غلطی ہائے مضامین
اُردو کے پاجامے کی شامت
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
خواجہ حیدر علی آتشؔ بھی شاید ہماری ہی طرح اُوب گئے تھے، مطلب یہ کہ اُکتا گئے تھے:
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
سو،ہمیں بھی ہمارے ایک مہربان بزرگ نے ٹوکا ہے کہ
”آپ اپنے طور پر اچھی اُردو بولیں اور اچھی اُردو لکھیں، مگر دوسروں کو مت ٹوکا کریں۔ دوسروں کو اُن کے کپڑوں پر، کھانوں کے انتخاب پر اور بولنے کے انداز پر ٹوکنا تہذیب کا حصہ نہیں ہے۔آپ لوگوں کو کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ فرہنگ کھول کر اُردو بولا کریں اور لکھا کریں“۔وغیرہ وغیرہ(تحریرطویل ہے)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن سے قبل ایک دوسرے بزرگ نے ڈاکٹر رؤف پاریکھ جیسے فاضل بزرگ کو بر سرِ کالم ٹوک دیا تھا، اس بات پر، کہ وہ اُردو میں ”برخط“ جیسی اُردو اصطلاحات کیوں استعمال کرتے ہیں۔ حکم دیا تھا کہ اس کی جگہ اُردو میں بھی انگریزی ہی بولا کریں۔ اس ٹوکا ٹاکی پر پہلے بزرگ نے دوسرے بزرگ کوہرگز نہیں ٹوکا کہ تیسرے بزرگ کے ساتھ’بدتہذیبی‘ کیوں کی جا رہی ہے؟ بلکہ اوّل الذکر بزرگ نے ثانی الذکر بزرگ کے مذکورہ کالم کو اپنا ’پسندیدہ کالم‘ قرار دیا۔ جی نہیں! یہ کھلا تضاد نہیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ چھوٹا دیکھتے ہیں نہ بڑا، ہر شخص کو ہر بات پر ٹوکنا اپنا تہذیبی حق سمجھتے ہیں اور اُن کے ٹوکنے پر کوئی ٹوکے تو اُس کو بھی ٹوک دیتے ہیں۔
ٹوکنا ایک فعلِ متعدی ہے۔ مرضِ متعدی کی طرح ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے۔ اس کے کئی معانی ہیں۔نظر لگانا، حسد کرنا، جلنا۔پوچھنا، دریافت کرنا، سوال کرنا۔ کسی کو کہیں جاتے وقت پیچھے سے آواز دینا۔ غلطی بتانا، جیسے ”حافظ صاحب نے تیسری آیت پر قاری صاحب کو ٹوکا“۔ مزاحم ہونا، منع کرنا، روکنا، تعرض کرنا۔ حضرت مظہرؔ جانِ جاناں ؒ اپنے محبوب کو ٹوکنے والوں کو ٹوکتے ہوئے فرماتے ہیں:
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
جب کہ حضرت امیرؔ مینائی کو ٹوکے جانے کی شکایت تھی:
گزرا ہے جب اُس کوچۂ گیسو میں مرا دل
روکا ہے جو آفت نے، تو ٹوکا ہے بلا نے
روکناٹوکنا ہماری اعلیٰ و ارفع تہذیب کا حصہ ہے۔جہاں ہمیں معروف کی تاکید کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہیں منکرات پر ٹوکنے کا حکم بھی ہے۔ٹوکنے ہی سے حسن معاشرت برقرار رہتا ہے۔ صاحبِ ایمان بُرائی پر ٹوکتا ہے اور شیطان بھلائی پر۔اوامر و نواہی زندگی کے ہر شعبے میں ہوتے ہیں۔ اِن کالموں کا تعلق، چوں کہ شعبۂ اصلاحِ زبان سے ہے، چناں چہ ہم اِس موضوع کو اسی شعبے تک محدود رکھیں گے۔
اُردو زبان ہماری تہذیب کی ترجمان ہے۔ اپنی شائستہ تہذیب کے تحفظ کے لیے،زبان کے تحفظ کا فریضہ کئی اکابر سر انجام دے رہے ہیں، جن میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر معین الدین عقیل، رضاعلی عابدی، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، علامہ جواد نقوی، سہیل احمد صدیقی، سلیم الحق فاروقی، نادر خان سرگروہ اورعبد الخالق بٹ سمیت بہت سے لوگ شامل ہیں۔
زندگی کے ہر شعبے کی طرح دنیا کی ہر زبان کا کوئی نہ کوئی قاعدہ، قانون، دستور، اصول اور ضابطہ ہوتا ہے۔ انھیں ضابطوں کی خاطر فرہنگ، قاموس اور لغت پر محنت کی جاتی ہے، برسوں کی جاتی ہے اور مسلسل کی جاتی ہے۔ کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں جامعات سمیت مختلف تعلیمی اداروں میں زبان کے قواعد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسناد تفویض کی جاتی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ صرف اُن لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو سیکھنا چاہیں۔ پھر جو کچھ سیکھا ہے اُس پر عمل کرنا چاہیں۔ جو عمل نہ کرنا چاہیں اُن کو اِن کوششوں پر پریشان اور ہلکان ہونے کی قطعاًحاجت نہیں۔ علم پر عمل نہ کرنے والوں کو، سورۂ جمعہ کی آیت نمبر ۵ میں، ایسے گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے جس پرکتابیں لاد دی گئی ہوں۔ جب کہ گدھے کی ”ڈھینچوں ڈھینچوں“ کو سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۱۹ میں مکروہ ترین آواز قرار دیا گیا ہے۔
زبان کے قواعد اہلِ زبان ہی بناتے ہیں۔ فرہنگ و لغات میں اُنھیں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔حوالے کے لیے اہلِ علم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ گلی کوچوں کی مخلوقِ فراواں کا نہیں۔ مولانا مودودیؒ اور مولانا ماہر القادریؒ جیسے جید ماہرینِ زبان کے مابین ہونے والی لسانی گفتگو سند بن جاتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کا ایک قول ناصحِ محترم نے نہ جانے کہاں سے نقل کر بھیجا ہے کہ ”زبان وہی ہے جو لوگ بولتے ہیں،وہ نہیں جو فرہنگ میں ہوتی ہے“۔ جب تک اس قول کامستند حوالہ نہیں مل جاتا، یہ قول مولانا مودودیؒ پر تہمت ہی کہا جائے گا۔ مولانا مرحوم کی زبان کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی زبان تھی۔ اُنھوں نے کبھی بازاری بولی نہیں بولی۔معاشرے کے عام لوگ مثلاً نائب قاصد اور خاکروب زبان پر سند نہیں سمجھے جاتے۔ نائب قاصدوں اور خاکروبوں کی بولی، صرف نائب قاصدوں اورخاکروبوں ہی کے لیے سند ہو سکتی ہے۔
