مولانا شاہ محمد عبدالرحیم مجددی کا نظریۂ تعلیم

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

مولاناشاہ محمد عبدالرحیم مجددی بن حکیم الطاف علی خان کی پیدائش ۱۹۲۰ء میں ہندوستان کے مشہور شہر جے پور میں ہوئی۔ اس وقت ان کے والد کا قیام اجمیری دروازہ کے قریب ایک مکان میں تھا، جو آج بھی مرزا اسمٰعیل روڈ پر واقع ہے۔ ان کا خاندان جے پور کے علمی گھرانہ میں شمار ہوتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، پھر آپ مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخل کئے گئے۔ یہ مدرسہ ہیزم فروشاں، بیرون اجمیری دروازہ میںواقع تھا، جو آج بھی موجود ہے۔ اس مسجد کو ان کے دادا شاہ ہدایت علی نے ازسرنو تعمیر کرائی اور اسی کے ایک حصہ میں مدرسہ تعلیم الاسلام شروع کیا گیا۔اس زمانہ میں یہ مدرسہ شہر جےپورکابڑا دینی مدرسہ تھا۔ یہاں مشکوٰۃ شریف تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانہ میں دارالعلوم نظامیہ فرنگی محل لکھنؤ کی بڑی شہرت تھی۔ چنانچہ ان کے دادا نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مدرسہ فرنگی محل لکھنؤ کا انتخاب کیا اور وہ لکھنؤ بھیج دیئے گئے۔ وہاں انہوں نے پورے انہماک اور دلجمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ فرنگی محل میں قیام کے دوران ان کی مشغولیت کا دائرہ صرف تعلیم وتعلم تک محدود نہ رہا، بلکہ دیگرا مور میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔

مولانا شاہ محمد عبدالرحیم مجددی کا نظریۂ تعلیم
مولانا شاہ محمد عبدالرحیم مجددی کا نظریۂ تعلیم

مولانا شاہ محمد عبدالرحیم مجددی کے دادا شاہ ہدایت علی ان کو بہت عزیز رکھتے تھے، وہ شیخ طریقت تھے، اس لئے ان کے اسفار ان دنوں زیادہ تر گجرات، مہاراشٹر اور یوپی میں کانپور، فرخ آباد، قنوج وغیرہ کے لئے ہوا کرتے تھے۔ تقریباً ہر سفر میں مولانا شاہ عبدالرحیم مجددی آپ کے ساتھ ہوتے ۔ دادا کی صحبت نے ان کو اپنے مشن کا سچا جانشیں بنادیا۔ ۱۹۵۱ء میں ان کے دادا کا وصال ہوگیا ،جبکہ ان کا جاری کردہ مشن نامکمل تھا۔ مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب نے نامساعد حالات میں نامکمل مشن کی تکمیل کا عزم کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے چار دروازہ کے قریب واقع اراضی موقوفہ ہدایت باغ میں مسجد کی تعمیر مکمل کرائی، ساتھ ہی جو عمارتیں نامکمل تھیں ان کو مکمل کرایا۔

مولانا شاہ محمد عبدالرحیم مجددی نے مدرسہ فرنگی محل لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی۔ اپنےدادا شاہ ہدایت علی کی صحبت میں رہے۔ سفر وحضرمیں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے اپنے دادا کے مشن کو سمجھا، پھر دادا کے وصال کے بعد اس مشن کو آگے بڑھانے کا منصوبہ بنایا۔یہ زمانہ بیسوی صدی کے وسط کا تھا۔ ملک میں مدارس اور مکاتب کا جال بچھا ہوا تھا، بہت سے مدارس درس نظامی کے مطابق چل رہے تھے، بہت سے مدارس ایسے تھے، جن میں دینی اور عصری دونوں مضامین شامل تھے، جیسے دارالعلوم دیوبند اور ان سے ملحق ادارے درس نظامی کے مطابق خدمات انجام دے رہے تھے، جبکہ دینی عصری مضامین پر مشمل نصاب تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعۃ الفلاح بلیریا گنج، جامعۃ الاصلاح سرائے میر اور مدسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ، بنگال مدرسہ بورڈ،بہار مدرسہ بورڈ اوریوپی مدرسہ بورڈ سے ملحق بہت سے مدارس تھے، پھر بھی اس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مدارس میں صنعت وحرفت کی بھی تعلیم دی جائے، تاکہ طلبہ معاشی اور اقتصادی اعتبار سے خود کفیل ہوں۔چنانچہ مولانا شاہ محمد عبدالرحیم نے اسی کو اپنا ہدف اور ان کا منصوبہ بنایا کہ ایسا اہم مرکز اور جامع ادارہ قائم کیا جائے جو اپنے نصاب اور نظام تعلیم میں منفرد ہو اور اس میں عصری تقاضوں کی پوری پوری رعایت ہو، اس میں طلبہ کو کوئی فن بھی سکھایا جائے، تاکہ فراغت کے بعد ان کے سامنے معاشی اور اقتصادی مسائل سامنے نہ آئیں اور وہ ہنر سے اپنی روزی حاصل کریں اور یکسو ہوکر دین کی خدمت انجام دیں۔ انہوں نے اپنے منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور زمین پر اتارنے کے لئے اکابر علماء اور دانشوران سے ملاقاتیں کیں اور ان کے سامنے اس منصوبہ کو پیش کیا اور ان سے مشورے کئے۔ ساتھ ہی حلقۂ احباب میں اس ادارہ کا خاکہ پیش کیا۔احباب نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ہرممکن تعاون کا یقین دلایا ،چنانچہ ہر طرح سے اطمینان کے بعد ۱۹۷۶ء میں جے پور سے پانچ کلو میٹر دور رام گڑھ روڈ پر ایک اراضی حاصل کی اور اسی سال ۹؍اکتوبر ۱۹۷۶ء میں ایک ادارہ کی بنیاد رکھی، جس کا نام جامعۃ الہدایۃ رکھا۔ اس کا افتتاح مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے دست مبارک سے ۸-۹؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو عمل میں آیا اور اس کا تعلیمی آغاز ۱۹۸۶ء کو ہوا۔

جامعۃ الہدایۃ کے تعارف نامہ کے مطابق اس کے قیام کے بنیادی مقاصد حسب ذیل ہیں:

(۱)ایسی باشعور مسلم نسل تیار کرنا جو جدید اسلوب اور سائنٹفک انداز میں اسلام کی ترجمانی کرسکے اور جو غیر اسلامی افکار ونظریات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اور عقلی دلائل کے ذریعہ بھرپور مقابلہ کرنے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہوں۔

(۲)اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم سے بھی واقفیت رکھتے ہوں۔

(۳) مدرسہ سے فراغت کے بعد ان کا دائرۂ عمل منبرومحراب تک محدود نہ ہو، بلکہ اس سے بڑھ کر معاشی طور پر خود کفیل ہوں، اس کے لئے ان کو صنعت وحرفت بھی سکھائی جائے۔

(۴)جذبۂ خدا شناسی اور خدمت خلق سے بہرہ مند ہوں۔

(۵) طلبہ کی ایسی کردار سازی کی جائے کہ وہ جس جگہ اور جس حال میں ہوںداعیانہ شان کے ساتھ رہیں۔(۳)

چونکہ جامعۃ الہدایۃ کے منصوبہ میں یہ شامل تھا کہ دینی اور عصری مضامین کی تعلیم کے ساتھ معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے لئےتکنیکی تعلیم بھی دی جائے گی، اس لئے اس کا نصاب تعلیم بھی مذکورہ تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا، جس میں دینی اور عصری مضامین کے ساتھ تکنیکی تعلیم کا بھی انتظام ہے۔ چنانچہ جامعۃ الہدایۃ کے نصاب تعلیم کے سلسلے میں تحریر ہے کہ اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لئے دینی علوم قرآن وحدیث ،فقہ اسلامی، سیرت وتاریخ، عربی واردو زبان وادب کے ساتھ زمانہ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عصری علوم، سائنس، جغرافیہ، ریاضی، انگریزی ، ہندی زبان، نیز تکنیکی علوم کو نصاب میں اس طور پر شامل کیا گیاہے کہ دینی علوم متاثر نہ ہوپائیں۔

عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جامعۃ الہدایۃ کا نصاب تعلیم ترتیب دیا گیا ہے۔ ابتدائی پانچ درجات کی تعلیم کا انتظام ایک دوسرے ادارہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں کیا گیا۔ اس لئے جامعہ کا نصاب درجہ ششم (VI) سےشروع ہوتا ہے اور گریجویشن سطح تک جاری رہتا ہے، اس کو چار مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اعدادیہ: تین سال یعنی درجہ ۶؍ سے درجہ ۸

ثانویہ: چار سال یعنی درجہ ۹؍سے درجہ ۱۲

عالیہ: تین سال یعنی مساوی گریجویشن

علیا: ایک سال تخصص فقہ وافتاء، انگلش اسپیکنگ کورس (۴)

 

درجات اور نصاب کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

اعدادیہ اول (VI)

(۱) قرآن مجید(۲) سیرت نبوی (۳) ادب عربی (۴) دینیات (۵) اردو (۶) انگریزی (۷) ہندی (۸) ریاضی (۹) سائنس

اعدادیہ ثانیہ (VII)

(۱) قرآن مجید (۲) سیرت نبوی (۳) ادب عربی (۴) نحو (۵) صرف (۶) دینیات (۷) اردو (۸) انگریزی (۹) (ہندی (۱۰) ریاضی

اعدادیہ ثالثہ (VIII)

(۱) ادب عربی (۲)نحو(۳) صرف (۴) انشاء(۵)دینیات(۶) سیرت نبوی (۷) اردو (۸) انگریزی (۹) ہندی (۱۰) ریاضی (۱۱) سائنس

ثانویہ اولیٰ (IV)

(۱) فقہ (۲) ادب عربی (۳) نحو (۴) صرف (۵) انشاء (۶) تاریخ (۷) اردو (۸) انگریزی (۹) ہندی (۱۰) ریاضی (۱۱) سائنس

ثانویہ ثانیہ (X)

(۱) حدیث (۲) اصول حدیث (۳) فقہ (۴) ادب عربی (۵) انشاء (۶) تاریخ (۷) اردو (۸) انگریزی (۹) ہندی (۱۰) ریاضی (۱۱) سائنس

ثانویہ ثالثہ (XI)

(۱) تفسیر (۲) حدیث (۳) اصول حدیث (۴) فقہ (۵) اصول فقہ (۶) عقیدہ (۷) ادب عربی (۸) نحو (۹) صرف (۱۰) انشاء

سینئر سکنڈری (XII) (N.I.O.S)کے تحت مندرجہ ذیل مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔

(۱) انگریزی (۲) عربی؍اردو (۳) تاریخ (۴) پولیٹیکل سائنس (۵) ڈاٹا انٹری آپریشن

ثانویہ رابعہ (XII)

(۱) تفسیر (۲) حدیث (۳) اصول حدیث (۴) فقہ (۵) اصول فقہ (۶) عقیدہ (۷) ادب عربی (۸) نحو (۹) انشاء

سینئر سکنڈری XII (N.I.O.S) کے تحت مندرجہ ذیل مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔

(۱) انگریزی (۲ )عربی؍اردو (۳) تاریخ (۴) پولٹیکل سائنس (۶) ڈاٹا آپریشن

عالیہ اولیٰ (1st year)

(۱) تفسیر (۲)اصول تفسیر (۳) حدیث (۴) اصول حدیث (۵) فقہ (۶)اصول فقہ (۷) فرائض(۸) عقیدہ (۹) ادب عربی (۱۰) انشاء (۱۱)انگریزی

 

عالیہ ثانیہ (2nd year)

(۱) تفسیر (۲)اصول تفسیر (۳) حدیث (۴) فقہ (۵) ادب عربی (۶) انشاء(۷) انگریزی

عالیہ ثالثہ (3rd year)

(۱) تفسیر (۲)حدیث (۳) فقہ (۴) عقیدہ (۵) ادب عربی (۶) آزادانشاء(۷) انگریزی

درجہ علیا کا نصاب تعلیم یہ ہے

تخصص فی الفقہ والافتاء

(۱) الاشباہ والنظائر(۲) شرح عقود ،رسم المفتی (۳) الدرالمختار اول وثانی، (۴) السراجی فی المیراث (۵) فقہ البیوع (۶) اصول الافتاء وآدابہ (۷) تمرین الفتاویٰ(۵)

تکنیکی تعلیم

جامعۃ الہدایۃ میں ٹیکنیکل تعلیم کا بھی انتظام ہے۔

فراغت کے بعد طلبہ ٹیکنیکل تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ کے لئےمعاش کے سلسلے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ہے اور یہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جامعہ کے نصاب کا ایک بنیادی حصہ یہ بھی ہے کہ اس سے فارغ ہونے والے طلبہ کسی کے محتاج نہ رہیں، ضرورت پڑے تو وہ اپنے معاش اور روزی حاصل کرنے کے لئے دوسرے فیلڈ میں بھی کام کرسکتے ہیں۔

ٹیکنیکل کو رس کانصاب تعلیم مندرجہ ذیل ہے:

(۱) کمپیوٹر (۲) کمپیوٹر ٹائپنگ، أ۳) الیکٹریکل ٹیکنیشین (۴) سیکٹریل پریکٹس (۵) فیٹر کم ویلڈنگ ٹیکنالوجی

اس کے علاوہ مرکزی حکومت سے منظور شدہ کچھ کورس بھی کرائے جاتے ہیں ،تاکہ طلبہ جب جامعہ سے فارغ ہوں ،تو ان کے پاس جامعہ کی اسناد کے ساتھ سرکاری ادارہ کی سرٹیفکیٹ بھی ہو اور وہ یونیورسٹیوں میں داخلہ کے اہل ہوں۔

ان میں سے دوکورس اہم ہیں:

(۱) ہائی اسکول (x) (این آئی او ایس)

(۲) سینئر سکنڈری (XII) (این آئی او ایس)

(۱) کمپیوٹر اپلیکیشن (۲) کمپیوٹر ٹائپنگ وپبلشنگ (۳) الیکٹریکل ٹیکنیشین (۴) سیکریٹیل پریکٹس (۵) فیٹر اور ویلڈنگ ٹیکنالوجی۔

اس کے علاوہ جامعۃ الہدایۃ میں کچھ ایسے کورس کی بھی تعلیم دی جاتی ہے جو حکومت سے منظور ہیں تاکہ طلبہ جب جامعہ سے فارغ ہوں تو ان کے پاس اسناد کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارہ کی سرٹیفکیٹ بھی ہو اور وہ اسکول وکالج کے طلبہ کے شانہ بشانہ عصری جامعات میں داخلہ کے اہل ہوں۔ فی الحال جامعہ میں جو منظور شدہ کورس کرائے جاتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) عربک سرٹیفکیٹ کورس (این سی پی یو ایل)(۲) ڈپلوما ان ایڈوانس عربک (این سی پی یو ایل)(۳) ڈپلوما ان پرشین لنگویج (این سی پی یو ایل) (۴) ڈپلوما ان اردو لنگویج (این سی پی یو ایل)(۵) ہائی اسکول (X) (این آئی او ایس) (۶) سینئرسکنڈری (XII) (این آئی اوایس)(۶)

جہاں تک مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری مضامین کو شامل کئے جانے کی بات ہے ،تو اس جانب اکابر علماء نے بہت پہلے توجہ دی تھی، اسی توجہ کا اثر رہا کہ دینی اور عصری مضامین پر مشتمل نصاب تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی جاری کیا گیا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا قیام ۱۸۹۸ء میں عمل میں آیا، اس کے لئے ایک جامع اور متوازن نصاب تعلیم مرتب ہوا، جس میں ایک طرف علوم دینیہ میں پختگی اور دوسری طرف عربی زبان میں مہارت اور تیسری طرف علوم جدیدہ سے حسب ضرورت واقفیت کو بنیادی اہمیت دی گئی، اس کی تعمیر وترقی میں ممتاز اہل علم اور صاحب فکر حضرات نے حصہ لیا۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مدت تعلیم چار مرحلوں میں تقسیم ہے۔ پہلا مرحلہ ۶؍سال، ابتدائی (معہد) اس میں پرائمری سے قبل ایک سال چھوٹے بچوں کے لئے ، پھر پانچ سال پرائمری کے ہوتے ہیں، ان میں بچوں کو مادری زبان اور بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اور گورنمنٹ اسکول کے معیار کے مطابق رائج الوقت مضامین ہندی وانگریزی وغیرہ پڑھائے جاتےہیں۔

دوسرا مرحلہ ۵؍سال (معہد) کا ہے جو ثانوی درجات پر مشتمل ہے اور عصری درسگاہوں کے معیار کے لحاظ سے مڈل اور ہائی اسکول کی سطح کے مطابق ہے، اس میں عربی اورعلوم اسلامیہ کے علاوہ انگریزی اور جنرل سائنس کی تعلیم ہائی اسکول کے معیار تک دی جاتی ہے۔

تیسرا مرحلہ چار سال ، یہ کلیہ کہلاتا ہے، یہ چار تعلیمی برسوں پر مشتمل ہے، جو تعلیمی سطح کے لحاظ سے عصری درسگاہوں کے انٹر اور بی اے کے مطابق ہے،اس میں عربی ادب اور حدیث وفقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے، اس میں انگریزی تعلیم کا بھی انتظام ہے، جس کا معیار بی اے تک ہے، اس سے فراغت کے بعد عالیہ کی سند دی جاتی ہے۔

چوتھا مرحلہ درجات علیا ہے، یہ خصوصی شعبہ ہے، اس میں تخصص کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کا نصاب ۵؍سال پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کی تعلیم کا بھی انتظام ہے۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ قدیم وجدید کا سنگم ہے، اس میں علوم اسلامیہ کے ساتھ علوم عصریہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے، اس طرح اس کے فارغین بی اے معیار تک کی عصری تعلیم بھی ندوہ کے نصاب ہی سے حاصل کرلیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ندوہ کے فارغین کالج ،یونیورسٹی اور بڑے بڑے ثقافتی اداروں میں مترجمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں،اس کی وجہ سے دارالعلوم ندوۃ العلماء اور مدارس کا وقار بلند ہوا ہے۔(۷)

بیسویں صدی کی کی دوسری دہائی میں ایک اور مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، وہ مدرسہ شمس الہدیٰ ہے، جو پٹنہ شہر میں واقع ہے۔ یہ ۱۹۱۲ء میں قائم ہوا۔ابتداء میں اس مدرسہ میں درس نظامی کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی، مگر جب ۱۹۱۹ء میں مدرسہ کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گا تو اس میں جدید نصاب تعلیم نافذ کیا گیا ، وہ نصاب تعلیم دینی ا ورعصری مضامین پر مشتمل ہے۔

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے سرکاری تحویل میں دیئے جانے کے بعد ۱۹۲۲ء میں مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ بہار کا قیام عمل میں آیا، پھر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کا نصاب تعلیم بہار مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ کا نصاب تعلیم قرار دیا گیا اور بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس میں بھی اسی نصاب تعلیم کو جاری کیا گیا جو دینی اور عصری مضامین پر مشتمل ہے۔۱۹۷۸ء میں بہار مدرسہ بورڈ کے نصاب تعلیم کو اپ گریڈ کیا گیا اور بہار مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ کو بھی اپ گریڈ کرکے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کردیا گیا ۔ ایکٹ ۱۹۸۱کے ذریعہ اس کو باضابطہ منظوری دی گئی ۔ اس ایکٹ کے مطابق بہار مدرسہ بورڈ کی اسناد کومساوات کا درجہ دیاگیا اور سرکاری ملازمت میں تقرری اور اسکول وکالج میں داخلہ کے لئے بھی منظوری دی گئی۔

نصاب تعلیم اور مساوات کا خاکہ حسب ذیل ہے:

تحتانیہ

۴؍سال

پرائمری

وسطانیہ

۴؍سال

مڈل

فوقانیہ

۲؍سال

میٹرک

مولوی

۲؍سال

آئی اے

عالم

۳؍سال

بی اے آنرز

فاضل

۲؍سال

ایم اے

 

مضامین کا خاکہ یہ ہے:

تحتانیہ اول

(۱) اسلامیات، (۲) اردو (۳) ہندی (۴) انگریزی (۵) حساب (۶) ماحولیات

تحتانیہ دوم

(۱) اسلامیات، (۲) اردو (۳) ہندی (۴) انگریزی (۵) حساب (۶) ماحولیات

تحتانیہ سوم

(۱) دینیات (۲) اردو (۳) ہندی (۴) انگریزی (۵) حساب (۶) ماحولیات

تحتانیہ چہارم

(۱) اسلامیات (۲) اردو (۳) ہندی (۴) انگریزی (۵) حساب (۶) ماحولیات

وسطانیہ اول

(۱) دینیات (۲)عربی (۳) اردو (۴) فارسی (۵) ہندی (۶) انگریزی (۷) حساب (۸) سائنس (۹) مطالعہ سماج

وسطانیہ دوم

(۱) دینیات (۲)عربی (۳) اردو (۴) فارسی (۵) ہندی (۶) انگریزی (۷) حساب (۸) سائنس (۹) مطالعہ سماج

وسطانیہ سوم

(۱) دینیات (۲)عربی (۳) اردو (۴) فارسی (۵) ہندی (۶) انگریزی (۷) حساب (۸) سائنس (۹) مطالعہ سماج

وسطانیہ چہارم

(۱)دینیات(۲)عربی ادب(۳)اردو(۴)ہندی(۵)فارسی (۶) انگریزی (۷)حساب (۸)مطالعہ سماج(۹)معلومات عامہ (۱۰)جسمانی ورزش (۱۱) خطاطی ،کٹائی بنائی،نجاری، کتاب سازی ، گھریلو سائنس ، نواں اور دسواں پرچہ مدرسہ میں ہوگا۔

فوقانیہ اول

(۱) اسلامیات اول (۲)اسلامیات دوم (۳) اردو (۴) فارسی (۵) عربی (۶)مطالعہ سماج (۷) ہندی (۸) حساب (۹)سائنس (۱۰) معاشیات

فوقانیہ دوم

(۱) دینیات اول (۲)دینیات دوم (۳) اردو (۴) فارسی (۵) عربی (۶)مطالعہ سماج (۷) ہندی (۸) حساب (۹)سائنس (۱۰) معاشیات

مولوی اول

(۱) دینیات اول (۲)دینیات دوم (۳) عربی (۴) اردو (۵) انگریزی (۶)تاریخ (۷) جغرافیہ (۸) معاشیات (۹)ہندی

مولوی دوم

(۱) دینیات اول (۲)دینیات دوم (۳) عربی (۴) اردو (۵) انگریزی (۶)تاریخ (۷) جغرافیہ (۸) معاشیات (۹)تاریخ ہند (۱۰) ہندی

عالم اور فاضل کا نصاب مولانا مظہرالحق عربی وفارسی یونیورسٹی کے نصاب کے مطابق ہے۔

موجودہ وقت میں بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈکے نصاب تعلیم میں سائنس اور کامرس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔(۸)

آپ نے جامعۃ الہدایۃ کے نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا۔ اللہ کا فضل ہے کہ جامعۃ الہدایۃ جے پور اپنے مقاصد میں کامیاب ہے۔ جامعۃ الہدایۃ کے فارغین اعلیٰ دینی تعلیم یعنی قرآن وحدیث ،فقہ اسلامی،سیرت وتاریخ، عربی واردو زبان وادب کے ساتھ عصری علوم یعنی سائنس، ریاضی، جغرافیہ، انگریزی وہندی زبان وادب کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں کے طلبہ جامعہ میں رہ کر این آئی او ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلیٰ عصری تعلیم کے لئے کسی بھی عصری ادارے یعنی کالج ویونیورسٹی میں داخلہ کی اہلیت رکھتے ہیں، تکنیکی تعلیم، کمپیوٹر، ٹیکنیکل، الیکٹریکل میں سے کسی ہنر کی تعلیم اور سرٹیفکیٹ حاصل کرکے اپنے معاشی مسائل کو حل کرنےکی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس ادارہ کی اسناد کا معادلہ سعودی عرب کی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعۃ الملک سعود ریاض سے بھی ہے اور اس کے فارغین ان یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے مجاز ہیں۔ اس طرح یہ ادارہ ایک کامیاب ادارہ ہے، البتہ موجودہ وقت میں اس کی ضرورت ہے کہ اس کے نصاب کو اپ گریڈ کیا جائے اور اس کو ہدایہ یونیورسٹی کے نام سے پرائیویٹ یونیورسٹی کے طور پر منظور کرایا جائے۔

موجودہ وقت میں حکومت کی جانب سے پرائیویٹ یونیورسٹی کو منظوری دی جارہی ہے، بہار میںالکریم یونیورسٹی اور امام بخاری یونیورسٹی کو منظوری مل چکی ہے، اسی طرح یوپی میں انٹریگرل یونیوسٹی اورمولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو بھی منظوری حاصل ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ جامعۃ الہدایۃ کے پاس وسائل موجود ہیں، مدارس اسلامیہ کو تحفظ کی ضرورت بھی ہے، اس طرح ہدایۃ یونیورسٹی کو منظور کرالیا جائے ،تو یہ ادارہ مدارس کی ترقی کے لئے بھی اہم ہوگا اور تحفظ کے لئے بھی اہم ہوگا اور اس کی وجہ سے یہاں کے فارغین کو بھی ترقی کے مزیدمواقع حاصل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ جامعۃ الہدایۃ کو ترقیوں کے اعلیٰ منازل تک پہنچائے اور اس کی خدمات کو قبول فرمائے۔

ماخذ ومراجع

(۱)مولانا شاہ محمد عبدالرحیم حیات وخدمات مختلف صفحات سے ماخوذ

(۲) تعارف جامعۃ الہدایۃ، ص ۲۱

(۳) جامعۃ الہدایۃ تعارف ونصاب تعلیم ص ۲۷

(۴) جامعۃ الہدایۃ تعاروف نصاب تعلیم ص ۴

(۵) جامعۃ الہدایۃ تعاروف نصاب تعلیم ص ۱۰

(۶)جامعۃ الہدایۃ تعاروف نصاب تعلیم ص ۴

(۷) نصاب تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

(۸)مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ سے مولانا مظہرالحق عربی وفارسی یونیوسٹی تک مختلف صفحات

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare