آئین ِ جواں مرداں، حق گوئی و بے باکی
(مولاناسید محمد ولی رحمانیؒ)
ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ سے نہ میرا خاندانی تعلق تھا، نہ میں ان کا رسمی شاگرد تھا، نہ ہی ان کی جامعہ کا طالب علم رہا اور نہ ہی ان کا مرید ؛ مگر ان کا سایہ عاطفت میرے لیے باپ کے سائے سے کم نہ تھا، ان کی جامعہ سے ربط تھا اور ہے ، اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور بہت سی مرتبہ بھیگے پروں کو ہمت ِ پرواز بھی ملی۔
انسان غلطیوں کا پتلا ہوتاہے اور حضرت بھی ایک انسان تھے۔ ان کی بہت سی چیزوں اور پیش رفت سے دوسرے حضرات کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کے خلوصِ نیت اور جذبہ خالص پر شک کی گنجائش نہیں۔ کئی معاملات میں بظاہر وہ بڑے ضدی معلوم ہوتے تھےلیکن کچھ دنوں بعد ان کے نتائج خود یہ ثابت کردیتے تھے کہ وہ ضد نہیں ؛رائے کی صلابت اور اعتماد کی مضبوطی کی بات تھی۔
وہ جامعہ رحمانی کے سرپرست، خانقاہِ رحمانی کے سجادہ نشیں، مسلم پرسنل لاءبورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارت کے امیرِ شریعت ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا محمد علی مونگیریؒ کے پوتے اور مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے صاحبزادے بھی تھے اور انھیں ان نسبتوں پر ناز بھی تھا ؛تاہم ’پدرم سلطان بود ‘ پر وہ یقین نہیں رکھتے تھے، وہ اپنی راہ آ پ بنانے کے قائل تھے اور عامل بھی۔دراصل ان کا کام ہی ان کا تعارف ہے۔
مولانا محمد ولی رحمانی مرحوم انتہائی حساس دل کے مالک تھے ، اللہ نے انھیں بڑی فراست عطا کی تھی ۔ دوررسی اور نگہہ کی بلندی کے ساتھ جاں کی پرسوزی اور سخن کی دلنوازی بھی انھیں ودیعت کی گئی تھی۔ حق گوئی و بے باکی تو انھیں وراثت میں ملی تھی، وہ اللہ کے ایسے شیر تھے جہاں روباہی گناہ اور جرم تھی۔ وہ کہتے تھے وہی جو سمجھتے تھے حق۔
آئین ِ جواں مرداں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ان کی علمی ، دینی ، سماجی اور سیاسی قدآوری کے سامنے علم و دین اور سماج و سیاست کے بڑے بڑے جغادری بونے نظر آتے تھے۔ان کی لغت میں خوف اور بزدلی جیسے الفاظ ناپید تھے۔وہ سستی شہرت ، جھوٹی عظمت اور اہل اقتدار کی خوشامد اور چاپلوسی سے کوسوں دور تھے بلکہ ان کی کتابِ زندگی میں اس طرح کے چیپٹر کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ انھیں اپنے خالق و مالک کی ذات پر کامل یقین اور اپنے اوپر مکمل اعتماد تھا۔ وہ بنا سوچے سمجھے کوئی بھی قدم اٹھانے کے قطعاً روادار نہ تھے۔کوئی بھی کام بہت سوچ سمجھ کر اور طویل غور فکر کے بعد ہی انجام دیتے، کبھی کبھی انھیں بہت سے فیصلے بڑی جلد بازی میں بھی لینے ہوتے تھے ؛تاہم اپنی فراست اور متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین سے رائے مشورہ کرنے کے بعد ہی پیش رفت کرتے۔انھوں نے اپنے گردو پیش ہر میدان کے ماہرین کا ایک ہالا بنا رکھا تھا، جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا فوراً ماہرین کی ٹیم کو بلاتے ، ان سے مذاکرہ کرتے پھر کوئی قدم اٹھاتے اور مضبوط قدم اٹھاتے جس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا ۔ انھیں اپنے چھوٹوں بلکہ ہم جیسے بے علموں سے مشورہ کرنے میں بھی کوئی عار نہیں تھا۔
وہ اوپر سے جتنے صاحبِ جلال معلوم ہوتے تھے اتنا ہی ان کا اندرون پُر کمال تھا ۔وہ قائد تھے ؛ ٹُٹ پونجیے نیتا نہیں ، وہ عالم تھے ؛ پُھس پُھسے علم والے نہیں، وہ پیر بھی تھے مگر روایتی ، بے عملے اور ٹھگ پیر نہیں، وہ گفتار کے نہیں ؛کردار کے غازی تھے۔
حضرت رحمانی نے بہت سے مشکل دن بھی دیکھے ، ان پر گمبھیر الزام بھی لگے ، دھمکیاں بھی ملیں یہاں تک کہ ان پر جان لیوہ حملے بھی ہوئے مگر سب کو ایک مردِ دلیر کی طرح جھیلتے ہوئے آگے بڑھتے گئے ، بنا رکے بنا تھکے چلتے رہے، راستے ملتے گئے اور منزلیں قدم چومتی رہیں۔ جب تک جیے شان سے جیے، نہ کسی سے ڈرے اور نہ کسی کے سامنے جھکے۔ان کا خیال تھا کہ میں حالات کے اتنے سرد و گرم تھپیڑے کھاچکا ہوں کہ اگر میں پٹنہ سے مونگیر تک پاپیادہ چلوں اور میری دونوں جانب میرے مخالف کھڑے ہوکر گالیاں دیتے رہیں تب بھی مجھے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کبھی کسی نے انھیں فریسٹیڈیا شکستہ خاطر دیکھا ہو۔ہمیشہ وہ حوصلہ مند اور حوصلہ بخش رہتے۔
ہم نے طے کیں اس طرح یہ منزلیں
گر پڑے ، گر کر اٹھے ، اٹھ کر چلے
علم کی پختگی کا یہ حال تھا کہ بعض دفعہ اپنے والد کے بالمقابل ہوجاتے، تحقیق کا یہ عالم تھا کہ مشقت بھرا سفر بھی ان کے لیے آسان تھا، تربیت کا یہ طریقہ تھا کہ بھری محفل میں ٹوک دیتے اور بذریعہ فون بھی اپنے شاگردوں اور عزیزوں کی اصلاح فرماتے لیکن انداز ایسا ہمدردانہ اور دلیل ایسی مضبوط ہوتی کہ مخاطب کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔کردار ایسا شفاف کہ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ۔ قلم ایساکہ اپناگرویدہ کرلے اور زبان ایسی کہ سحر زدہ کردے۔ان کی تقریر میں نہ وعظ کا ٹھنڈا پن ہوتا اور نہ مقرر ِ شعلہ بیاں کی سی شعلہ زنی ، بالکل سمندر کی سی چال کہ اوپر سے شانت اور اندر سے طوفان۔ان کی گفتگو اس قدر نپی تلی اور باوقار ہوتی کہ اچھے خاصے زبان دان کی زبان بھی لڑکھڑا جاتی ۔ وہ انتہائی واضح بات کرنے کے قائل و عادی تھے اس لیے گول مول باتیں کرنے والا ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔
مسلمانوں کی آن بان اور غیرت کی بات ہوتی تو وہ جلال ِ عمری کا نمونہ بن جاتے اور امت کے مسائل کے حل کرنے کا مرحلہ ہوتا تو خلیفہ اول کا روپ دھار لیتے ۔ ایک طرف مدرسہ شمس الہدیٰ کی صد سالہ تقریب کے موقع پر بہار کے وزیر اعلیٰ کی متعصبانہ پالیسیوں پر انھوں نے بھرے مجمعے میں جم کر تنقید کی تو دوسری طرف بابری مسجد کے حل کے لیے دھرم گروؤں کے پاؤں تک پکڑے ہیں ۔
میرا آبائی وطن بھی شہر مونگیر کا ایک محلہ صندل پور ہے۔ بیسویں صدی کے چوتھے دہے میں میرے والد مرحوم چھ سات سال کی عمر میں اپنی بڑی بہن کے ہمراہ مشکی پور (کھگڑیا) آگئے تھے اور پھر یہیں کے ہورہے۔حضرت کا مولد و مسکن بھی شہر مونگیر ہی تھا۔وہ بھی دیوبند کے ایک لائق فائق فاضل تھےاور یہ ناچیز بھی اسی شجرِ طوبیٰ دیوبند کا ایک ادنیٰ سا خوشہ چیں۔ اسی طرح وہ علامہ سید مناظر احسن گیلانی ؒ کےعزیز(رشتے دار) تھے اور راقم بھی گیلانی کے علم و قلم کا اسیر۔ممکن ہے ہم دونوں کے رشتوں کے درمیان یہی مناسبات رہی ہوں۔
مولانا رحمانی سے پہلی بار باضابطہ ملاقات دار العلوم دیوبند کے مہمان خانے میں ہوئی اور واسطہ میری مرتبہ کتاب ” مناظرِ گیلانی” (علامہ سید مناظر احسن گیلانی : احوال و اشعار) بنی۔ پھر یہی ملاقات ان سے رشتے کی بنیاد کا سنگِ میل ثابت ہوئی اور تادمِ حیات ان کی محبت و شفقت اس فقیر کو حاصل رہی ۔حضرت نے اپنا خاص رابطہ نمبر بھی عطا کیا اور تاکید کی کہ کسی سے اس کا اشتراک نہ کرنا اور میں نے بھی وسعت بھر اسے نبھانے کی کوشش کی۔اُس وقت میں تازہ تازہ دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوا تھا اور تخصصات کے شعبہ انگریزی میں زیرِ تعلیم تھا۔حضرت نے میری اس حقیر سی کاوش سے دلچسپی کا اظہار کیا اور مسرور بھی ہوئے اور ایسا محسوس ہوا کہ برسوں سے انھیں میری تلاش تھی ۔ معلوم کرنے لگے۔ کتاب کی کتابت کس نے کی؟ ڈیزائن کس کا ہے؟ کہاں سے شائع ہوئی؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔ جواب دیا گیا کہ لکھمنیاں بیگو سرائے کے میرے ایک دوست سید طہٰ ازہر ہیں جو دارالعلوم وقف کے فاضل اور کمپیوٹر کا اچھا نالج رکھتے ہیں ۔ حضرت نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ، میں بھائی طہٰ کو ان کے پاس لے گیااور حضرت سے ان کا تعارف کرایا۔ معلوم ہوا کہ بھائی طہٰ کے نانا معروف مجاہدِ آزادی مولانا سید عبد الرب نشتر ؒ سے وہ پہلے ہی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ خیر ! حضرت کا خواب تھا کہ علامہ گیلانی کی تمام تحریروں کو یکجا کرکے "موسوعہ گیلانی ” کے نام سے شائع کیا جائے ، کام مولانا طہٰ قاسمی کے سپرد کیا گیا ، اولاً جملہ تصانیف ِگیلانی کی ازسرِ نو کتابت کا کام تھا ،ابتدا ءً بڑے جوش و خروش سے کام شروع ہوا مگر کچھ دنوں بعد کام سست رفتاری کا شکار ہونے لگا ۔ حضرت کچھ کچھ وقفے سے کام سے متعلق رپورٹ لیتے رہتے تھےاور غالباً لین دین کا معاملہ مولانا مقیم الدین قاسمی بھاگلپوری (سابق انچارج مہمان خانہ ،دار العلوم دیوبند) کے سپرد کیا گیا تھا۔ایک بار جب حضرت دیوبند تشریف لائے تو ہم سب کو طلب کیا ، ہم حاضر ہوئے ، حضرت نے قدرے سخت لہجے میں استفسار کیا کہ کام آخر اس قدر سست رفتار کیوں ہورہا ہے؟ مولانا طہٰ نے یہ وضاحت دی کہ بجلی کا مسئلہ ہے ۔ اس کا حل کیا ہے؟ انورٹر چاہیے۔اسی وقت حضرت نے مولانا مقیم صاحب کو یہ کام سپرد کیا ، انورٹر آیا ، کام نے رفتار پکڑا ؛تاہم مطلوبہ مقدار میں کام نہیں ہوپا رہا تھااس لیے حضرت نے سارا سسٹم سمیت مولانا طہٰ قاسمی کو مونگیر بلا لیااور وہ پورے انہماک کے ساتھ اس کام میں لگ گئے اور تقریباً چالیس سے پچاس فیصد کتابت کا کام ہو بھی گیا تھالیکن آہستہ آہستہ مولانا طہٰ کے کاندھوں پر دوسری ذمہ داریاں عائد ہوتی گئیں اور یہ کام پیچھے ہوتا ہوگیا ، اب مولانا طہٰ قاسمی بھی برسوں پہلے مونگیر چھوڑ چکے ہیں ،ان کے بعد "موسوعہ گیلانی” کا کیا بنامعلوم نہیں ۔
باضابطہ حضرت کی نگرانی میں رہ کر کوئی کام کرنے کا موقع تو نہیں ملا مگر ان کی نصیحت کے مطابق ان سے برابر رابطے میں رہتا اور ہمیشہ ان کی محبت و شفقت اور اپنائیت ہمیں حاصل رہی۔بہت سے اہم معاملات میں ان سے میرا تبادلہ خیال ہوتا ، رہنمائی ملتی ، اسی کےمطابق کام انجام دیتا ۔ کئی مواقع پر وہ کچھ کام سپرد کرتے اور راقم الحروف وسعت بھر ان کے اعتماد کو بحال رکھنے کی کوشش کرتا۔اخیر عمر میں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضرت امت کے باصلاحیت منتخب نوجوانوں کو یکجا کرکے اس کا ایک گولہ بنانا چاہتے ہیں اور اسے سماج میں لے جاکر پھوڑ دینا چاہتے ہیں۔یعنی ہر شعبے میں انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔
حضرت فرماتے تھے کہ میں تین لوگوں کے موسوعات تیار کرنا چاہتا ہوں۔ علامہ سید مناظر احسن گیلانی، پروفیسر رشید احمد صدیقی اور انجم مانپوری۔
مولانا محمد ولی رحمانی ؒ نے اپنے اوپر درجنوں ذمہ داریاں اوڑھ رکھی تھیں ۔ مطالعہ ان کا انتہائی وسیع اور ہمہ جہت تھا اور لکھنے کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ۔ اللہ رب العزت نے انھیں تصنیف و تالیف کا بھی عمدہ سلیقہ عطا کیا تھا مگر سیاسی ، سماجی اور ملی مصروفیات حاوی رہیں اور تحریر و تصنیف کا سلسلہ پیچھے رہ گیا۔میں نے ان کی ادبی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ اسی راہ پر چلتے تو اردو زبان کے مایہ ناز نقاد اور لسانیات کے ماہرین میں ان کا شمار ہوتا۔ کبھی کبھی وہ مجھ جیسے طالب علموں کی اصلاح فرماتے رہتے اور کبھی کبھی تو بڑے بڑے ادباء و شعراء اور پروفیسروں کی غلطیوں پر گرفت کرنے میں بھی نہ جھجھکتے ۔ ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والی مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بھی حسبِ موقع شریک ہوتے ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے ، حضرت جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کی ایک کانفرنس میں شریک تھے ، شعبہ عربی کے ایک پروفیسر صاحب نے اپنی گفتگو میں لفظ ِ "سراہنا ” استعمال کر لیا ، پھر کیا تھا جب حضرت کا نمبر آیا تو انھوں نے اس لفظ پر اچھی تنقید کرڈالی۔
وقتاً فوقتاً حضرت کی آمد اپنے مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں ہوتی رہتے تھی، وہ جب بھی آتے تو خدمت میں حاضری ہوتی اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ، بہت سی کارآمد باتیں ہوتیں ، اپنے تجربات کا اشتراک کرتےاور مجھ جیسوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ہاتھ آتا۔قیامِ دیوبند کے زمانے میں دیوبند رہتے ہوئے بھی بندے کو حضرت کی دہلی کی رہائش گاہ نظام الدین میں کئی بار حاضری کا موقع ملا ، جب ان کی رہائش نظام الدین سے ذاکر نگر (اوکھلا) منتقل ہوگئی تب بھی خدمت میں حاضری ہوتی رہی۔ پھر جب میرا قیام دہلی ہوا تو کبھی میں خود اور کبھی حضرت کے حکم سے حاضری ہوتی رہتی ۔ بسا اوقات تو ایسا ہوتا کہ اپنے سارے ملنے والوں کو رخصت کردیتے اور دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہتے حالاں کہ بار بار ان کا خادم آتا ، اشارے کرتا؛ مگر اسے ٹھہرنے کو کہتے۔کبھی علامہ گیلانی سے متعلق، کبھی اردو زبان و ادب سے متعلق ،کبھی یونیوسٹیوں میں زیرِ تعلیم مسلم طلبہ کے احوال اور کبھی مدارس کےسے متعلق سوال کرتے وغیرہ وغیرہ ۔ ان امور پر بالتفصیل تبادلہ خیال ہوتا۔ ان کے سامنے بہت سنبھل کے بیٹھنا اور بولنا پڑتا تھا، اپنے عزیزوں کے ہر حرکت و سکون پر ان کی نظر ہوتی اور یہ دھڑکا لگا رہتا کہ اب گوشمالی ہوئی تب گوشمالی ہوئی۔ کبھی کبھی ان کے پُر رعب چہرے پہ نظر پڑتے ہی زبان لڑکھڑا جاتی اور سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا کہ زبان سے کیا نکل رہا ہےتو حضرت فرماتے صاف صاف بولیے ، مجھے گول مول باتیں کرنا پسند نہیں ۔
دار العلوم میں دورہ حدیث کے سال میرا اوسط (٪) اتنا نہیں آیا پایا تھا کہ تخصصات کے کسی اچھے شعبے کا انتخاب کرسکوں مگر دماغ میں عربی ادب پڑھنے کا خواب پال رکھا تھا، اب کیا کیا جائے ، کسی دوست نے مشورہ دیا کہ کسی سے سفارش لکھوا لو، غور کیا تو حضرت کا نام ذہن میں آیا ، سوچا کہ مہتمم صاحب سے حضرت کے مراسم اچھے ہیں ، چلتے ہیں ان ہی کے پاس ۔ دہلی حاضر ہوا ، صورت ِ حال سے آگاہ کیا ، کہنے لگے کس کے نام خط لکھوں ؟ مولانا مرغوب الرحمن صاحب (مہتمم صاحب )یا مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب کے نام ، ذرا توقف کے بعد میں نے جواب دیا کہ مولانا امینی کے نام ، اس لیے کہ اُن دنوں شیخ الادب وہی تھے۔ خیر حضرت نے سفارش لکھ دی ، جہاں اسے پہنچانا تھا پہنچا دیا گیا ، داخلہ مقدر میں نہیں تھا ، نہ ہوا۔ یہ 2007-2008 کی بات ہے ، بات آئی گئی ہوگئی۔ جب مارچ 2022 میں حضرت کی تعلیمی خدمات پر سپول میں ایک سیمینار منعقد ہونا تھا ، میں بھی مدعو تھا ، حافظ امتیاز رحمانی بھی اس پروگرام شریک تھے ،تو اسی موقعے سے انھوں نے مجھے وہ سفارشی خط دیا جسے دیکھ کر میری آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔حضرت نے تحریر فرمایا تھا :
” عزیزی مولوی فاروق اعظم سلمہ (مؤلف مناظرِ گیلانی) آپ کے زیرِ سایہ ادیب بننا چاہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ایک بے ادب سفارش کرے۔
اس آرزو کو دیکھیے اور مجھ کو دیکھیے
سونچتا ہوں کیا لکھوں ۔ یہ عزیز سرمایہ درویش ہیں ، انھیں مایہ خویش سمجھیےاور اپنے سایہ عاطفت میں جگہ دیجیے۔ اگر یہ ”نالائق” ثابت ہوئے تو آپ کا کچھ بگڑے گا نہیں ، اور ”لائق فرزند ”بنے تو مجھے ثواب ضرور ملے گا اور دل یہ کہتا ہے کہ آپ مجھے ثواب سے محروم نہ ہونے دیں گے”۔(خظ بنام مولانا نور عالم خلیل امینی ، 5 شوال 1428ھ )
حضرت نے کئی بار ناچیز کومونگیر طلب کیا ، حاضر ہوا اور گھنٹوں باتیں ہوئیں۔تقریباً دس بارہ سال قبل کا قصہ ہے ، میں مونگیر حاضر ہوا ، مجلس میں کئی اور حضرات ِ علمائے کرام تشریف فرما تھے لیکن زیادہ تر روئے سخن میری ہی طرف رہا اور بڑی فکرمندی کے ساتھ بار بار وہ اس بات پر زور دیتے رہے بلکہ اس حقیر سے رائے بھی طلب کرتے رہے کہ جامعہ میں مطالعے کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے؟
ایک دفعہ فرمایا بلکہ حکم دیا کہ مجھے عربی زبان پڑھانے کے لیے چند باصلاحیت اور ماہر نوجوان اساتذہ چاہیے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے مولانا نوشاد نوری قاسمی (استاذ ِ دار العلوم وقف ،دیوبند)سے اس بات کا ذکر کیا ، غالباً انھوں نے کچھ نوجوانوں کو وہاں بھیجا بھی تھا ، ان ہی میں کے ایک مولانا جنید احمد قاسمی ہیں جو اس وقت جامعہ رحمانی مونگیر میں مسندِ تدریس پر فائز ہیں ۔
ایک مرتبہ فرمایا اردو اور مدارس کے موضوع پر ایک پروگرام کرانا چاہتا ہوں ۔ پروگرام کا ایک خاکہ بناکر مجھے دو، میں نے خاکہ تیار کرکے پیش کردیا، حضرت نے اطمنان کا اظہار کیا لیکن شاید وہ پروگرام نہ ہوسکا۔
علامہ سید مناظر احسن گیلانی سے مجھے ایک روحانی تعلق ہے ۔ ان کی کتابوں سے بھی دلی لگاؤ ہے، میری دیرینہ خواہش تھی کہ علامہ گیلانی پر ایک باوقار سیمینار منعقد ہونا چاہیے۔ چناں چہ ایک بار موقع غنیمت جان کر حضرت سے اپنے دل کی یہ بات کہہ ڈالی۔ اولاً تو حضرت نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ان پر اب کون لکھے گا ؟ سارے پرانے لوگ تو اب رخصت ہوچکےہیں۔حالاں کہ میں نے مقالہ نگاری کی ترتیب و تفصیل اور تقریباً درجن بھر مقالہ نگاروں کی ایک فہرست بھی پیش کی۔اس وقت تو کوئی واضح جواب مجھے نہیں ملا، لیکن ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی اور اندرونِ خانہ یہ موضوع پکتا رہا، اس کا علم مجھے بہت بعد میں اس وقت ہوا جب انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز (IOS) نئی دہلی نے علامہ گیلانی کی حیات و خدمات پر ایک دوروزہ قومی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا اور بطورِ خاص راقم کو بھی مدعو کیا ؛ بلکہ کئی معاملوں میں مجھ سے رابطہ بھی کیا گیااور دسعت بھر میں نے تعمیلِ حکم کی کوشش بھی کی۔ دسمبر 2018 میں شہر پٹنہ (بہار )میں یہ عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی اور بے حد کامیاب رہی لیکن قلق اس بات کا رہ گیا کہ اس پروگرام کا اصل محرک ہی شریک نہ ہوسکا ، مولانا رحمانی ؒ کو عین وقت پہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایک ہنگامی میٹنگ میں دہلی جانا پڑا ۔
2008-2009 کی بات ہے، میں نے مبتدی طلبہ میں مضمون نگاری کا جذبہ بیدار کرنے کی غرض سے ایک کتابچہ مرتب کیا، نام ” آؤ قلم پکڑنا سیکھیں!” رکھا ۔ مسودہ لے کر نظام الدین دہلی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مقصد حضرت سے کتاب کی اصلاح اور مقدمہ لکھوانا تھا۔ کتاب میں مضمون نگاری کے موٹے موٹے اصول بیان کیے گئے تھے اور اپنے جونیئر ساتھیوں سے اپنے ناقص تجربوں کا اشتراک کیا گیا تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے حوالے سے کتاب میں کہیں یہ جملہ بھی مذکور تھا کہ مطالعہ کرنے والے اپنے سر کو سرکاری مشین سمجھ کر اس میں کبھی کبھی تیل بھی ڈال لیا کریں ، اسے پڑھ کر حضرت مسکرا اٹھے ۔انھوں نے یہ بھی فرمایا ” سہل نہیں ؛آسان لکھو” پھر اپنے والد صاحب کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے بھی مجھے یہی نصیحت کی تھی۔کچھ دنوں بعد دیوبند فیکس اور ڈاک دونوں ذرائع سے اپنا جامع اور قیمتی مقدمہ لکھ کرعنایت فرمایا جو اس کتاب میں شامل ہے اور میرے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے۔مقدمے سے چند سطور پیشِ خدمت ہیں :
”دل کی بات کوپیش کرنا مشکل فن ہے،اوراسے بہت آسان زبان میں پیش کرنا بہت مشکل فن ہے،اوریہ”پیشی“ اگر”کاغذ“پرہوتونزاکت اور بڑھ جاتی ہے !کہنے والا توکہہ کے گزرجاتاہے، لیکن لکھنے والا ہر نقطہ کاگواہ چھوڑجاتاہے؛ اس لیے لکھنا ، دل کی امانت کو کاغذپراتارنا اوربہت آسان زبان میں رواں دواں لکھنا بڑا ٹیڑاھافن ہے، اگرلکھنے والا لکھتے رہنے اورآسان ترلکھنے کی مسلسل مشق کرتاہے، تووہ اس مشکل فن کو آسان کرکے چھوڑ ے گا۔ عزیزی مولانا فاروق اعظم سلمہ نے اس سمت میں قلم اٹھایا ہے، ”آؤقلم پکڑنا سیکھیں“ کے ذریعہ” خوب نویسی“ کی ”بسم اللہ“ کی جاسکتی ہے۔“
دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن ؒ مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کے ہمدرس ورفیق تھے اس لیے حضرت انھیں چچا جان کہا کرتے اور بڑے ادب و احترام سے ان سے پیش آتےاور مہتمم صاحب کے دل میں بھی ان کی بڑی قدر تھی بلکہ کسی بھی اہم معاملے میں وہ ان سے ضرور مشورہ کرتے تھے۔ جب تک مہتمم صاحب بقیدِ حیات رہے حضرت کا دیوبند آنا جانا لگا رہا لیکن ان کے انتقال کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کی دیوبند آمد و رفت میں شاید کمی آگئی تھی۔یاد پڑتا ہے کہ ایک بار میں بھی حضرت کے ساتھ تھا جب وہ ملاقات کی غرض سے مہتمم صاحب کے کمرے میں تشریف لے گئے تھے ، میں نے دیکھا کہ حضرت ان کے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت یہ بھی کہتے تھے کہ چچا جان کو اس بات کا بہت قلق رہا کہ وہ مجھے دار العلوم دیوبند کا رکن ِ شوریٰ نہ بنا سکے۔
حضرت نے ہمیشہ خود کو دار العلوم دیوبند کا خوشہ چیں ظاہر کرتے اور انھیں اس نسبت پر فخر بھی تھا جب کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا ذکر ان کی زبان سے کبھی نہیں سنا حالاں کہ یہاں بھی انھوں نے باضابطہ تعلیم حاصل کی بلکہ اس کے بانیوں میں خود ان کے دادا مولانا محمد علی مونگیری ؒ کا نام انتہائی روشن ہے۔اس کی وجہ کیا تھی ؟اللہ جانے۔
مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کی موجودگی میں راقم کو دو سے تین سیمیناروں میں مقالات پیش کرنے کا موقع ملا ، ایک تو سوبھن ، دربھنگہ میں (بعنوانِ ‘ مولانا منت اللہ رحمانی بحیثیت محقق و مدون)اور دوسرا مونگیر میں (بعنوان ‘ مولانا محمد علی مونگیری اور مکتوباتی ادب)۔
خرالذکر میں میں بطورِ خاص حضرت کے حکم سے مجھے مدعو کیا گیا تھا، میں دہلی سے مونگیر آیا، عظیم الشان یک روزہ قومی سیمینار منعقد ہوا ، ملک بھر سے مقالہ نگار اتنی تعداد میں پہنچ گئے تھے کہ ایک دن کی کئی نشستیں بھی ناکافی ثابت ہورہی تھیں ۔ پروگرام میں دیکھا کہ حضرت بالکل پچھلی صف میں تشریف فرما ہیں ، بڑی خاموشی اور غور سے مقالات سماعت فرما رہے ہیں۔ میرے مقالے پربھی اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔سیمینار کے اختتام کے بعد فرمایا ، آپ حضرت مونگیری کے جملہ خطوط یکجا کردیں ، میں نے سرِ تسلیم خم کیا اور لب کشا ہوا ، حضرت ! ان کے بہت سے خطوط کے حوالے تو ملتے ہیں مگر خطوط نہیں ۔ سیرت ِ مولانا مونگیری میں ان کے کئی مکتوب الیہ کا سراغ ملتا ہے ، دار العلوم ندوۃ العلماء کی شبلی لائبریری میں اس کا ذخیرہ ضرور محفوظ ہوگا ، کہنے لگے ہاں مجھے معلوم ہے ، میں نے کہا ، حضرت وہ مہیا ہوجائیں تو زہے نصیب۔ پھر میں نے کہا کہ مکاتبِ محمدیہ کا ایک حصہ تو مجھے مل سکا مگر دوسرا حصے تک میری رسائی نہیں ہوپائی ۔ فوراً خادم کو حکم دیا جاؤ ، وہ حصہ جامعہ کی لائبریری میں موجود ہے ، فوٹو کاپی کراکے انھیں دو۔ چناں چہ وہ منقولہ کاپی میرے پاس محفوظ ہے ۔ اللہ مجھے توفیق دے کہ حضرت کی اس خواہش کو پورا کرسکوں ۔
