پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( قسط ہشتم )

طلحہ نعمت ندوی

مولاناسید رضا کریم۔

مولانا سید رضا کریم بن حافظ حفیظ الکریم ممتاز عالم ومدرس تھے۔۱۳۴۵ ھ میں کونند ضلع نالندہ میں ان کی ولادت ہوئی ،پھر والد کے ساتھ استھاواں منتقل ہوگئے ۔ابتدائی تعلیم مدرسہ محمدیہ استھاواں اور اعلی تعلیم مدرسہ عزیزیہ بہارشریف میں حاصل کی اور تکمیل کی ،اس کے بعد کچھ عرصہ امارت شرعیہ میں گذار کر مدرسہ محمدیہ آگئے اور پوری زندگی یہیں تدریسی خدمت انجام دیتے رہے۔ایک طویل مدت تک مدرسہ کے صدر مدرس بھی رہے۔ممتاز عالم وکامیاب مدرس تھے۔آثارالسنن علامہ شوق نیموی کی ایک اردو شرح توضیح السنن لکھی تھی جو شائع نہیں ہوسکی۔مولانا نے۳مارچ ۲۰۱۴مطابق یکم جمادی الاولی۱۴۳۵ھ میں استھاواں ہی میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے کتابچہ حضرت مولانا سید رضاکریم از مولانا حشمت علی مطبوعہ استھاواں)

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

پروفیسر معراج الحق برق

پروفیسر معراج الحق برق کے والد کا نام حکیم عبداللہ تھا،آبائی وطن بیند بلاک کے قریب میرا چک تھا ،وہیں ولادت ہوئی ،پھر آٹھ سال کی عمر میں استھاواں منتقل ہوگئے ،اور یہیں مدرسہ محمدیہ میں پوری تعلیم مکمل کی جہاں ان کے والد استادتھے،یہیں کے اساتذہ سے انگریزی بھی سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کی ،۱۹۶۰ میں انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا ،اس کے بعد دربھنگہ کے ایک پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی ،پھر انہوں نے وہیں رہتے ہوئے ایم اے کی سند حاصل کی ،اور آر ڈی ایس کالج مظفر پور میں اردو ،فارسی کے استاد مقرر ہوئے ،پھر مظفر پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ،اور وہیں تدریسی خدمت انجام دے کر سبکدوش ہوئے ،وہ اردو فارسی اور انگریزی زبانوں پر عالمانہ نظر رکھتےتھے ،اردو میں شاعری بھی کرتےتھے۔۲دسمبر ۲۰۲۲ مطابق ۸جمادی الثانی ۱۴۴۴ھ کو اپنے صاحبزادے کی قیام گاہ پربھاگل پور میں وفات پائی اور تدفین اگلے دن مظفر پور میں ہوئی ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ،یادوں کے چراغ جلد پنجم، از مفتی ثناء الہدی قاسمی،نیز خود ان کا مضمون یاد ماضی عذاب ہے یا رب غیر مطبوعہ)

سید عمر دراز

سید عمردراز بن سید انوار الحسن کاآبائی وطن دیسنہ تھا لیکن قیام بہارشریف میں رہا ،۲اکتوبر۱۹۵۵ کو ولادت ہوئی ،بہارشریف میں تعلیم کے مراحل طے ہوئے،میٹرک تک تعلیم حاصل کی،پھر دائرہ مسجد محلہ بارہ دری بہارشریف میں موذن رہے ،اچھے شاعر اورنظم نگار تھے ،ایک مجموعہ چراغ راہ شائع ہوچکا ہے۔اواخرجولائی ۲۰۲۳ء۔۔محرم الحرام ۱۴۴۵ھ وفات پائی۔(حالات کے لئے دیکھئے ان کا شعری مجموعہ چراغ راہ)

پروفیسرنسیم اختر

نسیم اختر صدیقی کے والد کا نام ابوالمکارم تھا ،قدیم پورچندوارہ (نزد استھاواںوچشتی پور)آبائی وطن تھا ،وہاں ۱۷اپریل ۱۹۳۶ کو ان کی ولادت ہوئی،تقسیم ہند کے فساد کے بعد گھر کے لوگ بہارشریف میں سکونت پذیر ہوگئے تھے ،ابتدائی تعلیم ٹاؤن اسکول بہارشریف میں اور اعلی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی ،وہاں سے سائنس میں گریجویشن کی ڈگری لی ،بمبئی کے سینٹ زیورس کالج سے انجینرنگ کی بھی تعلیم حاصل کی لیکن سند نہیں لے سکے ،پھر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ میں سائنس کے استاد کی حیثیث سے ان کی تقرری ہوئی ،اورتقریبا تیس سال گذارکر وہاں سے سبکدوش ہوئے ،اور وہاں طلبہ کے نگراں بھی رہے ۔تبلیغ ودعوت سے شروع سے تعلق رہا۔کچھ علمی ذوق بھی تھا ،زبان بہت شستہ اور حافظہ بہت قوی تھا۔سبکدوشی کے بعد بہارشریف ہی میں اپنے گھر میں مقیم ہوگئے ،اور وہیں ۱۱رجب ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۲فروری ۲۰۲۴ بروز جمعرات وفات پائی اور گنگن دیوان قبرستان میں دفن ہوئے۔ایک رسالہ نسیم خزاں قلمی یادگار ہے۔علماء اور ادباء اور اہل سیاست سب سے وسیع روابط اور اچھے مراسم تھے۔

مولانا ارشد القادری

مولانا ارشد القادری معروف عالم ومقرر تھے ،والد کا نام سراج الحق تھا ،اسی لئے ان کا نام محمد انظار الحق رکھا گیا ،اگاواں(بہارشریف)آبائی وطن تھا ،دارالعلوم ندوۃ العلماء میں قرآن پاک حفظ کیا ،اور لکھنؤ ہی میں قرائت وتجوید کی بھی مشق کرکے سند حاصل کی ،اس کے بعد بقیہ تعلیم جمشید پور کے ایک مدرسہ میں حاصل کی ،اس کے بعد بنگال سے طب یونانی کی سند حاصل کی ،پھر امامت وخطابت میں مصروف ہوگئے ،کلکتہ میں چند سال ایک مسجد میں امامت کی ،اس کے بعد نوادہ میں مقیم ہوگئے اور بچیوں کا ایک مدرسہ قائم کیا ،اسکول میں تدریسی خدمت بھی انجام دی ،شاید سیاست سے بھی وابستہ رہے ،مقالات قادری کے نام مضامین کا ایک مجموعہ یادگار ہے ۔۱۴دسمبر ۲۰۱۲مطابق ۳۰ محرم الحرام ۱۴۳۴ھ کو نوادہ ہی میں وفات پائی ۔(مزید دیکھئے نقوش حیات از شکیل استھانوی)

نجم الہدیٰ گیلانی

نجم الہدیٰ گیلانی کا آبائی وطن گیلانی تھا ،والد کا نام ضمیر الحسن تھا،معروف وممتاز شاعر تھے ،گیلانی میں پیدا ہوئے ،کلکتہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ،ایم اے کی تعلیم کے دوران ہی ان کو تاریخ کےپروفیسر کی حیثیت سے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد بلایا گیا لیکن وہاں چند سال رہ کر پٹنہ واپس آگئے اور وکالت شروع کردی ،اور ساتھ ہی سیاست میں بھی حصہ لینے لگے ،ہندوستانی کمیٹی کے بھی صوبہ کے آفس سکریٹر ی رہے ،تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے ۔اور وہاں ایک مدت گذار کر ۲۰ فروری ۱۹۸۵مطابق ۳۰ جمادی الاول ۱۴۰۵ھ کو کراچی میں وفات پائی ۔اشعار کا بڑا ذخیرہ ان کی یادگار ہے۔(حالات کے لئے دیکھئے ،ان سے ملیے از مظفر گیلانی،ص ۷۴ پٹنہ)

پروفیسرمصطفیٰ کریم ندوی

مولانا مصطفیٰ کریم بن احمدکریم ندوی دیسنوی ممتاز عالم تھے،دیسنہ میں۱۹۰۱ ء میں ولادت ہوئی ،ابتداسے اخیر تک پوری تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حاصل کی ،پھرپٹنہ کالجیٹ سےہائی اسکول کیا ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سائنس کی اعلی تعلیم حاصل کی ،اور نباتات میں گریجویشن کیا ،اس کے بعد سمستی پور کے ایک ریسرچ سینٹر پوسا میں اپنے فن اختصاص میں تحقیق کرتے رہے ،پھر متھلا کالج دربھنگہ میں علم نباتات کے استاد ہوگئے ،اور طویل مدت کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور اپنے وطن دیسنہ واپس آگئے ،علم ومطالعہ ان کا امتیاز تھا ۔اصول کے بڑے پابند تھے ۔۱۹۹۸ مطابق ۱۴۱۸ھ میں بہارشریف میں وفات پائی اور محلہ محل پر دفن ہوئے۔(راقم نے ان کے تفصیلی حالات لکھے ہیں،دیکھئے ہفتہ وار نقیب پھلواری شریف مارچ ۲۰۱۹۔یہ مضمون سوشل میڈیا پر بھی ہے)

مولانا عون احمد قادری

مولانا عون احمد قادری پٹنہ کے معروف وجید عالم ومصنف تھے ۔پھلواری شریف کے خانقاہ مجیبیہ سے خاندانی تعلق تھا ،والد حضرت شاہ نظام الدین قادری تھے ،۲۰ رجب ۱۳۴۰ھ(۱۹۲۱)میں پھلواری ہی میں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم وتربیت والد سے حاصل کی ،اس کے بعد مولانا محمد شریف اعظمی سے ان کے وطن مبارک پوراور الہ آباد میں تعلیم حاصل کی ،اس کے علاوہ فرنگی محل لکھنؤ اور مدرسہ معینیہ اجمیر جہاں جہاں مولانا اعظمی رہے وہ ان کے ساتھ رہے ،اور وہاں کے بزرگوں سے بھی استفادہ کیا ،اجمیر ہی میں ۱۳۶۲ ھ میں تعلیم کی تکمیل ہوئی ۔اس کے بعد وطن واپس ہوئے اور امارت شرعیہ میں نائب قاضی ہوئے ،پھر مستقل قاضی مقرر ہوگئے ،اس کے ساتھ خانقاہ مجیبیہ میں درس بھی دیتے رہے ،جمعیت علماء کے صدر صوبہ بھی رہے ،اور ملک کے ملی وقومی تحریکات میں بھی پیش پیش رہے ۔اہم کتابوں میں حیات محی الملت اور حیات انبیاء اور متعدد علمی یادگاریں اور باقیات ہیں۔مقالات کی بھی بڑی تعداد ہے ،پوری زندگی قومی وملی کاموںمیں گذار کر ۸ ذی الحجہ ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۶اپریل ۱۹۹۸ء کو وفات پائی اور خانقاہ مجیبیہ کے قبرستان میں اپنے بزرگوں کے قدموں میں دفن ہوئے۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے ،المجیب ،جنوری۔۔مارچ ۲۰۲۰)

سید عبدالرافع

پٹنہ کےمعروف صحافی ،باوقارمفکر وتجزیہ نگار سید عبدالرافع بن ابومحمد کی ولادت اپریل۱۹۴۰ میں محلہ صادق پور پٹنہ میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں اور پٹنہ اور کھڑگ پور میں حاصل کی ،وہیں سے انہوں نے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کامیابی کے ساتھ پاس کئے ،پھر آسنسول کالج سے ۱۹۵۹میں گریجویشن مکمل کیا ،پھر کچھ دنوں کلکتہ میں رہے ،وہیں انہوں نے ایک اخبار سے وابستہ ہوکر اخبار نویسی سیکھی ،اس کے بعد وہ پٹنہ آگئے اوراخبار صدائے عام سے وابستہ ہوگئے ،اس کے بعد جب قومی آواز نکلا تو اس سے وابستہ ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے چیف سب ایڈیٹر ہوئے ،اور ۱۹۹۱ میں اس اخبار کے بند ہونے تک اس سے وابستہ رہے پھر مشہور اخبار قومی تنظیم نے ان کی خدمات حاصل کیں،اور انہوں نے اس اخبار کو عروج پرپہنچایا ،اسی دوران امارت شرعیہ کے ترجمان ہفتہ وار نقیب کی ادارت کے لئے بھی ان کی خدمات حاصل کی گئیں ،اور وہ زندگی کے آخری دن ان دونوں اخبارات سے وابستہ رہے۔وہ اردو کے معروف صحافی ،اور بہت سی خصوصیات کے حامل تھے ۔اسی کے ساتھ بڑے باقار ،سنجیدہ اور وضع دار انسان تھے ۔ان کی صحافتی خدمات کے پیش نظر ان کی زندگی ہی میں ان کا اعتراف کیا گیا تھا اور ان پر مضامین کا ایک مجموعہ شائع ہوا تھا ،ان کے وفات کے بعد مزید تحریریں سامنے آئیں ۔۲۱ دسمبر ۲۰۱۵ مطابق ۱۰ربیع الاول ۱۴۳۷ھ کو انہوں نے پٹنہ میں وفات پائی(مزید دیکھئے سید عبدالرافع ،دیٹ لائن سے آگے،حق پسند صحافی عبدالرافع از اشر ف استھانوی،پٹنہ۲۰۱۷)

مولانا عتیق الرحمن قاسمی

مولانا عتیق الرحمن بن حقیق معروف عالم دین تھے ،نیا بھوجپور ضلع بکسر آبائی وطن تھا،۲۶ فروری ۱۹۴۴کو مکامہ ضلع پٹنہ میں پیدا ئش ہوئی جہاں ان کے والد ریلوے محکمہ میں تھے ،ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی ،اس کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم مؤ میں تعلیم حاصل کی پھر دارالعلوم دیوبند میں تکمیل کی ،پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ایک دو سال پڑھا ،پھر لکھنؤ یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کی سند حاصل اور پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ،اس کے بعد خدابخش لائبریری میں بحال ہوئے اور طویل مدت تک خدمت کی ،شعبہ مخطوطات کے ذمہ دار بھی رہے ،علامہ شوق نیموی پر ان کا کام اہم ہے ،اس کے علاوہ انہوں نے دسیوں اہم کتابیں اور مقالات لکھے ،اردو اور عربی دونوں زبانوں میں ان کی تحریریں ہیں ،فارسی ،انگریز ی اور ہندی پر بھی قدرت تھی ۔ملک کے علمی سیمیناروں میں بھی شرکت کرتے رہے ۔انہوں نے اپنی خود نوشت بھی نقوش حیات کے نام سے لکھی ہے ،جس سےان کے حالات اور تصانیف کا علم ہوسکتا ہے ۔۲۲جمادی الاولی۱۴۴۶ھ مطابق۲۵نومبر ۲۰۲۴ کوپٹنہ ہی میں وفات پائی اور شاہ گنج قبرستان میں دفن ہوئے ۔

اسرار جامعی

پٹنہ کے مشہورشاعراسرار جامعی کا پورا نام سید محمد اسرارالحق اور والد کا نام سید ولی الحق شاہوبیگہوی تھا،۱۲جولائی ۱۹۳۸ میں اپنی نانہال نظام پور ضلع گیا میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم جامعہ ملیہ دہلی میں ہوئی ،پھر پٹنہ آگئے ،چند سال گذارنے کے بعد رانچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کا امتحان دیا ،اس کے بعد سے مستقل پٹنہ ہی میں مقیم ہوگئے اور شاعری میں شہرت حاصل کی ،مشاعروں کے کامیاب شاعرتھے ،چند سال دہلی میں بھی گذارے۔ان کے دومجموعے طنز پارے اور شاعر اعظم شائع ہوچکے ہیں ،اور اہل فن سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں ۔۴اپریل ۲۰۲۰مطابق ۸شعبان ۱۴۴۱ھ کو وفات پائی۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے ،بہار کی بہار ،ص ۵۰،نیز ان کا م مجموعہ کلام شاعر اعظم)

شاہ مراد اللہ منیری ندوی

مولانا شاہ مراد اللہ منیری ندوی معروف عالم ومصنف تھے ،ان کے والد شاہ فضل کبیر فردوسی خانقا ہ منیر پٹنہ کے سجادہ نشیں تھے ،وہیں ۱۳محرم ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۱۷ کو ان کی ولادت ہوئی ۔متوسطات کی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی پھر ایک سال مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور کئی سال تعلیم حاصل کرکے سند فراغت حاصل کی ،وہاں سے عالمیت کی تکمیل کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ میں فضیلت کے لئے داخلہ لیا،اور ۱۹۴۶ میں ممتاز المحدثین کی سند حاصل کی ،۱۹۵۰ میں ہائی اسکول میں تدریسی خدمت کے تقرری ہوئی ،منیر ہائی اسکول اور شاہ پور ہائی اسکول میں طویل مدت تک تدریسی خدمت کے بعد ۱۹۸۶ میں اس خدمت سے سبکدوش ہوئے،وہ اچھے مصنف اور اردو کے شاعر بھی تھے ،ان کی مشہور کتاب آثار منیر ہے ،۶مئی ۱۹۹۴مطابق۲۴ذی قعدہ ۱۴۱۴ھ کو وفات پائی اور اپنی خانقاہ کے مقبرہ میں دفن ہوئے۔

عبداللہ ادیب بہاری

مولانا ابوالعلاءعبداللہ ادیب ممتاز عالم ومدرس تھے ،والد کا نام لیاقت حسین تھا ،موضع مولانا ڈیہ متصل راجگیر مولانا کا ابتدائی وطن ہے ،ابتدائی تعلیم مدرسہ عزیزیہ بہارشریف میں حاصل کی پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر وہاں کے علماء سے استفادہ کیا ،علامہ انور شاہ کشمیری سے خصوصی استفادہ کیا ،اور تعلیم کی تکمیل کی ،فراغت کے بعد پہلے مدرسہ وحیدیہ آرہ میں مدرس ہوئے پھر مدرسہ عزیزیہ بہارشریف میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے اور طویل مدت تدریس کے بعد وہیں سے سبکدوش ہوئے ۔علاقہ کے جید اور معروف عالم تھے ،علم البلاغت میں ایک رسالہ علمی یادگار ہے ۔۱۹۹۰ مطابق ۱۴۱۰ھ میں وفات پائی،اور بارہ دری بہارشریف کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(تذکرہ علمائے بہار)

مولانا ابوبکر قاسمی

مولانا محمد ابوبکر قاسمی بن وصی احمد ممتاز عالم تھے ،آبائی وطن محلہ سلیم پور بہارشریف تھا ،وہیں ۲دسمبر ۱۹۲۸ کو ان کی ولادت ہوئی ،اور متوسط درجات تک مدرسہ اسلامیہ بہارشریف اور دیگر اداروں میں پڑھا ،اس کے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر وہاں تعلیم کی تکمیل کی ،اس کے بعد پہلے مدرسہ قاسم العلوم حسینہ دوگھرا میں استاد ہوئےاس کے بعد مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تدریسی خدمت کا آغاز کیا اور طویل مدت تدریس کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔۲۷ فروری ۱۹۸۲ مطابق ۴جمادی الاولی ۱۴۰۲ھ کو وفات پائی اور سوہ ڈیہ قبرستان بہارشریف میں دفن ہوئے۔( تذکرہ علمائے بہار،مجلہ الشمس مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ ،ص۳۶۵ جلد اول)

مولانا طہ الہی فکری

مولانا طہ الہی فکری بن مولانا سید امیر الحق بن وحید الحق ،عالم وطبیب تھے ،آبائی وطن بھدول متصل ہلسہ (ضلع نالندہ)ہے ،ان کے والد بھی عالم وطبیب تھے ،۱۳۲۰ھ (۱۹۰۲)میں ان کی ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم اپنے دادا سے کسمر ضلع سارن (چھپرہ)میں حاصل کی ،پھر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں داخلہ لیا ،چند سالوں کے بعد آزاد سبحانی کے مدرسہ الہیات کانپور میں داخلہ لے کر انہیں سے علوم شرعیہ کی تکمیل کی ،۱۹۲۴میں مدرسہ حمیدیہ دربھنگہ میں استاد ہوئے ،پھر مدرسہ الہیات کانپور میں استاد ہوئے ،چند سالوں کے بعد راج ہائی اسکول دربھنگہ میں اردو کے استاد ہوگئے ،اور طویل مدت ملازمت کے بعد وہیں سے سبکدوش ہوئے ،تدریس کے ساتھ صحافت کی دنیا سے بھی وابستہ رہے ،چنانچہ ۱۹۲۷ میں دربھنگہ سے ایک ماہنامہ پروانہ نکالا،شعر وسخن کا بھی مذاق تھا اور فکری تخلص تھا ۔۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ میں وفات پائی ۔(تذکرہ علمائے بہار،تذکرہ بزم شمال)

مولانا حفیظ الرحمن رمضان پوری

مولانا حفظ الرحمن بن مولوی عبداللہ معروف وممتاز عالم ومدرس تھے،وطن رمضان پور (نالندہ)تھا ،ولادت اسی سے قریب ان کی نانہال میرغیاث چک میں ہوئی ،وطن میں ابتدائی تعلیم کے بعد پٹنہ آکر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں داخلہ لیا ،اور آٹھ دس سال گذارکر مکمل فاضل تک کی تعلیم مکمل کی ،اور کا میابی پر طلائی تمغہ بھی حاصل کیا،اس کے بعد اسی مدرسہ میں تدریسی خدمت کا آغاز کیا اور ترقی کرتے ہوئے مدرس اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور آخری درجات کی علوم اسلامیہ کی کتابیں ایک مدت تک پڑھائیں ،اور ۳۵ سالہ تدریسی وانتظامی خدمت کے بعد یکم نومبر ۱۹۳۴ کو سبکدوش ہوئے ،اس کے بعد چند سالوں تک اڑیسہ کے ایک مدرسہ اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں بھی تدریس اور نظامت کے فرائض انجام دئے ۔۲۶جنوری ۲۰۰۰ مطابق۱۹ذی قعدہ ۱۴۲۰ھ کو پٹنہ ہی میں وفات پائی ،چند کتابیں بھی یاد گار ہیں جن میں آثارالسنن کی شرح القول الاحسن اور ازہارالعرب کی شرح انوار الادب ہے۔(تذکرہ علمائے بہار،جلد اول)

پروفیسر مسعود حسن ادیب

پروفیسر مسعود حسن ادیب ممتاز فاضل ومحقق تھے ،والد کا نام منشی غلام قادر تھا ،کھگول داناپور وطن تھا، ۵نومبر ۱۹۲۰ کو ولادت ہوئی،عربی کی تعلیم مدرسہ فیض عام مؤ میں حاصل کی پھر مدرسہ شمس الہدیٰ میں داخلہ لے کر فاضل تک تعلیم مکمل کی ،۱۹۳۶ میں تعلیم کی تکمیل کے بعد کلکتہ چلے گئے اور ۱۹۴۳ میں عربی اور اس کے بعد فارسی میں ایم اے کیا ۔تدریسی خدمت کا آغاز پٹنہ کالج سے ہوا ،پھر ہوگلی محسن کالج (بنگال)میں عربی کے استاد ہوکر وہاں چلے گئے ،اس کے بعد ۱۹۵۲ میں سنٹرل کالج کلکتہ میں شعبہ عربی فارسی کے استاد ہوئے ،۱۹۵۹میں مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل بن کر مدرسہ عالیہ آئے ،مدت کی تکمیل کے بعد واپس اپنے عہدہ اسی کالج میں چلے گئے جو بعد میں مولانا آزاد کالج ہوچکا تھا ،پھر پبلک سروس کمیشن بنگال میں کچھ دنوں خدمت انجام دی ،اس کے بعد کچھ دن شعبہ عربی فارسی کلکتہ یونیورسٹی میں جز وقتی خدمات انجام دیں ۔ملک کے موقر رسائل ومجلات میں ان کے عربی اور اردو علمی مضامین شائع ہوئے ہیں اور وہ علمی د نیا میں متعارف تھے ،۲۷مئی ۱۹۹۱ مطابق ۱۳ذی قعدہ ۱۴۱۱ھ کو کلکتہ ہی میں وفات پائی۔(تذکرہ علمائے بہار ،معارف ستمبر۱۹۹۲)

( جاری)

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare