قانونی لڑائی یا موقف کی قربانی ؟

عدیل اختر

سپریم کورٹ میں وقف قانون کے خلاف عرضیوں پر ضابطے کی کارروائی شروع ہو گئی ہے اور پہلے ہی دن سے جذباتی قسم کے اظہار بھی شروع ہو گئے ہیں ۔ نیوز چینلوں سے بیزاری کی وجہ سے ان کی بکواس تو میں سنتا دیکھتا نہیں ہوں اس لئے نہیں پتا کہ وہاں کیا ہلڑ ہو رہا ہے ، لیکن اپنے لوگوں کا جوش وخروش اور جذباتی امید افزائی دیکھ کر مایوسی ہے۔ کیوں کہ اپنا یہ پختہ یقین بن چکا ہے کہ عدالت چاہ کر بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتی۔ عدالت کے پاس کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ اس نے مسلمان بنام ہندو یا مسلمان بنام حکومت کسی معاملے کا فیصلہ کبھی مسلمانوں کے حق میں کیا ہو۔

قانونی لڑائی یا موقف کی قربانی ؟
قانونی لڑائی یا موقف کی قربانی ؟

یہ صورت حال تب سے ہے جب سے نئے ہندستان کے سیاسی نظام کے تحت ہم رہ رہے ہیں۔ یعنی 2014 کے بعد آئی تبدیلی سے اس کا تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہندو فرقے کے اجتماعی ضمیر سے ہے جسے عدالت "قوم کا اجتماعی ضمیر” کہہ کر اس کی پردہ پوشی کرتی ہے ۔ ہندو انٹیلجنشیا اور ٹوٹل ہندو لیڈر شپ کا اجتماعی ذہن یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بننے والا ہندستان ہندو قوم کا ہے ۔ اس کے اقتدار اور وسائل پر مسلمانوں کو برابر کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن جدید ہندستان میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تھے، اور سب سے بڑا مسئلہ ہندو کہی جانے والی قوم کے اندر کی داخلی کشمکش تھا، خاص طور سے دلت طبقات اور جنگلوں میں رہنے والے قبائل کا معاملہ، اس لئے نظام کو جمہوری اور سیکولر رکھا گیا تھا اور اسی بنیاد پر جدید نظریات کے مطابق ایک سیکولر جمہوری دستور وضع ہوا ۔ اس دستور کی دہائی سبھی لوگ دیتے رہے ہیں لیکن ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی مسلمانوں کو دبا کر رکھنے کی رہی ہے ۔ اور اسی پالیسی پر اول دن سے عمل ہوتا آیا ہے چاہے سیکولر ازم اور جمھوری حقوق کا کوئی بھی دعوے دار کہیں بھی اقتدار میں رہا ہو۔ مسلمان دستور کے اعتبار سے برابر کا حق رکھنے والے شہری تو ہیں لیکن "اجتماعی ہندو ضمیر” کے مطابق وہ طفیلی ہیں۔ بڑے سے بڑا لبرل ہندو سیاست دان یا دانشور بھی مسلمانوں کے ساتھ رعایت اور رحم کا نظریہ تو رکھتا ہے لیکن برابر کی دعوے داری اور شرکت اسے بہرحال گوارا نہیں ہوتی۔ ممبئی فساد کی جانچ کرنے اور شیو سینا کے خلاف رپورٹ دینے والے کمیشن کے سربراہ جسٹس سری کرشنا نے دہلی کے ایک سرکاری آڈیٹوریم میں ایک مسلم تنظیم کی طرف سے منعقد ایک لیکچر پروگرام میں ایک مسلم سیاسی لیڈر کو براہ راست مخاطب کرکے کہا تھا ” بھائی صاحب پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں”. راقم السطور اس بات کا چشم دید گواہ ہے ۔ تو یہ ہے ہندؤوں کا اجتماعی ضمیر یا اجتماعی ہندو ذہنیت ۔

2014 کے بعد تبدیلی بس یہ آئی ہے کہ اس اجتماعی ہندو ذہنیت کو جگانے اور بنانے والے لوگ خود اقتدار میں آگئے ہیں جن کے ذہن اور زبان کی گندگی پر تہذیب و شائستگی اور اخلاقی رواداری کا ملمع نہیں چڑھا ہوا ہے ۔ اور سیکولرزم کو ایک سیاسی نظریے کے طور پر بھی وہ قبول نہیں کرتے۔

چنانچہ یہ بات صاف ہے کہ مسلم بنام ہندو یا مسلم بنام حکومت کسی بھی مقدمہ میں عدالت نہ پہلے مسلمانوں کے حق میں کوئی فیصلہ سناسکتی تھی اور نہ اب سنا سکتی ہے ۔ بابری مسجد مقدمے کے تصفیہ کو ہم مسلمانوں کو اس بات کے لئے اتمام حجت مان لینا چاہئے تھا کہ ملک کی عدالت ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرسکتی اس لئے ہم عدالت کو ایسے کسی معاملے میں فریق نہیں بنا سکتے، ہمارے پاس کوئی اخلاقی جواز ہی نہیں بچا ہے اس کے لئے۔ لیکن کوئی فیصلہ کن موقف رکھنے والی قیادت مسلمانوں کو فراہم نہیں ہے جو یہ موقف اختیار کرے۔ بلکہ اس کے برعکس حکومتوں، ایجنسیوں اور دشمن جماعتوں کے دلالوں کی بھر مار ہے ۔ کچھ اپنے باپ دادا کی سوچ کو دین و شریعت اور ملت سےزیادہ اہمیت دینے والے لوگ ہیں، کچھ ذاتی مفاد اور عہدوں کے لالچ میں ملت کے مفادات کو بیچنے والے لوگ ہیں اور ان سب کے زیرِ اثر عام سادہ لوح مسلمان ہیں ۔

2025 آتے آتے صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ ریاست کا کوئی بھی ادارہ اپنے اساسی اصولوں کے مطابق کارروائی کے لئے بالکل بھی آزاد نہیں رہا ہے ۔ سپریم کورٹ کھلے عام اپنی لا چاری کا اظہار کررہا ہے اور حکومت پر قابض لوگ اپنے وزارتی عہدوں سے سپریم کورٹ کو برسر عام اور براہ راست دھمکا رہے ہیں کہ خبر دار ہماری منشاء کے خلاف فیصلہ نہ کرنا۔ ایسی صورتِ حال میں مقدمہ کے پہلے دن وکیلوں کی بحثوں اور ججوں کے جملوں کو لے کر تالیاں بجانا ایسا ہی ہے جیسے اسٹیڈیم میں بیٹھ کر سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا۔ اسے میچ جیسا رومانچ کہہ سکتے ہیں کوئی سنجیدہ فکر نہیں ۔

وقف قانون کے خلاف عدالت میں جانا خود حکومت کے مشورے پر عمل کرنا ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت تمام مسلم دشمن لیڈر یہی کہہ رہے تھے کہ اختلاف کے لئے عدالت میں جانے کا راستہ کھلا ہوا ہے ، احتجاج اور مخالفت برداشت نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کا عدالت میں جانا گویا حکومت کی منشاء کے مطابق مسلمانوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سب کی نیت یہی ہے بلکہ یہ کہ مسلم قیادت کوئی جوکھم اٹھانے کو تیار نہیں ہے ، آرام کو تجنے اور ایثار و قربانی کے لئےتیار ہوکر میدان میں آنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے ۔

خلوص اور فراست کا تقاضا تو یہ تھا کہ دستور کو بچانے کا چیلنج حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کے لئے چھوڑ دینا چاہئے تھا اور خود ملت کو لے کر کھڑے ہوجانا چاہئے تھا ۔ آخر یہ بات سمجھنے میں اور کتنا وقت لگے کہ یہ سیاسی پینترے بازیاں نہیں ہیں ” ہندو قوم” کے احیاء کا جنون ہے جس کا سیدھا مطلب مسلمانوں اور اسلام کو روند کر برہمن وادی ہندو دھرم کی مشرکانہ تہذیب والی ریاست قائم کرنا ہے ۔ یہ ایک مذہبی اور قومی امنگ ہے اس لئے قوم کی مین اسٹریم اس کے ساتھ ہے۔ قوم کے اندر سے اس کی مخالفت کرنے والے صرف وہ لوگ ہیں جو برسر اقتدار گروہ کے سیاسی حریف ہیں یا برہمن وادی دھرم کے جاتی وادی ڈھانچے کے مخالف ہیں اور برہمنوں و سناتن دھرم کو اپنے لئے ایک عذاب سمجھتے ہیں ۔ باقی کچھ نظریاتی غیر مذہی افراد اور ان کے گروہ ہیں ۔ ان میں سے جو لوگ آئین و دستور کے بحران سے نمٹنے کے لئے عدالت جا رہے تھے ان کا عدالت جانا کافی تھا اس غیر آئینی قانون کو چیلنج کرنے کے لئے ۔

لیکن پرسنل لاء بورڈ اور ملی تنظیموں نے عدالت میں فریادی بن کر پیش ہوکر پوری ملت کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے ہیں۔ کیوں کہ جب آپ عدالت کو ثالث بنالیں گے تو عدالت کے فیصلے کو نہ ماننے کا کوئی اخلاقی جواز آپ کے پاس نہیں ہوگا ۔ اور عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں تو بہرحال نہیں آنے والا۔ تو کیا ہم مسلمانان ہند اپنی اجتماعی ہلاکت کے گرھے کی طرف اور آگے بڑھنے کے لئے راضی ہو گئے ہیں ؟

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare