارس کی اراضی کا جائزہ لیں کہ کہیں وہ بہار سرکار غیر مزروعہ عام تو ریونو رکارڈ میں درج نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تواس کی اصل حقیقت کے مطابق اندراج کرانے کے لیے تگ ودو کر نی چاہیے ۔ اسی طرح ہمارے لیے ان اراضی کے تحفظ کا نظم کرنا ممکن ہو سکے گا۔