میں اپنی قلمی سرگرمیوں سے انھیں مطلع کرتا رہتا اور ان سے مفید مشورے حاصل کرتا رہتا تھا۔میں نے ان کے دادا اور والد پر دو مضامین تحریر کیے تھے ، اس سلسلے میں کچھ اور لکھنے کا منصوبہ ذہن میں تھا ، عرض کیا کہ حضرت ! میں چاہتا ہوں ” خانوادہ رحمانی اور اردو زبان ” کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کروں۔ حضرت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ میری خواہش یہ بھی تھی کہ اس کتاب پر حضرت کا مقدمہ ہو ؛مگر ۔۔۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔جب حضرت 2015 میں امیر شریعت منتخب ہوئے تو میری خواہش ہوئی کہ ان کا ایک انٹرویو کروں ، شروع میں تو آمادگی کا اظہار کیا ، میں بھی بار باریاددہانی کراتا رہا مگر انھیں فرصت نہ ملی اور محرومی ہی ہاتھ لگی۔
حضرت کا خیال تھا کہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان کیوں نہ ہو اس سے غلطی ضرور سرزد ہوتی ہے ۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کا ایک ایک سانس قوم و ملت کے لیے وقف کردے ، ساری زندگی جد جہد کرتا رہے، جسم کو پگھلاتا اور دماغ کو جلاتا بھی رہے ، سینکڑوں کتابیں بھی تصنیف کرے او راس سے کوئی غلطی اور بھول چوک نہ ہو ۔ اب اگر اس طرح کے انسان سے پوری زندگی میں دس بیس غلطیاں سرزد ہوجائیں تو آسمان کو سر پہ اٹھانے کے بجائے انھیں نظر انداز کردینا چاہیے۔
جب کوئی فون آتا یا حضرت خود کسی کو فون کرتے تو بولتے ” میں محمد ولی رحمانی ” بول رہا ہوں ، کوئی صرف ولی رحمانی بولتا یعنی بغیر ‘محمد ‘کے تو برا مانتے ، اگر بولنے والا چھوٹا ہوتا تو اس کی گوشمالی بھی کردیتے اور اگر برابر کا یا کوئی اور ہوتا تو اسے زور دے کر فرماتے کہ میرا نام محمد ولی رحمانی ہے۔
ایک دفعہ میرا کوئی مضمون ہفتہ وار ” نقیب ” پھلواری شریف ، پٹنہ میں شائع ہوا ، حضرت کی نظر پڑی ، انھوں نے مجھے فون کیا کہ عزیزم تم نے ایک جگہ لفظِ ‘خلق’ استعمال کیا ہے، یہ درست نہیں ہے ، اس کی جگہ لفظِ ‘تخلیق’استعمال کیجیے ۔ایسے ہی جب میری پہلی تالیف ‘ مناظرِ گیلانی’ شائع ہوئی تو اس کے سرِ ورق پہ اپنے نام کے نیچے میں نے معناً (BA)لکھ دیا تھا کیوں کہ بہت سی یونیورسٹیوں میں دارالعلوم کی سند بی اے کے مساوی مانی جاتی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ میری نادانی تھی۔خیر حضرت تو عقاب نظر تھے ، فرمایا یہ کیا ہے؟ میں صفائی دینے کی ناکام کوشش کر ہی رہا تھا کہ انھوں نے کتاب میں درج علامہ گیلانی کی ایک نظم کی طرف اشارہ کرکے مسکرا اٹھے، نظم کا عنوان تھا” جرم مولوی ” ۔
وہ اپنے ہم عصر علماء اور دانشوران سے مختلف سوچ رکھتے تھے ۔وہ فرماتے تھے کہ ایک معاملہ تو ہمارا سیاسی ہے ، دوسرا مذہبی۔ اس لیے مذہبی معاملات کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے ۔ وہ سیاسی افطار پارٹی کے سخت مخالف تھے ، وہ کہتے تھے کہ یہ افطار خالص عبادت ہے اور اس کا مذاق اڑانے کی بالکل بھی گنجائش نہیں ۔ اسی طرح جو نیتا مسلمانوں کی ٹوپی وغیرہ لگا لیا کرتے ہیں ، ان سے بھی انھیں سخت اختلاف تھا۔قبروں پر کتبہ لگانے کے بھی وہ قائل نہیں تھے ۔ ایک بار فرمایاکہ میرے والد نے کہا مزاروں پر کتبہ لگانے میں کیا حرج ہے، تو میں نے کہا قرآن و حدیث سے کوئی دلیل مجھے عطا کیجیے اور کتبہ لگوادیجیے۔آج تک ان کے دادا اور والد کی قبر یں کتبے سے خالی ہیں۔
حضرت ایک ممتاز عالم دین اور پیر ِ طریقت تھے مگر زاہد ِ خشک نہیں تھے ۔ ان کا حسِّ مزاح بھی بہت قوی تھا ۔ ایک بارفرمایاکہ یہ دانشور کے اخیر میں وہی "ور” ہے جو جانور کے آخر میں ہے۔اسی طرح وہ وقتاً فوقتاً ہنسی مذاق کی باتیں کرتے رہتے ، تاہم ان کے مزاح میں پھکڑپن نہیں ہوتا تھا ، میں نے انھیں قہقہ لگاتے کبھی نہیں دیکھا ، بس زیرِ لب مسکراہٹ اور باوقار مسکراہٹ ۔ایک بار فرمایا کہ جو لوگ سعودی عرب کمانے کے لیے جاتے ہیں ان کی ٹوپی سر سے اتر جاتی ہےکیوں کہ پیسے کی گرمی سر پہ چڑھ جاتی ہے ۔
حضرت پرانے کانگریسی تھے اور کانگریس ہی کی طرف سے بائیس برسوں تک بہار قانون ساز کونسل کے ممبر رہے مگر آمنّا صدّقنا والے کانگریسی نہیں تھے بلکہ اپنی پارٹی اور اس کے لیڈروں کی بھی سخت گرفت کرتے اور غلط بات پر انھیں ٹوکنا نہ بھولتے۔ ایک دفعہ جب وہ ڈپٹی چیئرمین کے منصب پر تھے ، کسی کانگریسی سے کوئی غلطی ہوئی تھی اور فیصلہ حضرت ہی کو کرنا تھا ،کانگریسیوں کا دباؤ بھی حضرت پر بڑھ رہا تھا ، جب زیادہ پریشر ڈالا جانے لگا تو حضرت نے کہا تھا ” سدن کانگریس کی چوپال نہیں ہے” ۔ یو پی اے کے دورِ اقتدار میں بھی وہ مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ ایک بار حضرت نے فرمایا تھا کہ اس وقت کا جو وقف ایکٹ ہے وہ بہت ہی سخت قانون ہے اور اسے قانونی شکل دینے میں ستر فیصد میرا حصہ ہے۔
اپنی رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نےاپنے والد صاحب کے حکم سےجامعہ رحمانی مونگیر میں کچھ دنوں فتاویٰ نویسی کا فریضہ بھی انجام دیا تھایہ الگ بات ہے کہ ان کے فتاویٰ پر دستخط اس وقت کے مفتیان ِ کرام ہی کے ہوا کرتے تھے ۔ایک بار فرمایا کہ مجھے جب بھی کسی مسئلے پر اطمنان نہیں ہوتا تو سوال لے کر پہلے سیدھے ہم گھاٹ پر پہنچتے،کشتی کے ذریعے کھگڑیا ، پھر مانڈر مولانا عبد الصمد رحمانی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، سوال پیش کیا جاتا، مباحثہ ہوتا ۔۔جب میں مطمئن ہوجاتا تو واپس مونگیر آجاتا۔
دو سال سے زائد عرصے تک دارالعلوم دیوبند کے احاطہ مطبخ کے کمرہ نمبر 11 میں میرا قیام رہا ہے ۔ ایک بار حضرت نے اس احاطے کی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ عزیزم زمانہ طالب علمی میں میرا قیام بھی ادھر ہی کہیں تھا ، پڑھنے لکھنے میں یہاں میرے تین سال ایسے گزرے ہیں کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے آرام کیا ہے۔
مونگیر میں خانقاہ رحمانی تو ہے مگر یہاں عرس نہیں ہوتابلکہ کئی لحاظ سے دیگر خانقاہوں سے یہ منفرد ہے۔ہر سال نومبر کے مہینے میں ‘فاتحہ خوانی’ کے عنوان سے یہاں درود شریف کی مجلس منعقد ہوتی ہے اور جامعہ رحمانی کے نئے فضلاء کی دستاربندی بھی ہوتی ہے۔اس موقعے سے ہزاروں مریدین ، متعلقین اور طلبہ کے گارجین حاضر ہوتے ہیں اور شہر بھر میں گہما گہمی رہتی ہے ۔ ایک دفعہ کسی نئے پولیس افسر نے یہ اعتراض کیا کہ اتنے بڑے مجمعے کے قیام و طعام کا انتظام کیسے ہوتا ہے؟ حضرت نے فرمایا : سنیے !میرے ابا کے (غالباً )چار لاکھ مرید تھے اور میرے بھی ان سے زائد ہی ہوں گے ، اگر ہم ان سب سے ایک ایک روپیہ بھی لیں تو بتائیے کتنے پیسے اکٹھا ہوں گے ؟ وہ تو ہم سب سے لیتے نہیں ہیں ، افسر نے پھر کچھ نہیں پوچھا۔
ہمارے گاؤں مشکی پور (کھگڑیا) میں وقف کے ایک بڑے اراضی پر برسوں سے جھگڑا چلا آرہا ہے ۔ اس سلسلے میں میں نے حضرت سے تذکرہ کیا ، انھوں نے سنجیدگی سے اس مسئلے کو لیا، میں نے پوری تفصیل بتائی اور اس وقت تک دستاویزکی صورت میں جو بھی کاغذات دستیاب تھے انھیں ارسال کیا، زمینی صورت ِ حال کا جائزہ لینے حضرت نے امارت شرعیہ سے باضابطہ ایک صاحب کو مشکی پور بھیجا ۔ میں بھی گاہے بگاہے انھیں اپڈیٹ دیتا رہا اور حضرت بھی پوری فکرمندی سے دلچسپی لیتے رہے ۔ اس سلسلے میں ان سے تفصیلی گفتگو کے لیے وفد کی شکل میں بھی ہم مونگیر حاضر ہوئے ، ہمارے کارواں میں سابق ایم ایل اے جناب نعیم اختر ، جناب افتخارمرحوم،جناب وکیل اور جناب ارشد صاحبان شامل تھے۔ ملاقات کے لیے دن کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ملا تھا، خیر ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دوسرے ملاقاتیوں کو فارغ کرکے ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور دوتین گھنٹے تک گفتگو جاری رہی ۔ افتخار مرحوم نے زمین کی پوری تفصیل سے انھیں آگاہ کیا ، نعیم صاحب نے بھی کئی چیزوں سے انھیں باخبر کیا لیکن زیادہ تر روئے سخن میری ہی طرف رہا ، وقف اور اس کی پیچیدگیوں کے ساتھ دیگر امور پر بھی گفتگو ہوئی۔
ہم چند نوجوانوں نے اپنے محلے (حافظ محلہ)میں مسجد کے لیے ایک زمین حاصل کرنے کی کوشش کی ، میں نے حضرت سے بھی ذکر کیا اور مالی فراہمی کے سلسلے میں ان سے تعاون کی درخواست کی ، انھوں نے کہا کہ تین مہینے بعد مجھے یاد دلاؤ ۔ تین ماہ بعد یاد دہانی کرائی گئی ۔ کہنے لگے لاک ڈاؤن کا زمانہ چل رہا ہے ، سوچا تھا کہ کچھ دنوں بعد حالات معمول پر آجائیں گے مگر ایساہوا نہیں، دعا کرو ، اس سلسلے میں ضرور کوشش کروں گا ان شاء اللہ۔
ایک مرتبہ میں نے عرض کیا ،حضرت ! بعض حضرات کا کہنا ہے مسجد کی زمین وقف کراکے رجسٹری کرانے سے خرچ بہت کم آئے گا؛مگر یہ جھوٹ نہیں ہوگا ؟اس لیے کہ زمین تو اگلےنے فروخت کی ہے۔ حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا: الٹے سیدھے کاموں کے لیے تو لوگ روز جھوٹ بولتے ہیں ، اچھے کام کے لیے اگر ایک جھوٹ بول لیا تو کیا ہوجائے گا۔ پھر سنجیدگی سے سمجھایا کہ مسجد کی زمین کو وقف بورڈ سے ضرور رجسٹرڈ کرالینااور مسجد کا ذمہ دار پنج وقتہ نمازی ہونا چاہیے ، اور امام جامعہ رحمانی کے افکار کا حامل ہو وغیرہ وغیرہ۔
کورونا کے زمانے میں حضرت نو ماہ کے طویل عرصے تک مسلسل مونگیر میں مقیم رہے مگر جب اس آفت کا زور ذرا کم ہوا اور دنیا معمول پر آنے لگی تو وہ معمول سے زیادہ متحرک نظر آنے لگے اور اسفار وغیرہ شروع ہوگئے اور الگ الگ نوعیت کے کام ایسی رفتار سے انجام دینے لگے گویا ملک الموت نے کان میں کہہ دیا ہو کہ بس چند دن تمہارے پاس باقی رہ گئے ہیں جو کرنا ہے جلدی سے کرلو۔
حضرت کو اپنی مادری زبان اردو سے بھی عشق کے درجے کا لگاؤ تھا ، وہ علمی ونظری اور عملی و تحریکی ہر حوالے سے اردو کے گیسوئے برہم کو سنوارنے میں لگے رہے ، اس کے تحفظ و ترقی کے لیے زبانی ، قلمی اور قانونی لڑائی بھی لڑتے رہے ۔ خود بھی شستہ اردو بولتے اور اپنی جامعہ کے اساتذہ و طلبہ کو بھی اس رنگ میں ڈھالنے کی شاندار کوشش کی بلکہ انھوں نے تحسین ِ خط یا حسن ِ تحریر کا بھی ایک سلسلہ قائم کیا اور اسے باضابطہ تعلیم کا حصہ قرار دیا ۔جامعہ رحمانی کا ہر طالب ِ علم اس کا پابند تھا اور آج بھی ہے یہی وجہ ہے کہ خوب صورت تحریر جامعہ رحمانی کی پہچان بن گئی ، شاید ہی یہ امتیاز کسی اور ادارے کو نصیب ہوا ہو۔حضرت اور اردو زبان ایک مستقل عنوان ہے جسے بعد کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ انتقال سے ڈیڑھ ماہ قبل حضرت نے تعلیمی بیداری اور اردو زبان کی ترقی وترویج اور تحفظ کے لیے ایک زبردست مہم چھیڑی ، پہلے تو انھوں نے پوری ریاستِ بہار کے ایک ایک ضلعے اور ایک ایک گاؤں میں اس کا صور پھونکا،باضابطہ یکم فروری تا سات فروری 2021 ” ہفتہ برائے ترغیبِ تعلیم و تحفظِ اردو ” کا انعقاد کیا گیا ۔ بعد کو یہی سلسلہ ریاستِ جھارکھنڈ میں جاری ہوا۔ اہل اردو کو نیند سے بیدار کرکے 14 فروری کو المعہدالعالی ،پھلواری شریف پٹنہ میں ایک مشاورتی اجلاس رکھا گیا جس میں بہار کے ہر ضلع کے ذمہ دار حضرات کو مدعو کیا گیا تھا ، میں بھی مدعو تھا ، حاضر ہوا ، بڑے بڑے پروفیسران ، دانشوران ، علماء اور صحافی وغیرہ بھی تشریف فرما تھے، پروگرام شروع ہوا ، مختلف آراء سامنے آئیں ، میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا تھا مگر قلت ِ وقت کی بنا پر موقع نہیں مل پایا، حضرت کا نمبر آیا تو انھوں نے بڑی قیمتی باتیں کہیں جن میں سے ایک اہم اقتباس یہ تھا ” اردو کو دودھ پینے والے مجنوں سے واسطہ رہا ہے ، اب اسے خون دینے والے مجنوں کی بھی ضرورت ہے۔
ہم اردو بولیں گے ، لکھیں گے ،اردو کو پھیلائیں گےتو اردو آگے بڑھے گی، ترقی کرے گی ، آنے والی نسل کو اردو پڑھائیں گے ، انھیں تہذیب سے آراستہ کریں گے تو سماج میں شائستگی اور تمیز آئے گی۔”(خطبہ صدارت) بامشافہہ یہ میری حضرت سے آخری ملاقات تھی۔
برادر زادہ عزیزم ابو بکر صدیق کا داخلہ جامعہ رحمانی مونگیر میں کرانا تھا اور سوئے اتفاق کہ ضابطے کی کاروائی کا وقت نکل چکا تھا ، میں نے ڈرتے ڈرتے حضرت کو فون کیا ، اس وقت غالباً وہ سیوان میں تھے، فرمایا ٹھیک ہے ، میں مونگیر سے باہر ہوں ، تم فلاں تاریخ کو مونگیر جاکر حافظ عبد العظیم صاحب سے ملاقات کرو ، میں بھی ان سے کہہ دوں گا ،داخلہ ہوجائے گا۔ خیر داخلہ ہوگیا ۔ کورونا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا کیا بنا سب جانتے ہیں ، بچوں کی تعلیم کا بڑا حرج ہوا ۔ ابو بکر بھی کافی روز سے گھر ہی پہ تھا ، بھائی جان اس کی پڑھائی کو لے کر بڑے فکرمند تھے ، مجھ سے کہا کچھ کرو! میں نے فون کیا اور عرض کیا ، حضرت! اس وقت جامعہ تو بند ہے اور بھتیجے کی پڑھائی کا بڑا نقصان ہورہا ہے ، اگر کچھ گنجائش ہو تو یہ جامعہ چلا جائے ۔ پہلے تو حضرت نے مجھے ڈانٹ لگائی پھر فرمایا کہ اس طرح کے کئی طلبہ یہاں مقیم ہیں اور تمہاری آنکھ اب کھلی ہے ۔ خیر ان کی ڈانٹ میں بھی ہمدردی و محبت پنہاں ہوتی تھی ، بچہ گیا اور اپنی پڑھائی میں لگ گیا۔ یہ 18 مارچ کا واقعہ ہے اور حضرت سے میری یہی گفتگو آخری گفتگو ثابت ہوئی۔3 اپریل کو میں اپنے پڑوس کی ایک بچی کی شادی کی تقریب میں شریک تھا ، تقریب ابھی جاری ہی تھی ، خبر ملی کہ حضرت دنیا سے رخصت ہوگئے ، یقین جانیے میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی ، میں گرتا پڑتا گھر آیا اور بہت دیر تک بچوں کی طرح روتا رہا ، ایسا لگا کہ میرا باپ مرگیا ہو،اس وقت کی کیفیت بیان کرنے سے میرا قلم قاصر ہے ، میں نے بہت چاہا کہ ان کی یادوں کو یکجا کروں لیکن ذہن و داغ کے ساتھ قلم بھی ماؤف ہوچکا تھا اور یہی نہیں تقریباً چھ ماہ تک میں کچھ بھی لکھنے سے قاصر رہا۔رہے نام اللہ کا ۔
آتی ہی رہے گی ترے انفاس کی خوشبو
گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا