کون ہیں جائنٹ کلر انجینئر رشید؟

افتخار گیلانی

حال ہی میں اختتام پذیر ہندوستان کے عام انتخابات میں اگر کوئی بڑا الٹ پھیر ہوا، تو وہ وادی کشمیر کے بارہمولہ—کپواڑہ کے حلقہ سے دہلی کے تہاڑ جیل میں پچھلے پانچ سالوں سے محبوس عبدالرشید شیخ المعروف انجینئر رشید کی کامیابی تھی، جس نے نہ صرف سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بلکہ پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کو بھی ہرایا، جن کے متعلق عام تھا کہ ان کو نئی دہلی کی پشت پناہی حاصل ہے۔

جوائنٹ کلر انجینئر رشید
جوائنٹ کلر انجینئر رشید

ویسے ان انتخابات میں ایک اور الٹ پھیر بھی ہوتے ہوتے رہ گیا، وہ اتر پردیش کی وارانسی کی سیٹ سے وزیر اعظم نریندر مودی کا نتیجہ تھا، جو کافی جدو جہد کے بعد کانگریس کے امیدوار اجئے رائے سے معمولی فرق سے جیت گئے۔

پیشے سے انجینئر رشید سے میری ملاقات کالج کے دنوں سے ہے۔ پورے شمالی کشمیر میں 90کی دہائی کے اوائل تک دو ہی ڈگری کالج سوپور اور بارہمولہ قصبہ میں واقع تھے۔ اس لیے گریز، کرنا، لولاب یعنی دور دراز علاقوں سے طالبعلم کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان قصبوں کا رخ کرتے تھے۔

رشید نے بھی لنگیٹ، ہندواڑہ سے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سوپور کالج میں داخلہ لیا تھا۔ جب میں کالج پہنچا، تو میرے اسکول کے تقریباً سبھی ساتھی میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبوں میں ایڈمیشن کی وجہ سے سرینگر یا ہندوستان کے دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔ چونکہ رشید ہاسٹل کے بجائے ہمارے ہی محلے میں اپنے رشتہ دار کے ہاں مقیم تھا، اس لیے کالج کا ساتھی ملنے کی وجہ سے میرا اکیلاپن جلد ہی دور ہو گیا۔

وہ عبدالغنی لون کا نہ صرف سیاسی بلکہ ان کے، ان دنوں کے بائیں بازو کے نظریات کا بھی انتہائی معتقد تھا۔ اس لیے سوپور میں چونکہ جماعت اسلامی نظریاتی طور پر حاوی تھی، اس کا ساتھیوں کے ساتھ خاصا بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ مگر اس کی بحث و دلائل دینے کی لامتناہی برداشت اس کے وسیع مطالعہ اور ضدی طبیعت کو ظاہر کرتی تھی۔

خیر گریجویشن کے بعد میں جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دہلی آگیا، کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہو گئی اور ایک انارکی کی صورت حال کی وجہ سے سبھی تعلقات منقطع ہوگئے۔ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ گریجویشن کے بعد اس نے سرینگر میں پالی ٹیکنک کالج میں داخلہ لیا ہے۔

ان دنوں سرینگر سے طاہر محی الدین کی ادارت میں ہفتہ وار چٹان خاصا مقبول اخبار تھا، جس کے اداریہ، تحقیقاتی رپورٹیں اور تجزیاتی کالم کشمیری صحافت کی جان ہوتے تھے۔ ان میں انجینئر رشید کے قلم سے نہایت ہی پرمغز تجزیاتی کالم شائع ہوتے تھے۔

ہندوستان—پاکستان اور کشمیر معاملات میں ایک طرح سے حرف آخر اے جی نورانی بھی ان کالمز سے استفادہ کرتے تھے اور فرنٹ لائن اور دیگر تحقیقی مقالوں میں اس کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ چونکہ ان کو اردو پڑھنے میں دقت ہوتی تھی، وہ ممبئی سے جب دہلی آتے تھے، تو چٹان (جو ان کے پاس بذریعہ ڈاک آتا تھا) میں انجینئر رشید کے تجزیاتی کالمز مجھے ترجمہ کرنے کے لیے دیتے تھے یا کسی وقت اپنے سامنے ہی پڑھنے کو کہتے تھے، اور نوٹس لیتے تھے۔

میرے ذہن میں تو کالج کے رشید کی شبہہ دھندلی ہو چکی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ انجینئر رشید کے نام سے وہی شخص چٹان کا کالم نگار ہے۔ ایک دہائی یا اس سے بھی زیادہ جب ایک روز میں سرینگر میں طاہر محی الدین سے ملنے چٹان کے دفتر گیا، تو انہوں نے کمرے میں موجود انجینئر رشید کا تعارف کرایا۔ تب معلوم ہوا کہ شیخ رشید ہی انجینئر رشید ہے۔

انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد وہ جموں کشمیر پروجکٹس کنسٹرکشن کارپوریشن (جے کے پی سی سی) میں سول انجینئر ہے۔

اس کی نوکری ملنے کا قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بیکار رہنے کے بعد اس کے علاقہ میں جے کے پی سی سی کسی نالے پر ایک چھوٹا سا پل بنا رہی تھی اور اس کو عارضی طور پر سپروائزر بنایا گیا تھا۔ ایک روز کسی عسکری تنظیم سے تعلق رکھنے والے بندوق بردار وں نے چند سیمنٹ کی بوریاں ان کے حوالے کرنا کا مطالبہ کیا۔ اس نے ان کو مہینے کے آخری دن آنے کے لیے کہا، تاکہ جب اس کو مشاہرہ ملے گا، تو وہ سیمنٹ کی بوریوں کے بدلے ان کو نقد میں ادائیگی کرےگا۔

وہ پہلے سمجھے یہ کوئی دیوانہ ہے۔ مگرجب اس نے ان کو سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ وہ امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ سیمنٹ کی یہ بوریاں حکومت کی اور عوام کی ہیں، تو انہوں نے اس کو اغوا کیا اور پھر کئی روز بعد کسی نالے کے کنارے ہی اس کو نیم مردہ چھوڑ دیا تھا۔

اس کے بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس دوران سپروائزر کی عدم موجودگی کی وجہ سے پل پر کام رک گیا، جس کی شکایت سرینگر میں جے کے پی سی سی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے پاس پہنچی۔ جب اس کو معلوم ہو اکہ کسی عارضی سپروائزر نے سرکاری سیمنٹ کی بوریوں کی خاطر اپنی ہڈیاں تڑوائی ہیں، تو اس کے ضمیر نے اس کو سیدھا اسپتال پہنچا دیا۔

جہاں اس نے پہلے تو اس واقعہ کی تصدیق کی،پھر رشید کو کہا کہ ٹھیک ہونے کے بعد اس کے دفتر میں آکر اپنی سرٹیفیکٹ وغیرہ جمع کرواکے تقرری کا پروانہ لے کرجائے۔ اس کو ٹھیک ہونے میں چھ ماہ لگے۔

اسی دوران 2008 میں امرناتھ زمین قضیہ کو لے کر کشمیر میں محشر برپا ہوگیا تھا۔ اس کے فوراً بعد دسمبر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو گیا۔ سجاد غنی لون، جو پہلے ان انتخابات کو لڑنے کے لیے پر تول رہے تھے، نے بعد میں حریت کا ہی ساتھ دے کر بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ انجینئر لنگیٹ سے انتخابات لڑنے کا من بنا چکے تھے۔ سجاد نے ان کو باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ اس علاقہ میں سیکورٹی فورسزاور سرکاری بندوق برداروں نے ان کا ناطقہ بند کرکے رکھا ہوا ہے۔الیکشن میں حصہ لینے سے ان کو سرکاری تحفظ کے علاوہ سرینگر میں رہائش ملے گی۔جب انہوں نے اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑی تو ان کے پاس انتخابی مہم کے لیے صرف 17 دن باقی تھے۔ اس حلقہ سے انتہائی زیرک سیاسی لیڈران پی ڈی پی کے محمد سلطان پنڈت پوری اور نیشنل کانفرنس کے شریف الدین شارق انتخاب لڑ رہے تھے۔

سال 2005 میں، رشید کو اسپیشل آپریشن گروپ نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اس کے بعد تین ماہ اور 17 دن کے لیے جیل بھیج دیا۔

انہیں کارگو، ہمہامہ اور راج باغ کے انٹروگیشن سینٹر میں خاصی اذیتیں دی گئی تھیں۔

بعد ازاں مجسٹریٹ نے ان کے خلاف تمام الزامات کو خارج کر دیا۔بعد میں سرکاری بندوق برداروں کے ایک گروپ نے ان کوحراست میں لیا اور پانچ ماہ کے بعد تاوان ادا کرنے کے بعد رہا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ان کے والد کو کو گائے، بکری اور جائیداد بیچنی پڑی۔

جب ان انتخابات کے نتیجے آگئے، تو انجینئر رشید نے پنڈت پوری کو 211 ووٹوں سے پچھاڑ دیاتھا، شارق تو تیسرے نمبر پر کافی پیچھے تھے۔ میرا خیا ل تھا کہ یہ ایک بار کی چمک تھی، بار بار کاٹھ کی ہنڈیاں تو نہیں چڑھتی ہیں۔ مگر اس دوران اس نے سیاست کو خاصی سنجیدگی سے لے کر علاقے میں نوجوانوں کا ایک نیٹ ورک بنادیا۔

اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ فوج کی طرف سے باشندوں کو جبری بیگار کے لیے لے جانے کا تھا۔ ا س کے خلاف 1990ء سے 2003ء انہوں نے کئی بار قانونی جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی۔ خود ان کے مطابق لنگیٹ کے ہر گاؤں سے چار سے آٹھ افراد پر مشتمل مختلف قافلے صبح سویرے تین بجے ہی ہاتھوں میں لالٹین لے کر 18 کلو میٹر لمبی سڑک پر اپنے اپنے گاؤں کے مقررہ مقام پر جمع ہوجاتے تھے۔

اس قافلے کا انتخاب بدنصیب گاؤں والے یوں کیا کرتے تھے کہ گاؤں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو اپنی باری پر حاضر ہوناپڑتاتھا۔ گاؤں جس قدر بڑا یا چھوٹا ہو تا تھا اسی قدر دیہی باشندوں کی باری جلدی یا بدیر سے آیا کرتی تھی۔اس کا نام ‘کانوائے ڈیوٹی’رکھا گیا تھا۔

پروگرام کے مطابق رات یا صبح کے تین بجے پہلے سے مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200 افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔ جوں ہی فوجی پارٹیاں مرٹ گام، قلم آباد، ھرل، کوٹلری، چھوٹی پورہ اور لنگیٹ کے کیمپوں سے متعلقہ گاؤں کی ٹولی کے نزدیک لگ بھگ 300 فٹ کی دوری پر محوسفر ہوتی تھیں تو قافلے کو کوئی فوجی جوان زور سے حکم دیتا تھاکہ وہ بندروں کی طرح ہوا میں کئی چھلانگیں ماریں تاکہ وردی پوشوں کو یہ اطمینان حاصل رہے کہ قافلہ ’کانوائے ڈیوٹی‘ دینے والوں کا گروپ ہے اور یہ کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار وغیرہ نہیں ہے۔

چند چھلانگیں مارنے کے بعد جب فوجی جوان مطمئن ہوتے تھے کہ اچھل کود کرنے والے گاؤں والے ہیں، تو ان کو فوجی پارٹی کے آگے آگے جان ہتھیلی پر لے کر چلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان، جنگل ہو یا قبرستان، باریک بینی سے اس بات کا پتہ لگانا پڑتا تھا کہ کہیں جنگجوؤں نے بارودی سرنگ تو بچھا کے نہ رکھی ہے۔

یہ سلسلہ لگ بھگ 20 دیہی بستی سے ہوتا ہوا علاقے کے آخری گاؤں تک جاملتا تھا۔ لگ بھگ صبح 9بجے تک ہر گاؤں کے عارضی فوجی پوسٹ پر فوجی جمعیت پہنچ جاتی تھی۔ اس کے بعد اگر متعلقہ ذمہ دارفوجی افسر کا موڈ ٹھیک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوؤں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کے لیے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لیے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی، اس کے بعد متعلقہ کیمپ میں جاکر اپنے اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔

وہاں کوئی حوالداران کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لیے ڈیپوٹ کردیتاتھا۔ شامت تب آتی تھی جب کبھی سرینگر سے نوگام کی کانوائی راستے میں کسی حادثے یا جنگجوؤں کے حملے کی وجہ سے رات کے دویا تین بجے تک بھی نمودار نہ ہوجاتی تھی اور ان کا انتظار کر رہے یہ دیہاتی اللہ سے جنت مانگتے تھے اور نہ جہنم سے خلاصی کی دعا کرتے بلکہ فکریہ لاحق ہوتی تھی کہ کسی طرح کانوائے صحیح سلامت اپنی منزل مقصود کوپہنچ جائے۔پھر اگر بانہال سے لے کر ہندوارہ تک کسی جگہ کانوائے کے اوپر کوئی معمولی سا بھی پتھر پھینکا جاتا تھا تو نزلہ ان پر گرایا جاتا تھا۔

قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد اپنی اسی ضدی طبیعت کی وجہ سے جب انجینئر نے روز ہی پر امن طور پر فوجی کیمپ کے باہر دھرنے دینے شروع کیے اور کبھی سرینگر میں، تو کبھی بارہمولہ میں اور اس جبری مزدوری کی کہانیاں میڈیا میں بھی چھپنے لگیں، تو اس کو موقوف کرادیاگیا۔ یہ اس علاقے کے مکینوں کے لیے ایک بڑی راحت تھی۔کپواڑہ یا دیگر کسی بھی علاقے کا کوئی بھی اسمبلی ممبر اس قدر رعایت اپنے ووٹروں کو دینے میں ناکام رہے تھے۔

اس میں کامیابی کے بعد اس نے اپنا رخ علاقے میں کورپشن کو ختم کرنے کے لیے موڑا۔لوگوں کو تاکید کی گی تھی، کہ جب بھی کوئی سرکاری اہلکار پیسے کے بدلے کام کرنے پر اصرار کرے، تو فوراً انجینئرکو فون پر مطلع کرے۔ اس کے لیے اس نے باضابطہ ایک گروپ بنایا ہوا تھا۔ منفرد انداز کے حامل، اکثر وہ اپنے حلقے کے دور دراز دیہاتوں کا سفر کرتے تھے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وہ احتجاج کی قیادت کرتے تھے۔ تعمیراتی کاموں کے مقامات کا دورہ کرکے ان کو مکمل کرنے تک انتظامیہ کو پاؤں پر کھڑا رکھتے تھے۔

عوامی نمائندے کے عہدے کو انہوں نے ایک نئی تعریف دی۔ اس لیے 2010 اور پھر 2016 میں کشمیر میں ایک بار پھر انتفادہ برپا تھا، لنگیٹ ایک پر امن جزیرہ کی مانند تھا، جہاں رشید کی ہی قیادت میں لوگوں نے یکجہتی کے لیے جلسے جلوس تو نکالے، مگر اس علاقہ پر امن رہا۔

اس کا کریڈیٹ سیکورٹی فورسز اور حکومت دونوں رشید کو دیتی تھیں۔ شاید کم ہی افراد کو معلوم ہوگا کہ 2012 میں جب دہلی میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی، تو اس کے کئی لیڈران نے اس کا خاکہ رشید کے حلقہ لنگیٹ پر تیارہی کیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کے لیے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔اسی کارکردگی کی وجہ سے وہ دوبارہ 2014 میں اسمبلی کے لیے منتخب ہوگئے۔

خیر اس بار شمالی کشمیر کے 18 اسمبلی حلقوں میں 14 میں انجینئر نے واضح برتری حاصل کی ہے، اس لیے اب تمام نگاہیں اسی سال ہونے والے اسمبلی انتخابات پر ہے۔ نئی حد بندی کی وجہ سے اب جموں و کشمیر اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد نوے ہے۔

عمر اور سجاد کے برعکس، جیل میں بند انجینئر کے بیٹے 23 سالہ ابرار رشید نے ایک مختصر مہم کی قیادت کی۔ اس کی ایک سادہ سی التجا تھی کہ اگر آپ میرے والد کو ووٹ دے سکتے ہیں جو دو بار اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں تو وہ جیل سے باہر آسکتے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات کے ذریعے ہر چیز کا انتظام کیا۔ جہاں آجکل کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ ہوتے ہیں، ان کی پارٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری مہم پر صرف 27 ہزار روپے خرچ کیے، جس سے ایک گاڑی کا پٹرول خریدا گیا۔

باقی خرچ لوگوں نے خود اٹھائے۔ اس انتخاب کو لے کرآنجہانی جارج فرنانڈیز یاد آتے ہیں۔بطور ٹریڈ یونین لیڈر اپنے پہلے انتخاب میں انہوں نے 1967 میں ممبئی میں بس دس ہزارروپے کے فنڈسے کانگریس کے ایک قد آور لیڈر ایس کے پاٹل کر ہرایاتھا۔

تمام جماعتیں انجینئر کو بھول چکی تھیں۔ اس کی گرفتار ی کے خلاف کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا تھا۔ قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی کے مطابق رشید کو منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر پانچ سالوں سے کیس کی ٹرائل ہی نہیں ہو رہی ہے۔

ویسے پارلیامانی نظام تو جنوبی ایشیاء نے اپنایا ہے، مگر امیدوار انتخابات لڑنے کے لیے خرچہ کہاں سے لائیں گے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو کارپوریٹ ادارے پیسہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی انتحابی مہم کے لیے ایک کاروباری شخصیت نے چندہ دیا تھا، جس نے دوسری جماعتوں کو بھی پیسہ دیے تھے، جو اب زیر عتاب ہیں۔ اب اس چندہ کی وجہ سے وہ معتبوب ہو گئے ہیں۔

ان انتخابات نے کم سے کم انجینئر کو دوبارہ زندہ کرکے کشمیر بھر میں ایک مقبول سیاست دان بنا دیا ہے۔

سال 1971میں کشمیریوں نے اسی طرح سرینگر حلقہ سے صحافی و ادیب شمیم احمد شمیم کی حمایت کی۔ جس نے اس وقت کے ایک بت سابق وزیر اعظم بخشی غلام محمد کو پاش پاش کرکے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ مگر رشید کے برعکس وہ اس حلقہ پر اپنا عکس برقرار نہیں رکھ سکے۔ وہ جیت کے لیے بھی شیخ عبداللہ کے مرہون منت تھے۔ گو کہ پارلیامنٹ کے اندر ان کی کارکردگی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے، مگر وہ عوامی مقبولیت حاصل نہیں کرسکے۔

کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو جب مغل حکمرانوں نے پانچ صدی قبل قید اور بعد میں بسواک (بہار) جلاوطن کیا، محکوم و مجبورکشمیری قوم تب سے ہی کسی ایسی ہستی کی تلاش میں ہے، جو ان کو بیدردی ایًام سے نجات دلاسکے۔ کشمیر کی آخری ملکہ حبہ خاتون (زون) کی دلدوز شاعری، جس میں دہلی کے حکمرانوں کی بد عہدی اور اپنے محبوب (یوسف شاہ) کی مصیبتوں کی داستان درج ہے، کشمیری لوک ریت کا ایک جزو ہے۔اس مدت کے دوران اس مقہور قوم نے کئی ہستیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر کچھ عرصہ کے بعد انکو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ غالب کا یہ شعر اس قوم پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے؛

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

سال 1930ء کی دہائی میں شیخ عبداللہ نے جب سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کشمیر قوم نے انکو سر آنکھوں پر بٹھایا۔کئی سال قبل جب کشمیر کے ایک معروف بیورکریٹ شاہ فیصل نے نوکری سے استعفیٰ دیکر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا۔تو ان کو سر پر بٹھایا۔ مگر وہ جلد ہی اس راہ سے فرار ہوگئے۔

اس پیچیدہ سیاسی صورت حال میں انجینئر کی اس جیت نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کیے ہیں۔اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ نظریات سے بالاتر سبھی جماعتوں کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کرواپائیں، توان کا آنا مبارک ہے۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ کشمیر عزت و وقار کا ایک قبرستان بھی ہے۔

شیر کشمیر کہلانے والے قد آور لیڈر کا حال یہ ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کے نسیم باغ کیمپس کے بالمقابل ان کی آخری آرام گاہ پر سکیورٹی دستوں کا سخت پہرہ لگا ہوا ہے، تاآنکہ کوئی سرپھرا ہجوم اس کو نقصان پہنچا کر بے حرمتی کا مرتکب نہ ہو۔

ان حالات میں کیا انجینئر رشید کشمیری قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی سعی کریں گے یا شیخ عبد اللہ کی طرح اس کو مزید تند لہروں کے حوالے کریں گے؟ عوامی جلسوں میں شیخ عبدللہ لحن داؤدی میں اکثر اقبال کی مشہور نظم کے دو بند؛

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

پڑھ کر عوام پر وجد طاری کرتے تھے۔کیا انجینئرا قبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن کر اس خطے کو اْس منجھدار سے نکالنے کی کوشش کریں گی جس میں عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ نہ صرف بدنصیب کشمیری قوم، بلکہ پورا جنوبی ایشیا ان کا ممنون احسان رہےگا۔

کشمیر میں عوام کا پچھلے انتخابات کے برعکس اس وقت بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو ایک تاریخی واقعہ کے بطور پیش کیا جا رہا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ جمہوریت پر اعتماد کا اظہار ہے کیونکہ لوگوں نے بغیر کسی خوف کے اپنے آئینی حق کا استعمال کیا۔

سوال ہے کہ کیا جمہوری عمل صرف ووٹنگ میں حصہ لینا ہی ہے۔ ووٹنگ کے بعد اصل جمہوریت کا امتحان ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے کے بعد اور جمہوری عمل کا حصہ بننے کے بعد عوام کو اس کے بدلے جمہوری مراعات دیکر قد غنیں اٹھائیں جائیں گی اور تھوڑا سا آکسیجن فراہم کرایا جائے گا۔

یہ وقت ہی بتاپائے گا، کیا واقعی جمہوری عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ ابھی فی الحال انجینئر رشید سمیت قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply