غلطی ہائے مضامین
پی آئی اے کی اُردو
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
یہ کراچی سے اسلام آباد کی پرواز تھی۔ جہاز ہموار ہوچکا تھا۔ یکایک طیارہ ہچکولے کھانے لگا۔ بلند گو پر فضائی میزبان کی نسوانی آواز گونجی:
’’خواتین و حضرات! موسم کی خرابی کی وجہ سے پرواز ناہموار ہورہی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنی نشست پر تشریف رکھیے اور نشست بند باندھ لیجے‘‘۔
اس اُردو اعلان میں انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں تھا۔ خاتون کا لب و لہجہ اور تلفظ بھی حیرت انگیز طور پر درست تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پی آئی اے کے تربیتی مرکز میں فضائی میزبانوں اور زمینی عملے کو اعلانات کی تربیت دی جاتی ہے۔ اُردو جاننے والوں کو کیا دشواری ہوسکتی تھی اس اعلان کے الفاظ سمجھنے میں؟ جن کو دشواری محسوس ہوئی ہوگی اُن کے لیے یہی اعلان انگریزی میں بھی کردیا گیا۔
پی آئی اے کے دیگر فضائی اعلانات میں بھی معیاری اُردو سُنی جا سکتی ہے۔ مسافروں کے جہاز میں بیٹھ جانے پر، اُڑان بھرنے سے پہلے اور دعائے سفرکے بعد یہ اعلان کیا جاتا ہے:
’’کپتان ’فلاں‘ اور اُن کا عملہ کراچی سے اسلام آباد کی پرواز پر آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ہم پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ان شاء اللہ ایک گھنٹہ چالیس منٹ میں اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ آپ سے درخواست ہے کہ کرسی کی پشت سیدھی کرلیجے، نشست بند باندھ لیجے،کھڑکی کے پردے کھلے رکھیے، کھانے کی میز بند کرلیجے اور اس بات کا اطمینان کرلیجے کہ آپ اپنا دستی سامان بالائی خانے میں رکھ چکے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اُترنے سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ
’’ہم ان شاء اللہ تھوڑی ہی دیر میں اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اُترنے والے ہیں، جہاں موسم ابر آلود ہے اور درجۂ حرارت پندرہ درجے سنٹی گریڈ ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ کرسی کی پشت سیدھی کرلیجے، نشست بند باندھ لیجے،کھڑکی کے پردے کھلے رکھیے اور کھانے کی میز ٹھیک سے بند کرلیجے۔ امید ہے کہ ہمارے ساتھ آپ کا سفر خوش گوارگزرا ہوگا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
سفر کے دوران میں پیش آنے والے معاملات سے متعلق جو ہدایات دی جاتی ہیں اُن میں بھی اچھی اُردو سننے کو ملتی ہے۔ مثلاً:
’’نشست بند باندھنے کے لیے چِپٹا سرا بکل میں ڈال کر پیٹی کس لیجے۔ کھولنے کے لیے اوپرکا حصہ اُٹھا لیجے‘‘۔
’’یاد رہے کہ پی آئی اے کی تمام پروازوں پر تمباکو نوشی کی ممانعت ہے‘‘۔
’’ہنگامی حالت میں باہر نکلنے کے راستے دیکھ لیجے۔ دو دروازے جہاز کے اگلے حصے میں، دودرمیانی حصے میں اوردو جہاز کے پچھلے حصے میں ہیں۔ اندھیرا ہوجانے کی صورت میں جہاز کے فرش پر لگی ہوئی روشنیاں آپ کو راستے کی رہنمائی کریں گی‘‘۔
’’حفاظتی جیکٹ آپ کی نشست کے نیچے ہے‘‘وغیرہ وغیرہ۔
پی آئی اے کا زمینی عملہ جب اُردو میں اعلان کرتا ہے تو وہ بھی صرف اُردو کے الفاظ استعمال کرتا ہے، مثلاً:
’’توجہ فرمائیے! پی آئی اے کی پرواز نمبر تین صفر آٹھ کراچی سے اسلام آباد روانگی کے لیے تیار ہے۔ جن مسافروں کی نشستیں قطار نمبر بیس سے اُنتیس تک ہیں، اُن سے درخواست ہے کہ جہاز پر تشریف لے جائیں، بقیہ مسافر اگلے اعلان کا انتظار فرمائیں‘‘۔
جہاز کی آخری نشستوں کے مسافر پہلے بٹھائے جاتے ہیں۔ شروع کی نشستوں کے مسافر آخر میں۔ اس طرح ترتیب سے مسافر بٹھانے میں ہڑبونگ نہیں مچتی۔ یہ ’ہڑبونگ‘ کیا ہے؟ جلدی، گھبراہٹ، بے قراری، بوکھلاہٹ، بے چینی، افراتفری اور بدنظمی مع شور و غل۔ ان تمام کیفیات کا مجموعہ ’ہڑبونگ‘ ہے۔ یہی کیفیات کسی شخص میں پیدا ہوجائیں تو وہ ’ہڑبڑا‘ جاتا ہے، یعنی ’ہڑبڑاہٹ‘ کا شکار ہوجاتا ہے۔
وطن عزیز کے جو لوگ ہڑبڑائے ہوئے لوگ نہیں تھے، ماضی میں اُنھوں نے ہرانگریزی اصطلاح کی متبادل اُردو اصطلاحات وضع کرلی تھیں، جو کثرتِ استعمال سے مانوس ہوگئیں۔ آج بھی ہمارے ہر فضائی مستقر پر یہ اصطلاحات جگمگا رہی ہیں۔ اندرونِ ملک آمد، اندرونِ ملک روانگی۔ بیرونِ ملک آمد اور بیرونِ ملک روانگی۔ جس جگہ مسافرانِ محترم اپنا سامان عملے کے حوالے کرتے ہیں اُس کا نام ہے ’سپردگی‘۔ منزل پر پہنچ جانے کے بعد مسافروں کو جہاں اُن کا سامان واپس ملتا ہے، وہاں تختی لگی ہوتی ہے ’وصولی سامان‘۔ جو مسافر ’ہڑبڑاہٹ‘ میں اپنا سامان بھول کر چلے جاتے ہیں یا عملے کی کوتاہی اور غفلت کے سبب اُن کا سامان وہیں رہ جاتا ہے جہاں سے وہ چلے تھے، اُن کے سامان کے لیے دنیا بھر میں الگ شعبہ بنایا جاتا ہے، ہمارے ہاں اُس شعبے کے در پر تختی آویزاں کی جاتی ہے ’گمشدہ سامان‘۔
پی آئی اے کے دورِ عروج میں جو امتیازی کلمات ضرب المثل بنے اُن میں سب سے مشہور فقرہ ہے: ’’باکمال لوگ، لاجواب پرواز‘‘۔ دورِ زوال میں ادارے یا عملے سے کسی قسم کی کمی یا کوتاہی ہوجانے کی صورت میں یہی فقر ہ بطورِ طنز استعمال کیا جانے لگا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے حسبِ حال اور پُرکشش فقرہ ’’وطن سے پہلے وطن کی خوشبو‘‘ دوسرا کلمۂ امتیازتھا۔ یہ فقرہ مدتوں بعد وطن واپس آنے والوں کو بھلا لگتا تھا۔ پی آئی اے کے خبرنامے کا نام ’’فلک پرواز‘‘ رکھا گیا اور جہاز میں مسافروں کو پیش کیے جانے والے مجلے کا نام ’’ہمسفر‘‘ طے پایا۔ یہ کام محب ِقوم افراد کا تھا۔گویا پی آئی اے کو قومی پرچم بردار ہی نہیں بنایا گیا تھا، قومی زبان کا علم بردار بھی بنادیاگیا تھا۔
ہمیں فخر ہے کہ ہماری قومی زبان مہذب، شائستہ اور ترقی یافتہ زبان ہے۔وطنِ عزیز کے جو نشریاتی ادارے یا افراد، اُردو کو ذریعۂ ابلاغ کے طور پر ازخود منتخب کرتے ہیں، اُنھیں یہ ثابت نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اس کام کی صلاحیت اور قابلیت نہیں رکھتے۔بعض نشریاتی ادارے اپنی اُردو خبروں کے بعض حصوں کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں “This segment is brought to you by….” اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں یہی جملہ اُردو میں بنانے کی اہلیت نہیں ہے، ورنہ بنا لیتے۔ مثلاً ’’اِن خبروں کی پیشکش میں معاون ہیں فلاں، فلاں اور فلاں‘‘۔ اپنی اِس نااہلی کے لیے طرح طرح کے عذر تراشنے کے بجائے انھیں اپنے کام میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔
انگریزی سیکھنا، انگریزی بولنا یا انگریزی استعمال کرناشجرِ ممنوعہ نہیں۔ مگرجہاں انگریزی استعمال کرنے کا محل ہو وہیں انگریزی استعمال کیجیے۔ہر محلّے کو انگریزوں کا محلہ بنانے کی رضاکارانہ خدمت انجام نہ دیجے۔ ہمارے محلّے کو ہمارا محلہ ہی رہنے دیجیے۔یہ التجا تمام نشریاتی اداروں سے ہے اوراُن تمام لوگوں سے، جواُردو کے ہر لفظ کو ’زبان بدر‘ کرکے انگریزی الفاظ کے ساتھ اُردو حروفِ ربط ’کا، کی ، کے، میں، ہے اورتھا، تھی، تھے‘ وغیرہ جوڑ کر بولتے ہیں اور اس احمقانہ خیال میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم اُردو میں ’پروگرام‘ نشر کررہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ یہ لوگ اپنے جہل کو اپنی علمی قابلیت کی علامت کیوں بنائے بیٹھے ہیں؟ہنسی آتی ہے ان کی اس چتکبری حالت پر۔
حالت تو یہ ہے کہ اُردو لکھنا چاہتے ہیں مگر اُردو رسم الخط سیکھنے سے گریزاں ہیں۔ رومن حروفِ تہجی میں اُردو فقرے لکھ لکھ کر سنجیدہ سے سنجیدہ بات اور مفیدسے مفید مہمات کو بھی تمسخر و استہزا کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔کراچی بھر کے کھمبوں پر رومن حروف میں ’’بانو قابل‘‘ کے پھریرے لٹکتے نظر آتے ہیں۔ اس سے صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پھریرے لٹکانے والے خود کتنے قابل ہیں اور مستقبل بینی کی کیسی قابلیت رکھتے ہیں۔اگر ہماری نئی نسل اُردوحروف پڑھنے کے قابل نہیں رہی تو ہمارا سارادینی، علمی اورادبی ذخیرہ ردّی کا ڈھیر بن کر رہ جائے گا۔
وطنِ عزیز میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو اپنے دینی ورثے سے عقیدت ہے، اپنے علمی و ادبی ذخائر سے لگاؤ ہے اور اپنی تہذیبی اور قومی وراثت سے الفت ہے۔ اکثریت چاہے تو مل کر اپنی میراث کیوں نہیں بچا سکتی؟ پی آئی اے بھی تو ہمارا قومی ورثہ ہی ہے۔کئی طاقتوں نے اسے ختم کردینے کی کوشش کی، مگر اللہ نے اسے اب تک بچائے رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