وقف کی حقیقت اورمجوزہ وقف ترمیمی بل
شمیم اکرم رحمانی
وقف کے لغوی معنی یوں تو رکنے اور ٹھہرنے کے ہیں لیکن اصطلاح میں لفظ وقف موقوف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور اس کی جمع اوقاف ہے جس کا مطلب ہے وقف شدہ چیزیں۔ فقہائے اسلام نے وقف کی مختلف الفاظ میں تعریفیں کی ہیں جن کے مفہوم میں بڑی حد تک یکسانیت ہے۔ فقہائے احناف کے درمیان وقف کی تعریف میں گرچہ کچھ اختلاف ہے تاہم وہ قول جو فی الواقع قابل ترجیح اور احناف کا موقف ہے وہ صاحبین (امام ابویوسف اور امام محمد رحمھما اللہ) کا قول ہے، جس کے مطابق ’’وقف کسی شے کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت کے حکم پر اس طرح روکنے کا نام ہے کہ اس شے کے منافع عام لوگوں کو مل سکیں‘‘( الدر مع الرد ۶ /۵۱۹)
اب ظاہر ہے کہ وقف کے نتیجے میں وقف شدہ چیزیں جب براہ راست اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہیں تووقف کرنے والے کے لیے اس وقف شدہ شے میں کوئی ایسا تصرف جائز نہیں رہتا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ واقف تاحال اس مال کا مالک ہے، اسی لیے فقہائے اسلام نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ وقف شدہ چیز کو وقف کرنے والاشخص نہ بیچ سکتا ہے، نہ خرید سکتا ہے، اور نہ ہی ہبہ کرسکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وقف شدہ شے سے واقف ہر طرح سے بے تعلق اور دستبردار ہوجاتا ہے، سچائی تو یہ ہے وقف کے بعد گرچہ مال موقوف سے واقف کامالکانہ حق ختم ہوجاتا ہے لیکن ایک ایسا روحانی رشتہ قائم ہوتا ہے جس میں قیامت تک اس کے مخلصانہ منشا کی رعایت کی جاتی ہے، اسی لیے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مال موقوف کا استعمال منشائے واقف کے خلاف نہیں ہوسکتا ہے ۔ وقف کے احکام میں واقف کے منشاکی رعایت کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں تاہم سب سے اہم وجہ خالق کائنات کی طرف سے واقف کی دلجوئی ہے جس پر غور کرنے سے وقف کی خصوصی اہمیت کابھی اندازہ ہوتاہے۔
اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ تمام مذاہب میں خلق خدا کی امداد کی ترغیب موجود ہے، لیکن اس حقیقت کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ مذہب اسلام نے خلق خدا کی دادرسی کے نظام کو جس طرح مستحکم، منظم اور منضبط کیا ہے اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں پیش کی جاسکتی ہے، خواہ وہ صدقات اور زکوۃ کا نظام ہو یا اوقاف کا، یہ بات صحیح ہے کہ وقف کا نظام بھی زکوٰۃ وصدقات کے نظام کی طرح ہی خدا کی راہ میں خرچ کرنے اور خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کی ایک موثرتدبیرہے لیکن عام صدقات کے نظام میں اور وقف کے نظام میں تھوڑاسافرق بھی ہے، وہ یہ ہے کہ عام صدقات میں جس شخص کو صدقہ کا مال دیاجاتا ہے وہ اس مال کا مالک ہوجاتا ہے لیکن وقف میں کوئی انسان وقف شدہ شے کا مالک نہیں ہوتاہے صرف اس لیے کہ براہ راست خداتعالیٰ اس وقف شدہ مال کا مالک ہوجاتا ہے۔
اوقاف کے پورے نظام پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقف کا نظام اسلام کے پیش کردہ فلاح دارین کے جامع تصور کا روشن اور اہم باب ہے، جس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، میرا خیال ہے کہ دنیا کا کوئی نظام خلق خدا کے لیے وقف کے نظام سے زیادہ سود مند بننے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے، غالبا اسی لیے وقف کے نظام کو اسلام کے مالیاتی نظام میں بنیادی اہمیت اور عالمگیر حیثیت حاصل ہے ، روایات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عہد رسالت ہی میں اس مقدس سلسلہ پر بہت مضبوطی سے عمل شروع ہوگیا تھا، تاریخ اسلام کا سب سے پہلا وقف خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف جہاں مسجد قباکے لیے زمین وقف کرکے اس مقدس سلسلے کا آغاز فرمایا تو دوسری طرف ایک یہودی سے ملنے والے ان سات باغات کو بھی وقف فرمایا جسے اسلام میں سب سے پہلا وقف خیری کہلانے کا اعزاز حاصل ہے ،بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں متعدد صحابہ کرام نے بھی بیش قیمت جائیدادیں اور اثاثے وقف کرنے شروع کردیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے اس بہترین عمل کے اثرات جستہ جستہ پوری دنیا میں ظاہر ہوئے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے تمام ادوار میں مسلمان جہاں کہیں بھی رہے، اللہ رب العزت کی رضا کے لیے کثرت سے جائدادیں وقف کرتے رہے ، اسی لیے اوقاف کا نظام پوری دنیا میں موجود ہے اور مختلف طرح کی رخنہ اندازیوں کے باوجود ملت کے وسیع تر مفاد میں کام کررہا ہے۔
