مولانا سید محمد عثمان غنی کی صحافت
جریدہ ’’امارت‘‘ کے حوالے سے
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
مولانا سیدمحمد عثمان غنی امارت شرعیہ کے سابق ناظم، جمعیۃ علماء بہار کے سابق صدر وناظم، مولانا عبیداللہ سندھی کی تنظیم ــــ’’جمعیۃ الانصار ‘‘کے سرگرم رکن اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ’’ امارت ‘‘ و ’’نقیب ‘‘کے سابق مدیر تھے۔ وہ علوم دینیہ اور مختلف علوم وفنون میں غیرمعمولی صلاحیت کے حامل تھے، وہ زمانۂ طالب علمی ہی میں مجاہد انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی سے قریب ہوئے اور ان کے ساتھ مل کر ملک کی سیاست و تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ انہوں نے جمعیۃ الانصار کے اجلاس موئتمر الانصارلئے جم کر کام کیا۔ اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لئے سرگرمی سے کام کیا، یہ اجلاس ۱۹۱۱ء میں مراد آباد اور ۱۹۱۲ء میں میرٹھ میں منعقد ہوا تھا۔

جمعیت الانصارفارغین دارالعلوم دیوبند کی ایک تنظیم تھی، جس کو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے قائم کیا تھا۔ جمعیت الانصار کے قیام کے سلسلے میں ڈاکٹر اقبال حسن خان تحریر کرتے ہیں:
’’ شیخ الہند کی کارگزاریوں کے غائر مطالبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے ذہن میں انقلاب کا جو نقشہ تیار کیا تھا اور اس کے لئے جوطریقہ اختیار کیا، وہ اپنے بزرگوں مولانا محمد قاسم صاحب، حضرت حاجی امداداللہ صاحب اور مولانا گنگوہی کے طرز پر تھا، یعنی قوم کی مذہبی بنیادیں اس قدر استوار ومستحکم کردی جائیں کہ ہر وہ چیزجو دوسری راہوں سے آئے اس کے یہاں ناقابل قبول ٹھہرے۔ نیز مذہبی بنیادوں پر کام کرنے کا ایک مقصود یہ بھی تھا کہ عوام میں صحیح دینی روح پھونک کر انہیں متحد کیا جائے تاکہ جب وقت آپڑے، وہ بلاپس وپیش میدان کارزار میں دوڑ آئیں۔ شیخ الہند کی کوششوں کا جو بھی مرتب طور پر مطالعہ کرے گا ہمیں یقین ہے کہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔(۱)
دارالعلوم کا دائرہ وسیع ہورہا تھا، اور ان کے طلبہ وفارغین کی تعدادمیں دن بہ دن اضافہ ہورہاتھا، اس لئے ان کو متحد کرکے ان سے کام لینا ضروری تھا، اس لئے حضرت شیخ الہند نے ۱۹۰۹ء میں جمعیت الانصار کے نام سے ایک وسیع تنظیم کی بنیاد ڈالی۔
مولانا عبیداللہ سندھی ایک عبقری وانقلابی ذہن کے حامل تھے، یہ حضرت شیخ الہند کے ذہن وفکر کے زیادہ قریب تھے اور پروگرام کو اچھی طرح کامیاب بناسکتے تھے، اس لئے حضرت شیخ الہند نے نظامت کے لئے حضرت عبیداللہ سندھی کو منتخب فرمایا، اسی جلسہ میں یہ طے ہوا کہ جمعیت الانصار کا پہلا اجلاس مراد آباد میں ہوگا۔ جمعیت الانصار کا پہلا عظیم الشان اجلاس مراد آباد میں ۱۵؍۱۶؍اور۱۷؍ اپریل ۱۹۱۸ء کو منعقد ہوا۔
شیخ الہندؒ کی سرپرستی مولانا سندھی کی نظامت میں جمعیت الانصار نے کافی ترقی کی ،جو بالواسطہ خود دارالعلوم دیوبند کی شہرت اور ترقی کا ذریعہ بنی۔ ملک کے مختلف حصوں میں فارغین دارالعلوم دیوبند اور تمام مسلمانوں نے اس تحریک کی کارگزاریوں سے دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس کے جلسہ علمیہ کا انعقاد بھی مراد آباد میں ہوا، اس کا نام مئوتمرالانصار تھا۔ مئوتمر الانصار کے پہلے اجلاس کےسلسلے میں مولانا حبیب الرحمٰن مدیر رسالہ القاسم تحریر کرتے ہیں۔
’’مؤتمر الانصار کا یہ پہلا اجلاس جو مراد آباد میں ہوا، اس میں مجموعی اندازہ کے مطابق شرکاء کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی۔ تین دن تک یہ عظیم الشان اجلاس جاری رہا۔اس میں مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا احمد حسن امروہوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کی متعدد مفید اور کارآمد تقریروں کے علاوہ بعض دوسرےعلماءنےبھی حاضرین کو اپنے وعظ وارشادات سے مستفید فرمایا۔‘‘ (۲)
اس طرح طویل عرصہ تک مولانا عبیداللہ سندھی ؒکی صحبت میں رہے اور ان کی تربیت نے مولانا عثمان غنی کو بھی بے باک اور جری بنادیا۔
جب وہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد بہار واپس آئے تو مولانا عبیداللہ سندھی کا ساتھ چھوٹا، مگر یہاں ان کی ملاقات ایک دوسری انقلابی شخصیت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے ہوگئی۔ وہ نوجوان ،بے باک وجری اور پُرجوش مولانا سے بہت متاثر ہوئے۔پھر جب ۱۹؍ شوال ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۰ء میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا ،تو انہیں امارت شرعیہ کا ناظم بنایا گیا، پھر جب ۱۹۲۴ء میں امارت شرعیہ کا پندرہ روزہ ترجمان ’’امارت‘‘ کے نام سے جاری ہوا تو آپ کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔
مولانا سید عثمان غنی کے بےباکانہ اسلوب ،حق وصداقت کی بات، صحافت میں ادب کی چاشنی اور ان کی انفرادی انداز صحافت نے جلد ہی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور پندرہ روزہ جریدہ ’’امارت‘‘ کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔’’امارت‘‘ کی پسندیدگی سے حکومت کے کان کھڑے ہوگئے، آپ کی جارحانہ تنقید کو حکومت برداشت نہیں کرپائی ،اس طرح کئی مرتبہ مقدمہ چلا۔ ۱۸؍ مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور بغاوت کا مقدمہ کردیا۔
جریدہ ’’امارت ‘‘ کے اداریہ کا اقتباس پیش ہے۔
حکومت اور مسلمان
نزلہ برعضو ضعیف ریزد
یہ ایک ضرب المثل ہے اور ہر شخص اس کے مفہوم سے واقف ہے۔ ان دنوں اس کی تازہ مثال وہ یہ ہے ،جو حکومت ہندمسلمان کے ساتھ برت رہی ہے۔ کلکتہ میں اگر ایک طرف ہنود نے مظالم کئے تو دوسری طرف حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ارباب حکومت اور پولیس عین ہنگامہ کے ایام سے لے کر اس وقت تک دھرپکڑ اور قیدو بند وسزائے جیل وقوت کے ذریعہ جو کچھ امن قائم کررہے ہیں، ان سب کا رحجان غریب مسلمانوں کی طرف ہے اور یہ تمام نزلہ صرف مسلمانوں ہی پر گر رہا ہے، اسی طرح ہمارے صوبہ کے ایک تاریخی مقام سہسرام ناصرالحکام میں،( جس کو یہ لقب شاید مسلمانوں کی وفاداری کے صلہ میں دیا گیا ہے) جو کچھ ہورہا ہے،اس سے حکومت کی پالیسی بہت عریاں ہوجاتی ہے اورہر مسلمان اس نتیجہ پر پہنچ رہا ہے کہ حکومت بھی ہنود کی سازش میں شریک ہے اور وہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو جس قدر ممکن ہو تباہ وبرباد کیا جائے اور شاید جنگ میں صلیبی کا انتقام ان غریب مسلمانان سہسرام اور ہندوستان سے لئے جانے کاتہیہ کرلیا گیا ہے۔(۳)
آگے تحریر کرتے ہیں
پولیس کی جھوٹی شہادت
سازش کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریبا تیس چالیس ہندو پولیس نے شہادت دی کہ ہم نے خوب دیکھا کہ اچھے صاحب اپنے بندوق سے فائر کر رہے تھے مگر مسٹر اچھے صاحب کی خوش قسمتی کو کیا کیجئےکہ جس وقت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ اس وقت ایک عام مجمع میں جامع مسجد کے اندر مسلمانوں کو صبر کی تلقین کر رہے تھے اور غالبا سی آئی ڈی کے لوگ بھی تھے لیکن کیا حکومت نے یا افسران پولیس نے ہندو پولیسوں کے خلاف کوئی کاروائی کی؟؟ ہرگز نہیں کی ہے۔
جو مسلمان گولی سے زخمی ہے اور ہنوز زیر علاج ہےاور زخم ایسا ہے کہ اس کی صحت پر بہت برا اثر پڑیگا مگر یہ مقدمہ خارج کر دیا گیا کیونکہ مجروح مسلمان ہے اور ایک مسلمان مدعی ہے۔کیا ان واقعات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ حکومت بھی سازش میں شریک ہے یا پہلو تہی کر رہی ہے تاکہ مسلمان تباہ و برباد کئے جائیں۔‘‘(۴)
۱۸۰۳سے ۱۹۱۸ تک علمائے کرام ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے تحریک چلا رہے تھے۔انہوں نے اس تحریک میں برادران وطن کو شامل نہیں کیا۔جس کی وجہ سے تحریک کو تیز کرنے میں دشواری پیش آئی۔۱۹۱۹ میں جمیعت علمائے ہند کا قیام عمل میں آیا تو جمیعت علماءسے وابستہ علما نے محسوس کیا کہ ملک کو آزاد کرانے کے لئے برادران وطن کے ساتھ اتحاد ضروری ہے،پھرجمعیت علماء ہند کے قیام کے بعد برادران وطن کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر اتفاق ہوا اور دونوں قوموں کے رہنماوں نے آپسی مصالحت کی تجویز منظور کی۔مولانا سید عثمان غنی جریدہ ’’امارت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں
’’وقت کی نزاکت
ایں چہ شوریست کہ دردورقمرمی بینم
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شرمی بینم
ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے ،ہندو و مسلم فرقہ وارانہ جذبات ابھرنے لگے۔اور اوسی کے بدولت ہمیشہ کچھ نہ کچھ ان قوموں کے درمیان جھگڑا ہوتا رہا ۔آخر ایک زمانہ دراز کے بعد دونوں قوموں کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائی۔چنانچہ ۱۹۱۹ میں دونوں قوموں کے رہنما ملکی فلاح وبہبود اور اپنی اپنی قوم کو بچانے اور غیروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آپس میں ایک حد تک متحد الخیال ہو گئے اور عہد مصالحت کیا اور عقد سالمیت کے مضبوط کرنے کا قصد مصمم کر دیا اور ان رہنماوں نے ایک متفقہ آواز سے تمام اقوام ہند کو نہایت زور شور کے ساتھ مصالحت و مسالمت کی طرف بلاوا دیا۔آخر ان کی آواز فرقہ وارانہ شور و شر پر غالب آئی اور بہت حد تک باہمی اسٹیٹ کا دار و دورہ رہا۔‘‘(۵)
مولانا سید عثمان غنی نے اپنے اداریہ میں مسلم سماج کے لوگوں کو ہمیشہ امن وشانتی کا پیغام دیااور مسلمانوں کو کسی طرح کے ہو ہنگامہ سے بچنے کی تلقین کی۔چنانچہ اپنے اداریہ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ہم فسادات کو کسی طرح پسند نہیں کرتے، نہ مسلمانوں کو جارحانہ حملے کا مشورہ دے سکتے ہیں ،لیکن ہم کو مدافعت کا قدرتی حق حاصل ہے اور قانوناً بھی حفاظت خود اختیاری جرم نہیں ہے، اس لئے ہم مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی یہ اشرار وطن فتنہ وفساد برپا کریں تم کو شش کرو کہ کوئی ہنگامہ نہ ہونے پائے اور ملک میں امن قائم رہے، لیکن جب وہ فساد کرہی دےتو پھر تم بلاتامل مدافعت کرو اور ایسی مدافعت کرو کہ امن قائم ہوجائے، کیونکہ مدافعت تم پر فرض ہے۔‘‘ (۶)
وہ زمانہ ایساتھا جس میں انگریزی حکومت برادران وطن اور مسلمانوں کے درمیان آپسی لڑائی کراکر حکومت کیا کرتی تھی۔برادران وطن میں ہندو احیاء پرستی اور احیاء پسندی شروع ہو چکی تھی۔اور بات بات پر آپس میں لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔اور اس زمانہ میں بھی اقلیت اور اکثریت کا مسئلہ شروع ہو چکا تھا،مولانا سید عثمان غنی نے ایک اداریہ کا عنوان قائم کیا ہے ’’ہندوں کی ناپاک سازش ۔۔۔ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے‘‘۔ اس اداریہ میں انہوں اس وقت جو حالات تھے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے حفاظت کی تدبیریں بتائی ہیں۔یہ اداریہ ۱۹۲۶ء میں تحریر کیا گیا، مگر اس کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس وقت کےحالات اور موجودہ حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ برادران وطن میں سے بہت سے لیڈران کی فکر آج بھی وہی ہے، جو اس زمانے کے فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لیڈروں کی تھی۔ مولانا نے ان پر نکیر کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو متنبہ کیا اور ملک کی حفاظت اور انگریزوں کے تسلط سے ملک کو آزاد کرانے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ نیز اس اداریہ سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اکثریت اور اقلیت کا معاملہ اسی زمانہ سے چلا آرہا ہے جو بیحد تشویشناک ہے۔
وہ تحریر کرتے ہیں :
’’مادر وطن کی بد بختی کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کے فرزندان نا خلف بیل اور گائے کے معاملے میں ایک دوسرے کی مخاصمت و معاندت کے لئے تیار ہو جایا کریں اور اپنے مادر وطن کو اغیار کے بیچ جور و جفا میں دیکھ کر ان کے رگ حمیت میں جوش نہ آئے اور نہ ان کی مظلومیت و مصیبت پر انہیں کچھ رحم آئے۔اگر اپنی حماقت و بد بختی پر اظہار ماتم کرانے کے لئے یہ فرزندان نا خلف کبھی کبھی کہیں لڑ کر اپنے دلوں کا بخار نکال لیتے اور اپنے بھائیوں کی توہین و تذلیل اور ان کی بربادی کے لئے سازشیں نہ کرتے تو چنداں مضائقہ نہ تھا مگر افسوس ہے کہ اس کے بعد فرزندان نا خلف اپنی غلط قوت کے گھمنڈ اور اپنے کثرت تعداد کے غرور میں اپنے دوسرے بھائیوں کی تخریب میں مشغول ہو گئے۔ ہم تمہیں صاف صاف باتیں بتا دینا چاہتے ہیں ، ان پر غور و توجہ کرو ،ہندؤں میں یہ عام خیال پیدا ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا نام ہندوستان سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔سب سے پہلے انہوں نے اشدھی (ارتداد)کی بنیاد ڈالی اور ایک عام اعلان کے ساتھ تمام مسلمانوں کو مرتد کر لینے اور عربی النصل افراد کو ہندوستان سے نکال دینے کا عزم کیا۔اور اس کے ساتھ ساتھ سنگٹھن کی بنیاد ڈالی۔(۷)
آگے تحریر کرتے ہیں
’’مسلمانوں کو ان چند امور پر غور کرنا چاھئے۔
(1)شدھی اور سنگٹھن کے لیڈر خود کو اپنی قوم کی کمزوری اور بزدل سمجھتے ہیں،اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ہر موقع پر مسلمانوں کو ان سے لڑا دیا جائے۔لڑتے لڑتے شاید ان کی طبعی بزدلی کم ہو جائے۔
(۲)ان لیڈروں کا یہ بھی خیال ہے کہ ہماری تعداد زیادہ ہے جب جنگ ہوگی تو اگر دونوں طرف کے لوگ برابر ہی مارے گئے تو مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اور ہماری قوم اکیس کڑور میں سے چودہ کڑور باقی رہ جائے گی۔
صرف ان ہی خیالات کو مدنظر رکھ کر یہ خود فراموش ہولیڈر اپنی قوم کے جذبات کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں‘‘۔(۸)
۲نومبر۱۹۲۷اگست میں بتیا فساد کو موقع پر ۲۰ صفر ۱۳۴۶ مطابق ۱۹ اگست ۱۹۲۷ کا ایک اداریہ ایسا تحریر کیا گیا کہ پھر حکومت برانگیختہ ہو گئی جس کی وجہ سے دفعہ 153ایف کے تحت مقدمہ چلایا۔ایک سال قید اور ڈھائی سو روپیہ جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا ۔سر علی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کی تو جیل سے ضمانت ملی۔مولانا کو ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰ اپریل ۱۹۲۸ کو انصاف ملا اور وہ بری کر دیئے گئے۔
تیسری مرتبہ پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی۔ امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی تو جریدہ’’امارت‘‘ کو بند کردینا پڑا،اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھاکہ جریدہ کو بند کردیا جائے۔چنانچہ امارت شرعیہ نے اپنے ترجمان’’امارت‘‘ کو بند کردیا اور اس کےبجائے دوسرا ترجمان ’’نقیب‘‘ کے نام سے جاری کردیا، جس کے ایڈیٹر مولانا سیدعثمان غنی ہی رہے ،لیکن آپ کا نام شائع نہیں ہوتا تھا۔ قانونی طور پر مدیر اور منیجر کی حیثیت سے صغیرا لحق ناصری کا نام درج ہوتا تھا۔۵؍ اپریل ۱۹۴۹ء یعنی ملک کی آزادی کے بعدپھر ’’نقیب‘‘ پر مولانا سید عثمان غنی کا نام مدیر کی حیثیت سے شائع ہونے لگا۔
مولانا سید عثمان غنی نے اجتماع پر زور دیتے ہوئے مسلمانوں کو انتشار سے پیدا ہونے والے خطرات سے بھی واضح کیا ۔اس میں بھی اس اداریہ میں بھی ان کا انداز فلسفیانہ ہے اور مضمون کو اس انداز پر پیش کیا ہے کہ اس سے نہ صرف اجتماع اور انتشار کے درمیان فرق ظاہر ہوتا ہے بلکہ واضح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔وہ تحریر کرتے ہیں
’’کائنات کے منتشر ذرات جب تک مجتمع نہیں ہو جاتے کسی کام کے نہیں ہوتے۔یہی حال اقوام اور افراد کا ہے۔
افراد میں جب تک انتشار اور افتراق رہتا ہے۔ان کو قوم کی لقب سے ملقب نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ قوم نام ہے مجموع افراد کا۔اور جب افراد منتشر اور مختلف الخیال ہو تو ان کو قوم کے نام سے موسوم کرنا درست نہیں اسلئے افراد میں پہلے تناصر و تعاون پیدا کرنا چاہئے۔تناصر باہمی کے بعد ان میں اجتماع پیدا ہوگا۔اسی وقت ان کو جماعت اور قوم کے نام سے مخاطب کرنا صحیح ہوگا۔
مسلمان اپنی حالات پر نظر کریں اور بتائیں کہ کیا جماعت کا اطلاق ان پر صحیح ہو سکتا ہے؟جب کہ ان کا ہر فرد ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کو تیار رہتا ہے۔
مسلمان اگر عقل و فہم سے کام لیں اور اپنے انتشار اور افتراق کو اتحاد و اجتماع سے بدل دے تو ان کی دینی حالتوں کے ساتھ دنیاوی حالت بھی سنور جائے اور وہ ایک قوم و جماعت بن جائیں۔‘‘
آگے تحریر کرتے ہیں‘
’’اگر ہم اخوت اسلامیہ کو مد نظر رکھیں اور اپنے اندر تعاون و تناصر کا مادہ پیدا کر دیں تو ہمارا سارا انتشار دور ہو جائے اور ہم میں اجتماع پیدا ہو جائے ۔
دنیوی زندگی میں انسانوں کے مابین نزع و خصومت اور اختلاف کا ہونا لازمی ہے ۔اگرچہ اس کے امتناع کی سعی بھی ضروری ہے مگر اس کا انسدادقطعی نا ممکن ہے۔اس لئے ہم میں سے ہر شخص اگر اس کا عزم کرے کہ ہمارے اخوان و احباب میں جب دو شخصوں کو درمیان کوئی نزع پیدا ہو تو ہم درمیان میں پڑ کر ان میں مصالحت کرا دیں گے اور اس طرح اس خداوندی کی تعمیل کریں گے۔
انماالمومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقوللہ لعلکم ترحمون (ترجمہ) تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تمہارے اوپر رحم کیا جائے۔
اگر ہم اس پر عمل شروع کر دیں تو نہ صرف اپنی اور اپنی برادری کی محض خدمت کرینگے بلکہ ایک فرض سے سبکدوش ہونگے اور قومیت کی بنیاد استوار کرینگے۔‘‘(۹)
ربیع الاول کی مناسبت سے انہوں نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئےایک اداریہ کا عنوان قائم کیا ہے’’مسلمانوں کے درد کی دوا‘‘ اس اداریہ میں مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوے تحریر کرتے ہیں:
’’مسلمانوں کی عبرت وبصیرت کے لئے عالم کائنات کا ہر ورق کھلا ہوا ہے۔ دنیا کی ہرچیز سے بصیرت حاصل کرنے والے بصیرت حاصل کرسکتے ہیں، لیکن جس کو کچھ کرنا ہی نہ ہو، اس کے لئے کسی بھی چیز میں سبق نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں کے لئے قرآن کریم اور سرور کائناتﷺ کے اسوۂ حسنہ سے بڑھ کر درس حاصل کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے۔
فخرکائناتﷺ کی ذات اقدس نے صرف قول ہی نہیں بلکہ عمل سے ہمارے لئے ایسا نمونہ قائم فرمادیا ہے کہ اگرہم اس کو اختیار کرلیں تو ہمارے لئے دین ودنیا دونوں میں فلاح وبہبود کے لئے کافی ہے۔ بعثت نبوی ایسے زمانے میں ہوئی تھی، جبکہ تشتت وانتشار، فوضویت اور افتراق پورے ملک پر حاوی تھا،ایسے ملک میں آپ نے نظم ونسق کا سبق پڑھایااور اسی سبق کے یاد کرنے سےآپ کے نقش قدم پر چلنے والے صحابۂ کرام نے دنیا کی بڑی آبادی اور بہت بڑی سلطنتوں کو اپنے نظم میں شامل کیا۔ان ہی صحابہ کی تعریف میں اللہ عزوجل نے فرمایا: اشداء علی الکفار رحماء بینہم
آخر میں تحریر کرتے ہیں :
’’مسلمانوں کے درد کی ایک ہی دوا ہے جو نبوت کے شفاخانہ سے حاصل ہوسکتی ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ،جس نے رسول کی اتباع کی ،اس نے خدا کو اپنا کرلیا اور جس کا خدا ہوگیااس کے لئے کائنات کی تمام چیزیں ہوگئی۔‘‘(۱۰)
ایک دوسری جگہ مسلمانوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اداریہ کا عنوان قائم کیا ہے ’’مسلمانوں کے معاملات‘‘اس اداریہ میں تحریرکرتے ہیں:
’’ہر طرف شور ہے کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ، افلاس وغربت کا ان میں دور دورہ ہے، وہ تجارت نہیں کرتے، وہ زراعت نہیں کرتے، ان میں صنعت وحرفت نہیں، ملازمت میں ان کی تعداد بہت کم ،ان میں اعلیٰ تعلیم کی کمی ہے، کالجوں میں وہ بہت کم، یونیورسٹیوں میںوہ نہیں پائے جاتے، ان کی افلاس وغربت کو دور کرنے ،اقتصادی حالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم دی جاتی ہےکہ تجارت کرو، زراعت کرو، صنعت وحرفت سیکھو،کالجو ںمیں پڑھو، یورپ کی ڈگریاں لو، بینک قائم کرو، سودی کاروبار کو رواج دو، زندگی کا بیمہ کرائو،ا س سے افلاس دور ہوگا، اقتصادی ومعاشی حالت بہتر ہوگی اور اقوام متمدنہ کے دوش بدوش چلنے کے قابل ہوگے۔ ‘‘
آگے تحریر کرتے ہیں:
’’مسلمانو! اس المناک اور معذب زندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم دنیا میں عروج ورفعت حاصل کرنا چاہتے ، اگر تم کو آخرت کی عافیت کی تمنا ہے تو تم مسلمان بنو، تم مسلمان رہو اور مسلمان مرو۔‘‘(۱۱)
مولانا سیدعثمان غنی یکم جنوری ۱۸۹۶ء میں موضع دیورا ،ضلع گیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کےوالد کا نام سید رمضان علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔۱۹۱۸ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ جمعیت علمائے بہار کا قیام عمل میں آیا تو آپ پوری زندگی اس کی مجلس عاملہ کے رکن رہے اور اسی دوران نائب ناظم، نائب صدر اور صدر کی ذمہ داری بھی بحسن خوبی انجام دیا۔ ۱۹۲۰ءمیں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا تو اس میں بھی شریک رہے اور اس کی نظامت کی ذمہ داری بھی آپ کو سپرد کی گئی تو آپ نے بحسن وخوبی اس کو انجام دیا۔ ۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۴ء میں پندرہ روزہ ’’امارت‘‘ کا اجرا ہوا تو اس کے مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ (۱۲)
صحافت میں حق گوئی اور بےباکی آپ کا خاص وصف رہا۔ آپ کی تحریر بہت سادہ اور پر اثر ہوتی تھی۔ آپ نے برطانوی حکومت کے خلاف بےباکی کے ساتھ آواز حق بلند کیا،جس کے نتیجے میں ’’امارت‘‘ پر دو مرتبہ مقدمہ چلا اور آپ کو جیل کی صعوبت بھی برداشت کرنی پڑی۔
۸؍دسمبر ۱۹۷۷ء کو پھلواری شریف میں انتقال ہوا اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کےقبرستان میں مدفون ہوئے۔(۱۳)
مراجع
(۱)شیخ الہند مولانا محمود حسن حیات اور کارنامے ،ص ۲۱۸
(۲)رسالہ ’’القاسم‘‘ جلد ۱، شمارہ ۹
(۳)جریدہ’’ امارت‘‘ ۵؍ذیقعدہ ۱۳۴۴ھ مطابق ۱۸؍مئی ۱۹۲۶ء
(۴) جریدہ امارت ۵ذولقعدہ ۱۳۴۴مطابق ۱۹۲۶ ص ۳
(۵)جریدہ ’’امارت‘‘ذولقعدہ یوم سہ شنبہ ۱۳۴۴ہجری مطابق ۱۸ مئی ۱۹۲۶
(۶)جریدہ’’امارت ‘‘ ۲۰؍ صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء
(۷) جریدہ ’’امارت‘‘ ۲۰ربیع الاول ۱۳۴۴مطابق۱۹۲۶
(۸) جریدہ ا مارت ۲۰ ربیع الاول ۱۳۴۴ صفحہ ۲
(۹)جریدہ’’ امارت‘‘ ۲۰ جمادی الاخری۱۹۴۶ مطابق ۱۵دسمبر ۱۹۲۷
(۱۰)جریدہ ’’امارت ‘‘۵؍ربیع الثانی۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹۲۷ء
(۱۱)جریدہ’’امارت‘‘ ۵؍جمادی الاولیٰ ۱۳۴۶ھ مطابق یکم اکتوبر ۱۹۲۷ء
(۱۲)(فیق علمائے بہار نمبرص۱۵۶
(۱۳)تذکرہ علمائے بہار ، جلد اول، ص ۱۸۸