مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی : ایک مثالی دینی و ملی شخصیت
مولانا عمار رحمانی ازہری
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کا شماربھارت کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے دین کی خدمت، اصلاحِ امت، اور ملی قیادت کے میدان میں ایک متوازن، بامقصد اور مسلسل جدوجہد کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ آپ کی شخصیت میں علم وعمل کے حسین امتزاج کے ساتھ خطابت، روحانیت، تنظیمی صلاحیت اور تحریری بصیرت ایک ساتھ جمع ہیں، یہ صفات کم ہی کسی انسان میں یکجا ہوپاتی ہیں، آپ ایک طرف خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں کے بانی وسجادہ نشیں، متعدد اداروں کے ذمہ دار وسرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سرگرم سکریٹری ہیں، تو دوسری طرف ہزاروں مریدین کے مربی اور ہزاروں سامعین کے پسندیدہ خطیب بھی ہیں۔ اپنے منفرد انداز، وسعتِ فکر اور مسلسل ومتحرک طرز ِعمل کے سبب آپ کو علمی حلقوں، ملی اداروں اور عوامی میدانوں میںخاص امتیاز حاصل ہے۔
پیدائش و ابتدائی تعلیم:
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی پیدائش 10اپریل 1987ء بروز جمعہ مالیگاؤں (مہاراشٹر) کے ایک علمی و دینی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والدحضرت مولانا محفوظ الرحمن قاسمی صاحب شہر کے معروف عالم دین اور مشہور خطیب تھے، والد محترم صوبہ مہاراشٹر کی عظیم وقدیم دینی درسگاہ مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں کے شیخ الحدیث وصدر المدرسین رہے، مولانا محترم کم سنی میں والد محترم کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے، والد کے انتقال کے بعد، والدہ نے تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ مالیگاؤں اور مدرسہ اشرف المدارس (ہردوئی) میں حاصل کی، جب کہ مدرسہ معہد ملت (مالیگاؤں) سے 2006ء میںسند فراغت حاصل کی، دورانِ تعلیم ہی آپ کی ذہانت، خطابت اور تحریری صلاحیتوں کی شہرت بوئے گل کی طرح پھیلنے لگی تھی۔
روحانی وابستگی اور خانقاہ رحمانیہ کا قیام:
طالب علمی کے دوران ہی آپ کا اصلاحی تعلق امیر شریعت رابع حضرت مولانامحمد ولی رحمانیؒ (خانقاہ رحمانی، مونگیر) سے قائم ہوا۔ انہی سے تربیت، سلوک و تصوف اور روحانی رہنمائی حاصل کی۔ 2010ء میں خلافت و اجازت سے سرفراز کیے گئے۔ اس کے بعد مالیگاؤں میں خانقاہ رحمانیہ کی بنیاد رکھی، جہاں باقاعدگی سے اصلاحی مجالس اورخانقاہی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں، نیز سال بھر مختلف علاقوں سے علمائے کرام اور سالکین کی ایک بڑی تعدادخانقاہ میں مقیم رہ کر خود کو ذکر وفکر اور تربیت کے مرحلے سے گزار تی ہے، ملک بھر میں آپ کے اصلاحی اسفار بھی ہوتے رہتے ہیں،رمضان المبارک میں اعتکاف میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں، آپ کے مختلف اسفار کے دوران ہزاروں لوگ توبہ واستغفار کرکے شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم مصمم کرتے ہیں، حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ متعدد بزرگوں سے آپ کو اجازت وخلافت حاصل ہے، جن میں حضرت مولانا عبداللہ مغیثی، حضرت مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، حضرت مولانا یونس پالن پوری، حضرت صوفی میاں جی محمد رمضان میواتی بطور خاص قابل ذکر ہیں، آپ کا بنیادی سلسلہ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ ہے، البتہ آپ کو سلسلہ چشتیہ، سہروردیہ، رفاعیہ، شاذلیہ، مجددیہ وغیرہ میں بھی اجازت حاصل ہے۔
سماجی ورفاہی خدمات:
آپ نے 2004ء میں ادارہ صوت الاسلام کی بنیاد رکھی، جوتا حال مختلف دینی، فلاحی اور اصلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہے، مسلمان بہنوں میں بڑھتا ارتداد ہو یا نوجوانوں میں سرایت کرتی ہوئی نشے کی بری لت، بے عملی کا بڑھتا طوفان ہو یا دین بیزاری کی منصوبہ بند کوشش، یہ ادارے ہر محاذ پر ڈٹ کر بے راہ روی کا مقابلہ کرتا ہے، اس ادارے کے زیر نظم متعدد مکاتب بھی جاری ہیں، نیز سماجی اور رفاہی خدمات کا بھی سلسلہ دراز ہے، پریشان حال اور مصیبت زدہ افراد بڑی تعداد میں ان سے رجوع کرتے ہیں اور وہ ان کی مشکلات کا مناسب حل پیش کرتے ہیں، آپ نے ماہنامہ گلشن نعمانی، اور ہفت روزہ حق کی روشنی کی ادارت کے ذریعے ایک لانبے عرصے تک معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔ مولانا 2008ء سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ ہیں۔آپ 2013ء میں بورڈ کے رکن، اور 2016ء میں سکریٹری منتخب کیے گئے۔ اس حیثیت سے آپ نے دین و دستور بچاؤ تحریک، طلاق ثلاثہ بل کے خلاف احتجاج، اور NRC/CAA کے خلاف ملک گیر تحریکات میں فعال کردار ادا کیا، اب بھی ملی تحریکات کے لیے آپ صبح وشام سرگرم عمل رہتے ہیں، اور ملک کی مختلف ریاستوں کا سفر کرکے عوام میں بیداری لانے کی سعی کرتے ہیں۔
ادارتی و تعلیمی خدمات:
مدرسہ معہد ملت کے تحت شعبہ دینیات کی نصابی کتب کی ترتیب و تدوین کی خدمت انجام دی، تا وقت تحریر دسویں جماعت تک کی کتابیں چھپ چکی ہیں، جنہیں مہاراشٹر بھر کے عصری علوم سے وابستہ دسیوں ہزار طلبہ پڑھ کر دین کی بنیادی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ 2022ء میں آپ اسی مدرسہ معہد ملت کے مہتمم مقرر ہوئے،آپ کے زیر اہتمام دو سالوں میں ادارے نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی، نئے شعبہ جات قائم ہوئے، تعلیم کا معیار بڑھا، اساتذہ کو ملنے والے مشاہرے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ، انہوں نے جامعہ تعلیم البنات میں ایک سال تک ابن ماجہ شریف کا درس دیا، نیز معہد ملت میں بھی بعض کتابوں کا درس دیا، مشاغل کی کثرت کے سبب دو سال کے بعد آپ نے معہد ملت کا منصب اہتمام چھوڑدیا۔
تصنیف و تالیف:
مولاناکو تصنیف وتالیف سے خصوصی شغف ہے، آپ کی تحریریں بڑی شستہ، شائستہ اور سلیس ہوتی ہیں،اور مؤثر ایسی کہ کوئی پڑھے تو پڑھتا چلا جائے، اور مضمون مکمل کیے بغیر اس کو چین نہ آئے،آپ کا طرزِ تحریر عصر حاضر کے اسلوب کے مطابق رواں دواں ہے، اور آپ شگفتہ اور آسان لکھنے میں کامیاب رہے ہیں،آپ کی تحریریں مولانا عبدالماجد دریابادی کے اس جملے کی مصداق ہیں: ”عبارت دقیق ہو، ثقیل نہ ہو، لطیف ہو رقیق نہ ہو، ٹھوس ہو ٹھس نہ ہو، فکر انگیز ہو مگر بور کرنے والی نہ ہو، پر زور ہو مگر پر شور نہ ہو، آپ کی دو درجن کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں تصوف کی اہمیت وضرورت، کامیاب مقرر بنئے، دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں، فن خطابت، دیار مرشد میں چند دن، مختصر دعائیں عظیم فائدے، موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل، جن کے نقش قدم پہ چراغ جلتے ہیں وغیرہ شامل ہیں، ”گلشنِ نعمانی“ اور ”حق کی روشنی“ کے اداریے بھی آپ کی طرز نگارش کا بہترین نمونہ ہیں۔
تفسیری خدمات:
آپ کو قرآن کریم سے غیر معمولی شغف ہے، شہر مالیگاؤں کی متعدد مساجد میں آپ نےتقریبا چودہ پندرہ سال تک درس قرآن دیا ہے، اسی طرح آپ نے لاک ڈاؤن کے دوران روزانہ آن لائن درس قرآن کا سلسلہ جاری کیا، جس میں پورے قرآن پاک کا درس دیا، ان کے (۳۱۲) دروس یوٹیوب پر اپلوڈ ہیں، آپ نے قرآن کریم کا سادہ ورواں ترجمہ بھی کیا ہے، اور مختصر تفسیر بھی لکھی ہے، نیز فی الوقت تفسیر قرآن کریم پر کئی جہتوں سے کام بھی کررہے ہیں۔
خطابت اور دعوتی کردار:
مولانا کو تقریر کا فن قدرتی طور پر عطا ہوا ہے۔ ان کی خطابت میںبلا کی روانی اور شادابی ہے۔ آپ نے اصلاح معاشرہ، اتحاد امت، دینی شعور بیداری، اور سوشل ایشوز جیسے نشہ و خاندانی مسائل پر مؤثر آواز بلند کی، آپ کا علم حاضر اور زباں شمشیر برّاں ہے، جب جوش میں بولتے ہیں تو الفاظ کی روانی اور لہجے کی طغیانی دونوں لائق دید بھی ہوتے ہیں اور قابل داد بھی، تقریر کا ابتدائیہ بھی شاندار ہوتا ہے اور اختتام بھی غیر متوقع، آپ کے بیان میں برجستگی، تسلسل، اور زیر وبم کے ساتھ ساتھ شائستگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے، اور مجمع اور موقع کے مناسبت سے کبھی پرجوش بیان کرکے سامعین کے دلوں کو گرمادیا کرتے ہیں اور کبھی سبک انداز میں اصلاحی گفتگو کرتے ہوئے سننے والوں کے دلوں کو جذبہ عمل سے سرشار کردیتے ہیں، آپ کی تقریروں سے ملک اور بیرون ملک ایک بڑا طبقہ استفادہ کررہا ہے۔
طرز عمل اور امتیازات:
مولانا نے سیاسی وابستگی سے گریز کرتے ہوئے دینی خدمت کو ہی اپنی راہ بنایا، نیز اختلاف وانتشار پھیلانے والی باتوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ کوسوں دور رکھا، امت کے اتحاد واتفاق کے داعی رہے، ان کی زندگی میں اخلاص، تواضع، قربانی، اور امت کا درد نمایاں ہے۔ وہ نوجوان علماء کے لیے ایک عملی نمونہ ہیں کہ کیسے مختلف دینی شعبوں میں بیک وقت فعالیت رکھی جا سکتی ہے۔
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے کم عمری میں علم، دعوت، تنظیم، تصنیف، روحانیت اور قیادت کا امتزاج پیش کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مفسر، مبلغ اور مصنف ہیں بلکہ ایک باصلاحیت منتظم اور روحانی رہنما بھی ہیں۔ ان کی کوششیں کسی ایک ادارے یا تحریک تک محدود نہیں بلکہ قوم و ملت کی بہتری کے لیے ہمہ وقت جاری ہیں، دعا ہے کہ حضرت مولانا کا فیض یونہی عام وتام ہوتا رہے۔
Post Views: 164