حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی سیاسی بصیرت

مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے تناظر میں

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

مفکراسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ (۱۸۸۱-۱۹۴۰)بیسویں صدی کے سب سے بااثر عالم ،انقلابی رہنما، انجمن علمائے بہار، جمعیۃ علمائے ہند اور امارت شرعیہ کے بانی تھے۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے سرگرم مجاہد، تحریک عدم تعاون اور سول نافرمانی کے قائد، تقسیم ہند کے مخالف اور نظریۂ متحدہ قومیت کے حامی تھے۔وہ ایک عہد ساز شخصیت کے حامل ،روشن دماغ مفکراور بلندپایہ مدبر تھے۔ وہ علمی ودینی بصیرت اور سیاسی وفکری قیادت کےروشن مینار تھے، وہ ایک صاحب دل دینی وسیاسی رہنمابھی تھے۔

حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی سیاسی بصیرت
حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی سیاسی بصیرت

حضرت مولانا بوالمحاسن محمد سجادؒ کی سیاسی بصیرت کے متعلق مولانا سید سلیمان ندویؒ تحریر کرتے ہیں:

’’مولانا کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ علماء سیاسیات میں بھی قوم کی رہبری کا فرض انجام دیں، مسلمانوں میں دینی تنظیم قائم ہوجائے، جس کے تحت ان کے تمام تبلیغی ومذہبی ، تعلیمی وتمدنی کا کام انجام پائیں ، دارالقضاء قائم ہوکر مسلمانوں کے ہر قسم کے مقدمات ومعاملات تصفیہ پائیں، مسلمانوں کا بیت المال قائم ہوجائے، جہاں مسلمانوں کے صدقات، میراث، زکوٰۃ کی ساری رقمیں اکٹھی ہوکر ضروریات میں خرچ ہوں اور مستحقین میں تقسیم ہوں۔ مولانا نے عمر کے آخر بیس برس ان ہی کاموں میں صرف کیے اور حق یہ ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی مالی بےبضاعتی ، مددگاروں کی کمی، رفقاء کی نامساعدت اور حالات کی مخالفت کے باوجود جو کچھ کردکھایا ،وہ ان کی حیرت انگیز قوت عمل کا ثبوت اور اللہ تعالیٰ کی توفیق خاص ہے۔‘‘(۱)

مزید تحریر کرتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے ان کو جاہ و مرتبہ بھی عنایت فرمایا ، انہوں نے خود اپنی پارٹی کی وزارت بھی بنائی اور بادشاہ گر نہیں تو وزیر گرضرور بنے، کانگریسی حکومت کے زمانے میں ان کا اچھا اقتدار حاصل رہا، مگر خدا گواہ ہے کہ اس اثر واقتدار کو اپنی ذات کے لئے کبھی کام میں نہیں لائے ،جو کچھ کیا وہ مسلمانوں کے لئے۔‘‘(۲)

مزید تحریر کرتے ہیں:

’’ان کی تواضع میں بلندی، سادگی میں تنائو اور خاموشی میں گویائی تھی، وہ اکیلے تھے، لیکن لشکر تھے، پیادہ تھے مگر برق رفتار تھے، وہ قال نہ تھے ،سراپا حال تھے، کہتے کم ،کرتے زیادہ تھے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ’’راہ‘‘ اور ’’منزل‘‘ کے فرق کو کبھی فراموش نہیں کیا، انہوں نے راہ میں ہم راہیوں کے لطف کلام میں پھنس کر منزل سے ہٹنا کبھی گوارا نہیں کیا، وہ وطن کی آزادی اور احکام مذہبی کی پیروی کے درمیان التباس اور تصادم سے کبھی بےخبر نہیں رہے، جذبۂ آزادی کی پوری قوت کے باوجود انہوں نے کانگریس یا کانگریسی حکومت کے غلط قدم اٹھانے پر کبھی بزدلانہ یا صلح پسندانہ درگزر سے کام نہیں لیا۔‘‘(۳)

مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی آپ کی سیاسی بصیرت کے متعلق تحریر کرتے ہیں:

’’حضرت مولانا کو جس طرح علوم نقلی وعقلی میں کمال حاصل تھا، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ سیاسی، اجتماعی مسائل میں بھی ان کو یدطولیٰ حاصل تھا، ہندو مسلم یونیٹی کانفرنس لکھنؤ میں انہوں نے جس سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے، اس کا اعتراف شرکاء کانفرنس ہندومسلم دونوں نے کیا۔‘‘(۴)

امیر شریعت ثانی حضرت شاہ محمد محی الدین قادری آپ کی سیاسی بصیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’سیاست پر گہری نظر رکھنا اور ہر ایسے موقع پر جب کہ کسی سیاسی رفتار سے اسلام ومسلمین کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوجانا اور تقریر وتحریر اور جس عنوان سے ہوسکے اس کی مدافعت کی سعی کرکے دیگر علماء کے سر سے اس فرض کفایہ کو اتارنا ان ہی کا کام تھا۔‘‘(۵)

امیرشریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی تحریر کرتے ہیں:

’’مولانا کی سیاسی زندگی پر جو بھی قلم اٹھائے گا، وہ یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ مولانا نے کامیاب اور شاندار سیاسی زندگی گزاری، ایک طرف مولانا نے ’’امارت شرعیہ‘‘ قائم کرکے اس کی اہم ترین مسئلہ کو حل کیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں زندگی کس طرح گزارنی چاہئے، دوسری طرف مولانا نے اسمبلی اور کونسل پر قبضہ کرکے وزارت قائم کی اور سیاسی اقتدار وقوت اپنے ہاتھ میں لی اور بتایا کہ طاقت وقوت کا کیا مصرف ہے اور دنیا کس طرح چلائی جاتی ہے۔‘‘(۶)

سابق ایڈیٹر ’’نقیب‘‘ شاہد رام نگری آپ کی سیاسی بصیرت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’مولانا سیاست داں تھے اور اعلیٰ درجہ کی سیاسی بصیرت کے مالک تھے، لیکن وہ سیاست کو مقصد نہیں بلکہ حصول مقصد کا ذریعہ سمجھتے تھے اورا ن کامقصد تھا اسلام کے وقار اور استحکام کا تحفظ اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منظم اور شیرازہ بند کرنا۔‘‘(۷)

حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی اور مستقبل کی فکر ہمیشہ رکھتے تھے، ان کے ذہن میں یہ خیال جم گیا تھا کہ کسی بھی قوم وجماعت کی ترقی کے لئے سیاسی اور آئینی طاقت کا حصول ضروری ہے۔ بالخصوص آئینی دور میں تو اس کے بغیر کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔اس فکر کی عملی تشکیل کے لئے انہوں نے امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ کی نگرانی میں سیاسی پارٹی قائم کرنے کا خاکہ تیار کیا اور ۲۵؍اگست ۱۹۳۵ء میں مسٹر ایم محمود بیرسٹر کے مکان پر ایک جلسہ طلب کیا ،جس کی صدارت نواب علی سجاد نے کی۔ اس اجتماع میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی زور دار تحریک پر مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے سلسلہ میں فضل حق عظیم آبادی تحریر کرتے ہیں:

’’مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کا تاسیسی اجلاس ۱۴؍ستمبر ۱۹۳۶ء کو انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں جمعیۃ علماء کے جنرل سکریٹری مولانا احمد سعید کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کو ان کے انکار کے باوجود متفقہ طور پر صدر منتخب کرلیا گیا۔ اس پارٹی کے دو اہم مقاصد قرار پائے۔

(۱) ملک کی مکمل آزادی کی حمایت کرنا۔

(۲) دینی امور میں امیر شریعت کی ہدایات کو قبول کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا۔‘‘(۸)

’’پارٹی کی مجلس عاملہ اکیس ممبران پر مشتمل ہوئی، جن میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کو صدر، مسٹر محمود بار ایٹ لا پٹنہ کو سکریٹری، مولانا منت اللہ رحمانی کو پروپیگنڈہ سکریٹری، جسٹس خلیل احمد اور مولوی محمد اسمٰعیل تاجر پٹنہ کو خازن کے عہدے سپرد کئے گئے۔ ان عہدیداروں کے علاوہ چار نائبین صدر، چار جوائنٹ سکریٹری، ایک اسسٹنٹ سکریٹری اور ایک اسسٹنٹ پروپیگنڈہ سکریٹری بھی منتخب ہوئے۔(۹)

مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی ۱۹۳۷ء کے صوبائی اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا۔ الیکشن کے نتائج حیران کن سامنے آئے۔ مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کو ۸۰؍ فیصد کامیابی ملی، اس کے ۲۳؍امیدواروں میں سے ۲۰؍کامیاب ہوگئے۔ یعنی بہار کے کل ۱۵۲؍ سیٹوں میں سے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ۲۰؍امیدوار کامیاب ہوگئے، جبکہ کانگریس کے ۹۸، یونائیٹڈ پارٹی کے ۵، احرار پارٹی کے ۳ اور آزاد امیدواروںکو۷؍ سیٹیں حاصل ہوئیں۔اس اسمبلی انتخاب میں بہار اسمبلی میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، اس لئے گورنر نے اس پارٹی کو وزارت تشکیل کے لئے دعوت دی، لیکن جب گورنر نے کانگریس کے ذریعہ پیش کردہ شرائط کو ماننے سے انکار کردیا، تو کانگریس نے وزارت سازی کی پیشکش ٹھکرادی، جس کے بعد گورنر نے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی جو کانگریس کے بعد اکثریت میں دوسری پارٹی تھی، اس کو وزارت سازی کے لئے دعوت دی، اس کے لئے حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد پارٹی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ طلب کی اور میٹنگ کے فیصلہ کے بعد مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی نےگورنرکی دعوت قبول کرلی اور بہار میں حکومت بنائی۔ مسٹر محمد یونس بیرسٹر وزیراعظم بنائے گئے (اس زمانہ میں وزیراعلیٰ کاعہدہ وزیراعظم کہا جاتا تھا) مسٹر محمد یونس بیرسٹر کی حکومت صرف چار ماہ رہی۔ جب گورنر کے خصوصی اختیارات کے سوال پر گورنر کے ساتھ مہاتماگاندھی کا سمجھوتہ ہوگیا اور کانگریس ورکنگ کمیٹی نے وزارت سازی کی تشکیل کی اجازت دے دی ،تو ۷؍جولائی کو مسٹر محمد یونس بیرسٹر نے استعفاء دے دیا، لیکن گورنر کی درخواست پر ۱۹؍جولائی تک حکومت کا کام سنبھالتے رہے۔ مسلم انڈیپنڈنٹ کی چار ماہ کی حکومت کامیاب رہی۔ اس حکومت کے ذریعہ بہت سے اہم اور قابل ذکر فیصلے لئے گئے۔

یقیناً حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کا سیاسی تجربہ کامیاب رہا اور ان کی سیاسی پارٹی مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی الیکشن میں بھاری اکثرت سے کامیاب ہوئی ۔ حکومت بھی بنائی اور وزارت کی تشکیل بھی کی اور ان میں پارٹی کے سربراہ بہار اسمبلی کے وزیراعظم بھی بنے، یہ بات ۱۹۳۷ء کی ہے۔ جب ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا اور ہندوستان میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کی آبادی تقریباً برابر تھی۔ اس لئے مسلم سیاست کے نام پر مسلم سیاسی پارٹی کامیاب رہی۔ واضح ہوکہ مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے قیام میں اس وقت کے تمام اکابر علماء شریک تھے، مگر جب بدقسمتی سےملک تقسیم ہوگیا اوربڑی تعداد میں مسلم سماج کے لوگ ہندوستان سےنئے ملک پاکستان چلے گئے، تومسلمانوں کی آبادی بہت کم رہ گئی۔ یہاں تک کہ اپنی سیادت اور اپنی قیادت کے نعرہ کی وجہ سے یہاں کی مسلم آبادی کو نقصان کا خطرہ محسوس ہوا، تو ملک کی آزادی کے بعدتمام اکابر علماء نے مل کر آپسی میل ومحبت اور ملک کی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا اور ملک میں جمہوری نظام کے قیام پر زور دیا ۔ چنانچہ آزادی کے بعد ملک میں جمہوریت کا قیام عمل میں آیا، جس میں آئین کو بالادستی حاصل ہے۔

آزادی کی چار دہائیوں تک مسلمانوں نے ملک کی بڑی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کیا، مگر ۱۹۸۰ء کے بعد لوکل پارٹیوں کا غلبہ بڑھنے لگا، جس سے مسلم سماج کے لوگ بہت متاثر ہوئے اور مسلمانوں میں ملک کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جو سیاسی اتحاد کا معاملہ چل رہا تھا، وہ کمزور ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۴ء کے بعد ملک میں فرقہ پرست پارٹیوں کا غلبہ ہوگیا، جس نے ملک کے آپسی میل ومحبت اور قومی یکجہتی کونقصان پہنچایا۔ ملک میں اقلیت اور اکثریت کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کردیا، غیرمسلم اکثریت کو بالخصوص مسلم اقلیت کے خلاف بھڑکا دیا ،جس کے نتیجہ میں ملک میں نفرت کا ماحول پیدا ہوگیا ، جس کی وجہ سے مسلم اقلیت کے لوگ طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہیں ،ایسے وقت میں کسی مسلم پارٹی کے لئے مسلم کے نام پر جیت حاصل کرنا بہت مشکل ہوگیا، اس لئے آج کے نفرت زدہ ماحول میں ہندوستان جیسے ملک میں اپنی قیادت اور اپنی سیادت کی بات مناسب معلوم نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنی مسلم سیاسی پارٹی مسلمانوں کے لئے مفید نظر آتی ہے۔ البتہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ وقت میں اس کی گنجائش ہے کہ حکمت عملی کے ساتھ سیکولر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنایا جائے اور مسلمانوں میں اتحاد کی تحریک چلاکراس پارٹی کی حمایت کی تلقین کی جائے ،جس کے بارے میں تمام ملی تنظیموں کے ذریعے اتحاد کا فیصلہ کیا جائے، چونکہ موجودہ وقت میں بھی حکومت سازی کی کنجی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے، وہ اس کا استعمال کرکے اپنی سیادت وقیادت کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کو عام کرے۔

ہندوستان کی آزادی کو۷۵؍سال ہوگئے، حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے مسلم سیاسی پارٹی کا تجربہ ملک کی آزادی سے پہلے کیا تھا، حضرت مولانا کا انتقال ۱۹۴۰ء میں ہوگیا۔اس لئے آزادی کے موقع پر پیش آنے والے حادثات کو وہ دیکھ نہیں سکے، یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں ان کا کوئی نظریہ موجود نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت ہےکہ بظاہر ملک کے حالات اس وقت کے حالات سے بھی بدتر ہیں، پھر بھی موجودہ وقت میں ملی تنظیموں کو مسلم قیادت وسیاست اور مسلم سیاسی پارٹی کے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور موجودہ وقت میں ہندوستان میں مسلم قیادت وسیاست اور مسلم سیاسی پارٹی مسلم سماج کے لئے کس حدتک مفید یا مضر ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟موجودہ وقت میں یہ ملت اسلامیہ کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اس لئےملی تنظیموں، بالخصوص امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ ومغربی بنگال کے ذمہ داروں کو بانی امارت شرعیہ ومسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے سیاسی افکار کاجائزہ لینے پر غوروفکر کرنا چاہئے ،تاکہ ہندوستان کے مسلمان ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں ان کے افکار سے رہنمائی حاصل کرسکیں اور انتشار سے بچ سکیں۔

ماخذ ومراجع

(۱)یاد رفتگاں ص۲۱۷

(۲)یاد رفتگاں ص۲۴۹

(۳)حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجاد حیات وخدمات ص ۴۴۶

(۴)حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجاد حیات وخدمات ص ۴۶۰

(۵)حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجاد حیات وخدمات ص ۴۶۰

(۶)حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجاد حیات وخدمات ص ۴۶۱)

(۷)حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجاد حیات وخدمات ص ۴۵۹

(۸)حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجاد حیات وخدمات ص ۲۵۹

(۹)’’نقیب‘‘ مولانا محمد سجاد نمبر ۷۲

Leave a Reply