پاپولر میرٹھی کی ” یادوں کے دریچے”
معصوم مرادآبادی
پاپولر میرٹھی موجودہ عہد میں طنز ومزاح کے سب سے مقبول شاعر ہیں۔ ان کا اصل نام ڈاکٹرسید اعجاز الدین شاہ ہے، لیکن مشاعروں کی دنیا میں وہ پاپولر میرٹھی کے نام سے’پاپولر‘ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ جب انھوں نے اپنا تخلص رکھا تھا تو انھیں اس بات کا اندازہ تھا بھی یا نہیں کہ وہ ان کے اصل نام سے زیادہ ’پاپولر‘ ہوجائے گا۔ ’پاپولر‘کا اردو ترجمہ مقبول ہوتا ہے اور معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصرمزاحیہ شاعروں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ میرے نزدیک ان کی مقبولیت کا ایک اور پیمانہ ہے اور وہ ہے ان کی شخصیت کا انکسار۔ جو لوگ ذاتی طور پران سے واقف ہیں، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ عالمی مقبولیت حاصل کرنے کے باوجود ان کے ہاں جو عاجزی اور انکساری ہے، وہ کم ہی شاعروں میں نظر آتی ہے۔ میں ایسے کئی شاعروں سے واقف ہوں جو معمولی شہرت کو بھی ہضم نہیں کرپائے اور ان کا رشتہ زمین سے کٹ گیا۔میں برسوں سے پاپولر میرٹھی کی شخصیت کا مطالعہ کررہا ہوں مگر مجھے ان کے اندر کبھی کوئی نرگسیت نظر نہیں آئی۔ یہی ان کی سربلندی کا اصل راز بھی ہے۔
پاپولر میرٹھی طنز ومزاح کے شاعر کے طورپر صحیح معنوں میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ حالانکہ عالمی شہرت یافتہ شاعر کی اصطلاح اب ان معنوں میں بے معنی ہوچکی ہے کہ ایسے شاعر بھی خود کو ’عالمی شہرت یافتہ‘ لکھنے لگے ہیں جنھیں ان کے پڑوسی بھی نہیں جانتے۔مگر اس معاملے میں پاپولر میرٹھی واقعی اسم بامسمٰی ہیں۔انھوں نے دنیا کے ہر اس خطے میں مشاعرے پڑھے ہیں جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ یوروپ امریکہ کے علاوہ خلیجی ملکوں میں بھی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ہے۔وہ اب تک دنیا کے تقریباً پچاس ملکوں میں دس ہزار سے زائد مشاعرے پڑھ چکے ہیں۔ان کی موجودگی کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔وہ دھیمے انداز میں اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اسٹیج پرنمودار ہوتے ہیں اور سامعین کے ذہن وشعور پر چھا جاتے ہیں۔ میں برسوں سے انھیں سن رہا ہوں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری کی طرح جوان ہیں اور طبعی طورپر میری طرح ایک معصوم اور بے ضرر انسان بھی۔ یوں ان سے ملاقاتیں کم ہوتی ہیں، لیکن اکثر فون پر گفتگو ہوجاتی ہے۔ ہر بار یونہی محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی معصوم بچے سے ہم کلام ہوں۔میرے اور ان کے درمیان برادرانہ مراسم ہیں۔
ایک دن انھوں نے مجھے فون کرکے جب یہ بتایا کہ ان کے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کامجموعہ شائع ہونے والا ہے تو سچ پوچھئے مجھے ان پر یقین نہیں آیا۔شاعروں میں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے نثر میں نام کمایا ہو۔ اس سلسلہ میں دوچار نام ہی ایسے ہیں جنھیں مثال کے طورپر پیش کیا جاسکتا۔ پہلا نام جون ایلیا کا ہے جنھوں نے اپنے پہلے مجموعہ کلام ”شاید“ کے ابتدائی صفحات میں ’نیازمندانہ‘ کے عنوان سے اپنی جو آپ بیتی لکھی ہے، اسے پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ شاعر اچھے ہیں یا نثر نگار؟ یہی تاثرممتاز شاعر ملک زادہ منظور احمد کی خودنوشت ’رقص شرر‘ پڑھ کر بھی ابھرتا ہے۔بہرحال یہاں مجھے پاپولر میرٹھی کے مضامین کے مجموعہ ”یادوں کے دریچے“ پر گفتگو کرنی ہے، جو انھوں نے اشاعت کے فوراً بعد ہی مجھے بھیج دیا تھا۔اس مجموعہ کے سرورق پر اعجاز بھائی کی وہی ہنستی اور مسکراتی تصویر ہے جو ان کی اصل پہچان ہے۔ انھوں نے نثر کی طرف پیش قدمی کرنے سے قبل جن مزاحیہ اور سنجیدہ ادیبوں کا مطالعہ کیا ہے، ان میں فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، پطرس بخاری،عطاء الحق قاسمی اور انتظارحسین کے نام قابل ذکر ہیں۔ لیکن انھوں نے مزاح نگاری میں سب سے زیادہ اثر مشتاق احمدیوسفی کا قبول کیا ہے اور وہی ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ انشائیہ نگار اور ادیب ہیں۔ان مایہ ناز ادیبوں کی تحریروں نے ہی دراصل پاپولر میرٹھی کو نثر لکھنے پر آمادہ کیا۔انھوں نے سماج کے ایسے کرداروں کو اپنی تحریروں کا محور بنایا، جو ہمارے ارد گرد سفر کرتے ہیں، لیکن عام طورپر کسی مضمون کا عنوان نہیں بن پاتے۔پاپولر میرٹھی اس قسم کے مضامین کئی برس سے لکھ رہے ہیں اور یہ اردو کے معروف ومقبول جرائد میں شائع ہوکر مقبول عام ہوچکے ہیں۔ ان کے پہلے انشائیے کا عنوان تھا ”عبدالشکور“ جو مشہور مزاح نگار ڈاکٹر فیاض احمد فیضی کو بہت پسند آیا۔ اپنے پسندیدہ مزاح نگار کی داد پاکر ان کے حوصلوں کو پر لگ گئے اور بقول خود اڑان کے لیے ایک کھلا آسمان مل گیا۔ان ہی مضامین کا مجموعہ ”یادوں کے دریچے“ کے عنوان سے ہمارے روبرو ہے۔ ان مضامین کی ترتیب اور نوک پلک درست کرنے میں بھی ڈاکٹر فیاض احمد فیضی کا بڑا ہاتھ ہے۔اس کتاب کا مقدمہ بھی ڈاکٹر فیاض احمد فیضی نے ہی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”دلّی کی چند عجیب ہستیاں“ کے ٹھیک 81 برس بعد ممتاز مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی کی تحریر کردہ کتاب ”یادوں کے دریچے“ شائع ہوکر آپ کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔اس کتاب کا نام ”میرٹھ کی چند عجیب ہستیاں“ بھی ہوسکتا تھا مگر مصنف ادبی اور شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنی کتاب کا نام بھی شاعرانہ رکھا ہے۔ اس کتاب میں 22خاکے یا خاکہ نما مضامین اور چار متفرق مضامین ایسے ہیں جن پر خاکے کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا۔ ان چار متفرق مضامین میں ایک مصنف کے دوست مزاح نگار کی دریا دلی اور ان کی دل کے مرض کی داستان ہے۔ دوسرا ایک خواب کی شکل میں فنتاسی ہے جس میں مرزا غالب کی صدارت میں مشاعرہ برپا گیا ہے۔تیسرا جدید شاعری کی اہمیت پر ایک تمثیل ہے اور چوتھا مصنف کے کالج کے زمانے کے ایک مشاعرے کی روداد ہے۔“(ص13)
پاپولر میرٹھی نے اپنی کتاب میں جن 22 لوگوں کے خاکے لکھے ہیں، وہ سبھی میرٹھ کے باسی ہیں۔ ان میں بہت سارے کردار زندگی کی ناکامیوں سے شکست خوردہ اور اپنے آپ کو نئی تہذیب کی تیز رفتاری سے ہم آہنگ نہ کرپانے کے سبب وقتی کامیابیوں کے لیے غلط راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان میں سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگ بھی ہیں اور وہ بھی جو سماج کو اپنی ٹھوکر پر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کرداروں میں ’ملا ارسلان‘، ’بتولن بی عرف بتو باجی‘،’اقبال لنگڑا‘، ’نیتاجی‘،’لپک جھپک آسمانی‘جیسے انوکھے کردار ہیں۔ ان کے ایک مضمون کا عنوا ن ہے ”پھپھوند یونیورسٹی کا ادبی سیمینار“۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
”صدر شعبہ اردو ڈاکٹر گل شیر پھپھوندوی آئے دن شعبہ اردو میں کوئی نہ کوئی حماقت یا ادبی کارنامہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ سیمینار کی سبھی تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں۔ اس ادبی سیمینار میں دہلی اور قرب وجوار کے شاعروں اور ادیبوں کو بھی دعوت دی گئی تھی جن کا ہمارے اردو ادب میں کہنے کو کوئی خاص مقام تو نہیں ہے، پھر بھی یہ سب اردو کے سفیر پھپھوند یونیورسٹی کے ادبی سیمینار میں بغیر ناز نخرے بن بلائے شریک ہوئے تھے۔ ان کے نام پر سیمینار کے صدر ڈاکٹر گل شیر پھپھوندی نے بہت سی فعال انجمنوں کے اردو سے نابلد افراد سے ایک موٹی رقم بھی وصول کی تھی۔“(ص 164)
اس اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاپولر میرٹھی اپنی مزاحیہ شاعری کی طرح اپنے طنزیہ اور مزاحیہ انشائیوں میں ان کرداروں کو ضابطہ تحریر میں لائے ہیں جو سماج میں خرابیاں پیدا کرنے کے ذمہ دارہیں اور ادب کے نام پر اپنی دکانیں چلانے میں مہارت رکھتے ہیں۔اس کتاب میں پاپولر میرٹھی آپ کو ایک نئے انداز میں نظر آئیں گے۔ان کے مزاحیہ خاکے آپ کے ذہن وشعور میں نئی تازگی پیدا کریں گے۔یوں تو اب تک ان کی سات کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں مگر اس تازہ کتاب کا رنگ ہی کچھ اور ہے۔ان کے اس قطعہ پر مضمون تمام کرتاہوں
میں ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دے
چاقو مت دے مرے ہاتھوں میں قلم رہنے دے
میں تو شاعر ہوں مرادل ہے بہت ہی نازک
میں پٹاخے سے ہی مرجاؤں گا، بم رہنے دے