ڈاکٹر ظفراللہ پالوی کی تصنیف

بہاءالدین کلیمؔ- حیات اور شاعری – ایک علمی تحفہ

 مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

بہاءالدین کلیمؔ– حیات اور شاعری ڈاکٹر ظفراللہ بن عطاء اللہ پالوی کی تحقیقی کتاب ہے۔ کتاب بہاءالدین کلیم کی حیات وشاعری پر مشتمل ہے۔ بہاءالدین کلیمؔ کی پیدائش اورتعلیم وتربیت پرروشنی ڈالتے ہوئے مصنف تحریر کرتے ہیں:

ڈاکٹر ظفراللہ پالوی کی تصنیف - بہاءالدین کلیمؔ- حیات اور شاعری - ایک علمی تحفہ
ایک علمی تحفہ

’’بہاءالدین صاحب کی ولادت باسعادت جنوری ۱۹۱۱ء میں محلہ دریا پور پٹنہ اپنے دادا کے یہاں ہوئی، لیکن ان کی والدہ اس لخت جگر کو لے کر اپنے گائوں میں رہنے لگیں اور آپ ان کی تعلیم وتربیت میں خصوصی توجہ دیں۔ ابتدائی تعلیم آپ کے والدین کے ہی زیر سایہ ہوتی رہی۔ اس عہد کے رسم کے مطابق دینی تعلیم فرض تصور کیا جاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹے سے گائوں میں رہ کر بہاءالدین صاحب کو دینی تعلیم سے سنوارا اور نکھارا گیا ۔ لیکن وائے محرومی قسمت کہ ابھی سات سال کی عمر کے بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنی ماں کی شفقت مادری سے محروم ہوگئے اور والدہ ۱۹۱۷ء میں داغ مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے جاملیں۔ تعلیم وتربیت کا مسئلہ سامنے آیا تو دادا یعنی سید فصیح احمد نے اپنے آغوش عاطفت میں اس در یتیم کو پناہ دی اور پھر مستقل طور پر پٹنہ ہی میں رہ کر تعلیم وتربیت کی منزلیں طے کرتے رہے۔ ‘‘(بہاءالدین کلیمؔ: حیات اور شاعری: ص؍۱۵-۱۴)

دینی تعلیم کے بعد مروجہ تعلیم کے لئے اسکول میں داخلہ لیا ۔۱۹۲۶ء میں میٹرک پاس کیا ،پھر آئی اے اور اس کے بعد ۱۹۳۰ء میں پٹنہ کالج سےعربی آنرس پاس کیا۔ پھر انہوں نے لاکالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۲ء میں لاکالج کی تعلیم مکمل کی۔ کسی وجہ سے امتحان نہ دے سکے، اس طرح لاء کا امتحان ۱۹۳۴ء میں پاس کیا۔

تعلیم سے فراغت کے بعد پٹنہ کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ ۱۹۳۸ء میں منصف بحال ہوئے۔ ملازمت کے دوران مختلف عہدوں پر فائزرہے، گورنمنٹ اردو لائبریری کے صدر اور بہار پبلک سروس کمیشن کے ممبر ہوئے۔ جنوری ۱۹۷۱ء میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے۔

بہاءالدین صاحب شعر وسخن کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کا نام بہاءالدین اور تخلص کلیم کیا کرتے تھے۔ ان کو شعروشاعری سے دلچسپی فطری طور پر تھی۔ یہ انہیں نانیہالی ورثہ میں ملا تھا۔ اسکول کے زمانہ سے ہی انہوں نے شاعری شروع کی ۔اس زمانہ میں تخلص فیضؔ رکھا، لیکن جب باضابطہ شاعری شروع کی ،تو کلیمؔ تخلص رکھ لیا۔

کتاب کے مصنف ڈاکٹر ظفراللہ پالوی ان کے ذوق شعروسخن کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

ڈاکٹر ظفراللہ پالوی کی تصنیف - بہاءالدین کلیمؔ- حیات اور شاعری - ایک علمی تحفہ
ڈاکٹر ظفراللہ پالوی کی تصنیف
بہاءالدین کلیمؔ- حیات اور شاعری – ایک علمی تحفہ

’’اچھے اشعار جمع کرنے کا شوق بہاءالدین صاحب کو کالج کے زمانہ ہی سے تھا۔۱۹۴۹ء میں مظفرپور میں علامہ جمیل مظہری نے ان کو رائے دی کہ اشعار جمع کرنا ہی ہے تو عنوان کے تحت کیوں نہ جمع کی جائے۔ اس وقت سے انہوںنے اشعار بقید عنوان جمع کرنا شروع کیااور اس طرح ’’گلستان ہزار رنگ‘‘ کی داغ بیل پڑی۔۱۹۲۶ء میں علامہ جمیل مظہری نے آپ کو ایک خط لکھا ، جو نظم میں تھا۔ بہاءالدین صاحب نے اسی زمین اور قافیہ میں غزل کہہ ڈالی۔ اتفاق سے وہ قافیہ اور ردیف قابل پسند ہوگئی۔ یہ غزل اُن کی زندگی کی پہلی مکمل غزل تھی۔ احباب خصوصاً اختراورینوی صاحب نے غزل پسند کیا اور تب سے آپ غزل کہنے لگے۔ پروفیسر جناب احتشام الدین اور مخدوم محی الدین صاحب کی ہمت افزائیوں نے اور بھی ہمت بڑھایا۔بہاءالدین صاحب کا پہلا تنقیدی مضمون ’’ساہمدانی گیاوی‘‘ کی نظم برسات اور پیار کی یاد پر ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب انجم مانپوری کے تقاضہ پر آپ نے ایک مضمون ’’شاعرات بہار‘‘ لکھا۔‘‘ (ص:۲۶-۲۵)

بہاءالدین کلیمؔ شعری نشست کے بھی دلدادہ تھے۔ وہ جہاں رہے ،ادبی محفل سجاتے رہے اور وہاں کے شعراء کے ساتھ ادبی مجلسوں کے انعقاد میں حصہ لیتے رہے۔ چنانچہ ڈاکٹر ظفراللہ پالوی تحریر کرتے ہیں:

’’۱۹۳۸ء میں جب بہاءالدین صاحب مظفرپور تشریف لائے ،تو وہاں قاری عبدالمجید مضطرؔ صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ ادب نواز شخصیتوں کا ایک حلقہ سابن گیا، جن میں سید احمد وکیل، جمیل مظہری، ریاض حسن خان صاحب، وصی احمد زیربلگرامی اور رحمت اللہ صاحب شامل تھے۔ شاعری کی مجلسیں جمنے لگیں اور ادبی زندگی میں ایک ہمہ ہمی پیدا ہوگئی۔

۱۹۴۱ء میں مظفرپور میں ایک مشاعرہ ہوا جو دو دنوں تک چلا۔ پہلے دن کی صدارت مسٹر یونس بیرسٹر نے کی اور دوسرے دن کی جناب بہاءالدین صاحب نے کی۔ مشاعرہ میں اور لوگوں کے علاوہ جناب عندلیب شادانی شفیق جونپوری وغیرہ شامل تھے۔

جب بہاءالدین صاحب رانچی میں ڈسٹرکٹ سیشن جج کی حیثیت سے تھے اور ڈاکٹر ذاکر حسین بہار کے گورنر تھے۔ تو وہ دونوں گرمی کے دنوں میں ایک دوسرے ملتے اور گھنٹوں گھنٹوں صحبتیں رہتیں۔ گورنمنٹ ہائوس میں اکثر مشاعرے ہوتے اور اس میں ملک کے بڑے بڑے شعراء تشریف لاتے۔ اکثر مشاعرے کے دوسرے دن بہاءالدین صاحب کے گھر شعروشاعری کی محفل جمتی۔

شرکاء میں فراق گورکھپوری، ساغر نظامی، بیکل اتساہی، عطاء الرحمٰن عطا ؔ کاکوی، کرتار سنگھ دگل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

بہار پبلک سروس کمیشن کے ممبر ہوکر جب وہ پٹنہ رہنے لگے تو ان کی قیام گاہ ادبی حلقے کا مرکز بن گئی۔ زیادہ تر ادبی نشستوں کی صدارت بہاءالدین صاحب کرتے۔(ص:۲۸-۲۷)

بہاءالدین کلیم کی ادبی خدمات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئےمصنف تحریر کرتے ہیں:

‘‘بہاءالدین صاحب نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ شعری ادب ہو، یا نثرنگاری دونوں ہی میدان میں بہت کم لکھا، لیکن جو لکھا وہ اچھا لکھا۔ نثر میں چند مضامین اور چند کتابیں ہیں۔ ان کا ایک ریڈہائی مقالہ جو ۲۴؍ اپریل ۱۹۶۸ء کے روزنامہ صدائے عام میں شائع ہوا تھا۔ ایک تاثراتی مضمون ’’یادوں کے چراغ‘‘ تھا، جس میں انہوں نے سید عبدالعزیز بیرسٹر وزیرتعلیم حکومت بہار کے متعلق بطور دفیات اور نجی پر خلوص تاثرات قلم بند کئے۔ انہوں نے ۱۹۷۷ء میں ’’صائقہ‘‘ نامی ہفتہ وار اخبار بھی نکالا تھا۔

گلستان معارف: یہ کتاب دسمبر ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اصلاح معاشرہ اس کا موضوع ہے۔ موضوع اور مواد دونوں ہی اعتبار سے یہ ایک عمدہ اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔‘‘ (ص:۲۹)

موصوف کی اہم تصنیف ’’گلستان ہزار رنگ ‘‘ ہے۔ اس کا تعارف کراتے ہوئے مصنف تحریر کرتے ہیں:

’’گلستان ہزار رنگ‘‘بہاءالدین صاحب کی کتابوں میں یہ کتاب سب سے ضخیم ہے۔ محض صفحات کے اعتبار سے نہیں بلکہ مواد کے لحاظ سے بھی یہ کتاب اپنی خاص انفرادیت اور قدروقیمت رکھتی ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ پٹنہ سے ۱۹۵۷ء میں شائع ہوئی تھی اور دوسری مرتبہ مزید ترمیم واضافہ کے ساتھ مارچ ۱۹۷۱ء میں امروہہ سے طبع ہوئی۔ اس کتاب کا ہندی ورسن بھی شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کا بنیادی موضوع غزل ہے۔ اس میں عنوانات کی قید کے ساتھ اشعار کا انتخاب جمع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ترتیب دیتے ہوئے مصنف کے سامنے کئی اہم اور بلند ترین مقاصد تھے اور جیسا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے پیغام میں کہا کہ مؤلف کا مقصد ہندی اور اردو دونوں زبانوں کو ایک دوسرےسے قریب لانا ہے اور یوں اردو غزل کو بخوبی سمجھنے کاموقع مل سکے۔ آنجہانی صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجند پرشاد نے بہاءالدین صاحب کے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے پیغام میں بالکل درست لکھا تھا کہ اس میں بہت سارے موضوعات کو لے کر شاعر کے دلچسپ خیالات کو یکجا کردیا گیا ہے اور یقیناً یہ کوشش کامیاب اور قابل تعریف ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم اور صدر کے ان تبصروں کو صرف سیاسی آدمیوں کے تبصرے نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ سیاست کے ساتھ ساتھ ان شخصیتوں کو علم وادب کے میدان میں امتیازی دسترس حاصل تھی۔

اردو کے مختلف دانشوروں اور ممتاز ادیبوں جیسے عبدالماجد دریابادی رشید احمد صدیقی، نیاز فتح پوری ،ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ نے ان کے اس کارنامے کی داد دی ہے۔

بہاءالدین احمد صاحب کی یہ کتاب اس لحاظ سے بھی اپنی ایک خاص انفرادیت رکھتی ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس پر تبصرہ لکھا ہے۔ ان کا لکھا ہوا مقدمہ خود ان ہی کی اس کتاب پر مولانا نے صرف مقدمہ نہیں لکھا ہے بلکہ اس کا نام فارسی کی ایک کتاب ’’گلستان مسرت‘‘ کی رعایت سے انہوں نے ہی ’’گلستان ہزار رنگ‘‘ منتخب فرمایا ہے۔ یہ کتاب مؤلف کے مطالعہ کی وسعت اور ان کے حسن ترتیب کا جیتاجاگتا ثبوت ہے۔

گلستان ہزار رنگ کا مطالعہ کرتے ہوئے مولانا آزاد کے مقدمہ کے بعد مؤلف کی تمہید ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ تمہید کیا ہے گویا اس میں مئولف نے اردو زبان اور بالخصوص اردو غزل کی مکمل تاریخ بیان کردی ہے۔اس تمہید بیان میں نہ تو مواد کی تشنگی ہے اور نہ ہی لاطائل باتیں، بلکہ ضروری اہم سنجیدہ اور بالخصوص ایسے حوالہ جات کے ساتھ مؤلف نے اپنی بات پیش کی ہے جو بالعموم اردو داں طبقہ کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور یہ چیز بتاتی ہے کہ مصنف کے مطالعہ میں وسعت بھی اور گہرائی بھی!

سید بہاءالدین احمد نے ایک اہم کتاب ہی نہیں لکھی بلکہ اس کی تمہید میں کافی عرق ریزی اور محنت سے کام لیا ہے۔ کسی کام کا مرتبہ تو اس کی محنت اور اس کے علمی مطالعہ سے ہوتا ہے اور یہاں بھی مصنف کی دیدہ ریزی، کاوش بےپایاں اور اس کا گہرا مطالعہ اس کام کی پرخلوص داد وصول کئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ تدوینی کارنامہ عظیم اور سدا بہار کارنامہ ہے۔‘‘(ص:۳۱-۳۰)

بہاءالدین کلیمؔ کی غزلیات میں چند غزل آپ کے مطالعہ کے لئے پیش ہیں:

کس سے شکوہ کروں یارب تری رحمت کے سوا

اور ہر چیز ملی مجھ کو مسرت کے سوا

میں جو دعویٰ کروں رندی کا تو کس بوتے پر

میری کیا پونجی ہے ساقی کی عنایت کے سوا

اہل دل اہل نظر کہتے ہیں ناممکن ہے

حُسن کا کوئی تصور تیری صورت کے سوا

یہ جو مل جائے تو کونین کی دولت مل جائے

اور کیا چاہئے مجھ کو تیری الفت کے سوا

مشکلیں جو بھی ہوں جو رنج و الم ہو اے دوست

سب گوارا ہے مجھے اک تیری فرقت کے سوا

کاش مل جائے کہ معراج محبت ہے یہی

اور کیا مانگوں تیرے در پہ شہادت کے سوا

غم بادہ، غم منزل، غم ہستی غم دوست

ہمیں کچھ بھی نہ ملا رنج ومصیبت کے سوا

دیکھو اپنے کو اور اس در پہ تڑپنے کو کلیمؔ

اور کیا اس کو کہا جائے گا وحشت کے سوا

(ص:۴۹-۳۹)

یادوں کے گلستاں میں بسر کرتے رہے ہیں

ہم ذکر ترا شام و سحر کرتے رہے ہیں

داغوں سے میرا سینہ بھی ہے رشک گلستاں

مجھ کو بھی مرہون نظر کرتے رہے ہیں

سینے سے لگائے ہیں امانت تیرے غم کی

ہم پرورش داغ جگر کرتے رہے ہیں

وحشت میری فطرت نہیں اے کوچہ جاناں

مجبور مجھے پائے سفر کرتے رہے ہیں

ان رندوں پہ رحمت ہو جو میخانے میں رہ کے

درد تہہ ساغر پہ گذر کرتے رہے ہیں

اسے یاد وطن دل کی جلن کم نہیں ہوتی

تدبیر بہت دیدۂ تر کرتے رہے ہیں

جس نالے پہ نازاں ہے تو اسے زاہد ناداں

وہ نالے کلیمؔ آٹھ پہر کرتے رہے ہیں

(ص:۵۴)

بہاءالدین کلیمؔ – حیات وشاعری میں پیش لفظ پروفیسر سید مشتاق احمد نے تحریر کیا ہے، وہ پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں:

’’بہار کے بہت سے ادباء اور شعراء کو لوگ فراموش کرتے جارہے ہیں، جس سے ان کے کارہائے نمایاں وادبی سرمایہ دفن ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں مصنف کے موضوع کا انتخاب ’’بہاءالدین کلیمؔ حیات اور شاعری‘‘ بہت ہی مناسب اور وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس کتاب سے ان کے خاندانی حالات کے علاوہ ان کی سیرت وشخصیت کی پوری جانکاری ملتی ہے۔ ان کے منتشرکلام کو ایک جگہ اکھٹا کرکے شائع کروانا ان کی بہترین کوشش ہے۔ تحقیقی مقالہ سے دو ضخیم ابواب کو ہٹاکر ’’گلستاں رنگ‘‘ پر مولانا آزادؔ جیسے وسیع المطالعہ دانشور کا مقدمہ اس کتاب میں شامل کیا جانا ایک دانشمندانہ قدم ہے۔‘‘ (ص :۶)

پھر مصنف کی جانب سے حرف آغاز ہے۔ حرف آغاز میں انہوں نے موضوع کے انتخاب کے لئے اپنے مساعی جمیلہ کا ذکر کیا ہے۔ پھر اس کے بعد بہاءالدین کلیمؔ کے حالات زندگی، تعلیم وتربیت اور ان کے خاندانی شجرہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس طرح بہاءالدین کلیمؔ کی حیات پر ایک جامع تحریر ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جامع مسجد دریاپور سبزی باغ پٹنہ کو ان کے دادا سید فصیح احمد نے تعمیر کرائی تھی اورا ن کا مزار بھی دریاپور مسجد کے اندر ہے۔

کتاب کے مصنف ظفراللہ پالوی بن عطاء اللہ پالوی نے ان کا آبائی وطن علی نگر پالی، جہان آباد ہے۔ درس وتدریس سے منسلک رہے۔ کاکو ہائی اسکول سے ۲۰۰۸ء میں ہیڈماسٹر کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ علمی ذوق کے حامل ہیں۔ سمیناروں میں شرکت، ریڈیوپروگرام میں حصہ کے علاوہ وہ مختلف روزنامہ کے مقامی نمائندہ ہیں۔ٹیچرس ایسوسی ایشن کے مختلف عہدوں پر منتخب ہوکر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ خدمات کے میدان میں کئی اسناد سے سرفراز کئے جاچکے ہیں اور اردو ادب میں نمایاں خدمات کے لئے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازے جاچکے ہیں۔

’’بہاءالدین کلیمؔ- حیات وشاعری‘‘ ۱۱۸؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر محیط ہے، مختصر اور جامع ہے، اس کے آخر میں بہاءالدین کلیم کی اہم تصنیف ہزار رنگ پرمولانا بوالکلام آزاد کے مقدمہ کی کاپی ہے،جس کو مولانا آزاد نے خود اپنے قلم سے تحریر کیا ہے، جو ایک قیمتی تحفہ ہے۔ ساتھ ہی بہاءالدین کلیمؔ کے نام سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجند پرشاد اور سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ذریعہ تحریر کردہ خطوط کی کاپیاں ہیں، جس سے کتاب کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔کتاب کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔مذکورہ کتاب کو دانشکدہ دریاپور، سبزی باغ پٹنہ نے طبع کرایا ہے، یہ کتاب بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ اور شان ہائوسنگ کوآپریٹیو سبزی باغ ،بانکی پور، پٹنہ اور مصنف سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ان کا رابطہ نمبر 9386379806 ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی خدمات کو قبول کرے، کتاب کو مقبولیت سے نوازے اور اس کی افادیت کو عام کرے۔

رابطہ:قاسمی منزل، نیو عظیم آباد کالونی سیکٹرڈی

Leave a Reply