وقف بورڈ کی 156 جائداد پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا ناجائز قبضہ

افروز عالم ساحل

کل جمعہ کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) بل کی جانچ کرنے والے پارلیمانی پینل کو بتایا کہ 130 سے ​​زیادہ تاریخی یادگاروں کو وقف بورڈ نے اپنا بتایا ہے۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے افسران کے ذریعہ دی گئی یہ جانکاری غلط ہے۔ 130 نہیں بلکہ یہ اعداد و شمار 156 ہے۔

وقف بورڈ کی 156 جائداد پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا ناجائز قبضہ
وقف بورڈ کی 156 جائداد پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا ناجائز قبضہ

سال 2020 میں دہلی وقف بورڈ نے مجھے آر ٹی آئی کے تحت بتایا تھا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے دہلی کے 156 وقف جائیدادوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ اس سے قبل سال 2010 میں دہلی وقف بورڈ نے آر ٹی آئی کے تحت مجھے 158 وقف جائیدادوں کی فہرست دی تھی، جس کے بارے میں وقف بورڈ کا کہنا تھا کہ ان جائیدادوں پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ وہیں سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں 172 وقف جائیدادوں کی فہرست دی ہے۔ سچر کمیٹی کے مطابق یہ تمام جائیدادیں وقف بورڈ کی ہیں جن پر محکمہ آثار قدیمہ نے اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔

غور طلب رہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے 156 جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے کی فہرست میں 38 مساجد کے نام بھی شامل ہیں۔ وہیں اس فہرست میں 16 قبرستان بھی شامل ہیں۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کو قبرستان میں کیا خاص نظر آیا جو اس کی وراثت کو بچانے میں لگ گئی۔ ان قبرستانوں و مساجد کے استعمال پر روک ہے۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے افسران نے جے پی سی کے سامنے دہلی کے جامع مسجد کا ذکرکیا، جبکہ ان کے ذریعہ ’ناجائز قبضوں‘ والی دہلی وقف بورڈ کی فہرست میں قطب مینار کیمپس (احاطہ) میں مسجد قوت الاسلام کے ساتھ ساتھ اس کے قریب موجود سلطان شمس الدین التوتمش، سلطان علاؤالدین خلجی اور امام ضامن کا مقبرہ بھی درج ہے۔ اس فہرست میں اس کیمپس کی قبرستان بھی درج ہے، جو 17 بیگہا سے زائد زمین پر واقع ہے۔ یہی نہیں، قطب مینار کے مشرقی دروازے سے لگے ایک دیگر مسجد پر بھی محکمہ آثار قدیمہ نے ’قبضہ‘ کر رکھا ہے۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ ملک میں بین الاقوامی و قومی اہمیت کی حامل تاریخی عمارتوں و یادگاروں کے تحفظ کی ذمہ داری آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے پہلے ہی محفوظ قرار دی گئیں عمارتوں کے تحفظ کے لئے ایک جامع پالیسی وضع کررکھی ہے۔ اس کا مقصد ملک کی تاریخی عمارتوں کو اچھی حالت میں برقرار رکھنا ہے۔ یعنی ماضی کی جو بھی وراثت ہیں، نشانیاں ہیں، ان کو ’ایز اٹ از‘ یعنی ویسے ہی برقرار رکھنا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ملک کی تاریخ سے روبرو ہوسکیں۔ لیکن محکمہ آثار قدیمہ پر ہمیشہ سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے تحفظ کے لئے جو مسلم وراثت کو لیا ہے، ان کا صحیح ڈھنگ سے تحفظ نہیں کر پارہی ہے۔

اگر بات قطب مینار کمپلیکس کی کریں تو ہمیشہ سے محکمہ آثار قدیمہ پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اس کیمپس میں موجود تاریخی عمارتوں میں اندرونی و بیرونی ڈیزائن کو خفیہ طور پر تبدیل کرکے اس کی بے حرمتی کر رہا ہے تاکہ ہندو دائیں بازو کے گروہوں کو موقع ملے اور وہ اسے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے، بلکہ موقع ملے تو آستھا کے نام پر وہ اس تاریخی عمارت کو مسمار کر اپنے نام کرلیں۔

میڈیا میں شائع رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ملک میں جب سے ہندو شدت پسند جماعتوں نے سر ابھارا ہے تب سے قدیم تاریخی مساجد پر پر ان کی بری نظر ہے۔ جس عہد میں یہ لوگ بابری مسجد کو منہدم کرنے کی تحریک چلارہے تھے، اس عہد میں قوت الاسلام مسجد پربھی نشانہ باندھا گیا تھا اور اچانک سے یہاں ایک مورتی برآمد کر لی گئی، جو ابھی بھی ایک دیوار پر نصب ہے اور اس پر لوہے کی جالی لگا دی گئی۔

اس تاریخی مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اگرکوئی نماز پڑھے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔ لیکن سال 2012 میں ہی یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ ہر اتوار کی صبح مسجد کے احاطے میں ہندو انتہا پسند تنظیم ’آر ایس ایس‘ کے کارکنان کا پنچایت لگتا ہے۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ویسے تو قطب مینار کیمپس میں آنے کے لئے ٹکٹ لگتا ہے، لیکن اس پنچایت میں شامل ہونے والے لوگوں کو کسی طرح کی کوئی اجازت یا ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ غور طلب رہے کہ تب دہلی کی اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply