یہ شارعِ عام نہیں ہے

احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

ملک کے ایک ممتاز ادیب [مقیم کراچی] کو ایک روز چلتے چلتے اچانک خیال آیا:

’’ارے، میں تو شارع فیصل پر چلا جارہا ہوں‘‘۔

اُن کے دل میں خیال آیا تو ذہن میں سوال آیا:

’’اس شاہ راہ کو ’شارع‘ کا نام کیوں دیا گیا؟ شارع تو شریعت عطا کرنے والے کوکہتے ہیں‘‘۔

یہ شارعِ عام نہیں ہے
یہ شارعِ عام نہیں ہے

اُردو کا محاورہ ہے ’شرع میں کیا شرم؟‘مفہوم یہ کہ شرعی مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہیے۔ چناں چہ اُنھوں نے بڑی بے شرمی سے اپنا یہ سوال ہمیں بھیج دیا۔ یہ نہ سوچا کہ بھلا ہمارا شرع سے کیا تعلق؟ ذرا شرم نہ آئی ہمیں شرمندگی میں مبتلا کرتے ہوئے۔

خیر، جب اُنھوں نے سوال بھیج ہی دیا تو شرما شرمی میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ سو، پہلا کام تو یہ کیا کہ لغات کھنگالے۔ لغت بازی سے فقط اتنا معلوم ہوا کہ ’شرع‘ قانون بنانے کو کہتے ہیں۔ اس کے آگے ’شرعی مرکبات‘ بنے ہوئے تھے، مثلاً شرعی پاجامہ، شرعی ڈاڑھی اور ’شرعی حیلہ‘ وغیرہ۔ ان حیلوں سے دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ سو، اطمینانِ قلب کے لیے کچھ علما سے رجوع کیا۔ ’مرجوعین‘ سے ’شرع‘ کے مختلف معانی تو معلوم ہوئے، شرحِ صدر نہیں ہوا۔ بالآخر لغاتِ قرآنی کے شناور، شیخ القرآن و الحدیث فضیلۃ الشیخ خلیل الرحمٰن چشتی حفظہٗ اللہ کے حضور پہنچے اور اُن سے رجوع لائے۔ آپ کے جوابات سے آنکھیں بھی کھل گئیں، گرہیں بھی کھل گئیں اور راہیں بلکہ شاہ راہیں بھی۔ حتیٰ کہ شارع فیصل بھی خوب کھلی کھلی،کشادہ کشادہ اور روشن روشن نظر آنے لگی۔

پہلے تو آپ نے فرمایا:

’’آج ہی آپ کا ذکرِ خیر ہوا۔ سید مکرم علی صاحب تشریف لائے تھے۔ اُن سے بار بار آپ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی‘‘۔

پھر اُردو میں بولے کہ ’’عربی عجیب و غریب زبان ہے۔ عربی کیا، ہر زبان ہی عجیب ہوتی ہے۔ اب دیکھیے آپ ہر ہفتے اُردو الفاظ کی تہ میں جاتے ہیں اور اُن کے مختلف معانی نکال کر لاتے ہیں، پھر ان معانی کو کھولتے ہیں۔ لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ اچھا یہ لفظ عربی کا تھا، عربی سے فارسی میں آیا۔ فارسی میں آکر یہ مفہوم دینے لگا، اُردو میں آیا تو یہ مفہوم دینے لگا۔ اس کی ہیئت ایسی ہوگئی۔ مفہوم ایسے بدل گیا، وغیرہ وغیرہ…‘‘

ان تمہیدی کلمات کے بعد چشتی صاحب نے’شرع‘ کے جو تفصیلی استعمالات بتائے اُنھیں ہم اپنے الفاظ میں اور اپنے نمک دان سے نمک مرچ چھڑک کر آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔

’ش ر ع‘ کے مادّے سے بننے والے الفاظ کے لاتعداد معانی ہیں۔ ان میں سے ایک معنی’ شروع ہونا‘ ہے (’شَرَعَ یشرَعُ‘ باب فَتَحَ سے ہے۔ بحکم خلیل الرحمٰن چشتی) نحو کی زبان میں کچھ افعال کو ’افعالِ شروع‘ کہتے ہیں۔ اُنھیں میں سے شَرَ عَ بھی ہے، جس کے لفظی معنی ہیں ’شروع کیا‘۔ یعنی ابتدا کی۔ ’شَرَع یَکْتُبُ‘ کا مطلب ہوگا ’اُس نے لکھنا شروع کیا‘۔ اُردو میں بھی ہم کہتے ہیں کہ ’’یہ کام ’شروع‘ کردیا‘‘ (گویا اُردو کے ’شروع‘ کو بھی ’شرع‘ سے شروع ہونے کا اعزاز حاصل ہے)۔ لفظ ’شروع‘ سے اُردو میں ایک لفظ ’شروعات‘ بھی استعمال کرنا شروع کردیا گیا ہے، جس سے مراد ابتدا یا آغاز ہی ہے۔ یہ لفظ جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوتا، واحد ہی استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ افضالؔ احمد سید نے کسی ’سیدہ‘ کو دھمکی دیتے ہوئے استعمال کیا تھا:

بانوئے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے

ورنہ ہم جنگ کریں گے، وہ شروعات کرے

’’شَرَعَ الطریقہ‘ کا مطلب ہے ’اُس نے سڑک بنائی یا راستہ بنایا‘۔ ’شَرَعَ‘ کے ایک معنی کسی چیز کو اُٹھانا اور بلند کرنا ہیں۔ اسی سے کسی منصوبے کو اُٹھانے اور بلند کرنے کا خاکہ تشکیل دینے کے معانی بھی نکل آئے۔ لہٰذا اگر کوئی منصوبہ، مثلاً کسی عمارت کو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جائے، اُٹھایا جائے یا کھڑا کیا جائے تو اُسے ’مشروع‘ کہتے ہیں۔ منصوبہ خاک میں ملا دینے کو خدا جانے کیا کہتے ہوں گے۔

شَرَعَ کے معنوں میں سے ایک اور معنی پانی میں داخل ہوجانا یا اوک سے (یعنی منہ لگا کر) پانی پینا ہے۔ ’شَرَعَ الوَارِدُ‘ یعنی اُس نے منہ لگا کر یا اوک سے پانی پیا۔ اسی طرح ’شَرَعَ المَاشِیۃَ‘ کے معنی ہوں گے ’’وہ مویشیوں کو لے کر پانی کے گھاٹ پر گیا‘‘۔ سورۃ الاعراف کی آیت 163میں مچھلیوں کے لیے ’شُرَّعاً‘ استعمال ہوا ہے۔ دریا کے کنارے یعنی گھاٹ اور گھر کی دہلیز کو بھی ’شریعہ‘ کہتے ہیں۔ البتہ حضرت مولانا ابوعمار زاہد الراشدی حفظہٗ اللہ کے رسالے کو ماہ نامہ ’’الشّریعہ‘‘ گوجراں والا کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ شرع کے مادّے سے بننے والے الفاظ اور اُن کے معانی کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس یک صفحی کالم میں سب سے مصافحہ نہیں کیا جا سکتا۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، شَرَعَ کے ایک معنی ’قانون بنانا‘یا ’ضابطہ بنانا‘ ہیں۔ جو قانون بن جائے اُسے ’شریعت‘ کہتے ہیں۔ اوپر جہاں ہم نے مویشیوں کو پانی کے گھاٹ اُتار دیا ہے، وہیں یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ جنگل کے قانون کو ’شریعۃُ الغاب‘ کہتے ہیں۔ اقبالؔ نے بے داغ شباب رکھنے والے اور ضربِ کاری لگانے والے جس جوان کو قبیلے کی آنکھ کا تارا قرار دیا ہے، اُس کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے:

اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر

اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری

’الشّرْعُ‘ کا مطلب ہے سیدھا راستہ جو واضح ہو۔ اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے زیادہ واضح اور سیدھا راستہ کس کا ہوسکتا ہے؟ پس، اصطلاحاً ’شرع‘ سے مراد اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے، یعنی قوانینِ الٰہی کو ’شریعت‘ کہتے ہیں۔ شریعت دین کا ایک حصہ ہے پورا دین نہیں۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 13میں فرمایا گیا: ’’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ…‘‘ ’’تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا…‘‘ یعنی دین ہمہ گیر نظام ہے اور شریعت محض ’ قوانین کا مجموعہ‘۔ ہر نبی کی شریعت الگ الگ رہی، دین سب کا ایک تھا۔ اب رہتی دنیا تک صرف ’شریعتِ محمدیؐ‘ کو اللہ کے قانون کی حیثیت حاصل ہے، باقی شرائع منسوخ۔ عربی میں قانون سازی کے عمل کو ’تشریع‘ کہتے ہیں اور قانون سازکو ’شارع‘۔

اُردو میں ’شَرَع‘ کا لفظ شریعت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اکبرؔ الٰہ آبادی نے چپکے سے یہ راز کی بات بتائی کہ

خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اُجالے میں چُوکتا بھی نہیں

بنیادی طور پر شرع کا مطلب راستہ، منہاج اور طریقہ ہے۔ نہج اور منہاج بھی راستہ ہے، طریق اور طریقہ بھی راستہ ہے۔ شرع سیدھا راستہ ہے۔ شارع سیدھی سڑک اور بڑی سڑک ہے، جو راہی کو کسی خاص منزل تک لیے جاتی ہے۔ شارع کی جمع شوارع ہے۔ شارع سے مراد ’عام راستہ‘ بھی ہے۔ وہ راستہ جس پر ہر کس و ناکس چلتا چلا جاتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب خواص کسی راستے کو عوام پر بند کرتے ہیں تو اُس پرتختی لگا دیتے ہیں کہ ’’یہ شارعِ عام نہیں ہے‘‘۔ استاد قمرؔ جلالوی ایسی تختی دیکھ کر جلال میں آجاتے ہیں:

راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

ایسے جلالی شعر کے بعد تو ہمیں شارع عام پر بیٹھ کریعنی اسے بند کرکے بک بک کرنے کا عمل فوراً بند کردینا چاہیے۔

Leave a Reply