اگر ہندوستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی وقف کا سلسلہ شروع ہوا جو تمام ادوار میں جاری رہا اور اس کی وجہ سے ایک طرف جہاں بہت سے کمزور طبقات خودکفیل ہوتے رہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد علوم و فنون سے آراستہ ہوتی رہی اور اصحاب علم و فضل کی کفالت کا بڑی حدتک نظم بھی ہوتا رہا لیکن جب ملک پرانگریزوں کا قبضہ ہوا تو اس کی وجہ سے دیگر نظام کے ساتھ ساتھ اوقاف کانظام بھی متاثر ہوا، برطانوی حکومت نے بہت سی وقف شدہ جائدادیں اپنی تحویل میں لے لیں جس کے اثرات عام لوگوں پر اس طرح پڑے کہ انہوں نے بھی وقف شدہ جائدادوں کو ہڑپنا شروع کردیا اور پھر بڑے پیمانے پر وقف شدہ جائیدادوں پر غاصبانہ قبضہ ہونے لگا، جس کے بعد اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ قانون سازی کی راہ سے تحفظ اوقاف کا مطالبہ کیا جائے چنانچہ ملک میں تحفظ اوقاف کے لیے قانون سازی کا مطالبہ شروع ہوا اور1923 ء میں مسلم وقف ایکٹ نافذہواجس سے گرچہ بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوا لیکن باضابطہ اوقاف کے تحفظ کی ایک راہ ضرور نظرا ٓگئی اسی لیے جب ملک آزاد ہوا تو آزادی کے محض 6سالوں کے بعد 1953ء میں نیا وقف ایکٹ منظور ہوا۔ لیکن یہ ایکٹ بھی ناکافی ہی تھا اس لیے ترمیمات کے بعد 1995ء میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ 1995ء کو منظور کیا، گویا کہ آزادی کے بعد اوقاف کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بنے لیکن ان قوانین اور ترمیمات سے توقع کے مطابق نتائج برآمد نہیں ہوسکے، لہٰذا آخری بار 2013ء میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، مسلم مجلس مشاورت کے ساتھ ساتھ دوسری ملی تنظیموں کے تعاون اور بورڈ کے اس وقت کے سیکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی دلچسپی اورانتھک جدوجہد کے بعد وقف ایکٹ میں مزید ترمیمات ہوئیں اور بہت سی خامیوں کو دور کیاگیا۔
اب موجودہ حکومت وقف بورڈ کے پرانے قانون میں سوسے زائدترمیمات کرناچاہتی ہے جس کے لیے اس نے مورخہ 8؍اگست 2024ء کو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جو منظور نہیں ہوسکا بلکہ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے حوالے ہوا،اور فی الوقت بل وہیں ہے، بظاہر بل کے منظورہونے کی گرچہ بہت زیادہ امیدنہیں ہے لیکن حکومت کے پاس اور بھی چور دروازے ہیں جن کے واسطے سے وہ بل منظور کروانے کی کوشش کرسکتی ہے، مجھے معلوم نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، چاہے جو ہولیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے لیے بے انتہا نقصاندہ ہے، بل کے مسودے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے مجوزہ وقف ترمیمی بل میں وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی پوری کوشش کی ہے اور ایسی ترمیمات لانے کی خواہاں ہے جو نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہیں بلکہ وقف کے مقاصداور واقف کی منشامتاثر کرتی ہیں، خواہ وقف بورڈ میں مسلمان چیف ایگزیکٹو آفیسر کی شرط کو ختم کرنے تجویز ہو، کم از کم دو غیر مسلم ممبران کو ریاستی حکومت کے ذریعہ تعینات کرنے کی سفارش ہو، زبانی وقف کے تسلیم نہ کرنے کی بات ہو، وقف بائی یوز کو ختم کرنے کی گفتگو ہو، وقف کی جائیداد کے طے کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد اختیارات ضلع کلکٹر کو سپرد کرنے کا معاملہ ہو، وقف علی الاولاد کی صورت میں سلسلہ وراثت کے ختم ہونے کے بعد اوقاف کی آمدنی میں مرکزی حکومت کی دخل اندازی کی راہ صاف کرنے کی جرأت ہو یا واقف کے لیے گزشتہ پانچ سال اسلام پر عمل کی مضحکہ خیز شرط، کوئی ایک تجویز بھی وقف کی جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرنے والی نہیں ہے ،اگرپورے بل میں کہیں ایک آدھ تجویز معقول اور مناسب بھی ہے تو دیگر نا معقول اور نامناسب تجویزوں کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے،بل میںخواتین کو وقف ٹریبونل میں جگہ دینے کی بات بھی کم عجیب نہیں ہے، اسلئے کہ وقف ٹریبونل میں خواتین کی گنجائش پہلے کے قانون میںموجود ہے ۔ ، مجموعی طور پر یہ بل اوقاف کی حیثیت کو بدلنے والا ، وقف بورڈ کی اہمیت کم کرنے والا اور واقف کی بجائے حکومت کی منشا کے مطابق کام کرنے والا ہے، اگر یہ منظور ہوا تو نہ صرف ملک بھر میں پھیلی ہوئی وقف جائیدادوں کا تحفظ خطرے میں پڑجائے گا اور کئی خانقاہوں ،درگاہوں ،امام باڑوں ،مسجدوں کے وقف کی حیثیت شک کے دائرے میں آجائے گی بلکہ تنازعات کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہوگا،جس سے ملک کی جمہوریت کو مزید خطرات لاحق ہوں گے۔
یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے سمجھنے میں دشواری ہو، نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے کی طرح غلط ارادوں کو یہاں اشاروں میں بیان نہیں کیا گیا ہے،بلکہ صراحت کے ساتھ سب کچھ لکھاگیا ہے ۔ بل کے مسودے کا مطالعہ کرکے کوئی بھی سمجھدار انسان ان حقائق کو سمجھ سکتا ہے، حکومت اور اس کی حلیف جماعتیں بل کی حمایت میں خوش کن الفاظ کا استعمال ضرور کررہی ہیں لیکن بل کا مسودہ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ دال میں کالا نہیں ہے، پوری دال کالی ہے ۔حیرت ہے مرکزی وزیرِ قانون کرن رجیجو نے بل کے دفاع میں یہاں تک کہا ہے کہ یہ بل حقوق سے محروم لوگوں کو حقوق دینے کے لیے لایاگیاہے لیکن شاید وہ بالقصد بھول گئے کہ اوقاف کی جائیدادوں کا مصرف طے کرنے کا ان کے پاس کوئی حق ہی نہیں ہے، صرف اسلئے نہیں کہ وہ جائیدادیں حکومت کی دی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ وقف خالص شریعت کا معاملہ ہے جس کے احکام، مصالح اور مسائل طے ہیں جن سے مسلمان کبھی دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر حکومت کا کچھ کام ہے تو بس اتنا کہ وقف کی جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں، ناجائز قبضوں کو چھڑائیں اور وقف کی آمدنی کو بڑھاکراسے واقف کی منشا کے مطابق خرچ کریں، وقف ایکٹ 2013 کی ترمیمات پر عمل کریں، آخراس ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی، سیاسی اور معاشی حالات کی تشویشناکیوں سے کون ناواقف ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت مسلمانوں کے حالات کو درست کرنے کی تدابیر پر غور کرتی لیکن افسوسناک بلکہ شرمناک بات ہے کہ حکومت مسلمانوں کو کچھ دینے کی بجائے مسلمانوں سے ہی کچھ لینا چاہتی ہے،اگر حکومت کی نیت صاف ہے اور اوقاف کی جائیدادوں کے تحفظ کی انہیں فکربھی ہے توسیدھی سی بات ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈنے 2013میںجومزیدترمیمات کی سفارش کی تھی،اور وہ کانگریس کی مہربانیوں سے سفارشات بل کاحصہ نہیں بن سکی تھیں،انہیں نافذکرے۔اس کے علاوہ دہلی کی 123وقف کی جائیدادوں کومکمل طورپروقف بورڈکے حوالہ کرے،لیکن ظاہر ہے حکومت ان دونوں کاموں کو نہیں کرے گی لہٰذا مسلم لیڈران کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپسی اتحاد و اتفاق کے ساتھ بہت ہی بیدار مغزی سے حالات کا مقابلہ کریں ، ممکن ہوسکے تو مسلم پرسنل لاء بورڈ2013 میںمنظور نہیں ہونے والی سفارشات کاپوری ہوش مندی کے ساتھ مسودہ تیارکرکے جے پی سی کوسونپ دے کہ اور حکومت سے مطالبہ کرے کہ اگرترمیمی بل پیش کرناہے توتمام قابل اعتراض عناصرکوہٹاکر،ان ترمیمات کوشامل کیاجائے۔یہ صحیح ہے کہ وقف ترمیمی بل کے حوالے سے مسلم پرسنل لا بورڈ، امارت شرعیہ اوردیگراہم ملی تنظیموں کا کردار متوازن اور مناسب رہاہے لیکن معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر مزید بہتراقدامات پرغوروخوض کرنا ہوگا، کیوں کہ اگر مسلمان آزاد بھارت میں اپنے آباؤاجدادکے ورثے کو بچا نہیں سکیں گے تو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام کیا پیدا کرسکیں گے؟
چھُپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردُوں نے
عنادِل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں