پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( قسط نہم )

طلحہ نعمت ندوی

مولانا نظام الدین خلش

مولانا نظام الدین خلش اچھے عالم اور شاعر تھے ،ان کا آبائی وطن کنھائی پور (تحصیل مکامہ)ضلع پٹنہ تھا ،دارالعلو م دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ،حاجی پورمیں مدرسہ اسلامیہ انجمن فلاح المسلین میں مدرس تھے ،پھر تدریسی خدمت سے الگ ہوکر اس شہر کی چوک کی مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری انجام دینے لگے اور پوری زندگی وہیں گذاردی ،خوش بیان واعظ وخطیب تھے ،شاعر بھی تھے اور خلش تخلص کرتے تھے ،۸مارچ ۱۹۹۷مطابق ۲۹ذی قعدہ ۱۴۱۷ھ کی صبح حاجی پور ہی میں وفات پائی اور سنگی مسجد سے متصل احاطہ میں مدفون ہوئے۔(تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی)
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( قسط نہم )
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( قسط نہم )

مولانا سید محمد ہاشم

مولانا سید ہاشم معروف عالم تھے ،ان کے والد کا نام سید محمد قاسم تھا ،بہارشریف کامحلہ چاندپور ہ ان کا مولد ہے اور وطن بہارشریف کے مضافات کی ایک بستی کاندھا(تحصیل ہرنوت)تھا،سلسلہ نسب سید مودودچشتی سے ملتا ہے ،آٹھ سال میں مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ آگئے ،اور یہیں فضلیت تک مکمل تعلیم حاصل کی ،جس میں گیارہ سال صرف ہوئے ،اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے کیا ،پھر مدرسہ اسلامیہ اورنگ آباد (بہار)میں چند سال تدریسی خدمت انجام دی ،۱۹۳۶میں مدرسہ شمس الہدیٰ میں استاد تفسیر وحدیث ہوئے ،اس کے کتب خانہ خدابخش کے کیٹلاگر ہوکر وہاں منتقل ہوگئے ،پھر اسی عہدہ پر ایشیاٹک سوسائیٹی لائبریری کلکتہ منتقل ہوگئے ،وہاں ایک سال رہ پاکستان چلے گئے ،اور حیدرآباد سندھ میں سندھ پراونشیل لائبریری اور میوزیم کی بنیاد ڈالی ،اور اسی عہدہ سے طویل خدمت کے بعد ۱۹۷۰ میں سبکدوش ہوئے ،وہ اچھے شاعر بھی تھے ،۱۹۸۸ھ مطابق ۱۴۰۹ھ میں حیدرآباد ہی میں ان کا انتقال ہوا۔(تذکرہ علمائے بہار)

مولانا قمر الحسن قاسمی

مولانا قمر الحسن اچھے عالم تھے ،کونند(تحصیل استھاواں) مضافات بہارشریف ان کا وطن تھا،ابتدائی تعلیم اپنے ماموں مولانا عبدالحفیظ کی سرپرستی میں مدرسہ اسلامیہ تھانہ مسجد باڑھ میں حاصل کی ،پھر دارالعلوم دیوبند گئے ،اور وہاں تعلیم کی تکمیل کی ، اس کے بعد اپنے ماموں کی جگہ سابق الذکر مدرسہ باڑھ کے صدرمدرس ہوئے ،اور تازندگی اسی خدمت میں مشغول رہے ،اس کے ساتھ وہ ایک کامیاب مدرس بھی تھے ،۱۳رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ مطابق جون ۱۹۸۴ کووفات پائی ۔(تذکرہ علمائے بہار،ص۲۳۴ جلد۔۱)

شہاب دائروی

شہاب دائروی کا پورا نام سید شہاب الدین اور والد کا نام سید محمد یسین تھا،نورتن باولی سکونت دائرہ بارہ دری بہارشریف میں خاندانی مکان تھا،۲۰ستمبر ۱۹۶۹ کو وہیں ولادت ہوئی ،صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی ،پھر معاشی مجبوری کی وجہ سے تجارت میں لگ گئے لیکن کہانی لکھنے کا شوق ہوا ور متعدد کہانیاں لکھیں ،اور کئی مجموعے شائع ہوئے ۔۲رجب ۱۴۴۶ھ مطابق ۱جنوری ۲۰۲۵ کو بہارشریف میں وفات پائی ۔(مزید دیکھئے اردو ادب کی تاریخ میں نالندہ ضلع کی خدمات ،از عشرت سلطانہ بہارشریف ،)

خواجہ افضل امام

خواجہ افضل امام کی ولادت ۳ستمبر ۱۹۲۴ کو پھلواری شریف میں پیدا ہوئے ،ان کی ابتدائی تعلیم ان کے پھوپھا مولانا تمنا عمادی کی سرپرستی میں ہوئی ،گریجویشن کی تعلیم انہوں نے بی این کالج پٹنہ میں مکمل کی پھر پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر تعلیم کی تکمیل کی اور فارسی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ،پھر وہ بی این کالج اور پٹنہ کالج کے استادر ہے ،اور اسی عہدہ سے سبکدوش ہوئے ،اس کے علاوہ بھی وہ ہر جگہ سرگرم رہے ،۱۲اکتوبر ۲۰۰۶ مطابق ۱۹ رمضان ۱۴۲۷ھ کو ان کا انتقال ہوا ،متعدد اہم تصانیف ان کی یادگار ہیں ،ان کے علمی کاموں میں نذیرالحق فائز پھلواروی کے فارسی دیوان کی تدوین اہم ہے۔(مز ید حالات کے لئے دیکھئے ،عظیم آباد کے فارسی اساتذہ)

پروفیسر انوار احمد

سید انوار احمد بن مظہرالحق کی ولادت ضلع جموئی کی ایک بستی سیوے (تحصیل علی گنج)میں جنوری ۱۹۳۶ میں ہوئی ،ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنے وطن اور وطن سے قریب تاجپور ہائی اسکول میں حاصل کی ،اعلیٰ تعلیم کے لئے پٹنہ آئے اورفارسی میں ایم اے کی سند حاصل کی ،اس کے بعد وہ بی این کالج میں استاد ہوگئے ،پھر انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی،اور کے بعد وہ پٹنہ یو نیورسٹی کے شعبہ فارسی میں منتقل ہوگئےا ور یہاں صدر شعبہ کی حیثیت سے خدمت انجام دے کر سبکدوش ہوئے ،انہوں نے ایران کا سفر بھی کیا ،۲۰جنوری ۲۰۱۵مطابق ۲۹ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ کوپٹنہ ہی میں ان کا انتقال ہوا ،ان کے اہم کاموں میں انیس الاحبا کے فارسی متن کی تدوین قابل ذکر ہے ،اس کے علاوہ اردو میں متعدد کتابیں اور انگریزی میں کئی اہم مقالات ہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے عظیم آباد کے فارسی اساتذہ )

ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ

ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ بن سید نورالہدیٰ بن لیاقت حسین معروف عالم تھے ،آبائی وطن بہارشریف تھا ،وہاں محلہ مرار پور میں ۱۹۱۸ مطابق ۱۳۳۵ھ میں ان کی ولادت ہوئی ،پٹنہ سیٹی کے معروف عالم مولانا لاڈلے قریشی سے علوم اسلامیہ کی تعلیم مکمل کی ،اس کے بعد ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی پھر ملازمت میں لگ گئے ،اسی دوران لکھنؤ گئے اور جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور پھر اس کے اہم اراکین میں شامل ہوئے ،پھر صوبہ بہار کے امیر جماعت اسلامی ہوئے ،اور جابجا قرآن پاک کا حلقہ قائم کیا ،اور ایک مدت تک لوگوں کو مستفید کیا ،اور پٹنہ میں سرگرم رہے ۔ان کی دینی وعلمی خدمات بہت اہم ہیں ۔۱۶صفر ۱۴۱۹ مطابق ۱۲جون ۱۹۹۸ میں وفات پائی ۔(مزید دیکھئے مجلہ صدی تقریبات مدرسہ منیر الاسلام بہارشریف ،۲۰۰۴)

اطہر شیر

اطہرشیر ولد سید اصغر شیر کا آبائی وطن محسن پور ضلع نالندہ تھا ،لیکن بارہ دری میں خاندان کی ایک شاخ مقیم تھی جو ان کی نانہال تھی ،شاید یہیں یا پٹنہ میں ان کی ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے مدرسہ عزیزیہ بہارشریف سے عالمیت کی تعلیم مکمل کی ،اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے ۱۹۵۵ میں عربی میں پھر بہاریونیورسٹی مظفرپورسے پہلے اردو پھر فارسی میں ایم اے کی سند حاصل کی ،اس کے بعد ایک کالج میں خدمت انجام دی ،اور پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر اس کی سند بھی حاصل کی ،اس دوران ایک سال تہران (ایران)میں گذار کرجدید فارسی کا مطالعہ کیا اور سند حاصل کی،پھر خدابخش لایبریری میں بحیثیت کیٹلاگر چند سال گذارے اس کے بعد وہاں کے اسسٹنٹ دائریکٹر بھی ہوئے ،پھر ادارہ تحقیقات عربی فارسی کے ڈائریکٹر ہوئے اور طویل مدت تک یہ ذمہ داری نبھائی ،اور آخر اسی خدمت سے سبکدوش ہوئے اور ۴نومبر۱۹۹۸ مطابق ۱۵رجب ۱۴۱۹ھ کو پٹنہ ہی میں وفات پائی، انہوں نے علمی باقیات کا بڑا ذخیرہ چھوڑا اور علمی دنیا میں ان کی خدمات معروف ہیں ۔(دیکھئے ،عظیم آباد کے فارسی اساتذہ از رضواب اللہ آروی،مشاطہ گان ادب از عطاء اللہ پالوی)

جاوید نہال

جاوید نہال کا پورانام محمد نہال حسن ہاشمی تھا ،اور والد کا نام محمد یعقوب تھا،وطن اگاواں (تحصیل استھاواں)تھا،جہاں یکم جنوری ۱۹۲۸ کو ان کی ولادت ہوئی ،ان کی تعلیم کلکتہ میں ہوئی ،مدرسہ عالیہ کلکتہ کے بعد اسلامیہ کالج کلکتہ سے گریجویشن اور کلکتہ یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد وہیں سے پی ایچ ڈی کی ،اس کے بعد شعبہ اردو مولانا آزاد کالج کلکتہ میں استاد ہوئے اور وہیں سے سبکدوش ہوئے ،انہوں نے اردو نثرمیں بڑا ذخیرہ چھوڑا ،کلکتہ میں اردو کے اساطین میں ان کا شمار ہوتا ہے ،۱۳دسمبر ۱۹۹۸ مطابق ۲۴شعبان ۱۴۱۹ھ کو کلکتہ ہی میں انتقال ہوا ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے،جاوید نہال ،حیات وادبی خدمات ڈاکٹر منصور عالم مغربی بنگال اردو اکیڈمی ۲۰۱۵ )

مجیب الرحمن مہونوی

مجیب الرحمن  بن محمد عثمان معروف اہل علم اور صاحب تصنیف تھے ،زنگی پورمہونی تحصیل استھاواں ان کا وطن تھا ،جہاں ۹جون ۱۹۱۷ کو ان کی ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرکے کلکتہ گئے جہاں مکمل تعلیم حاصل کی ،فارسی میں ایم اے کیا ،پھر بعد میں بھاگلپوریونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ،کلکتہ یونیورسٹی ،آزاد کالج اور بھی مختلف تعلیم گاہوں میں استاد رہے ،اور پوری زندگی اسی میں گذاری ،اس کے کلکتہ کے مختلف تعلیمی اداروں کے رکن بھی رہے ،اردو اور انگریزی میں ان کی متعدد علمی باقیات ہیں ،جن میں تاریخ بارہ گاواں کو بہت شہرت ملی،۱۱فروری۱۹۹۹مطابق۲۵شوال۱۴۱۹ھ میں وفات پائی اور کلکتہ ہی میں دفن ہوئے ۔(ان کے اجمالی حالات ابوالکلام رحمانی کی مشاہیر ادب مشرقی  مگدھ مطبوعہ کلکتہ میں دیکھے جاسکتے ہیں )

شاہ ہلال احمد قادری

مولانا شاہ ہلال قادری معروف عالم ومصنف تھے ،ان کے والد شاہ عین الحق کا جوانی میں انتقال ہوگیا تھا،شاہ صاحب کی ولادت ۱۳۷۷ھ میں ہوئی ،تعلیم وتربیت کے تمام مراحل خاندان اور خانقاہ مجیبیہ کے مدرسہ میں طے کئے ،تکمیل تعلیم کے بعد اپنے بزرگوں سے استفادہ کیا پھر وہیں تدریسی خدمت میں مشغول ہوگئے ،اور تازندگی اس سے وابستہ رہے ،اس کے علاوہ اپنے بزرگوں کے طرح انہوں نے ارشاد وتربیت اور تصنیف وتالیف کی خدمت بھی تازندگی انجام دی ،اور دسیوں اہم تصانیف ان کے قلم سے وجود میں آئیں ۔ا ن کی شخصیت خالص علمی تھی ،تصوف اور اس کے حقائق پر بہت گہری نظر تھی ۔تقریر وتحریر دونوں پر پورا ملکہ حاصل تھا ،۱۱محرم ۱۴۴۲ھ (مطابق ۲۰۲۰)میں پٹنہ میں کرونا کے مرض میں وفات پائی اور خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔(تفصیل کے لئے عمدۃ المتوکلین نمبر المجیب اپریل ۲۰۲۱)

مولانا شاہ رضوان اللہ قادری

شاہ رضوان اللہ بن شاہ امان اللہ قادری خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں تھے ،۱۳۶۱ھ میں ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم  خانقاہ ہی میں حاصل کی اور تکمیل مدرسہ حمیدیہ دربھنگہ میں کی ،پھر حدیث کی کتابیں خانقاہ مجیبیہ میں مکمل کیں ،اور یہیں دستار بندی ہوئی ،اس کے بعد والد ماجد کی  نگرانی میں خانقاہ میں تدریس کے ساتھ انتظام کی ذمہ داری انجا م دینے لگے ،پھر والد ماجد کے بعد مسند سجادگی کو زینت دی ،اور ایک مدت تک خدمت خلق کے بعد تقریبا ساٹھ سال کی عمر میں ۳۱دسمبر ۲۰۰۳ مطابق ۷ ذی قعدہ ۱۴۲۴ھ کو وفات پائی اور والد ماجد کے پہلو میں دفن ہوئے ۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے المجیب پھلواری شریف ،اپریل ،جون ۲۰۰۴ء۔

شاہ عماد الدین قادری

مولانا شاہ عماد الدین قادری کا پھلواری شریف کے علمی خانوادہ سے تعلق تھا ،شاہ قمر الدین امیر شریعت ثالث کے فرزند تھے ،۷۴۳۱ھ کو پھلواری شریف میں ولادت ہوئی ،مکمل تعلیم وتربیت خاندان اور خانقاہ مجیبیہ میں ہوئی ،علوم اسلامیہ کی تکمیل کے بعد حکیم شعیب پھلواروی سے طب کی کتابیں پڑھیں پھر طبیہ کالج پٹنہ سے تکمیل طب کے بعد ۱۹۶۱ میں سند حاصل کی اور اپنے گھر کے قریب ہی مطب قائم کیا ،اس کے ساتھ ہی تا زندگی خانقاہ مجیبیہ میں تدریس وافتا کاکام بھی انجام دیتے رہے ،اس کے بعد تربیت وارشاد میں پوری زندگی صرف اوربڑی تعداد کو مستفید کیا ۔۱۹جمادی الثانی ۱۴۳۹ھ (۲۰۱۸ء)کو اپنے گھر ہی میں وفات پائی اور باغ مجیبی میں دفن ہوئے ۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھئے المجیب خصوصی شمارہ جولائی ۲۰۱۸)

واقف عظیم آبادی

واقف عظیم آباد ی کا پورا نام سید شاہ فضل امام تھا ،اور والد کا نام شاہ منظر امام تھا ،اپنی دادیہال ارول میں ۱۳جمادی الاولیٰ ۱۳۳۴ھ کو ان کی ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم مدرسہ حنفیہ آرہ میں حاصل کی اور تکمیل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں کی ،اس کے اخبار نویسی سے وابستہ ہوگئے اور ملک کے اہم اردو اخباروں میں لکھتے رہے ،اور اخیر دور تک تقریبا یہی مشغلہ رہا ،اس کے علاوہ اردو کی خدمت میں پیش پیش رہے جس کی وجہ سے اعزازات سے بھی نوازے گئے ،اور اردو نثر وشاعری کا گراں قدرذخیرہ چھوڑا جس میں نگارشات واقف بہت اہم ہے، ان کے علم وفضل کی وجہ سے ان کی علمی حلقوں میں علامہ واقف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے  ۔وہ اپنی وفات سے ایک دن قبل پٹنہ سے آرہ گئے،اور وہیں ۶دسمبر ۱۹۹۳مطابق ۲۳جمادی الثانی ۱۴۱۴ھ کو وفات پائی ۔(مزید دیکھئے ،فرد نامہ علامہ واقف عظیم آبادی از ڈاکٹر نسیم اختر اردو دائریکٹوریٹ پٹنہ)

بہزاد فاطمی

بہزاد فاطمی کا پورا نام سید سلطان احمد ،ان کے والد سید حسین خاں شاد عظیم آبادی کے فرزندتھے ،۲۱ اکتوبر ۱۹۱۴پٹنہ میں پیداہوئے ،ثانوی تعلیم کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے فارسی میں بی اے آنرز کیا ،اور ۱۹۴۳ میں بہارسول سروس سے وابستہ ہوگئے ،اور ضلع افسر ہوکر ملازمت سے سبکدوش ہوئے ،اس کے بعد مستقل پٹنہ ہی میں قیام رہا ،۳مئی ۲۰۰۸ مطابق ۲۷ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ کو یہیں انتقال ہوا اور اٖفضل پور قبرستان میں دفن ہوئے ۔انہوں نے شاعری اور نثر نگاری دونوں کے ذریعہ اردو کی خدمت کی ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے بہار کی بہار ،ص ۵۹)

حسن نعیم

حسن نعیم کا پورا نام سید حسن بن سید محمد نعیم تھا ،۶ فروری ۱۹۲۷ کوپٹنہ کے ایک معزز خاندان میں ان کی ولادت ہوئی ،انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد محمڈن اینگلو عربک اسکول سے ہائی اسکول کا امتحان دیا ،اس کے بعد انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے آئی ایس سی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایس سی کی سند حاصل کی ،۱۹۴۹ سے محمڈن اسکول پٹنہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے ،پھر ۱۹۵۳ میں ڈاکٹر سید محمود کے پرسنل سکریٹری کی حیثیت سے دہلی آگئے ،سید محمود کے وزارت خارجہ سے وابستہ ہونے کے بعد وہ ان کے ساتھ اسی عہدہ پر رہے ،اسی سلسلہ میں وہ کئی بیرون ہند بھی رہے ،پھر ایوان غالب دہلی کے ڈائریکٹر ہوئے اور کئی ثقافتی پروگرام منعقد کئے ،اخیر میں بمبئی منتقل ہوگئے تھے اور وہیں ۲۲فروری ۱۹۹۱ مطابق ۸شعبان ۱۴۱۱ھ کو ان کا انتقال ہوا ۔ وہ ممتاز شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی ،ان کا شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے ۔(مزید دیکھئے حسن نعیم از شمیم طارق)

سید بدرالدین احمد بدر

سید بدرالدین احمد بدر کے والد خان بہادر سید ضمیر الدین تھے ،ان کی ولادت ۱۹۰۱ میں اپنی نانہال پٹنہ سیٹی میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم گھر ہی پر سید شاہ ضیاء الدین سےحاصل کی ،پھر محمڈن اینگلو ہائی اسکول سے میٹرک اورپٹنہ کالج سے بی اے کیا ،علالت کی وجہ سے ایم اے نہیں کرسکے ،تو ایل ایل بی کرکے وکالت کرنے لگے ،پھر الیکشن میں اٹھے اور چمپارن سے اسمبلی ممبر بنے ،اس کے علاوہ وہ پٹنہ کی علمی مجلسوں میں بہت سرگرم رہے ،پٹنہ یونیورسٹی کے سینیٹ کے ممبر بھی رہے اور کئی اداروں میں فعال رہے ،ان کی کتاب حقیقت بھی کہانی بھی عظیم آباد کی تہذیبی تاریخ ہے ۔۱۱اگست ۱۹۸۳مطابق ۳ذی قعدہ ۱۴۰۳ھ کو وفات پائی اور لودی کٹرہ پٹنہ سیٹی میں دفن  ہوئے ۔(بہار کی بہار ،حقیقت بھی کہانی بھی)

سید محمد محسن

سید محمد محسن بن سید محمد رشید مشہور پٹنہ کے مشہور فاضل تھے ،۳۰جولائی ۱۹۱۰ کو ان کی ولادت ان کی نانہال کاکو ضلع جہان آبادمیں ہوئی،۱۹۴۴میں انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم اے کیا،کچھ دنوں پٹنہ کالج میں کام کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے اسکاٹ لینڈ چلے گئے ،جہاں اڈنبرا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لے کر ۱۹۴۸ میں واپس آئے اور چند سالوں کے بعد پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں استاد ہوئے ااور آخر ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ ہوکر سبکدوش ہوئے ،اس کے بعد پٹنہ میں مقیم ہوگئے ،لیکن عزیزوں کے پاس ایک سفر میں دہلی میں ۲مارچ ۱۹۹۹ مطابق ۱۴ ذی قعدہ ۱۴۱۹ھ کو انتقال ہوا اور قبر ستان درگاہ نظام الدین دہلی میں دفن ہوئے ۔ وہ ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ کامیاب معلم اور اردو کے اچھے افسانہ نگار بھی تھے ،ان کی کتاب انوکھی مسکراہٹ اردو کے افسانوی ادب میں اپنا مقام رکھتی ہے ،ان کی خود نوشت بھی اہم ہے۔اس کے علاوہ بھی ادب ونفسیات پرکئی کتابیں ہیں۔(مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ،سید محمد محسن ازصفدر امام قادری )

سید محمد حسنین

سید محمد حسنین بن سید رشید اردو کے ممتاز فاضل تھے ،۲اکتوبر ۱۹۲۰ کو پٹنہ میں ان کی ولادت ہوئی ،پٹنہ کے ایک اسکول میں میٹرک تک کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ،اور ۱۹۶۴ میں ایم اے کا امتحان کامیابی کے ساتھ دیا ،پھر مظفرپور یونیورسٹی سے ۱۹۶۵ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ،اس کے بعد پہلے لنگٹ سنگھ کالج مظفر پور میں اردو کے استاد ہوئے پھر مگدھ یونیورسٹی گیا منتقل ہوگئے اور یہاں شعبہ اردو کے پہلے صدر کی حیثیت سے اس پر توجہ صرف کی اور اس شعبہ کو مستحکم کیا ،اور یہیں سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور پٹنہ میں مقیم ہوگئے ،ان کا انتقال اسلام آباد پاکستان میں ہوا جہاں وہ اپنی صاحبزادی کے پاس گئے ہوئے تھے ،۱۰اکتوبر ۱۹۹۹مطابق ۳رجب ۱۴۲۰ھ کو ان کی وفات ہوئی اور اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں دفن ہوئے ۔اردو میں تحقیق وتنقید میں کئی معیاری علمی کام ان کے قلم سے وجود میں آئے ،اور اردو ادب کی ہر صنف میں یادگار چھوڑی،(تفصیل کے لئے  دیکھئےسید محمد حسنین از شہزاد انجم ۱۱۸)

شاہد رام نگری

شاہد رام نگری کا پورا نام محمد سراج الدین انصاری ،اور والد کا نام امام الدین رام نگری ہے ،۱۹۲۷ میں اپنے آبائی وطن رام نگر(بنارس )میں ان کی ولادت ہوئی ،تعلیم کی تفصیلات دستیاب نہیں ،۱۹۵۷ کے قریب وہ پٹنہ آگئے اور یہاں سے کئی اخبار نکالے ،اور مختلف اخبارات میں کام بھی کیا ،چنانچہ ہفتہ روزہ الکلام ،البلاغ ،امروز ہند وغیر ہ کی ادارت میں شامل رہے اور روزنامہ سنگم سے بھی وابستہ رہے ،اخیر میں ہفتہ وار نقیب پھلواری شریف کے مدیر اعلیٰ ہوگئے تھے اور پھلواری شریف میں مستقل اقامت اختیار کرلی تھی ۔وہ بہار کے ممتاز صحافی تھے ،۳۰اکتوبر ۱۹۹۱ مطابق ۲۳ربیع الثانی ۱۴۱۲ھ کو ان کی وفات ہوئی اور خانقاہ مجیبیہ کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔(بہار کی بہار ،ص ۱۴۰)
یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare