ہندوستان میں زوال کی طرف جا رہی جمہوریت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
ہندوستان کا شمار دنیا کے عظیم ترین جمہوری ملک میں ہوتا ہے ، یہاں کے انتخاب پر عالمی مبصرین اور سیاس قائدین کی نظریں ٹکی ہوتی ہیں ، ہم پوری دنیا میں اپنی جمہوریت کے گن گان کرتے ہیں اور دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے یہاں مذہب ، ذات اور برادری کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی ہے ، یہ بیانات ہمارے کانوں کو بھلے لگتے ہیں اور ہم جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔خوشی اچھی چیز ہے ، لیکن ہمارے ملک میں جاری جمہوریت کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا جمہوری اقدار اور تقاضوں کی حفاظت ہندوستان میں ہو رہی ہے یا وہ دن بدن کمزور پڑتی جا رہی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ حالیہ انتخاب میں اگر عوام نے پارلیامنٹ میں حزب مخالف کو مضبوط نہ بنایا ہوتا تو یہ ملک آمریت کی طرف بڑھ چکا تھا۔
جمہوریت میں بنیادی چیز سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور یقینی طور پر مذہب، ذات برادری کی بنیاد پر اس میں تفریق کی گنجائش نہیں ہے ، لیکن ہمارے ملک میں تو سارا انتخاب ذات برادری اور مذہب کے نام پر ہی لڑا جا رہا ہے، ٹکٹوں کی تقسیم برادری اور مذہب دیکھ کر کی جاتی ہے، اور اسے فتح وکامرانی کے لیے سیاسی شعور قرار دیا جاتا ہے ، ہر برادری اپنی ہی برادری کو ووٹ دینا چاہتا ہے، حالیہ انتخاب میں انڈیا اتحاد کے کئی امیدوار اسی لیے کامیاب نہیں ہو سکے کہ ایک خاص برادری نے اپنی برادری کے امیدوار جو این ڈی اے میں تھے، انہیں پارٹی سطح سے اوپر اٹھ کر برادری کی بنیاد پر ووٹ کر دیا ، اور انڈیا اتحاد کے امیدوار کو ہرانے کا کام کیا۔
جمہوریت کو بچانے میں بڑا کردار میڈیا کا ہوتا تھا، لیکن پرنٹ اور الکٹرونک میڈیا میں بڑی تعدا د ایسے مالکان اور صحافی کی ہے ، جس نے اپنے کو اقتدار کی چوکھٹ پر جبین سائی اور سجدہ ریزی کو اپنا شعار بنالیا ہے ، وہ اقتدار کے کوٹھے پر رقص کرنے پر مجبور ہیں، غلاموں کی یہی ادا ہوا کرتی ہے وہ اپنے آقا کو خوش کرنا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں، سچی خبریں دبا دی جاتی ہیں اور ان کا ذکر تک نہیں آتا، جھوٹی خبروں کی اشاعت اس طرح کی جاتی ہے جیسے سارا سچ وہی ہے ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اس اصول پر کام کرنے لگے ہیں، جیسا انگریزوں کے وقت میں ہوا کرتا تھا، کہ جھوٹ کو اس قدر اور اتنی بار بولو کہ وہ سچ سمجھا جانے لگے ، پہلے لوگ کہا کرتے تھے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، لیکن میڈیا کی اس روش نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے پیر تو نہیں ہوتے، لیکن اسے پَر لگا یا جا سکتا ہے ، اور سچ سے زیادہ اسے پرواز بخشی جا سکتی ہے ۔
پہلے اکزیکٹیو اوربیوروکریٹ جمہوریت کو چست ودرست رکھنے میں اپنی بھر پور حصہ داری نبھاتے تھے، لیکن اب وہ خود ہی گلے تک بدعنوانی میں ڈوب چکے ہیں ، چھوٹے چھوٹے کا موں کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے، سونے کی جوتی منہہ پر ماریے تو سب کام آسان ہوجاتے ہیں۔’’ سویدھاشلک‘‘ کے بغیر کوئی کام ہو ہی نہیں پاتا، جو اچھے اور ایماندار افسر ہیں، ان کے یہاں ’’ورک کلچر‘‘ نہیں ہے، فائلیں مہینوں ٹیبل پر پڑی رہتی ہیں، وہ رشوت نہیں لیتے تو کام میں سستی کرتے ہیں۔ یہ جو بہار میں مسلسل پُلوں کے گرنے کا واقعہ پیش آیا،اس کی وجہ یہی ہے کہ رشوت دیکر ٹنڈر لیا گیا ، تیس فی صد دستوری دفاتر نے وضع کرکے رقم جاری کیا، اب ظاہر ہے بیس فی صد ٹھیکیدار کو نہیں بچے گا تو وہ کیوں کام کرے گا ، اس طرح مٹیریل سو فی صد کے بجائے پچاس فیصد کا لگایا گیا ، اب اتنے گھٹیا اور کمزور مٹیریل سے بننے والا پل کتنی رگڑ برداشت کرتا ، چنانچہ اس نے مکمل ہونے اور رسمی افتتاح سے پہلے بدعنوانی کی پول کھول دی ، وہ تو اچھا ہوا کہ پہلے ہی گر گیا ورنہ سواری چلنے کے بعد گرتا تو جان کا بھی ضیاع ہوتا، شکر ادا کرنا چاہیے کہ جانیں ضائع نہیں ہوئیں، اب سرکار اس کی جانچ کر رہی ہے ، سپریم کورٹ نے جواب طلب کیا ہے ، اس قانونی داؤ پیچ میں ممکن ہے کچھ چھوٹی مچھلیاں پھنس جائیں، لیکن بڑی مچھلی تک کسی کا ہاتھ نہیں پہونچتا ، واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں بد عنوانی نے دیمک کی طرح جگہ بنا لیا ہے اور وہ سارے نظام کو چاٹ چاٹ کر ختم کرنے پر تلا ہوا ہے ۔
یہی حال ملکی سیاست کا ہے ، ہر پارٹی میں فرقہ وارانہ نظریات کے حامل افراد شامل ہیں، پارٹی کے نظریات اپنی جگہ ، لیکن پارٹی کے کارکنوں کے اندر کوئی ڈسپلن اور کوئی نظریہ نہیں پایا جاتا ، جس پارٹی سے ٹکٹ ملا، اس میں گُھس جاتے ہیں، بلکہ پارٹی بدلنے کے لیے عہدے اور رقم کی پیش کش ہوتی ہے، اور وہ بک جاتے ہیں، انہیں نہ کسی نظریہ کا پاس ولحاظ رہتا ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدار کا، مسلمانوں کی یاد ہمارے مسلم قائدین کو بھی اسی وقت آتی ہے، جب انہیں ٹکٹ نہیں ملتا، وہ جانتے ہیں کہ وہ مسلم کو ٹے سے پارلیامنٹ پہونچے ہیں، لیکن جاتے ہی وہ مسلمانوں کے ترجمان نہیں ، پارٹی کے ترجمان بن جاتے ہیں، وہ پارٹی قیادت کے چشم وابرو کے سہارے چلنے لگتے ہیں، انہیں مسلمانوں کی یاد اس وقت آتی ہے ، جب ان کا ٹکٹ کٹ جاتا ہے ، وہ اپنے بھگتوں سے اس قدر اخبار بازی کرواتے ہیں ، جیسے ان کو ٹکٹ نہیں ملنے کی وجہ سے مسلم قیادت ختم ہو گئی اور مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو ، کوئی ان سے پوچھے کہ جب آپ پارلیامنٹ میں تھے، مسلمانوں کے مسائل پر کتنی گفتگو کی تھی کہ آج نہ رہنے سے مسلمان خلامحسوس کریں گے ۔
پھر جو ارکان چن کر جا رہے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک تہائی افراد وہ ہیں جن کا مجرمانہ بیک گراؤنڈ رہا ہے ، وہ کسی نہ کسی جرم میں عدالت یا پولیس کوماخوذ ہیں، ایسے ارکان کسی ایک پارٹی میں نہیں سبھی میں ہیں، پہلے وہ اپنے سر پرستوں کے لیے کام کرتے تھے، پھر انہوں نے سوچا کہ اگر دادا گیری انتخاب جیتنے میں معاون ہے تو ہم کیوں نہیں پارلیامنٹ پہونچ سکتے ، چنانچہ آج وہ اسمبلی اور پارلیامنٹ میں پہونچے ہوئے ہیں، اور اسمبلی اور پارلیامنٹ کے اوقات ضائع کرنے میں ان کی کتنی حصہ داری ہے اور کتنے ہنگامے ہوتے ہیں، اس سے ہر کس وناکس واقف ہے ، وہ لوگ جو دوسروں کو جھگڑوں سے روکنے کے لیے معیار اور ماڈل بن سکتے تھے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ کس قدرجھگڑنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے لوگ کس طرح جمہوریت کی گرتی ساکھ کو سنبھال سکیں گے، سمجھ سے بالا تر ہے ۔
عدلیہ اور قوانین کے بارے میں ہمارا مطالعہ کمزور ہے، اس لیے ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ، اس کا وقار اور اعتبار ہماری پونجی ہے، لیکن جو معاملات وفیصلے سامنے آرہے ہیں، اس کی وجہ ہم جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی، مثلا جیل پور ہائی کورٹ کی اندور بینچ نے راشٹریہ سوک سنگھ کے پروگراموں میں سرکاری ملازمین کو نہ صرف جانے کی اجازت دی ، بلکہ بقول اشوک وانکھیرے عرف ٹائیگراس بات کے لئے معافی بھی درج کی کہ سرکاری افسران وکارکنان کو طویل مدت تک سنگھ کی شاخوں میں جانے سے روکے رکھاگیا ، اسی طرح طلاق شدہ عورت کو نفقہ دینے کا فیصلہ ، باری مسجد کی زمین رام مندر کو دیے جانے کی بات، تین طلاق کے نافذ نہ ہونے کا فیصلہ، تاریخی مساجد جو آثار قدیمہ کے تحت ہیں، ان پر معاملات کی سماعت اور غیر قانونی قبضہ کہہ کر مساجد پر بلڈوزر کا استعمال، یہ سب سمجھ سے باہر کی بات ہے ، عوام تو عوام ہی ہیں، انہیں قانون کا پتہ نہیں ، جب ریٹائر جج پارلیامنٹ، اسمبلی اور گورنر ہاؤس تک پہونچ جاتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ کہیں کچھ ضرور ہے، اور عوام تو عوام ہے، خود ہندوستان کے چیف جسٹس نے ضمانت وغیرہ پر ہونے والی تاخیر کے سلسلہ میں نچلی عدالت کی سرزنش کی ہے اور ان کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔
اس طرح دیکھا جائے تو جمہوریت ہمارے ملک میں انحطاط پذیر ہے ، اس کی بر تری کے لیے جس قدر ایماندار حکمرانی ، بد عنوانی سے پاک بیوروکریٹ ، حساس عدلیہ اور غیر جانبدارانہ صحافت کی ضرورت ہے، وہ خیالوں میں، کاغذوں میں، تصور میں تو ہے، لیکن عملی طور پر زمین پر اس کا وجود نظر نہیں آتا، اس لیے آج پھر سے ملک کو گاندھی ، لوہیا اور جے پی کے انداز کی تحریک کی ضرورت ہے، تحمل ، برداشت ، اچھی چیز ہے ، لیکن ہر بات پر خاموشی اختیار کرنا بزدلی کی علامت ہے، اگر اس ملک میں جمہوریت کو باقی رکھنا ہے تو ایک تحریک چلانی ہوگی ، بدعنوانی کے خلاف، جرائم کے خلاف ، اقتدار کے بے جا استعمال کے خلاف ، سماجی انصاف کے حصول کے لیے ، ملک ، آئین اور جمہوریت بچانے کے لیے میدان میں کودنا پڑے گا، صبر وتحمل اور برداشت کی زیادتی ہمیں نفسیاتی مریض بنا دے گی، جس کا علاج ممکن نہیں ہوگا، ملک کو بچانا ہے، جمہوریت کو بچانا ہے تو ہمیں یہ کرنا ہی ہوگا، اس موقع سے شاعر انقلاب جو ش ملیح آبادی یاد آگیے کہتے ہیں۔
اے سوئی ہوئی قوم کے بیدار جوانو
اے ہمت مرادانہ کے ذی روح نشانو
سو بات کی ایک بات ہے اس بات کو مانو
جینے کا جو ارمان ہے تو موت کی ٹھانو