اب ذرا ذکر ہو جائے اس نصیحت کا کہ ”آپ اپنے طور پر اچھی اُردو بولیں اور اچھی اُردو لکھیں، مگر دوسروں کو مت ٹوکا کریں“۔ کسی نصیحت کے پُر اثر ہونے کے لیے لازم ہے کہ نصیحت کرنے والا خود بھی اس پر عمل پیرا ہو۔اگر کوئی شخض ’لاش‘ کا املا تکرار اور تواتر کے ساتھ ’لعش‘ لکھتا ہو۔ ’نہ سہی‘ کو ’ناصحیح‘ تحریر کرتا ہو اور اس قسم کے فقرے مسلسل لکھتا چلا جاتاہو کہ ”اب نا اس دور کے کپڑے پہنے جاتے ہیں نا شوق رکھے جاتے ہیں نابھینس کی کھال سے بنے مشکیزوں پر دریا پار کیا جاتا ہے“۔ توہمارا جی بھی نصیحت کرنے کو چاہنے لگتا ہے۔
نصیحت کے لفظی معنی ’خیر خواہی‘ کے ہیں۔ کسی کا بھلا چاہنا۔ ’ذ‘ کی جگہ ’ز‘ اور ’ز‘ کی جگہ ’ذ‘ یا ’ض‘ لکھنے اور ’س‘ کی جگہ ’ص‘ یا ’ص‘ کی جگہ ’س‘ لکھنے سے نا پختہ لکھاری ہونے کا تاثر بنتا ہے۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں؟ مگر زبان کو سیکھنے، سنوارنے اور نکھارنے سے شخصیت میں دل کشی پیدا ہوتی ہے۔ آدمی آئینہ کیوں دیکھتا ہے؟ اس لیے کہ آئینہ اُس کو کمی خامی پر ٹوک دیتا ہے۔ ٹوکنے سے شخصیت سنورتی بھی ہے اور سدھرتی بھی ہے۔
ہاں ایک بات اور یاد آئی۔ فرہنگِ آصفیہ کی پہلی دو جلدیں ۱۸۸۸ء میں شائع ہوئی تھیں اور آخری جلد ۱۹۰۲ء میں۔ برسوں کی انفرادی محنت سے تیار ہونے والی اس فرہنگ سے اب بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔ کسی صاحبِ علم نے یہ کہہ کر اس فرہنگ کو مسترد نہیں کیا کہ یہ ”ڈھائی سو سال پرانی فرہنگ“ ہے (ویسے اس فرہنگ کی اولین اشاعت کوبھی ڈھائی سو سال ہونے میں ابھی ۳ ۱ برس باقی رہتے ہیں) رہا زبان کے آگے بڑھنے کا معاملہ، تو زبان کا ارتقا فطری طریقے سے ہوتا ہے۔ اُردو زبان نے (انگریزی سمیت) جتنی زبانوں کے الفاظ قبول کیے ہیں، فطری انداز میں قبول کیے ہیں۔ کسی لفظ کو اپنے مزاج سے ہم آہنگ پا کر جوں کا توں قبول کرلیا اور کسی لفظ کا تلفظ تبدیل کر کے اُسے اپنے مزاج کے مطابق بنا لیا۔ اس طرح اُردو کا ارتقائی سفر طے ہوتا رہا۔مُلّا وجہی کی کتاب ”سب رس“ کا مطالعہ کرنے کے بعد ذرا مُلّا ابن عرب مکی کی کتاب ”مسجد سے میخانے تک“ پڑھ کر دیکھیے۔ دونوں مُلّاؤں کی زبان میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ زبان کا آگے بڑھنا اس کو کہتے ہیں۔ اس کو نہیں کہ آپ اُردو کے مانوس الفاظ میز، کرسی، قلم، کتاب، دائیں، بائیں اورآپ جناب کی جگہ انگریزی کے الفاظ کثرت و تواتر سے بولنا اور لکھنا شروع کردیں، پھر فرمائیں کہ ”انگریزی الفاظ کو نکال دینے سے اُردو کا ’پائجامہ‘ چھوٹا ہو جائے گا“۔ (یہاں ہم ٹوکتے چلیں کہ درست املا ’پاجامہ‘ ہے، ’پائجامہ‘ نہیں) اپنے پیوند لگے پاجامے کو پہن کر کہیں پہنچنا تو پسند نہیں فرماتے، مگر اُردو کو آگے پہنچانے کے لیے اُس کا پاجامہ اُدھیڑ اُدھیڑ کر اس میں صرف انگریزی کے پیوند لگائے چلے جاتے ہیں۔پھر اُردو کے پاجامے کی اس شامت کو اُردو کی ترقی تصور فرماتے ہیں۔ اللہ اُردو کو ایسے نادان دوستوں سے بچائے۔آمین!
٭٭









