بہار میں وہی ہوگیا جس کا اندیشہ تھا ، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے
( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
میرا مطالعہ
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے لوگ رہتے آئے ہیں ، سبھی آپسی میل جول اور پیار محبت سے زندگی بسر کرتے رہے ، ہندو ، مسلم سکھ ،عیسائی و دیگر مذاھب کے لوگ سبھی ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ، ایک دوسرے کی شادی بیاہ ، مذہبی تہوار ،اور خوشی و غم میں ایک دوسرے کے شریک رہے ، کبھی اس ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت کا ماحول دیکھنے میں نہیں آیا ، مگر افسوس کی بات ہے کہ موجودہ وقت میں اقلیت اور اکثریت کے درمیان بھید بھاؤ پیدا کردیا گیا ہے ، اقلیت اور اکثریت کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کر کے پہلے مسلم اقلیت پر ظلم و زیادتی کی جاتی رہی ، ماب لنچنگ ، فرقہ وارانہ منافرت ، الزامات لگا کر ان کے گھروں پر بلڈوزر کی کاروائی کی گئی ، مساجد ، مدارس اور دیگر مذہبی اداروں پر پابندی عائد کی گئی ، اس کی زد میں آکر برسوں سے ملک کے کئی صوبے کے لوگ دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں ، اس کے برعکس اللہ کا شکر رہا کہ بہار اسٹیٹ اس سے محفوظ رہا ، اسی درمیان بہار میں اسمبلی الیکشن آگیا ، بہار کے دانشوروں نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ یہاں الیکشن کے بعد سیکولر اور اچھی حکومت بنے ، مگر تدبیر ناکام رہی ، اور اس کے نتیجہ میں بہار میں ایسی حکومت بنی جس میں سیکولر وزیر اعلی پر اس کے اتحادی غالب آگئے ، پھر بہار کا وہی انجام سامنے آگیا ، جس کا اندیشہ تھا ، اور جو ملک کے بعض دوسرے اسٹیٹ میں دیکھنے میں آرہا تھا ، یہاں بھی وہی بلڈوزر کی کاروائی شروع ہوگئی ہے ، اس بلڈوزر کاروائی کی زد میں غریب غرباء زیادہ آرہے ہیں ، خواہ وہ کسی ذات برادری یا کسی مذہب کے ہوں ،

ایک غریب آدمی اپنی پوری زندگی کی کمائی لگا کر بال بچوں کے رہنے کے لئے مکان بناتا ہے ، اسی جگہ پر مکان بناتاہے ، جہاں صدیوں سے اس کے آباء و اجداد رہتے ائے تھے ، وہ اسی آبائی زمین پر مکان بناکر اسی مکان میں اپنے بال بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے ، بال بچوں کی پرورش کے لئے دوکان بنا لیتا ہے ، نیز فٹ پاتھ پر دوکان لگا کر کچھ کماتا ہے ،اور اپنے بال بچوں کی پرورش کرتا ہے ، مگر افسوس کی بات ہے کہ جو دوکان و مکان برسوں سے بنا ہوا ہے ، اس کو سرکاری زمین کہہ کر متبادل انتظام کئے بغیر بلڈوزر سے گرا دیا گیا ، جبکہ بہت سے مکان و دوکان پر بلڈوزر کی کاروائی جاری ہے ، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے ، الیکشن سے پہلے جس خطرہ کا اندیشہ تھا ، وہ بہت جلد سامنے آگیا ، اب لوگ پچھتا رہے ہیں ، مگر پچھتانے سے کیا ہوگا
بہار کے دانشوران یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مانا کہ سرکاری زمین پر مکانات اور دوکانیں بنالی گئی ہیں ، مگر یہ ایسے لوگ ہیں ، جو غریب ہیں ، ان کے پاس کہیں گھر بنانے کے لیے زمین نہیں ہے ، نیز یہ برسوں سے اسی جگہ پر آباد ہیں ، برسوں کے بعد حکومت کو زمین یاد آئی ہے ، جبکہ اس پر کاروائی اسی زمانے میں کی جانی چاہئے تھی ، جب لوگ گھر بنارہے تھے ، مگر ایسا نہیں کیا گیا ، اب برسوں کے بعد ایسی کاروائی کی جارہی ہے ، جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں
موجودہ وقت میں مان لیا جائے کہ سرکاری زمین ہے ، تو اس پر قبضہ ہٹانے سے پہلے متبادل انتظام کرنا چاہئے تھا ، حکومت کی جانب سے ان کو آباد کرنے کے لئے کہیں گھر اور دوکان بناکر دیا جاتا ، تاکہ اس کے بال بچے اس میں رہ پاتے ، اور وہ کچھ کماکر ان کی پرورش کر پاتے ، مگر حکومت کی جانب سے ہمدردی کی بنیاد پر بھی ایسا نہیں کیا گیا ، آخر اس سردی کے زمانے میں لوگ کہاں جائیں ؟ یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے
یہ وہی بہار ہے ،جہاں پہلے چین کی بانسری بجتی تھی ، اب وہی بہار ہے جہاں بلڈوزر کی گھن گرج ہے ، چین و سکون کی جگہ خواتین اور بلکتے بچوں کی چیخ و پکار ہے ، حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ملک قانون کے ساتھ پیار و محبت اور انسانی ہمدردی سے چلتا ہے ، نہ کہ صرف بلڈوزر کی کاروائی سے ، چنانچہ حکومت بہار کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ،اور متبادل انتظام کے بعد کوئی کاروائی کرنی چاہیے ، اللہ تعالیٰ صحیح فکر عطا فرمائے ، اور بہار کو چین و سکون کا گہوارہ بنائے۔






