پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( دوسری قسط)

طلحہ نعمت ندوی

۳۔مولانا عبدالماجد ندوی

مولانا عبدالماجد ندوی بن شیخ عبداللطیف کا وطن ضلع پٹنہ کا ایک مضافاتی قریہ سگوڑی (تھانہ پالی گنج)تھا،وہ ایک ممتاز عالم ،عربی زبان وادب کے نامور فاضل اور ماہر تعلیم وتربیت تھے۔ مولانا مسعود عالم ندوی کے شاگرد رشید تھے ،اور انہیں سے عربی کا ذوق پایا تھا،ان کی کتاب معلم الانشا کو پورے برصغیر میں مقبولیت حاصل ہوئی ،تکمیل تعلیم کے بعد ایک مدت تک ندوۃ العلماء کے استاد اور شعبہ عربی ادب میں ادیب دوم کی حیثیت سے خدمت انجام دی ،اسی دوران ندوہ کی طرف سے ان کو قاہرہ بھی بھیجا گیا ،۱۹۷۰ کے قریب وہ سعودی عرب چلے گئے اور جدہ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ ہوگئے ،اور اسی خدمت پر ۱۴۰۵مطابق ۱۹۸۵ میں جدہ ہی میں وفات پائی ،اور جنۃ المعلیٰ مکہ مکرمہ میں دفن ہوئے۔مولانا کو ان کے جس کا م کی وجہ سے شہرت ملی وہ ان کی کتاب معلم الانشاء ہے جس کی ان کی تصنیف کردہ دونوں جلدیں دارالعلوم ندوۃ العلماء اور اس کی شاخوں اور ہندوستان کے بیشتر مدارس میں شامل درس ہیں ،اور عربی انشاپردازی کی مشق کے لئے نہایت مفید ہیں ،وہاں فن نحو کی ابتدائی کتاب تمرین النحو بھی انہوں نےہی مکمل کی ہے ،جدہ ریڈیواسٹیشن سے وابستگی کے دوران انہوں نے کسی عربی تفسیر کا ترجمہ کرکے مکمل نشر کیا تھا ،نیز اور بھی بہت سے عربی اردو مضامین ان کی یادگار ہیں ۔(ان کے تفصیلی حالات کے لئےدیکھئے راقم کا مضمون شائع شدہ سوشل میڈیا )

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( دوسری قسط)
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( دوسری قسط)

۴۔پروفیسر حبیب الحق ندوی

مولانا پروفیسر حبیب الحق ندوی دنیائے اسلام کے معروف فاضل ومحقق ہیں ،ان کے والد کا نام منصور الحق اورآبائی وطن قصبہ باڑھ تھا ، وہاں کے معروف خانوادہ سادات سے تعلق تھا،ابتدائی اور متوسط درجات کی تعلیم اپنے وطن میں پھر مدرسہ شمس الہدیٰ میں حاصل کی ،اس کے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور وہاں کئی سال رہ کر اکتساب علم کے بعد ۱۹۴۹ء میں عالمیت کی تکمیل کی ،اس کے بعد عصری تعلیم کے لئے پٹنہ یونیورسٹی سے وابستہ ہوکر ۱۹۵۴میں گریجویشن اور ۱۹۵۶ میں ایم اے کی سند حاصل کی ،پھر پاکستان منتقل ہوگئے ،اورر ۱۹۶۲ء میں سند ھ یونیوسٹی کراچی سے انگریزی میں ایم اےکی سند حاصل کی ،اور وہیں چند سال تدریسی خدمت بھی انجام دی ،وہاں سےامریکہ چلے گئے اور ہاورڈ یونیورسٹی سے ۱۹۶۵ میں ایم اے اور ۱۹۷۰ میں پی ایچ ڈی مکمل کی ،پھر کچھ مدت تک وہاں لکچرر بھی رہے،پھر واپس کراچی یونیورسٹی آکر وہاں عربی کے صدر شعبہ مقرر ہوئے ،۱۹۷۷ء میں وہ اپنےرفیق ڈاکٹر سید سلمان ندوی کی دعوت پر ساؤتھ افریقہ کے شہر ڈربن کی یونیورسٹی میں صدر شعبہ علوم مشرقیہ مقرر ہوئے ۔ممتاز عالم ومحقق اور مصنف تھے ،سیکڑوں مقالات اور متعدد کتابیں انگریزی ،عربی اور اردو میں ان کی یاد گار ہیں ،اس کے علاوہ وہ فارسی ،جرمن ،اور فرانسیسی زبانوں سے بھی واقف تھے،مشہور کتابوں میں امریکہ میں کالے مسلمان ،پاکستان میں فروغ عربی زبان وادب ،فلسطین اور بین الاقوامی سیاست ہے ۔۹ شوال ۱۴۱۸مطابق ۶ فروری ۱۹۹۸ کو دل کا دورہ پڑنے سے ڈربن ہی میں انتقال ہوا ،اور وہیں مدفون ہوئے ،مشرقی ومغربی ادبیات ،بین الاقوامی سیاسیات اور استشراق کے موضوع پر عالمانہ نظر تھی،انگریزی ،اردو اور عربی تینوں زبانوں میں ان کے بے شمارمقالات اور تحریریں ہیں،اور آٹھ دس کتابیں یادگار ہیں۔(معارف اعظم گڑھ ،بحوالہ تذکرہ علمائے بہار،کچھ حالات معاصرین واہل وطن سے معلوم کئے گئے ہیں۔نیز دیکھئے ،ان کی کتاب قرآن کریم کا جمالیاتی تصور اور شعری وادبی نقطہ نظر ،لکھنؤ۔)

۵۔مولانا ابو سلمہ شفیع۔

مولانا ابوسلمہ شفیع احمد بن امیر حسن کا تعلق شہرشریف سے تھا ،انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے خسر مولانا اصغر حسین صاحب اور دیگر اساتذہ سے حاصل کی ،اور تکمیل علامہ انورشاہ کشمیری اور مولانا شبیر احمد عثمانی سے کی جس وقت حضرت کشمیری ڈابھیل میں مدرس تھے، تکمیل تعلیم کے بعد وطن آکر مدرسہ قومیہ بہارشریف میں درس دیا،اور مکتبہ علم وحکمت کے ذریعہ حدیث کی کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کیا ،پھر کچھ دن مدرسہ اسلامیہ نوادہ میں خدمت انجام دی،تقسیم ہند کے بعد کلکتہ چلے گئے اور مدرسہ عالیہ میں استاد حدیث وتفسیر مقرر ہوئے ،اور اسی خدمت سے وظیفہ یاب ہوکر سبکدوش ہوئے ،انہوں کلکتہ شہر میں دینی واصلاحی اور ملی خدمات انجام دیں ،اور ادارہ ترجمہ وتالیف کے ذریعہ کئی کتابیں بھی شائع کیں ۔کلکتہ ہی میں ۱۴۰۵مطابق ۱۹۸۵ میں ان کی وفات ہوئی اور گور غریباں قبرستان میں دفن ہوئے۔(دیکھئے،تذکرہ رہنمائے دین وملت مولانا ابوسلمہ شفیع ،ازمولانا رشید احمد فریدی)

۶۔ ڈاکٹرمحمد ظفیر

ڈاکٹر محمد ظفیر بن حکیم کریم بخش مشہور معالج وطبیب چشم تھے، شہر بہارشریف کے محلہ سلم پور میں ۱۹۳۷ میں ان کی ولادت ہوئی، ان کے والد بھی مشہور طبیب اور بڑے متقی تھے، انہوں نے والد محترم ہی سے تربیت پائی اور ابتدائی تعلیم کے بعد پٹنہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی سند حاصل کی اور ۱۹۵۵ میں سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سعودی حکومت وزارۃ الصحت کے ایک ہاسپٹل میں اعلی عہدہ پر فائز ہوئے، ڈاکٹر صاحب کو ان کے فن کی لیاقت کی وجہ سے خود ہی اس کی پیش کش کی گئی تھی، انہوں نے جدہ میں اپنی خدمت کا آغاز کیا اور ماہر چشم کی حیثیت سے جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ اور پھر انہیں سعودی عرب کی شہریت بھی مل گئی۔ پورے سعودی عرب میں سب سے پہلے انہیں ہی ڈاکٹروں کے عالمی ادارہ انٹرنیشنل کالج آف سرجن کا رکن منتخب کیا گیا، اپنے فن میں کمال کے ساتھ وہ متقی پرہیزگار اور وضعدار انسان تھے، دینداری، تقوی اور رکھ رکھاؤ میں اپنی مثال آپ تھے، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے قریبی متوسلین ومحبین میں تھے۔،کئی دینی رسائل ان کی علمی یادگار ہیں ،جن میں اتباع رسول آنکھوں کی حفاظت ،عورت اسلام کی نظر میں شامل ہیں۔(مقدمہ اتباع رسول الدارالسفلیہ بمبئی)۔ نومبر ۲۰۱۹ ربیع الاول ۱۴۴۱ه‍ میں جدہ ہی میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

۷ مولانا ظفیرالدین

مولانا ظفیر الدین مولانا برکات احمد ٹونکی کے شاگرد تھے ،اور معقولات میں بہت عالمانہ دسترس تھی،والد کا نام امداد علی اور وطن قائم پور چندوارہ (نزد استھاواں،نالندہ )تھا،۱۹۲۶یا ۱۹۲۷ میں ان کی ولادت ہوئی ۔ابتدائی تعلیم بہارشریف میں حاصل کی ،اس کے بعد بریلی کے ایک مدرسہ میں چند سال گذارے پھر ٹونک گئے اور مدرسہ خلیلیہ میں ممتاز علمائے کرام اور علامہ برکات احمد ٹونکی کے کئی شاگردوں سے اعلی درجات کی کتابیں حرفا حرفا پڑھیں ،اس کے بعد یہیں طب کی بھی تعلیم حاصل کی اور نسخہ نویسی بھی سیکھی ،پھر کچھ سال اسی مدرسہ میں اعلی درجات کے طلبہ کو درس دیا ،پھر چند سال آرہ کے ایک مدرسہ میں رہے ،پھر مدرسہ عزیزیہ بہارشریف آگئے اور یہاں طویل تدریسی دور گذارا ،ایک عرصہ تک مدرسہ کے مہتمم بھی رہے ،۱۹۹۰ میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور بہارشریف ہی میں اپنے وطن میں خانہ نشیں ہوگئے ،مولانا خالص علمی آدمی تھے ،اخیر وقت علم ومطالعہ سے وابستہ رہے۔۲۲فروری ۲۰۰۳مطابق ۱۴۲۳ھ کو اپنے گھر ہی پر وفات پائی اور محلہ گنگن دیوان بہارشریف کے قبرستا ن میں دفن ہوئے۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے راقم کا مضمون ،صوبہ بہار کی ایک علمی بستی چندوارہ ،شائع شدہ سہ ماہی المجیب پھلواری شریف ،جولائی ۲۰۲۴)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare