ابراہیم علوی اور لکھنؤکے ’آتش پرست‘

معصوم مرادآبادی

لکھنؤ کو تہذیب و شائستگی کا شہر اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں سڑک چلتے لوگ بھی ادب وآداب سے گفتگو کرتے تھے، لیکن اب لکھنؤ کی وہ پہچان باقی نہیں رہ گئی ہے۔آج لکھنؤکی پہچان یہاں کی تاریخی عمارتوں سے ہے یا پھر ان لوگوں کی وجہ سے جو مشکل حالات میں بھی لکھنوی تہذیب کو سینے سے لگائے کسی کونے کھدرے میں خاموش بیٹھے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخصیت سینئرصحافی احمد ابراہیم علوی کی بھی ہے۔انھوں نے لکھنوی تہذیب کو ایک ایسے زمانے میں سجو کر رکھا ہے جب شہروں کی پہچان ان کی تاریخ وتہذیب کی بجائے کھانوں اور پکوانوں سے ہونے لگی ہے۔ لکھنؤ میں آج کل ٹنڈے کبابی کا بڑا زور ہے۔ پچھلے دنوں کیفی اکیڈمی کی ایک تقریب میں لکھنؤ جانا ہوا تو ایک صاحب نے میرا نام سن کر کہا کہ ”اچھا اچھا آپ اسی مرادآباد سے آئے ہیں جہاں کی بریانی بہت مشہورہے۔“حالانکہ مرادآباد میں جو کچھ پکایا جاتا ہے اسے بریانی نہیں پلاؤ کہا جاتاہے۔ اسی طرح دہلی کو لوگ اب میروغالب کی بجائے نہاری اور قورمے سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ جب شہروں کی اصل شناخت شکم میں سماجائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ المیہ کتنا گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔ بہرحال آج مجھے یہاں اپنے بزرگ دوست احمد ابراہیم علوی کے بارے میں گفتگو کرنی ہے، جو ایک دن مجھے لکھنؤ کی نہاری اور کلچے کھلانے بہت دور لے گئے تھے، ان کی تمام تر محبت اورخلوص کے باوجود مجھے اس میں کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوا۔پھر بھی ابراہیم بھائی کا دل رکھنے کے لیے میں نے لکھنؤ کے نہاری اور کلچوں کی تعریف کی۔

ابراہیم علوی اور لکھنؤکے ’آتش پرست‘
ابراہیم علوی اور لکھنؤکے ’آتش پرست‘

ابراہیم بھائی ایک شائستہ اور خوش پوش انسان ہیں۔ہمیشہ سوٹ بوٹ اورٹائی میں نظرآتے ہیں۔ برسوں پہلے جب کسی نے لکھنؤ میں ایک اردو اخبارکے ایڈیٹر کے طورپر ان کا تعارف کرایا تو مجھے ان پر یقین نہیں آیا۔ کسی اردو اخبار کا ایڈیٹر اتنا خوش پوش بھی ہوسکتا ہے، یہ میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔اردو اخبارات کے مدیران کی شناخت میں فارسی کی یہ ترکیب خاصی کارآمد ثابت ہوئی ہے۔”پیر، باورچی،بھشتی،خر۔“ یعنی وہ اخبار کے مالک، ایڈیٹر، پرنٹر وپبلشر اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ممکن ہے سب کچھ ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ابراہیم علوی ان تمام صفات کے باجود بڑے خوش پوش اور خوبصورت تھے۔انھوں نے اپنے اخبار ”آگ“ کا اجراء پندرہ روزہ کے طورپر کیا تھا، لیکن اس کا اصل بانکپن روزنامہ ہونے کے بعد سامنے آیا اور اس دور کو لکھنؤ کے ’دورابراہیمی‘ سے تعبیر کیا گیا۔ انور ندیم کے لفظوں میں:

”آج لکھنؤ کے اردو والے ’دورابراہیمی‘ میں سانس لے رہے ہیں۔ علوی صاحب کو ہم نے برسوں پہلے ان کے کاکوری پس منظر کی خودپسند لن ترانیوں کی بغل میں اس پندرہ روزہ اخبار کے ساتھ دیکھا تھا، جس کی جلتی بجھتی آگ حلقہ احباب میں مذاق وتمسخر کا موضوع بنی رہتی تھی۔ یقینا یہ حیرت ومسرت کا مقام ہے کہ جناب احمد نے اپنے لیے جس کیریر، جس اخبار کا سپنا دیکھا تھا، اس نے مقدس آگ کے روشن الاؤ سے اہل وطن کو نواز دیا، کسی تحریک کا نام لیے بغیر درجنوں لوگوں کو اردو نثر وصحافت کی خدمت کے لیے تیارکرلیا۔“

(فلیپ’ادبی ہستیاں وبستیاں‘)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم بھائی کی اصل شناخت کاکوری کی وہ خانقاہ ہے جس کا دیدار انھوں نے برسوں پہلے ہمیں بھی کرایا تھا اور وہ ایک ٹیمپو میں بٹھاکر ہمیں وہاں لے گئے تھے۔ واقعی وہاں جاکر بڑا روحانی سکون حاصل ہوا تھا۔ایسا ہی جیسا کہ ابراہیم بھائی کے ہیلتھ اسکوائر والے مکان میں محسوس ہوتا ہے۔ لکھنؤ والے ان کی اس روحانی نسبت کی وجہ سے مرعوب ہیں یا پھر ان کی ’آگ‘ والی صحافت کی وجہ سے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ لکھنؤوالے انھیں دل و جان سے چاہتے ہیں، لیکن ان سے اتنا ہی دور بھی رہتے ہیں جتنا کہ آتش پرست آگ سے۔ اس کا عملی تجربہ ہمیں گزشتہ سال اس وقت ہوا جب اترپردیش اردو اکادمی نے اردو صحافت کے دوسوسال کی تکمیل پر ایک قومی سیمینار برپا کیا تھا۔ ابراہیم بھائی اور میں اس سیمینار میں ایک ساتھ پہنچے تھے۔ اسٹیج سج رہا تھا۔ مجھے امیدتھی کہ اردو صحافت پر اس اہم سیمینار کی صدارت ابراہیم بھائی کو سونپی جائے گی،کیونکہ وہی اس وقت لکھنؤ میں اردو کے سب سے سینئر صحافی ہیں،مگر پروگرام کے آخر تک بھی انھیں اسٹیج پر نہیں بلایا گیا۔ بعد کو میں نے ناظم سیمینارسے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہا کہ”ابراہیم بھائی کبھی کبھی جوش خطابت میں خود پروگرام کے میزبانوں کی ہی بخیہ ادھیڑ دیتے ہیں، اس لیے یہ احتیاط برتی گئی۔“میرا خیال ہے کہ اس سیمینار کا عنوان اگر’اردو صحافت سیمینار‘ کی بجائے ’اردو احتیاط سیمینار‘ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا، کیونکہ دو روزہ سیمینار میں ابراہیم علوی ہی نہیں تمام صحافیوں سے اتنی احتیاط برتی گئی تھی کہ کسی بھی صحافی کو اسٹیج پر نہیں بٹھایا گیا۔ سب پروفیسر حضرات ہی صدارت ونظامت اور مہمان خصوصی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ابراہیم بھائی کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ اس بھیدبھاؤ کا آغاز اس وقت سے ہوا ہے جب سے اعظم گڑھ کا ایک اسکالر براستہ دہلی لکھنؤ پہنچا ہے۔احمدابراہیم علوی جنھیں لکھنؤ والے ’ابراہیم بھائی‘ کے مختصر نام سے پکارتے ہیں، میرے پرانے اور مخلص کرم فرما ہیں۔ ان سے میرے تعلقات کا دورانیہ تقریباً ساڑھے تین دہائیوں کو محیط ہے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہواہو کہ میرا لکھنؤ یا ابراہیم بھائی کا دہلی کا سفر ہو اور دونوں کی ملاقات نہ ہوئی ہو۔ وہ لکھنوی تہذیب، شرافت اور شائستگی کے ساتھ ساتھ پوری طرح صحافت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ رضوان فاروقی نہ جانے کب سے انھیں شاعری کے پالے میں لانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن ابراہیم بھائی ان کے قابو میں نہیں آرہے ہیں۔جب بھی ابراہیم بھائی کا دروازہ کھٹ کھٹائیے تو وہاں سے رضوان فاروقی یہ کہتے ہوئے برآمدہوتے ہیں کہ”ایک شعری نشست کے سلسلہ میں آیا ہوا تھا۔“ ابراہیم بھائی کی مروت کہئے یا شرافت کہ وہ رضوان فاروقی کو کبھی منع نہیں کرتے اور ان کے کہنے پر ہر شعری نشست کی صدارت کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔رضوان فاروقی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب تک کتابت وصحافت کی دنیا میں تھے تو اچھے بھلے آدمی تھے، لیکن جب سے انھیں شاعری کا عارضہ لاحق ہواہے، وہ کسی کام کے نہیں رہے ہیں۔انھیں دیکھ کر اکثر ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ دوپرانے دوست ایک عرصہ بعد روبرو ہوئے تو ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنے کے بعد ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا کہ کتنے بچے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ”تین لڑکے تھے، مگر اب تو بس ایک ہی ہے۔“ اس پر پہلے دوست نے تیسرے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا”وہ شاعر ہوگیا۔“

جہاں تک ابراہیم بھائی کا معاملہ ہے وہ خالص صحافی ہیں اور ان کی پوری زندگی اردو صحافت کے بال وپر سنوارتے ہوئے گزری ہے۔ ان سے میری شناسائی کا واحد حوالہ بھی صحافت ہی ہے۔ حالانکہ وہ بہت اچھے فکشن رائٹر ہونے کے ناطے ادب کی دنیا میں بھی دخیل ہیں، لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صحافت میں گزارا ہے، اس لیے میں انھیں ایک بہترین صحافی کے طورپر زیادہ جانتا ہوں۔ ان کی صحافتی تربیت حیات اللہ انصاری کے ہاتھوں ہوئی ہے اور انھوں نے روزنامہ ’قومی آواز‘میں ان کی سرپرستی میں کام کیا ہے۔ حیات اللہ انصاری ان کی صلاحیتوں کے قائل تھے۔ احمدابراہیم علوی اب اپنی عمر کے 83 برس مکمل کرچکے ہیں، لیکن صحت کے معاملے میں پوری طرح ہشاش بشاش ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو غالباً’ہیلتھ اسکوائر‘میں ان کی رہائش ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ خود کھانے کی بجائے دوسروں کو کھلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ لکھنؤ کے پچھلے سفر میں جب میں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ خود ہی ڈرائیور سمیت اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ’رِداہوٹل‘ آگئے اور کچھ دیر کی گفتگو کے بعد کہا کہ ”چلئے ٹنڈے کے کباب کھاتے ہیں۔“امین آباد میں ٹنڈے کبابی کی بڑی سی دکان میں لے جاکر انھوں نے کبابوں کا آرڈر دیا اور اپنے حصہ کے کباب بھی مجھے ہی کھلادئیے۔

ابراہیم بھائی دوستوں پر خرچ کرنے کے معاملے میں بہت بڑا دل رکھتے ہیں۔2010 کا قصہ ہے۔ حیدرآباد میں روزنامہ ’سیاست‘ نے اردو صحافت کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس میں پاکستان سے بزرگ صحافی محمود شام اور جنگ کے ایڈیٹر سہیل وڑائچ کے علاوہ ہندوستان کے کئی شہروں سے اردو مدیران حیدرآباد میں جمع تھے۔ ابراہیم بھائی لکھنؤ سے اور میں دہلی سے وہاں پہنچے تھے۔ کانپور سے ’انوار قوم‘ کے ایڈیٹر زبیر فاروقی بھی تھے۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد ہم تینوں کو ایک ہی فلائٹ سے دہلی آنا تھا۔ حیدرآباد کے خوبصورت ائیر پورٹ پر چائے کی خواہش نے زور مارا۔ ایک چائے کی قیمت دوسو روپے تھی۔ ہم چائے پینے کی خواہش ہی کو پینے کا ارادہ کررہے تھے کہ پیچھے سے ابراہیم بھائی نے پورے چھ سو روپے نکال کر کیش کاؤنٹر پر دیدئیے۔ اس طرح ابراہیم بھائی کی مہربانی سے ہم نے ایئر پورٹ کی نہایت مہنگی چائے نوش کی۔ حیدرآباد کی اس تاریخی کانفرنس کا ایک اور واقعہ یاد ہے جس کے بعد ابراہیم بھائی ہم سے کافی عرصہ ناراض بھی رہے۔ کانفرنس کے ایک سیشن میں احمد سعید ملیح آبادی، محمودشام، سہیل وڑائچ، ابراہیم بھائی اور یہ خاکسار ایک ساتھ اسٹیج پر تھے۔ ابراہیم بھائی جب تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو انھوں نے اردو صحافت سے زیادہ اپنے اخبار”آگ“ پر گفتگو کی اور کچھ مبالغہ سے کام لیا، جووہ اکثر اپنی تقریروں میں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ”میرے اخبار کی اشاعت لاکھوں میں ہے اور وہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ پریس میں چھپتا ہے۔لکھنؤ میں اتنا بڑا دفتر بھی کسی اردو اخبار کے پاس نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔“ ان کی گفتگو سن کر لوگوں کے کان کھڑے ہوئے اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ یہ باتیں انھوں نے حیدرآباد کے اسی روزنامہ ’سیاست‘ کے پروگرام میں کہیں تھیں، جو بلاشبہ جنوبی ہند میں اردو کا سب سے بڑا اور معیاری اخبار ہے۔ اس کا دفتر بھی نہایت کشادہ اور بڑی بلڈنگ میں ہے۔ شام کو پروگرام ختم ہونے کے بعد جب مہمانوں کو ’سیاست‘ کے دفتر لے جایا گیا تو میں نے ابراہیم بھائی سے مذاقاً کہا کہ”کیا آپ کا دفتر اس سے بھی بڑا ہے۔“وہ میری بات کا برا مان گئے۔ بہرحال مجھے امید ہے کہ وہ اس واقعہ کو نقل کرنے کا برانہیں مانیں گے، مگر اس میں کیا شک ہے ’آگ‘نے روزنامہ ہونے کے بعداحمد ابراہیم علوی کی ادارت میں ترقی کی جو منزلیں طے کی ہیں وہ اس عرصے میں لکھنؤ کے کسی اور اردو اخبار نے طے نہیں کیں۔

ابراہیم بھائی نے ”آگ“ کا اجراء1960میں میری پیدائش سے بھی پہلے کیا تھا۔ ’آگ‘ برسوں پندرہ روزہ اخبار کی شکل میں نکلتا رہا، لیکن اس کا اصل بانکپن اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے کاظم علی خاں سے ایک معاہدہ کرکے اس کی ملکیت ان کے نام کردی مگر ادارت اپنے ہی نام رکھی۔ ابراہیم بھائی جتنے بھی دن اس اخبار کے ایڈیٹر رہے، پابندی سے شام کو اس کے دفتر جاتے تھے۔ ان کے گھر پر اردو، ہندی اور انگریزی کے تما م اخبار آتے تھے، جن کی مدد سے وہ اپنا اداریہ لکھتے تھے۔رات گئے واپس آتے اور پھر صبح کو بوقت فجر بیدار ہوجاتے۔صبح کو فجر کی نماز میں ڈاکٹر طارق علوی سے ان کی ملاقات ہوتی تو وہ ان کی نبض چیک کیا کرتے تھے جو ہمیشہ ان کی صحت کا سراغ دیتی تھی۔ خدا ان کی نبض کو ہمیشہ ڈاکٹر طارق علوی جیسے نباض کے ہاتھوں میں محفوظ رکھے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare