تحریکِ آزادی، امارتِ شرعیہ اور حضرت مولانا محمد سجادؒ

 قاضی شمیم اکرم رحمانی

سَو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، وطنِ عزیز میں آزادی کی جدوجہد اپنے شباب پر تھی۔ باشندگانِ ہند سامراج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پُرعزم تھے۔ ایک طرف تحریکِ خلافت جاری تھی تو دوسری طرف تحریکِ عدمِ تعاون کا زور تھا۔ ملک کے گوشے گوشے میں جلسے جلوس ہو رہے تھے، برٹش اداروں کا بائیکاٹ کیا جا رہا تھا، اسکول، عدالتیں اور دیگر دفاتر خالی ہو رہے تھے۔ مختلف اسٹیجوں پر مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد ایک ساتھ دکھائی دیتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کی فضا پروان چڑھ رہی تھی۔لیکن اس پورے انقلابی ماحول میں صرف مسلم لیگ کی پالیسیاں ہی مشکوک نہیں تھیں، بلکہ کانگریس کی بھی کچھ حکمتِ عملیاں ایسی تھیں جو باشعور مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کر رہی تھیں۔ مسلمانوں کے سیاسی اور شرعی مستقبل پر سوالیہ نشان اُٹھنے لگے تھے۔
تحریکِ آزادی، امارتِ شرعیہ اور حضرت مولانا محمد سجادؒ
تحریکِ آزادی، امارتِ شرعیہ اور حضرت مولانا محمد سجادؒ
ایسے حساس ترین وقت میں امام ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی شخصیت، کمزور جسم لیکن بے مثال تخلیقی ذہن اور مستحکم ترین ارادے کے ساتھ، میدان میں آئی۔ مولانا نے تمام تحریکات میں مضبوط حصہ دار ہونے کے باوجود ازسرِنو تحریکات اور ان سے جڑے ہوئے مرکزی افراد کا گہرائی سے مطالعہ کیا، حالات کا تجزیہ کیا، اور مستقبل کے حالات کا ادراک کرتے ہوئے امارت فی الہند کی اسکیم مرتب کی اور مسلمانوں کی فکری و سیاسی بقا کا ایک ایسا حل تلاش کیا جس پر اگر مولانا کے منشا کے مطابق عمل ہو جاتا تو آنے والے ایام ملکی سطح پر مسلمانوں کے حق میں بڑی حدتک سازگار ہوتے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی نے مولانا کی مجوزہ اسکیم کو سرد خانے میں ڈال دیا۔تاہم مولانا سجادؒ بھی عام انسان نہیں تھے، فی الواقع بہت بڑے انسان تھے۔ ان کی ذہنی ساخت میں ”ملت کے لیے جتنا کرسکتے ہو، اتنا ہر حال میں کر جاؤ” کا فارمولا رچا بسا تھا، جس پر وہ پوری زندگی عمل پیرا رہے۔ لہٰذا انہوں نے نہایت حکمت کے ساتھ، جمیعۃ علمائے ہند سے وفاداری کو برقرار رکھتے ہوئے، 1921ء میں صوبائی سطح پر بہار میں امارتِ شرعیہ کو قائم فرمایا، جو بجا طور پر مولانا کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ کہلانے کا حق رکھتا ہے۔
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر  لیتا ہے  یہ  بال و پَرِ  روح الامیں  پیدا
(اقبال)
یہ ایک حقیقت ہے کہ قیامِ امارتِ شرعیہ کے نتیجے میں مسلمانانِ بہار کو نہ صرف قرآن مجید کے مطالبہ کے مطابق امارت کا شرعی نظام ملا، بلکہ کاروانِ آزادی کو ایک منظم اور مضبوط کمک کار بھی حاصل ہوا۔مولانا نے قیامِ امارت کے ساتھ ہی امارت کے تحت دارالقضا کا نظام بھی قائم فرمایا، جس کے واسطے سے تحریکِ عدمِ تعاون کی پُرزور حمایت کی گئی اور انگریزی عدالتوں کا عملی طور پر بائیکاٹ کر کے مسلمانوں کو متبادل نظام فراہم کیا گیا، جہاں وہ اپنے معاملات اللہ رب العزت کے منشا کے مطابق قاضیِ شریعت کے سامنے پیش کر سکتے تھے۔
یہ بات درست ہے کہ مولانا سجادؒ قیامِ امارت سے بہت پہلے ہی سے متحرک تھے اور آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریکات میں پیش پیش تھے۔ حضرت شیخ الہند کے فتوے ”ترکِ موالات” کو بھی سینکڑوں علما کے دستخط کے ساتھ شائع کروا کر انہوں نے عام کیا تھا۔ لیکن قیامِ امارت کے بعد ان کا کام منظم اور مزید اثردار ہوا۔اچھی بات یہ رہی کہ مولانا نے امارت کے استحکام کے لیے جلد ہی لائق اور مخلص افراد پر مشتمل ایک مؤثر ٹیم بنالی، جو ان کی خوش قسمتی سے زیادہ ان کی مردم شناسی کے ہنر کی آئینہ دار ہے۔کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:
”مولانا سجاد بڑے مردم شناس آدمی تھے، چنانچہ انہوں نے لائق اور مخلص کارکنوں کی ایک ایسی مضبوط ٹیم اپنے ساتھ جمع کر لی، جس نے مسلمانوں کی ہر بستی کو شرعی نظام کی ڈوری میں پرو کر بہت جلد امارتِ شرعیہ کو مسلمانوں کا سب سے ہمہ گیر، ٹھوس اور منضبط ادارہ بنا دیا۔ ان میں قاضی نورالحسن، مولانا عبدالصمد رحمانی، مولانا نورالدین بہاری، مولانا عثمان غنی، قاضی احمد حسین اور شیخ عدالت چمپارنی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔“ (تحریکِ آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ، ص 222)
ان کے رفقائے کار پر نظر ڈالنے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب کٹر سامراج مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ علم وشعور کے اعلیٰ درجے پر بھی فائز تھے۔دوسری طرف مولانا نے امارتِ شرعیہ کا ڈھانچہ بھی اتنا زبردست بنایا تھا کہ ان کے رفقا کے لیے ایک امیر کے اصول کے تحت مسلم عوام کو جمع کرنا آسان ہو گیا۔ چنانچہ عوام پر امارتِ شرعیہ کی بہت مضبوط گرفت ہو گئی جس کا حال بیان کرتے ہوئے مسٹر تقی رحیم کہتے ہیں:
”سیاسی جوش و خروش اور مذہبی عقیدت کی آمیزش سے پیدا شدہ ملے جلے جذبات کے تحت بہار کے مسلمان امارت کے نظام سے کچھ اس مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہو گئے کہ ان کے درمیان ترکِ موالات کے تمام تعمیری پروگرام اسی کے ذریعے انجام پانے لگے اور مسلمانوں کی دوسری جماعتیں پس منظر میں چلی گئیں۔“ (تحریکِ آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ، ص 222)
عوام پر مضبوط گرفت کا نتیجہ تھا کہ جب مولانا نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی بنا کر 1937ء کے انتخاب میں حصہ لیا تو اس پارٹی نے 20 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور بہار کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔مولانا کی بے مثال حکمتِ عملی نے حالات کے رُخ کو ایسا موڑا کہ پارٹی نے حکومت سازی میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ بہار میں اپنا وزیرِ اعظم (وزیراعلی) مقرر کر کے سیاست کے بڑے بڑے سورماؤں کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔
مولانا نے اپنی سیاست کی بنیاد مسلم لیگ کی غلط پالیسیوں کی مخالفت اور کانگریس کی نامعقول حکمتِ عملیوں کی تنقید پر رکھی اور دونوں کے درمیان سے ایک ایسی تیسری راہ نکالی جس سے ایک طرف مسلمانوں کی سیاسی ساکھ مضبوط ہوئی، تو دوسری طرف ملک و ملت کی تعمیر کے لیے ایسے سرفروش تیار ہوئے جو مسلمانوں کے مفاد سے بھی اسی طرح سمجھوتہ نہیں کر سکتے تھے جیسے ملک کے مفاد سے۔محض چند ہفتوں کی حکومت میں پارٹی کے کیے گئے کارنامے اور چند ہفتوں میں حکومت کے ختم ہو جانے کا بین السطور یہ پیغام بھی ہے کہ ان کے عزائم خالص تھے۔ مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کی حکومت کے حوالے سے اصغر امام فلسفی مرحوم کی کتاب ”صوبہ بہار کے پہلے وزیرِ اعظم بیرسٹر محمد یونس کے دورِ وزارت کا ایک عکس” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت مولانا کے زیرِ قیادت ملت کے استحکام اور آزادی ہند کے لیے کی جانے والی امارتِ شرعیہ کی مزاحمت صرف جلسوں، تحریروں اور تقریروں تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ تنظیمی، قانونی، عدالتی، تعلیمی اور سیاسی میدان میں عملی قدم اُٹھا رہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ امارتِ شرعیہ کے قیام کے بعد درجنوں علما، مفتیان اور کارکنان نے عوامی بیداری، عدالتی خودمختاری اور تعلیمی اصلاحات کے میدان میں سرگرم کردار ادا کیا اور کئی اہم مواقع پر امارتِ شرعیہ کے کارکنان نے سرکاری نظام کو چیلنج کرتے ہوئے دینی تشخص کا علم بلند کیا۔
نہ صرف بانی امارتِ شرعیہ حضرت مولانا سجادؒ بلکہ پہلے امیرِ شریعت حضرت مولانا شاہ بدرالدین قادری ؒ، دوسرے امیرِ شریعت حضرت شاہ قمرالدین قادریؒ، چوتھے امیرِ شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ، مولانا عثمان غنیؒ، قاضی احمد حسینؒ، شیخ عدالت حسین چمپارنی، مولانا عبدالصمد رحمانیؒ،بیرسٹر محمد یونس،، مولانا عبدالوہابؒ، مولانا حافظ محمد عثمانؒ، سعیدالحق وکیلؒ، ڈاکٹر سید عبدالحفیظ فردوسیؒ،مسٹر محمد محمود بیرسٹر، مسٹر خلیل احمد ایڈووکیٹ سمیت  امارتِ شرعیہ اور مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی سے منسلک سینکڑوں معزز ترین لوگوں نے جنگِ آزادی میں مختلف انداز سے حصہ لیا۔بلکہ امارتِ شرعیہ کے پہلے ناظم مولانا عثمان غنی کو کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور دوسرے ناظم قاضی احمد حسین کو بھی پابندِ سلاسل ہونا پڑا۔
امارتِ شرعیہ کی مزاحمت پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت ایک تحریکی مزاحمت تھی، جو مکمل طور پر ایک متبادل نظام کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ ایک ایسا نظام، جس میں قیادت علما کے ہاتھ میں تھی، عوام ان کے ساتھ تھے، اور سارا ڈھانچہ خود انحصاری اور دینی اصولوں پر قائم تھا۔لیکن اس پورے تصور کے پس منظر میں مولانا محمد سجادؒ کی فکر، تدبر، دوراندیشی اور عملیت پسندی کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔لہٰذا جب ہم ”جنگِ آزادی میں علما کا کردار” کہتے ہیں تو اس کا  بھی سب سے بھرپور اور مکمل نمونہ ہمیں امارتِ شرعیہ کی صورت میں ملتا ہے، جو مزاحمت بھی تھی، قیادت بھی، اور امت کے لیے متبادل بھی۔اس کی بنیاد رکھنے والے امام ابوالمحاس محمد سجادؒ جیسے رجال آج بھی ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر حالات سخت ہوں تو مایوس مت ہو، بلکہ اپنے اندر اہلیت پیدا کرو، متبادل سوچو،  حکمت کے ساتھ عمل کرو،  اور پھر یقین رکھو کہ اللہ کی مدد آئے گی
غبار آلود ۂ رنگ و نَسب ہیں  بال و پر  تیرے
تُو اے مُرغِ حرم! اُڑنے سے پہلے پَرفشاں ہو جا
اقبال
یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare