پانچ سوسالہ قدیم مقبرے کی بے حرمتی
معصوم مرادآبادی
اگر سرکاری مشنری آپ کے ساتھ ہے تو آپ ایک پانچ سو سالہ قدیم تاریخی مقبرے کے آثار مٹاکر اس میں اپنا دفتر قایم کرسکتے ہیں ، لیکن اگر یہی مشنری آپ کی مخالف ہے تو آپ اس مقبرے کے باہر کھڑے ہوکر فاتحہ خوانی بھی نہیں کرسکتے ۔ یہ کوئی افسانہ طرازی نہیں،بلکہ ایک واقعہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے سخت ایکشن لیا ہے۔
جنوبی دہلی کی ڈیفنس کالونی میں یوں تو بہت مہنگی کوٹھیاں ہیں اور ان کوٹھیوں میں ان سے زیادہ مہنگے لوگ رہتے ہیں، لیکن ان ’غریبوں‘ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اپنی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے دفتر کے لیے کوئی جگہ خرید سکیں، لہٰذا انھوں نے اس کام کے لیے وہاں موجود لودھی عہد کے ایک پانچ سوسالہ قدیم مقبرے پر قبضہ کرکے پہلے اس کے آثار مٹائے اور پھر اس میں اپنا دفتر قایم کرلیا۔ کئی بار اس ناجائز قبضے کی خبریں اخباروں میں بھی آئیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی، یہاں تک کہ اس محکمہ آثار قدیمہ کے کانوں پر بھی نہیں، جو دہلی میں تمام تاریخی عمارتوں کے رکھ رکھاؤ پر مامور ہے۔ یہ وہی محکمہ آثار قدیمہ ہے جو دہلی کی تاریخی مسجدوں میں محض اس لیے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا کہ نمازی ان کی ہیئت تبدیل کردیں گے، مگر وہ ایک مہنگی کالونی کے مکینوں کو اس بات کی کھلی اجازت دیتا ہے کہ وہ ایک قدیم تاریخی مقبرے کا تالا توڑ کر وہاں موجود قبر کو مسمار کرکے مقبرے پر قبضہ کرلیں اور اپنا دفتر چلانے کے لیے اس کا حلیہ بگاڑ دیں۔ واضح رہے کہ دہلی میں مسلم عہد حکومت کی ایسی ایک ہزار عمارتیں محکمہ آثارقدیمہ کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں اب تک نابود ہوچکی ہیں۔
جی ہاں یہ داستان جنوبی دہلی کی ڈیفنس کالونی میں واقع شیخ علی کے مقبرے کی ہے، جو پانچ سوسالہ قدیم ہے، مگر محکمہ آثار قدیمہ کو اس کی تاریخی حیثیت سے کوئی سروکار نہیں ۔ نہ ہی آس پاس کے مسلمانوں کو اپنی مٹتی ہوئی تاریخ اور تہذیب سے کچھ لینا دینا ہے، کیونکہ وہ اس سے زیادہ ضروری کاموں میں مشغول ہیں۔ اسی لیے اس مقبرے پر ناجائز قبضے کے خلاف عدالت کا دورازہ کھٹکھٹانے والے شخص کا نام راجیو سوری ہے۔ انھوں نے پہلے اس معاملے میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، جب وہاں ان کی نہیں سنی گئی تو وہ سپریم کورٹ گئے، جہاں سے انھیں انصاف ملنے کی پوری امید ہے۔ سپریم کورٹ نے مقبرے پر ناجائز قبضہ کرنے والی ڈیفنس کالونی ویلفیئر ایسوسی ایشن کو ایسی پھٹکار لگائی ہے کہ اگر اس کے کرتا دھرتا غیرت دار ہوتے تو چلّو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔
جولوگ دہلی کی قدیم تاریخ اورتہذیب سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے یہ خبر زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ یہاں آئے دن ایسا ہوتا رہتا ہے۔ان عمارتوں کی دیکھ بھال اور اصل ہیئت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری جس محکمہ آثار قدیمہ کو سونپی گئی ہے، اس کے ذمہ داران ہی ان عمارتوں کو "غلامی کی نشانیاں” تصور کرتے ہیں اور یہی ان عمارتوں سے ان کے سلوک کا پیمانہ بھی ہے۔ راقم کو ان تاریخی عمارتوں سے ہمیشہ ایک لگاؤ رہا ہے۔ خاص طور پر دہلی میں موجود ان مسجدوں اورمقبروں سے جن کی تعمیرمسلم حکمرانوں نے بڑے چاؤ سے کرائی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ ان مسجدوں اور مقبروں پر تو نظر رکھتا ہے جہاں سیاحوں کو تانتا بندھا رہتا ہے اورجہاں سے اسے موٹی کمائی ہوتی ہے۔ دہلی کے ان مقبروں میں سب سے حسین مقبرہ مغل بادشاہ ہمایوں کا ہے جس کی تعمیر تاج محل کے طرز پر کی گئی ہے۔یہاں ہروقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اس لیے اس کی دیکھ بھال بھی خوب کی جاتی ہے۔ بھلاہو آغاخان فاؤنڈیشن کا،جس نے ہمایوں کے مقبرے اور اس کے آس پاس کے تاریخی آثاروں کی جدید کاری اور مرمت پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا ہے۔ آغا خان فاؤنڈیشن اگر بروقت یہ کام نہیں کرتا تو اب تک ان میں سے بھی کئی آثار زمیں دوز ہوچکے ہوتے۔
المیہ یہ بھی یہ ہے دہلی کے قلعوں اور مقبروں کے ارد گرد موجود قدیم مسجدوں میں کسی مسلمان کو سجدہ ریز ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ یہاں ٹکٹ لے کر داخل ہونے والے عیش پرست جوڑوں کو جوتوں سمیت مسجدوں میں داخل ہوکر فحش حرکتیں اور بوس وکنار کی کھلی اجازت ہے۔ان میں سب سے تکلیف دہ صورتحال پرانے قلعہ میں موجود مسجد قلعہ کہنہ کی ہے، جسے1451 میں شیرشاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا۔ اپنے طرزتعمیر اور خوبصورتی کے اعتبار سے منفرد اس مسجد میں سیاحوں کو کھلے عام جوتوں سمیت گھومتے پھرتے اور اس کے کونوں میں بوس وکنار کرتے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان یہاں نمازپڑھنے کی جرات کرلے تو اس’سنگین جرم‘ کی پاداش میں اسے جیل کی ہوا بھی کھانی پڑسکتی ہے کیونکہ ان قدیم تاریخی مسجدوں میں نمازکی اجازت نہیں ہے۔
مجھے اپنی صحافتی زندگی کے ابتدائی ایام کا وہ واقعہ یادہے جب سرکردہ مسلم قائدین نے جن میں سید شہاب الدین، ابراہیم سلیمان سیٹھ اور مولانا سیداحمد ہاشمی جیسے لوگ شامل تھے، آنجہانی اندرا گاندھی سے ملاقات کرکے دہلی کی تاریخی مسجدوں میں نماز کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ملاقات کی تھی۔ ابتدائی حیل حجت کے بعد اندرا گاندھی ان میں سے بعض مسجدوں میں نماز جمعہ کی اجازت دینے پر راضی ہوگئی تھی۔ اس سلسلے میں محکمہ آثار قدیمہ اور مسلم قائدین کے درمیان1980 میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا، جس کے تحت چنندہ مسجدوں میں نماز جمعہ کی اجازت دی گئی تھی، ان میں مسجدابوالمنصور بھی شامل تھی، جو صفدر جنگ مقبرے میں واقع ہے۔اس مسجد میں نمازجمعہ کے لیے مولانا نواب الدین نقشبندی ہر جمعہ کو چٹائیاں اور وضوکا سازوسامان لے کر وہاں جاتے اور نمازجمعہ ادا کراتے تھے، درمیان میں پولیس نے کئی بار رکاوٹیں بھی ڈالیں مگر وہ تاحیات یہ کام کرتے رہے مگر ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ بھی گیا۔جن دیگر تاریخی مسجدوں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت دی گئی تھی، وہاں بھی یہی حال ہوا۔پچھلے دنوں نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے مہرولی میں قطب مینار کے نزدیک ایک مسجد میں تالا ڈال دیا تھا جہاں برسوں سے پنج وقتہ نماز ہورہی تھی۔مسجدوں اور مقبروں کے ساتھ محکمہ آثار قدیمہ اور سرکاری مشنری جو سوتیلا سلوک کررہی ہے، اس کی بدترن مثال ڈیفنس کالونی میں واقع شیخ علی کا مقبرہ ہے جس پر سپریم کورٹ نے ویلفیئر ایسوسی ایشن کوزبردست لتاڑ لگائی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ایسوسی ایشن سے جب یہ پوچھا کہ "تمہیں وہاں داخل ہونے کی ہمت کیسے ہوئی؟” تو ان کے وکیل نے کہا کہ "اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو سماج دشمن عناصر وہاں قبضہ کرلیتے۔” اس پر عدالت نے مزید سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ "یہ انگریز سامراج جیسی دلیل ہے کہ اگر ہم ہندوستان نہ آتے تو نہ جانے اس ملک کا کیا ہوتا۔”
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سی بی آئی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔سی بی آئی نے بھی اپنی رپورٹ میں محکمہ آثار قدیمہ کو اس کے لیے موردالزام ٹھہرایا۔ سی بی آئی نے جسٹس احسن الدین امان اللہ اور جسٹس سدھانشودھولیا کی بنچ کو یہ بھی بتایا کہ ” نئی دہلی میونسپل کارپوریشن اس مقبرے کے اردگرد شاپنگ پلازہ اور کثیرمنزلہ پارکنگ تعمیر کرنے کی سازش کررہی ہے۔”
یہ ہے مسلم عہد حکومت کی تعمیرشدہ تاریخی عمارتوں کے ساتھ محکمہ آثار قدیمہ اور سرکاری مشنری کے سوتیلے سلوک کا ایک منظر، جو مسلمانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کے سلوک کے عین مطابق ہے۔