اردو زبان کے وقار کا عدالتی اعتراف : عدالتِ عظمٰی کا تاریخی فیصلہ
عدالت نے روشنی دکھا دی ہے، اب چراغ جلانا ہم سب پر فرض ہے
تحریر: ابوشحمہ انصاری
زبان کسی قوم کی شناخت، تہذیب اور تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں ہر زبان اپنی الگ ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔ اردو زبان ان زبانوں میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے، جو صدیوں سے محبت، رواداری، شاعری اور علم و حکمت کی زبان رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں عدالتِ عظمٰی کا جو فیصلہ اردو زبان کے سلسلے میں سامنے آیا ہے، وہ نہ صرف اردو داں طبقے کے لیے باعثِ فخر ہے، بلکہ ملک کی آئینی روح اور لسانی تنوع کے تحفظ کی جانب ایک روشن قدم بھی ہے۔
عدالتِ عظمٰی نے اردو زبان کو صرف ایک اقلیتی زبان نہیں بلکہ ہندوستانی آئین کے تحت ایک مساوی درجہ رکھنے والی قومی زبان قرار دیا ہے۔ اس فیصلے میں عدالت نے اردو زبان کے ساتھ برابری کے سلوک کی وکالت کی اور اسے تعلیم، انتظامیہ اور عوامی خدمات میں اس کا حق دلانے پر زور دیا۔ یہ فیصلہ اُن تمام کوششوں اور تمناؤں کا جواب ہے جو برسوں سے اردو زبان کے لیے کی جا رہی تھیں۔

اردو زبان کے تعلق سے برسوں سے ایک محدود نظریہ پیش کیا جاتا رہا ہے، جیسے کہ یہ کسی مخصوص طبقے یا مذہب سے وابستہ ہے۔ عدالت کے اس فیصلے نے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اردو محض ایک زبان نہیں، بلکہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا وہ جوہر ہے جس نے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کے جذبات کو اپنے الفاظ میں پرویا ہے۔ عدالتِ عظمٰی نے واضح الفاظ میں کہا کہ (اردو کسی مذہب کی زبان نہیں) بلکہ یہ ہندوستانی تہذیب کی زبان ہے، جو سب کے دلوں کی آواز ہے۔ اردو نے نہ صرف شعراء و ادباء کو جنم دیا بلکہ عام آدمی کے جذبات کی ترجمانی بھی کی ہے۔
یہ فیصلہ صرف جذباتی نہیں، آئینی بنیادوں پر استوار ہے۔ آئینِ ہند کی دفعہ 29 اور 30 لسانی اور ثقافتی اقلیتوں کو ان کے تعلیمی و ثقافتی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ عدالتِ عظمٰی نے انہی دفعات کو بنیاد بناتے ہوئے اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ اس فیصلے سے اردو اسکولوں، اردو اساتذہ، اور اردو ادب کے تمام کارکنان کو ایک نئی امید ملی ہے کہ ان کی زبان اب محض ایک جذباتی ورثہ نہیں، بلکہ آئینی حیثیت کی حامل ایک زندہ حقیقت ہے۔
اس موقع پر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عدالت کا فیصلہ ایک سمت ضرور دکھاتا ہے، مگر زبان کی ترقی صرف قانونی فیصلوں سے نہیں ہوتی۔ ہمیں خود بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔ اردو کو گھروں میں زندہ رکھنا، بچوں کو اردو زبان و ادب سے روشناس کرانا، اردو اخبارات، رسائل اور کتابوں کو فروغ دینا، اور اردو زبان کو ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ عدالت نے روشنی دکھا دی ہے، اب چراغ جلانا ہم سب پر فرض ہے۔
اردو کو دفاتر، عدالتوں، اور تعلیمی اداروں میں رائج کرنا صرف اردو والوں کا فائدہ نہیں بلکہ ملک کی جمہوریت کی وسعت کا ثبوت ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف اردو بلکہ تمام اقلیتی زبانوں کے لیے ایک امید بن کر آیا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر زبان، ہر تہذیب کو برابری کا حق حاصل ہے، اور کسی بھی زبان کے ساتھ امتیاز روا رکھنا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
آخر میں، یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ عدالتِ عظمٰی کا یہ فیصلہ اردو زبان کی تاریخ میں ایک سنہرا باب ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اردو کو ایک نئی زندگی دیں، اسے صرف شاعری یا نعت کی زبان نہ سمجھیں بلکہ جدید علوم، سائنسی ترقی، اور سماجی روابط کی زبان بھی بنائیں۔ اردو کو نئے زمانے سے جوڑیں اور نئی نسل کو اس کے حسن، وقار اور علمی سرمایے سے روشناس کرائیں۔
یہ فیصلہ ہمارے لیے ایک موقع ہے۔ ایک نیا آغاز، ہمیں اپنے قلم، اپنی آواز، اور اپنی کاوشوں سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اردو نہ کبھی پیچھے تھی، نہ ہے، اور نہ رہے گی۔ یہ زبان دلوں کو جوڑنے والی ہے، دیواریں گرانے والی ہے، اور انسانیت کو اپنانے والی ہے۔