گلزار زتشی دہلوی کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
گلزار دہلوی کو رخصت ہوئے آج پورے چارسال بیت گئے۔انھوں نے آج ہی کے دن یعنی 12/جون 2020ء کو اسی دہلی میں آخری سانس لی تھی، جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور اردو تہذیب کی آبیاری کی۔ آج میں گلزار دہلوی کے بغیر دہلی کے شعری اور ادبی منظر نامے کا تصور کرتا ہوں تو مجھے ہر طرف بڑی ویرانی نظر آتی ہے۔ہر محفل میں گرجتے برستے، چہکتے اور چہچہاتے گلزار دہلوی ایک ایسی باغ وبہار شخصیت تھے کہ ہر محفل ان کے ہی دم سے آباد تھی۔ انھیں شاعری کے ساتھ ساتھ تقریر کے فن پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ جب دلّی کی ٹکسالی زبان میں مرحوم دلّی کے قصے سناتے تو محفل خوب جمتی تھی۔ وہ دلّی کی سیکڑوں برس کی تہذیبی روایات اور اس کی شعری، ادبی اور سماجی زندگی کے واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں دلّی کے روڑے تھے۔ ان کی سب سے بڑی پہچان ان کا وہ پرتو تھا جس سے وہ اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور نمائندگی کرتے تھے۔یہ مشترکہ تہذیب ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔
گلزار دہلوی کی سب سے بڑی جیت یہ تھی کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجودگھر نہیں بیٹھے اور آخری وقت تک سرگرم عمل رہے۔ عمر کے آخری حصے میں جبکہ ان کے قویٰ جواب دینے لگے تھے تو وہ اپنے ایک معاون کی مدد سے ہر اس محفل کی زینت بڑھاتے تھے، جہاں انھیں عزت و احترام سے بلایا جاتا تھا۔
وہ خالص دلّی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میں گزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے "اوراق مصور ” سے تشبیہ دی تھی۔وہ مرحوم دہلی کی ایک توانا آوازتھے اور اس مٹتی ہوئی تہذیب کے آخری امین تھے، جس نے اس شہر کو وقار بخشا تھا۔ وہ ہر شعری نشست کی آبرو تھے ۔ انھیں بزرگی کی وجہ سے سب سے آخر میں پڑھوایا جاتا تھا، لیکن انھوں نے اپنی پیرانہ سالی اور نقاہت کے باوجود اس روایت کو ٹو ٹنے نہیں دیا۔ان کی شخصیت کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ مذہبی طور پر خالص ہندوبرہمن ہونے کے باوجود اپنے عادات واطوار اور بود وباش سے مسلمان نظر آتے تھے۔ حمدیہ اور نعتیہ نشستوں میں پورے خشوع وخضوع کے ساتھ سرخم کرکے شرکت کرتے تھے۔
یہ کوئی اداکاری نہیں تھی بلکہ اس ماحول کا فیض تھا جںس میں انھوں نے تربیت پائی تھی۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یا طاقت اردو زبان اور اس کی ملی جلی تہذیب تھی، جس کی بقاء کے لئے وہ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔وہ اردوتعلیم کے سب سے بڑے وکیل تھے اور اس کے رسم الخط پر سب سے زیادہ اصرار کرتے تھے۔ہر محفل میں وہ شرکاء سے یہ ضرور کہتے تھے کہ اپنے بچوں کو آٹھویں کلاس تک اردو ضرور پڑھائیں۔ اردو زبان اور اس کی مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ کرنے کی انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ بقول خود
درس اردو زبان دیتا ہوں
اہل ایماں پہ جان دیتا ہوں
میں عجب ہوں امام اردو کا
بتکدے میں اذان دیتا ہوں
گلزار دہلوی ایک قادرالکلام شاعر، ایک ذی علم ادیب اور محفل پر جادو کردینے والے بے مثال مقرر تھے۔ وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی، نواب سائل دہلوی، علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔ وہ ادب میں داغ اور حالی کے ادبی خانوادے کے مایہ ناز سپوت تھے۔
انھوں نے 1946میں انجمن تعمیر اردو اور ادارہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کی سرگرمیوں کو جلا بخشی۔ دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا اور وہ مولوی سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ میں ادبی محفلوں کی جان رہے۔ وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں ”روزہ رواداری“ رکھتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اس میں بذریعہ پوسٹ کارڈ مدعو کرکے خوش ہوتے تھے۔ وہ اتحاد واخوت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، مولوی عبدالحق، علامہ نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی جیسے عبقری شعراء گلزار دہلوی سے انسیت رکھتے تھے۔
گلزار دہلوی کا پورا نام پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی تھا۔وہ حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت امیر خسرو سے بے پناہ عقیدت کے سبب اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی لکھتے تھے۔خط وکتابت میں اپنے نام کے بعد یادگار اسلاف لکھنا بھی نہیں بھولتے تھے۔ وہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کی منیجنگ کمیٹی کے سرگرم ممبر تھے اور ہر سال عرس کے موقع پر وہاں بڑی عقیدت سے حاضری لگاتے تھے اور عرس کی تمام تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ان کے آباؤاجداد شاہجہاں کے دور میں دہلی آئے اور دربار میں شہزادوں کی تعلیم وتربیت کی خدمت پر مامور ہوگئے۔ یہ لوگ عربی، فارسی، سنسکرت اور اردو کے ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ان کے علمی وقار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔گلزار دہلوی کے خاندان کو یہ وصف حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں ہرکوئی شاعر تھا۔ ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی اپنے زمانے کے بہترین شاعر تھے اور ان کا شمار مرزا داغ دہلوی کے جانشینو ں میں ہوتا تھا۔ گلزار دہلوی کی والدہ محترمہ برج رانی زتشی بھی شاعرہ تھیں اور بیزار دہلوی تخلص تھا۔ وہ نواب سائل دہلوی کی شاگرد تھیں۔ گلزار دہلوی کے دوبڑے بھائی پنڈت دیناناتھ زتشی اور رتن موہن ناتھ خار دہلوی بھی سائل دہلوی کے تلامذہ میں تھے۔ اس طرح ان کے خاندان میں زار، بیزاراور خار کے بعد گلزار دہلوی نے شاعری کا پرچم لہرایا اور دہلی کے شعری اور ادبی منظرنامے پر چھاتے چلے گئے۔
اردوکی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اور ہندومسلم یکجہتی کا جذبہ محض نظر یاتی طور پرگلزار دہلوی کے مزاج کا حصہ نہیں تھا بلکہ وہ عملی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔رمضان کے مہینے میں وہ ہر سال ایک روزہ رکھ کرمشترکہ تہذیبی قدروں کو تقویت پہنچاتے تھے۔ یہ روزہ عام طور پر الوداع کا ہوتا تھا۔اسے انھوں نے ”روزہ رواداری“کا نام دیا تھا۔ ان کی روزہ کشائی کے لئے احباب باقاعدہ چندہ کرکے ایک شایان شان افطارپارٹی منعقد کرتے تھے۔ گلزار صاحب کا کہنا تھا کہ اس روزہ رواداری کی شروعات انھوں نے حضرت مولانا احمد سعید مرحوم کی ہدایت پر کی تھی،جسے انھوں نے بعد میں اپنی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کاایک حصہ بنالیا۔گلزار صاحب کے اس ’روزہ رواداری‘ میں ہر برس بلا تفریق مذہب و ملت اہم شخصیات نے شرکت کی اور ان کے اس جذبہ خلوص کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی۔
عام طور پر شاعری اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کے رسیا سائنس سے دور رہتے ہیں اور جو سائنس کے دل دادہ ہیں، وہ شاعری سے دور کی راہ ورسم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ گلزاردہلوی کا ہنر تھا کہ انھوں نے سائنس اور شاعری کے درمیان ایک پل تعمیر کرلیا تھا جس پر وہ بے تکان سفر کیا کرتے تھے۔ گلزار دہلوی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ ماہنامہ”سائنس کی دنیا“ کی ادارت کرتے ہوئے گزارا۔ اس کے ساتھ ہی وہ شعر وشاعری کا سفر بھی طے کرتے رہے۔وہ شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود ایک سائنسی جریدے کے کامیاب مدیر ثابت ہوئے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ قطب شمال اورقطب جنوب قیامت کے دن ہی سہی مگر آپس میں مل سکتے ہیں، لیکن سائنس اور شعر وادب کبھی نہیں مل سکتے۔لیکن گلزار دہلوی نے مغربی مفکرین کے اس خیال کو اپنے عمل سے غلط ثابت کر دکھایا۔
ایک بار کچھ دوستوں نے گلزار صاحب سے پوچھا کہ ”سائنس حقائق کی تحقیق کرتا ہے اور ادب حقائق کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے، لہٰذا ایک شاعر وادیب کو’سائنس کی دنیا‘کی کمان سنبھالنے میں دشواری پیش نہیں آئی؟“ یہ سن کر گلزاردہلوی نے کہا کہ”ارے بھئی، سائنس میں بھی تو خورد بین سے چھوٹے چھوٹے ذرات، خلیوں اور جراثیم کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا جاتا ہے تاکہ سائنسی تحقیق آسانی سے کی جاسکے۔ اسی طرح ادب میں سماجی، معاشی، ثقافتی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی معاملات کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین، سامعین اور ناظرین کودین ودنیا کا آئینہ آسانی سے دکھایا جاسکے، اس لئے سائنس اور ادب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔“
خواجہ احمد عباس نے سائنس اور شاعری کے حوالے سے اردو ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں گلزار دہلوی پر باقاعدہ کالم لکھا۔ اس کا عنوان تھا”سائنس اور شاعری“۔ اس کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ”اردو میں ’سائنس کی دنیا‘سارے برصغیرمیں اپنی نوعیت کا واحداور بے مثل رسالہ ہے اور اس کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ایک شاعر اور دانشور کی زیر ادارت نکلتا ہے۔ یہ شاعر اپنی لگن اور اردو میں سائنس کی واقفیت کی وجہ سے اس کے بانی ہیں اور اس سے وابستہ ہیں۔ حکومت کے کتنے ہی اردورسالے ملک میں نکلتے ہیں، جن میں بہ آسانی ایک مشہور ادیب وشاعر کو جگہ مل سکتی ہے۔مگر اردو کوسائنس کے علوم سے مالا مال کرنے کا یہ جذبہ اور کوشش ان کے ہی حصے میں آئی، جس کا انھوں نے لاجواب حق ادا کرکے دکھایا۔
یہ شاعر ہیں علامہ پنڈت زار دہلوی(یادگار داغ)کے صاحب زادے پنڈت گلزار زتشی دہلوی، جو کہ ساٹھ برس کے ہونے پر بھی خوب رو، جامہ زیب صاحبزادے معلوم ہوتے ہیں۔ نوجوانی ان کے سرخ وسفید چہرے پر لکھی ہوئی ہے۔حال ہی میں اودے پور کے ایک مشاعرے میں وہ نوجوان ترین شاعر معلوم ہوتے تھے۔ اگرچہ وہاں دس بارہ ان سے کم عمر شاعراور بھی موجود تھے، مگر گلزار صاحب باتوں کے انداز سے، پڑھنے کے اسٹائل سے اور اپنے خیالات کے باغیانہ اسلوب سے نوجوان ہی لگتے تھے۔“
خواجہ احمد عباس نے اردو ’بلٹز‘میں یہ کالم اب سے کوئی 40 برس پہلے لکھا تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلزار دہلوی 94برس کی عمر تک اسی طرح تروتازہ رہے۔