امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال کا قضیہ حقائق کی روشنی میں

                            میرا مطالعہ

( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی

امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال ایک متحرک وفعال تنظیم ہے۔ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اس کے محرک تھے۔ انہوں نے امارت شرعیہ کا خاکہ تیار کیا ، اکابر علماء، خانقاہوں کے سجادہ نشیں، دانشوران اور مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرکے امارت شرعیہ کے قیام کے لئے راہ ہموار کی۔ اس زمانہ میں مولانا ابوالکلام آزاد رانچی میں نظر بند تھے، اس لئے قیام امارت کا معاملہ ٹلتا رہا۔ جب ۱۹۲۰ء میں نظر بندی ختم ہوئی، تو حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے ۲۶؍ جون ۱۹۲۱ء کو پٹنہ کے محلہ پتھر کی مسجد میں اس سلسلے کی ایک میٹنگ بلائی۔ مولانا آزاد کے زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے کم وبیش پانچ سو علماء و دانشوران جمع ہوئے اور ۲۶؍جون ۱۹۲۱ء کو امارت شرعیہ بہار واڈیشہ موجودہ امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کا قیام عمل میں آیا۔

امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال کا قضیہ حقائق کی روشنی میں
امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال
 کا قضیہ حقائق کی روشنی میں

موجودہ وقت میں امارت شرعیہ کو ۱۰۰؍ سال پورے ہوچکے ہیں، یہ ملک کا ایک اہم اور باوقار ادارہ ہے، اس نے ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کی بھی رہنمائی کی ہے۔ اس کا نظام قضاء بہت مقبول ہوا۔ امارت شرعیہ کے نظام قضاء کے مطابق تقریباً پورے ملک میں درالقضاء کاقیام عمل میں آیا اور کام کررہا ہے، جس سے مسلمانوں کو عائلی معاملات کو حل کرنے میں بڑی آسانی ہورہی ہے۔ اس نظام قضاء سے ہندوستان کے علاوہ بہت سے ممالک نے استفادہ کیا ہے، جس کی وجہ سے امارت شرعیہ ،بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ہے۔

امارت شرعیہ کو سمجھنے کے لئے اس کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کا مطالعہ ضروری ہے۔اس لئے امارت شرعیہ کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے ضروری دفعات کا مطالعہ پیش ہے۔

امارت شرعیہ کا باضابطہ دستور ہے، جس کے مطابق یہ ادارہ چل رہا ہے، اس کے زیر انتظام کئی ادارےقائم کئے گئے ، تو ضرورت کے پیش نظر اس کو ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعہ رجسٹرڈ کرادیا گیا، البتہ ٹرسٹ ڈیڈ میں دستور کی نکات کو باقی رکھا گیا، اس طرح ٹرسٹ ڈیڈ میں امارت شرعیہ کے پرانے دستور کی دفعات کو شامل کرتے ہوئے جائیدادوں کی حفاظت کے لئے ٹرسٹیوں کا اضافہ کیا گیا اور امارت شرعیہ کے تمام شعبہ جات کا نگراں امیر شریعت کو قرار دیا گیا۔

امارت شرعیہ کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ ،مجلس عاملہ، مجلس ارباب حل وعقد اور بورڈ آف ٹرسٹیز چار کمیٹیاں ہیں، دستور میں سبھی کے اختیارات کا بھی ذکر ہے۔ دستور وٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق امارت شرعیہ میں سب سے اہم عہدہ امیرشریعت کا ہے، یہ امارت شرعیہ کا سب سے اہم اور بااختیار عہدہ ہے، اس کی وضاحت دستور وٹرسٹ کی دفعہ ۵؍ میں ہے:

دفعہ ۵-امیرشریعت کو نظام امارت شرعیہ میں نقطۂ مرکز کی حیثیت حاصل رہے گی اور ان کا فیصلہ واجب الاطاعت ہوگا۔

دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ میں اوصاف امیر، انتخاب امیر اور عزل امیر کے لئے بھی مکمل رہنمائی موجود ہے۔

اوصاف امیر کے ضمن میں تحریر ہے:

دفعہ ۱۰- امیر میں حسب ذیل اوصاف لازم ہوں گے۔

(۱) عالم باعمل ہو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے معانی اور حقائق کا معتدبہ علم رکھتا ہو۔ اغراض ومصالح شریعت اسلامیہ وفقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکام شریعت پر عمل پیرا ہو۔

(۲) سیاسیات ہند و سیاسیات عالم اسلامیہ سے واقفیت رکھتا ہو اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صاحب الرائے ثابت ہوچکا ہو۔

(۳) ذاتی قابلیت ووجاہت سے عوام وخواص کے اکثر طبقات کے ایک معتدبہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔

(۴) حق گو ،حق شنو اور صاحب عزیمت ہو۔

(۵) فقہی تعبیر میں اس کی ذات ایسی نہ ہو جس سے امارت شرعیہ کا مقصد ختم ہوجائے۔

انتخاب امیر کے ضمن میں تحریر ہے:

دفعہ ۱۱- جب امیر کا منصب خالی ہو تو تین ماہ کے اندر نئے امیر کا انتخاب لازمی ہے۔

دفعہ ۱۲- انتخاب امیر کا حق مجلس ارباب حل وعقد کو ہوگا۔

دستور و ٹرسٹ میں عزل امیر، وجوہ عزل اور طریقۂ عزل کے لئے بھی رہنمائی درج ہے۔

عزل امیر کے ضمن میں تحریر ہے:

دفعہ ۱۳- عزل امیر کا اختیار مجلس ارباب حل وعقد کو ہوگا۔

وجوہ عزل کے ضمن میں تحریر ہے:

دفعہ ۱۴- عزل امیر کے لئے مندرجہ ذیل وجوہ میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے۔

(۱) امیر شریعت سے خدا نخواستہ کفر بواح کا ظہور ہو، تو خود بخود معزول قرار دیا جائے گا۔

(۲) امیر شریعت کے اعمال میں اس حدتک تغیر ہوجائے کہ محارم متفق علیہا کا ارتکاب کرنے لگے تو مستحق عزل ہوگا اور تنبیہ کے بعد بھی اس سے باز نہ آئے تو معزول کیا جائے گا۔

(۳) اگر امیر شریعت اپنے فرائض کے انجام دہی میں قاصر وعاجز ثابت ہو، بسبب عدم اہلیت یا بسبب غفلت یا بسبب مرض تو اس سے مستحق عزل ہوگا۔

طریقۂ عزل کے ضمن میں تحریر ہے:

دفعہ ۱۵- عزل امیر کے لئے مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کیا جائے گا۔

(۱) اگر امیر شریعت کے اندر وجوہ عزل پایا جائے اور مجلس شوریٰ امارت شرعیہ کے کل ارکان میں سے کم ازکم دو تہائی اس پر متفق ہوں تو نائب امیر ارباب حل وعقد کا جلسہ طلب کریں، تاکہ عزل امیر پر غور کیا جائے یا اس کے حکم پر ناظم امارت شرعیہ جلسہ بلائیں گے۔

(۲) نائب امیر، مجلس شوریٰ ،امارت شرعیہ بہار ، جھارکھنڈ واڈیشہ کے دو تہائی ارکان کے اتفاق کے باوجود تین ماہ تک مجلس ارباب حل وعقد طلب نہ کریں، تو ان دو تہائی ارکان کو حق ہوگا کہ وہ مجلس ارباب حل وعقد اپنے دستخط سے میٹنگ بلالیں۔

بورڈ آف ٹرسٹیز کے ضمن میں تحریر ہے:

بورڈ آف ٹرسٹیز

(۱) ٹرسٹ اور اس کی جائیداد کا انتظام وانصرام بورڈ آف ٹرسٹیز کے اختیار میں ہوگا۔ امیر شریعت بحیثیت عہدہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ہوں گے۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کی تعداد کم سے کم ۱۱؍ اور زیادہ سے زیادہ ۲۱ ؍ ہوگی، جس میں سے امیر شریعت ، نائب امیر شریعت، ناظم امارت شرعیہ، انچارج بیت المال، قاضی امارت شرعیہ اور مفتی امارت شرعیہ بحیثیت عہدہ ٹرسٹی ہوں گے۔ بقیہ حضرات تاحیات ٹرسٹی ہوں گے۔

خلاصہ یہ کہ تمام کمیٹیوں کے اختیارات الگ الگ درج ہیں، تاکہ کسی طرح کا فتنہ برپا نہ ہو۔

امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے وصال کے بعد امارت شرعیہ کے امیر کا انتخاب ہونا تھا، اس وقت انتخاب کو لے کر ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ امیرشریعت کے انتخاب کے موقع پر میں بھی اس کی سرگرمیوں میں شریک رہا، اس لئے میں پورے حالات سے واقف ہوں۔ اسی کی روشنی میں چند حقائق پیش ہیں:

(۱) سال ۲۰۲۱ءمیں کورونا کا زور تھا، اسی زمانہ میں مولاسید محمد ولی رحمانی امیر شریعت کا انتقال ہوگیا، کورونا کی شدت کی وجہ سے لاک ڈائون لگا ہوا تھا، اس لئے بروقت امیر شریعت کے انتخاب کی کارروائی شروع نہیں ہوئی، جب انتخاب کی کارروائی شروع ہوئی ،تو امیر شریعت کے دوڑ میں بہت سے چہرےسامنے آرہے تھے۔ تنازع کو ختم کرنے کے لئے اتفاق رائے سے ایک انتخابی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں گیارہ ممبران تھے۔امیر شریعت کے لئے مجوزہ امیدواروں میں ایک ایسے امیدوار کا بھی نام آرہا تھا، جس کے بارے میں لوگ سوشل میڈیا اور پریس میڈیا میں یہ بیان دے رہے تھے کہ امارت شرعیہ کے دستور کے مطابق وہ عالم نہیں ہیں، چونکہ امیر شریعت کے اوصاف میں تحریر ہے کہ امیرشریعت وہی ہوگا جو عالم باعمل ہوگا۔ چنانچہ جب انتخابی کمیٹی کی تشکیل ہوگئی تو انتخابی کمیٹی نے عالم یا غیر عالم کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس میں دونوں گروپ کے علماء شامل تھے۔ علماء کمیٹی نے ان کو عالم تسلیم کیا ، پھر اس کے بعد انہیں انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا۔ انتخابی کمیٹی نے حالات کے پیش نظر انتخاب کی تیاری کرلی تھی، چونکہ حالات سے ایسا پتہ چل رہا تھا کہ اتفاق رائے سے امیرشریعت کا انتخاب نہیں ہوسکے گا۔ باضابطہ ووٹنگ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

چنانچہ جب اتفاق رائے سے امیرشریعت کا انتخاب ممکن نہیں ہوسکا تو جمہوری طریقہ پر باضابطہ ووٹنگ کے ذریعہ انتخاب کرایا گیا۔ انتخاب میں ممبران مجلس ارباب حل وعقد نے حصہ لیا۔ ان لوگوں نے بھی حصہ لیا جنہیں ان کے عالم نہ ہونے پر اعتراض تھا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ تمام لوگوں نے ان کو عالم تسلیم کیا، کسی نے انتخاب کی مجلس میں ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انتخاب میں مولانا احمد ولی فیصل رحمانی منتخب قرار دیئے گئے، تمام لوگوں نے ان کو امیرشریعت مان لیا۔

پھر تین سال کے بعد عجیب اتفاق ہے کہ اسی گروپ کے لوگ جو مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو امیر شریعت بنانے میں پیش پیش تھے اور وہ لوگ موصوف میں امیر شریعت کے تمام اوصاف دیکھ رہے تھے اور شمار کررہے تھے ، اسی گروپ کے لوگ ان کے خلاف کھڑے ہوگئے اور پھر وہی لوگ ان ہی خرابیوں کا تذکرہ کر کے ہنگامہ برپا کرنے لگے کہ وہ عالم نہیں ہیں اور غیر ملکی ہیں ، جبکہ انتخاب کے وقت اس کا فیصلہ ہوچکاہے ، پھر ٹرسٹ کے چند ممبران کے ساتھ میٹنگ کر کے منتخب امیر شریعت کو معزول بھی کردیا اور دوسرے امیر شریعت کا انتخاب کر کے متوازی امارت شرعیہ کا اعلان بھی کردیا ، جس کا انہیں کوئی اختیار نہ تھا اور نہ ہے۔

آپ نے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کا مطالعہ کیا، منتخب امیر شریعت کو معزول کرنے کی وجوہات کا ذکر امارت شرعیہ کے دستور میں موجود ہے ، معزول کی وجوہات کے ذکر کے بعد معزول کرنےکے طریقہ کا بھی ذکر ہے ۔ دستور و ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق عزل کی وجوہات کی دفعات میں مندرجہ ذیل باتیں تحریر ہیں:

دفعہ۱۴ -عزل امیر کے لئے مندرجہ ذیل وجوہ میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے:

(۱) امیرشریعت سے خدا نخواستہ کفر بواح کا ظہور ہوتو خود بخود معزول قرار پائے گا۔

(۲) امیر شریعت کے اعمال میں اس حدتک تغیر ہوجائے کے محارم متفق علیہا کا ارتکاب کرنے لگے ،تو مستحق عزل ہوگا اور تنبیہ کے بعد بھی اس سے باز نہ آئے تو معزول کیا جائے گا۔

(۳) اگر امیرشریعت اپنے فرائض کی انجام دہی میں قاصر وعاجز ثابت ہو بہ سبب عدم اہلیت یا بہ سبب غفلت یا بہ سبب مرض تو اس صورت میں مستحق عزل ہوگا۔

پھر اس کے بعد دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ میں عزل کا طریقہ مذکور ہے:

(۱) اگر امیر شریعت کے اندر وجوہ عزل پائے جائیں اور مجلس شوریٰ امارت شرعیہ کے کل ارکان میں سے کم ازکم دو تہائی ارکان اس پر متفق ہوں تو نائب امیر ارباب حل وعقد کا جلسہ طلب کریں گے تاکہ عزل امیر پر غور کیا جائے، یا ان کے حکم پر ناظم امارت شرعیہ جلسہ بلائیں گے۔

(۲) نائب امیر مجلس شوریٰ امارت امارت شرعیہ بہار، جھاکھنڈ واڈیشہ کے دوتہائی ارکان کے اتفاق کے باوجود تین ماہ تک مجلس ارباب حل وعقد طلب نہ کریں تو ان دوتہائی ارکان کو حق ہوگا کہ وہ مجلس ارباب حل وعقدکی میٹنگ اپنے دستخط سے بلائیں ۔

امارت شرعیہ کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے مذکورہ بالا دفعات سےیہ واضح ہے کہ منتخب امیر شریعت کو معزول کرنے کی وجوہات سے مجلس شوریٰ کے دو تہائی ممبران کا متفق ہونا ضروری ہے،لیکن بورڈ آف ٹرسٹیز کے چند ممبران نے ازخودمنتخب امیرشریعت کو معزول کرکےدوسرے امیرشریعت کو منتخب کرکے اعلان کردیا، جس کا انہیں کوئی اختیار نہیں تھا، بلکہ امیر شریعت کے معزول کرنے کی وجوہات سے مجلس شوریٰ کے دوتہائی ارکان کا متفق ہونا ضروری تھا، پھر مجلس شوریٰ کی دعوت پر مجلس ارباب حل وعقد کوامیرشریعت کو معزول کرنے اور دوسرے امیر شریعت کے انتخاب کا اختیار تھااور ہے ۔ چنانچہ امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی مجلس شوریٰ کا اجلاس مورخہ ۱۳؍ مئی ۲۰۲۵ء کو منعقد ہوا، اس میں استصواب رائے کیا گیا ، جس میں مجلس شوریٰ کے ارکان نے اجلاس میں منتخب امیرشریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی پر اعتماد کا اظہار کیااور ان کے امیر شریعت ہونے کی توثیق کی۔ اس طرح امارت شرعیہ ان کی زیرقیادت اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔

جہاں تک الزامات کی بات ہے ،تو میں نے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چند ممبران کے ذریعہ منتخب امیرشریعت کو معزول کرنے کی وجوہات کا جائزہ لیا، تو اس میں دوباتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عالم نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں ہیں۔

جہاں تک عالم نہ ہونے کی بات ہے تو اس کے لئے انتخاب سے پہلے علماء کمیٹی نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ عالم ہیں، اس پر موافقین اور مخالفین سبھی کا اتفاق ہوچکا ہے، اس لئے اب اس معاملے کو اٹھانا اتفاق رائے کے خلاف ہے۔

جہاں تک ہندوستانی شہری نہ ہونے کی بات ہے، تو یہ قانونی معاملہ ہے، میں نے اس سلسلے میں کئی اہم ماہرین وکلاء سے مشورے کئے، انہوں نے بتایا کہ امارت شرعیہ ایک این جی او ہے اور این جی او کے عہدیدار ہونے کے لئے ہندوستان کا شہری ہونا ضروری نہیں ہے۔ پھر میں نے او سی آئی قوانین کا مطالعہ کیا ، اس میں اوسی آئی کارڈ ہولڈر کو چند معاملات کو چھوڑ کر ملک کے تمام معاملات میں ہندوستانی شہری کی طرح اختیارات حاصل ہونے کا تذکرہ ہیں۔ اس طرح کے کارڈ ہولڈر کو غیرملکی نہیں کہا جاسکتا ہے۔

یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ان کی بہت سی باتیں دین وشریعت کے خلاف ہوتی ہیں، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ میں نے ان ویڈیوز کو سنا ہے، مختلف مسائل میں علماء کے مختلف رائیں ہیں، ان کو سمجھانےکے لئے اختلافات کی نوعیت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے یا عوام کو سمجھانے کے لئے اس طرح کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے ویڈیو سے دین سے انحراف واضح نہیں ہوتا ہے اور نہ ثابت ہوتا ہے

مذکورہ تجزیہ کی روشنی میں امارت شرعیہ کے منتخب امیر کو مجلس ارباب حل وعقد کے سوا کسی دوسری مجلس کو معزول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق ان پر لگائے گئے الزامات کی بھی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے، اس لئے امارت شرعیہ کی حفاظت اور اس کے وقار کو برقرار رکھنا ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو شر اور فتنے سے حفاظت فرمائے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare