پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

( قسط ہفتم )

طلحہ نعمت ندوی

اشرف استھانوی

پٹنہ کے مشہور وکہنہ مشق صحافی اشرف استھانوی کا اصل نام ضیاء اشرف اور والد کا نام نعیم الحق تھا ،۲ فروری ۱۹۶۸ کو ان کی ولادت اپنے وطن استھاواں میں ہوئی ،ابتدائی اور ثانوی تعلیم مدرسہ محمدیہ میں حاصل کی ،اور اپنے خالو مولانا رضا کریم صاحب کی نگرانی میں رہے ،پھر نالندہ کالج سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ،اس کے بعد پٹنہ میں صحافت سے وابستہ ہوئے،۱۹۹۲ میں اس میدان میں قدم رکھا اور پوری زندگی اسی میں صرف کردی ،اور اس میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔پٹنہ کے معروف ومشہور اور ملک کے اہم صحافیوں میں ان کا شمار تھا ،چند کتابیں بھی ان کی یادگار ہیں لیکن ان کی اصل شناخت ان کے تجزیاتی مضامین کی وجہ سے تھی جس کا مجموعہ بھی ان کی زندگی ہی میں شائع ہوچکا تھا ،ہندی اور اردو دنوں زبانوں پر پوری قدرت تھی اور دونوں زبانوں میں ان کے مضامین کی بڑی تعداد ہے۔۱۵،نومبر ۲۰۲۲/ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ کو ان کی وفات پٹنہ میں ہوئی اور تدفین ان کے وطن استھاواں میں ہوئی۔( حالات کے لئے دیکھئے ،حفیظ نعمانی اور ان کا عہد ،نیز ان کی کتابیں،مضمون نورالسلام ندویم مطبوعہ روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ ۲دسمبر ۲۰۲۲)

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

رخشاں ابدالی

شاہ محمد عثمان بن شاہ عبدالقادرابدالی اسلا م پوری ممتا ز شاعر تھے ،تخلص رخشاں سے شہرت پائی ،خانوادہ سادات سے تعلق تھا ،۱۳۲۶ھ میں قصبہ اسلام پور میں پیدائش ہوئی ،مدرسہ اسلامیہ بہارشریف میں تعلیم حاصل کی ،اور وہیں تکمیل کی ،مولانا سید شاہ محمد رفیق شہباز پوری ثم اسلام پوری سے ۱۳۵۰ھ میں حدیث کی سند حاصل کی ،موصوف ممتاز شاعر اور متعدد کتابوں کے مصنف اور پچاسوں علمی مقالات مضامین کے تخلیق کار ہیں،تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہوگئے ،جہاں ان کی علمی سرگرمیاں جاری رہیں ،۲۵ اپریل ۱۹۸۲ء مطابق۲رجب۱۴۰۲ ھ میں کراچی ہی میں انتقال فرمایا ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے کلیات رخشاں ابدالی،مقدمہ)

شاہ عاشق حسین

شاہ عاشق حسین کےوالدکا نام سید واجد حسین تھا ،۱۳۳۶ھ میں پٹنہ میں ولادت ہوئی ،مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں تعلیم حاصل کی ،فاضل حدیث کی سند حاصل کی ،پھر طبیہ کالج پٹنہ سے طب کی تکمیل کی ،متعدد علماء سے فتاوی نویسی کی بھی مشق کی ،خانقاہ شاہ ارزاں کے سجادہ نشیں شاہ حامد حسین کے انتقال کے بعد وہاں کے صاحب سجادہ ہوئے اور پوری زندگی ارشاد وتربیت اور تعلیم وتدریس میں گذاری ۔۱۴۲۲ھ مطابق۲۰۰۰ءمیں پٹنہ ہی میں وفات پائی ۔(مزید دیکھئے ،نعمت ارزاں ،ترتیب جدید شاہ حسین احمد ،ص ۸۲)

مولانا ابوالقاسم شمسی

مولاناشاہ ابوالقاسم شمسی بن شاہ ابوالفضل کاآبائی وطن سربہدی (بہارشریف)تھا ،شہر بہارشریف کے محلہ بڑی درگاہ میں اہل خاندان مقیم تھے ،۱۳۲۰ھ (۱۹۰۲)میں ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم کے وطن مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ میں داخلہ لیا اور فاضل تک مکمل گیارہ سال تعلیم حاصل کرکے ۱۹۲۲میں تکمیل کی ،اس کے بعد پوری زندگی اسی مدرسہ میں تدریسی خدمت میں گذاری ،پہلے فارسی کے استاد ہوئےپھر تفسیر وحدیث کا درس دیتے رہے،اخیرمیں پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تقریبا تین سال خدمت انجام دے کر ۱۹۶۱ء میں سبکدوش ہوئے ۔ممتاز عالم اور کہنہ مشق شاعر تھے ،۳ مارچ ۱۹۸۳ء مطابق ۱۴۰۳ھ کو وفات پائی اورشاہ گنج قبرستان پٹنہ میں دفن ہوئے۔(مزید دیکھئے تذکرہ علمائے بہار،اول ، ص ۳۵۰،مجلہ الشمس مدرسہ شمس الہدیٰ ،۲۰۱۲ء ص۳۶)

مولانا مسیح الدین ندوی

مولانا مسیح الدین ندوی کا آبائی وطن چندوارہ (نزد استھاواں) اوروالد کانام امداد علی تھا ،۱۹۳۴میں ولادت ہوئی ،متوسطات کی تعلیم مدرسہ خلیلیہ ٹونک میں حاصل کی جہاں ان کے بڑے بھائی مولانا ظفیر الدین صاحب استاد تھے ،پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور تعلیم کی تکمیل کی۔ فراغت کے بعد چند سال مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی چمپارن میں استاد رہے،پھربہارشریفکے ایک سرکاری اسکول میں استاد ہوئے،پھر علاقہ کے مختلف اسکولوں میں تبادلہ ہوتا رہا ، شب ۱۹ رمضان۱۴۳۹ ھ ،۱۵ جون ۲۰۱۷ ء، کووفات پائی۔(مولانا کفیل احمد ندوی بہارشریف برادرزادہ مولانا ندوی)

اسماعیل صادق پوری

اسماعیل صاحب پٹنہ کے فاضل اور سماجی کارکن تھے ،صادق پور پٹنہ کے معروف خانوادہ سے تعلق تھا، والد کا نام عبدالغفار تھا، ۲۵جولائی ۱۹۲۳ کو صادق پور میں پیدائش ہوئی ،مدرسہ اصلاح المسلمین اور محمڈن اینگلو عربی کالج پٹنہ میں تعلیم کے بعد پٹنہ کالج سے اردو پھر عربی میں ایم اے کیا، پھر وکالت کی سند حاصل کی اور کچھ مدت کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ میں وکیل کی خدمت انجام دینے لگے، امارت اہل حدیث پٹنہ اور مدرسہ اصلاح المسلمین کی ذمہ داری بھی نبھائی، پٹنہ کے اصلاحی وسماجی کاموں میں پیش پیش رہے، کئی اہم عہدوں پر فائز تھے،اردو ،عربی کے ساتھ انگریزی پر بھی اچھی نظر تھی۔۲جمادی الاولی۱۴۱۹ھ ۲۴اگست مطابق ۱۹۹۸ میں وفات پائی۔(ان معلومات کا ذریعہ ان کے فرزند ڈاکٹر اشرف اسماعیل صادق پوری ہیں)

مولانا عبدالسمیع جعفری

مولانا عبدالسمیع جعفری پٹنہ کے جید عالم ودینی رہنما تھے،صادق پور پٹنہ آبائی وطن تھا، والد معروف عالم مولانا عبدالخبیر جعفری تھے،نومبر ۱۹۳۶ میں ولادت ہوئی ،علوم اسلامیہ کی مکمل تعلیم اپنے خاندانی مدرسہ مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں حاصل کی ،اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لے کر دوسال رہ کر وہاں سے عربی ادب میں تخصص کیا، پھر وطن واپس آکر اپنے مدرسہ اصلاح المسلمین میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے، پھر مدینہیونیورسٹی جاکر عربی زبان وادب کے دو سالہ کورس میں داخلہ لیا اور تکمیل کی،اس کے بعد خودحکومت کے سعودی کے بعض ذمہ دار علماء کی طرف سے ان کو دعوت وتبلیغ کے لئے نانجیریا بھیج دیا گیا ،وہاں انہوں نے دو سال گذارے ،پھر سعودی عرب واپس آگئے اورتقریبا سترہ اٹھارہ سال جامعہ ام القری کے کتب خانہ وابستہ ہے، پھر والد کی وفات کے بعد اپنے وطن واپس آئے اور مدرسہ اصلاح المسلمین کی طرف توجہ کی اور اس کو ترقی دی، نیز شہر میں اصلاح و تربیت کی خدمت بھی انجام دیتے رہے، ۵اکتوبر ۲۰۱۵ء مطابق ۲۱ذوالحجہ ۱۴۳۶ھ کو پٹنہ میں وفات پائی ۔مولانا جیداور متقی عالم اور اچھے مقرر تھے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ،مولانا عبدالسمیع جعفری ،حیات وخدمات ،از انظار احمد صادق ،دربھنگہ ۲۰۲۳)

مولانا حکیم یوسف حسن خاں سوری

مولانا حکیم یوسف حسن خاں بن مولانا الہی بخش خاں بہارشریف کے ممتاز عالم تھے ،سوری پٹھانوں سے نسلی تعلق تھا،آبائی وطن راجگیر سے قریب ایک قریہ بڑاکر (نالندہ)تھا ،جہاں ۱۸۹۳ میں ان کی ولادت ہوئی ،انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اور قرآن پاک حفظ کیا ،درسیات کی ثانوی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ،اس کے بعد حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے ساتھ مدرسہ سبحانیہ الہ آباد چلے گئے جہاں ان سے اور دیگر اساتذہ سے علوم شرعیہ کی تحصیل کی پھر اپنے والد سے تکمیل کی ،اور تجوید کی تعلیم قاری عبدالرحمن مکی سے حاصل کی ،پھر دہلی گئے اور شاید وہاں مدرسہ امینیہ سے ۱۹۱۳ میں فراغت حاصل کی اور دستار بندی ہوئی ،پھر طب کی تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد بہارشریف میں مطب قائم کیا ،اس کے علاوہ شہر کی علمی سرگرمیوں میں مشغول رہے ،حضرت مولانا محمد علی مونگیری سے بیعت تھے ،کئی اہم عہدے پر بھی فائز رہے ،متعدد رسائل ان کی یادگار ہیں ۔۱۶ فروری ۱۹۸۱ مطابق ۱۱ربیع الاول ۱۴۰۱ھ میں وفات پائی اور بہارشریف ہی میں مدفون ہوئے۔(مزید دیکھئے تاریخ اطبائے بہار ،تذکرہ علمائے بہار اول ،حرف ی )

( جاری)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare