کرن تھاپر اور پرشانت کشور

ایک معاشرہ کے دو چہرے

پروفیسر محمد سجاد

معروف صحافی، اور انٹرویو کے تعلق سے دنیا کے مشکل ترین صحافیوں میں سے ایک، کرن تھاپر کے ساتھ پرشانت کشور (پی کے) کے انٹرویو میں پی کے کا تیور بھاجپا کے ترجمان والا تھا۔

جب وہ شخص وزیر اعظم کی مسلم مخالف تقریروں کی دفاع میں سونیا گاندھی کے بیان (موت کا سوداگر) کا حوالہ دے کر کام چلانے کی مذموم کوشش کر رہا تھا، تب وہ شخص اپنے بد ترین تعصب کا مظاہرہ کر رہا تھا، اور شاید یہی ٹھوس سچائ ہے اس کی شخصیت اور اس کے نظریہ کے حوالے سے۔

کرن تھاپر اور پرشانت کشور ایک معاشرہ کے دو چہرے
کرن تھاپر اور پرشانت کشور
ایک معاشرہ کے دو چہرے

اچھا ہوا، وہ مزید واضح طور پر بے نقاب ہو گیا۔ پچھلے دنوں، بہار میں، اس نے بس ایک کام پر خود کو لگا رکھا تھا، مسلمانوں کو راجد-کانگریس سے علیحدہ اور بیزار کرنا، اور اس طرح بھاجپا کی جیت کو آسان بنانا۔ اس نے پوری مسلم آبادی کو معصوم یا احمق یا خرید و فروخت والا سامان سمجھ رکھا ہے۔

ہو سکتا ہے الیکشن کے نتیجے کے حوالے سے اس کی forecast یا prognosis صحیح ہو جائے۔ لیکن اسے یہ اعتراف کرنا چاہئے تھا کہ اس کی اٹکلیں ماضی میں کچھ ایک بار غلط بھی ثابت ہوئ ہیں۔ اپنے ہی ٹوئیٹ سے انکار، ہٹ دھرمی اور بد تمیزی کر رہا تھا۔

حالاں کہ پیشہ ورانہ پیمانے پر رکھ کر دیکھا جائے تو کرن تھاپر بھی کسی کسی لمحے اپنا اعتدال کھو رہے تھے۔ لیکن انہوں نے خود کو سنبھالا۔ (مجھے ذاتی طور سے وہ انٹرویو بہتر لگا جس میں اے این آئ کی صحافی اسمیتا پرکاش کو کپل سبل نے معقول ترین جوابات سے صحافی کی کمزوریوں اور تعصبات کو بے نقاب کر ڈالا)۔

بہر کیف بے پناہ صارفیت اور ہوس کے اس عہد میں بدترین اور بے ایمان ترین طریقوں سے ہی سہی جس نے بھی دولت اور طاقت حاصل کر لی اسے لوگ کامیاب سمجھنے لگتے ہیں اور اس جیسا بننے کی کیچڑ میں دھنسنے لگتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی پی کے کو (رول ماڈل) بنا رکھا ہے آج کے نوجوانوں کے ایک حصے نے۔

کرن تھاپر نے پی کے سے ایک اہم ترین سوال نہیں پوچھا کیوں کہ وہ سوال انٹرویو کے موضوع سے کسی قدر مختلف تھا۔ وہ سوال یہ کہ حال ہی میں بہار میں جن سوراج (سوراخ) یاترا کے دوران وہ زیادہ تر مسلم آبادی کے درمیان ہی کیوں جارہا تھا؟ اس کے ملازمین میں مسلم نوجوانوں کی ایک اچھی تعداد ہے۔ کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو حال تک تیجسوی کے معتقدین تھے اور ایم ایل اے بننے کی جلدی میں ہیں، خواہ وہ پی کے ہی کی معرفت کیوں نہ ہو جائے۔ ان میں کچھ ایسے مسلم نوجوان بھی ہیں جنہیں فیس بک پر کچھ لائکس مل جانے کی وجہ سے لگتا ہے کہ ان کے اندر ایم ایل اے اور ایم پی بن جانے کی تمام تر اہلیتیں ہیں۔ شہرت، طاقت، دولت پانے کی عجلت انگیز ہوس نے ان کے ہوش و حواس چھین رکھے ہیں۔ وہ باؤلے ہو چکے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں تامل ہے کہ بھارت بدل چکا ہے۔

اقتدار میں بی جے پی رہے یا نہ رہے، لیکن بھارت کی مسلم اقلیت کے تئیں پالیسی اور نظریے میں "انقلابی” تبدیلی آ چکی ہے۔ دیگر متعدد شعبوں میں مسلمانوں کا کرئر ہو گا، لیکن لیجسلیٹیو نمائندگی مزید کم ہوتی رہے گی۔ لہذا ترک و مغل کے گھوڑے سے اتر کر اس جانب دیکھئے جس جانب گھوڑے کے چلے جانے کے بعد کی جو گرد ہے وہ دکھائ نہ دے رہی ہو۔ قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ ہے، بہ عنوان، دریں گرد سوارے باشد۔ اس افسانے کے مکالموں کو غور سے پڑھئے، دیر تک سر دھنئے اور پھر بدلے زمانے میں تعلیم و تجارت پر مرکوز کیجئے، پاور تھیولوجی کے تحت ہمہ وقت ایم ایل اے اور ایم پی بننے کا روگ پالئے گا تو پچھتانے لائق بھی نہ رکھے جائیں گے آپ۔

پی کے نے بہار کے مسلم نوجوانوں کو سیاسی طور پر گمراہ کر نے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ یہ مسلم نوجوانوں کو اقتدار دلوانے کی افیم پلا رہا تھا۔ دہائیوں سے یہی افیم ہمارے نوجوانوں کو پلایا جا رہا ہے، خود ہمارے اکابرین کی معرفت۔ پی کے نے مبینہ طور پر آئ آئ ٹی اور آئ آئ ایم سے ڈگریاں لینے کے بعد دوکان چمکائ۔ تساہل اور عجلت کے شکار مسلم نوجوان بغیر اس پایہ کی تعلیم حاصل کئے ہوئے ہی شہرت، طاقت اور دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کرن تھاپر اور پرشانت کشور ایک معاشرہ کے دو چہرے
کرن تھاپر اور پرشانت کشور
ایک معاشرہ کے دو چہرے

تقریبا ربع صدی سے مسلم یونی ورسٹیوں میں درس و تدریس اور تحقیق و اشاعت سے راقم کا تعلق ہے۔ بہار اور اتر پردیش کے مسلم نوجوانوں سے ہی زیادہ تر سابقہ ہوتا ہے۔ ان کی آرزوئیں، ان کی کمزوریوں اور ان کی خوبیوں و خامیوں اور نفسیات سے کچھ واقفیت راقم کو ہے۔ ان کی ترجیحات کی صحت سے بھی واقفیت ہے۔ ان کے اساتذہ کے اندر اندریش پرستانہ سیاست برائے حصول وائس چانسلری نے ان نوجوانوں کو بھی کمزور بنا ڈالا ہے۔

مسلمانوں کی یونی ورسٹیوں کے اندر بے صلاحیت اساتذہ ہی کو عہدوں سے نوازا جا رہا ہے۔ اور ان عہدوں پر طویل مدتوں تک غاصب رہتے ہیں۔ اور اساتذہ کے منتخب نمائندے بے ایمان خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، یا انہیں غاصبوں سے سانٹھ گانٹھ کئے ہوئے ہیں۔ سیمیسٹر کے امتحانات اور مقابلہ جاتی ٹسٹ برائے داخلوں میں حد درجہ کی بدعنوانی اور لاپرواہی عیاں اور نمایاں ہے، اور ان سب پر مجرمانہ خاموشی کو تائید حاصل ہے!

لہذا ان یونی ورسٹیوں کے طلبا میں بھی علمی صلاحیت اور استطاعت کے اضافے کی تمنا معدوم پڑ جاتی ہے اور تکڑم بازی سے منصب حاصل کرنے کی چالیں سیکھنے پر توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔

کامیاب ترین صحافی، کرن تھاپر (ہندو) نے کامیاب ترین الیکشن مینیجر، پرشانت کشور (ہندو) کو ذہین ترین سوالات کی معرفت بے نقاب کر دیا۔ اس کی بھگوائیت کو طشت از بام کر دیا۔ اس کی تمام تر نظریاتی بے ایمانیوں کو دنیا کے سامنے لا کر رکھ دیا۔

ٹھیک اسی طرح کتنے مسلم صحافی ہیں جو موقع پرست، اندریش پرست، بھاگوت پرست، مودی پرست مسلمانوں، اور مسلم فرقہ پرست مسلمان نیتاؤں اور پروفیسروں کو بے نقاب کرنے کی نیت و جسارت رکھتے ہیں؟ ایک بار اس نہج پر بھی خود احتساب کرئے گا۔ مسلم دانشوروں، صحافیوں، محققین، اور نیتا بننے کی آرزو رکھنے والے سبک دوش و بر سر روزگار مسلم بیوروکریٹس نے ایسے مضامین اور ایسی کتابیں تو لکھ ڈالیں جن میں ہندو فرقہ پرستوں کی مسلم مخالف کارکردگیوں کے دستاویز ہیں، لیکن خود مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف جو کئے ہیں اور کر رہے ہیں ان کی دستاویز کون بہادر اور ایمان دار مسلمان تیار کرے گا؟

مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ کی انتظامیہ کے اندر، داخلے اور تقرریوں کی سطح پر، اداروں کی زمینوں کو غصب کرنے کی سطح پر، قوم کو بیچ کر منصب حاصل کرنے کی سطح پر، جو کچھ بھی ہو رہا ہے، انہیں بے نقاب کرنے کی جسارت مسلمانوں کے اندر کیوں نہیں ہے؟ مسلمانوں میں حد درجہ اخلاقی پستی کیوں ہے؟ اے ایم یو کے اندر اساتذہ کے نمائندے ان تمام بد عنوانیوں پر خاموش کیوں ہیں؟ ہم ہندوؤں سے چاہتے ہیں کہ وہ مودی کو کم از کم تیسری بار اقتدار نہ دے، لیکن مسلم یونی ورسٹی کے اندر جو پروفیسران کسی عہدے پر دس برسوں سے قابض ہیں، وہ اسی پر جمے رہیں!

ہندوؤں کی خاطر خواہ تعداد ہندو فرقہ پرستوں سے آج بھی لڑ رہی ہے۔ مسلمانوں کی اخلاقی پستی کا ثبوت چاہئے تو دونوں مسلم یونی ورسٹیوں کے اندر کے عہدے داران، اور منتخب نمائندوں کے کردار دیکھئے۔ کون مسلمان کس مسلمان کے یہاں ظہرانہ، عشائیہ، ہائ ٹی، وغیرہ کی معرفت کس سیاسی پارٹی کے لئے ووٹ مانگتا پھر رہا ہے، ان تقریبات کے فوٹوگرافس اور ویڈیو کلپس دیکھئے، ان میں موجود مسلم پروفیسران کی بے حیائی دیکھئے۔ مسلم رجعت پرستی اور فرقہ پرستی پر مسلم دانشوروں کی خاموشی و حمایت دیکھئے، اور ہندو دانشوروں کی ہندو فرقہ پرستوں کے خلاف مزاحمت دیکھئے۔ بھگوائیت کی حمایت کرنے والے مسلم پروفیسروں کو مسلم پروفیسروں سے ملنے والے ووٹوں کی تعداد دیکھئے۔ ان کا ایماندارانہ تجزیہ اور احتساب کیجئے۔

المختصر

یہ دیکھئے کہ ہندو معاشرے نے اگر پی۔ کے۔ جیسا شخص پیدا کیا ہے تو اسی معاشرے نے کرن تھاپر بھی تو پیدا کیا ہے۔ مسلم معاشرے میں کیا ہے، یہ دہلی اور علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹیوں میں دیکھئے۔ اگر آپ ایمان دار، اور اہل نظر ہیں تو ایک مثبت نتیجہ حاصل کرنے والا تقابلی جائزہ کر پائیں گے، ورنہ ہماری قوم میں منافقوں، مکاروں، موقع پرستوں کا جو بول بالا ہے، اسے نہ دیکھ پانے کا جھوٹ خود سے بولتے رہئے۔

خود احتساب کی بات کرنے سے قوم کو مرچی لگتی ہے، پھر بھی ایسا پوسٹ لکھ رہا ہوں۔ آگے آپ کی مرضی! اور آپ کے بے ایمان و مکار دانشوروں اور اکابرین کی مرضی!

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare