امارت شرعیہ کے پہلے مبلغ حضرت مولانا یاسین قاسمی
✒️سرفراز احمد قاسمی، حیدرآباد
علمائے بھاگلپورسےمتعلق میری کتاب زیرترتیب ہے اوراس پرکام جاری ہے، مہینوں قبل شیخ القراء حضرت قاری احمداللہ صاحب(1944تا10فروری 2024) سے بذریعہ فون ایک دن میری گفتگو ہورہی تھی کہ اسی درمیان قاری صاحب نے مجھ سےپوچھ لیا کہ” علمائے بھاگلپورپر جو کام آپ نے شروع کیا تھا وہ کہاں تک پہونچا؟ یہ کام جاری رہنا چاہئے اورجلد از جلد آپ اسکی تکمیل کیجئے، ہمت نہیں ہارنا ہے” میں اسکے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ حضرت کام جاری ہے، تکمیل کےلئے دعاء فرمائیں، فرمانے لگے ہاں دعاء تو کر رہا ہوں لیکن آپ کام جاری رکھئے یہ رکنا نہیں چاہئے، اگراس معاملے میں کسی تعاون کی ضرورت آپ کو ہوگی تومیں وہ بھی کروں گا، آپ کی یہ کتاب ان شاءاللہ جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور سے شائع ہوگی”۔
اسی دوران حضرت قاری صاحب نےفرمایاکہ گیا سائڈ کے ایک مولانا یاسین صاحب تھے، اپنے علاقے میں انکی بڑی خدمات رہی ہیں، مولانا عبدالرحمن صاحب سابق صدر جمعیت علماء بھاگلپور(1918تا1995) اورمولانا یعقوب صاحب کی تعلیم کےلئے انھوں نے رہبری بھی کی اور ان دونوں کو پڑھنے کےلئے دربھنگہ لےگئے تھے، مولانا یسین صاحب کا نام نامی میرے لئے نیا تھا اورمیں نے پہلی بار سنا تھا، اس لئے میں نے پوچھ لیا کہ حضرت کیا انکا کوئی اتہ پتہ مل سکتا ہے؟ فرمایا انکےلڑکے مولانا مجیب اللہ ہیں، میں نے پھر پوچھا کیا انکا رابطہ نمبر ہے آپ کے پاس؟ فرمایا نہیں! میرا تجسس بڑھنے لگا کہ آخر مولانا یسین صاحب کون ہیں؟ اورانکے بارے میں معلومات کیسے حاصل ہوگی؟ بھاگلپورعلاقے کے کئی لوگوں سے بات ہوئی تو میرے استفسارپرانھوں نے بھی بتایاکہ مولانا یسین صاحب انتہائی متقی اورپرہیزگار آدمی تھے، بھاگلپور کے مختلف علاقوں میں کثرت سے انکا آنا، جانا اورانکی آمدورفت ہوتی تھی، ناتھ نگر، چمپانگر، رادھانگر، ہرنتھ، عمادپور، جواکھر، لکھنپور اورکرنپور وغیرہ گاؤں میں ہفتوں انکا قیام ہوتا تھا، اسوقت سواری کا انتظام نہیں تھا اسلئے ٹرین سے اترکر میلوں پیدل سفرکرتے تھے۔
ایک دن میں نے اپنے دوست مولانا عبدالغافر قاسمی فرزند حضرت مولانا سید طاہرحسین گیاوی صاحب رح کو فون لگایا اور ان سے پوچھاکہ آپ کے علاقے کے کوئی مولانا یسین صاحب تھے انکے بارے میں کچھ معلومات درکارہے کیا آپ انکے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے تواس بارے میں نہیں معلوم، اباسے پوچھ کرآپ کو بتاؤں گا، پھردوچار دن بعد انکا فون آیاکہ ابا سے میں نے معلوم کیا تھا، مولانا یسین صاحب گرہا نامی گاؤں کے تھے، انکے بیٹے مولانا مجیب اللہ ابھی باحیات ہیں، آپ کو انکا نمبر دے رہا ہوں، نوٹ کیجئے اور رابطہ کیجئے، نمبر لیکر میں نے ان سے رابطہ کیا، اپنا تعارف کرایا، اسکے بعد تو اب مہینے دو مہینے میں ان سے علیک سلیک اور خیرخیریت سےآگاہی ہوتی رہتی ہے، مولانا مجیب اللہ صاحب کے توسط سے جوکچھ مل سکا اسے (عندذکرالصالحین تنزیل الرحمتہ یعنی نیک لوگوں کا تذکرہ کرتے وقت رحمت نازل ہوتی ہے) کےتحت نظرقارئین کیاجارہاہے۔
حضرت مولانا یسین صاحب کا آبائی وطن گرہا نامی گاؤں ہے جوضلع پلاموں اورڈالٹن گنج سے 30 کیلومیٹر اور گیا سے تقریبا 50 کیلومیٹرکے فاصلے پرہے، اس گاؤں میں چار پانچ مساجد اور ایک دومدارس بھی ہیں، یہاں ایک ادارہ مولانا یاسین صاحب کی یادگار بھی ہے، ہزار بارہ سو سے زائد مسلم گھروں کی آبادی ہوگی، اسی گاؤں میں مولانا یسین صاحب کی ولادت ہوئی، انکے والد کا نام سلامت خاں تھا، مولانا یسین صاحب کے والد محترم سلامت خاں ایک غریب آدمی تھے اور محنت مزدوری کرکے گذر بسر کرتے تھے، انھوں نے اپنے بیٹے مولانا یسین صاحب کوبڑی محنت ومشقت سے پڑھایا اور عالم فاضل بنایا، مولانا یسین صاحب کی پیدائش کب ہوئی؟ اور ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی یہ معلوم نہ ہوسکا، دارالعلوم دیوبند سے انھوں نے تعلیم مکمل کی، حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب رح انکے رفیق درس بتائے جاتے ہیں، انکی فراغت دارالعلوم دیوبند سےکب ہوئی یہ بھی معلوم نہ ہوسکا، کیونکہ حکیم الاسلام، علامہ کشمیری کےشاگرد ہیں اور علامہ کشمیری کےتلامذہ کی جولسٹ میرے پاس ہے اس میں مولانا یسین صاحب کا نام نہیں ہے، مولانا یسین صاحب تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت مولانا سید محمدعلی مونگیری سے وابستہ ہوکر ان سے بیعت ہوگئے، حضرت مونگیری سے انھیں خلافت بھی حاصل ہوئی اورپھرحضرت مونگیری ہی کے مشورے سے امارت شرعیہ پٹنہ سے وابستہ ہوگئے اوربحیثیت مبلغ امارت میں خدمات انجام دیتے رہے، کہاجاتاہے کہ وہ امارت شرعیہ کے اولین مبلغ ہیں، بھاگلپور، پورنیہ، فاربس گنج اور36گڑھ کے مختلف علاقوں میں انھوں نے نمایاں خدمات انجام دیں، ان جگہوں کا وہ اکثر سفرکرتے اورللہ فی اللہ دینی، اصلاحی اورسماجی خدمات انجام دیتےرہے، وہ انتہائی متقی اورپرہیزگارعالم تھے، ہمیشہ اپنے ساتھ وضووغیرہ کےلئے ایک لوٹا، ایک تسبیح، ایک مسواک اور نماز کے لئے ایک مصلی رکھتےتھے، اسکے علاوہ ایک جھولا بھی انکے ساتھ ہوتا تھا جس میں اورادو وظائف کی کچھ کتابیں ہوتی تھی، سفرو حضر میں یہی انکا توشہ ہوت اتھا، انھوں نے اپنی زندگی میں دوحج کیا پہلا حج 1952ءمیں اور دوسرا 1978ء میں، حج کے مبارک سفر میں بھی انکا کل سامان یہی تھا، اسلئے سفرحج کے دوران کہیں انکا سامان چیک نہیں ہوا۔
دور دراز علاقوں میں جہاں کہیں بھی وہ جاتے کہیں ایک رات،کہیں چنددن کہیں ایک ہفتہ اور کہیں اس سے زیادہ قیام کرتے،اکثر روزے سے رہتے لوگ دعوت دیتے اورکھانا پیش کرتے اورکہتے کہ حضرت کھانا کھالیجئے تو وہ کہتے میں روزے سے ہوں،رمضان کے علاوہ سال میں تین ماہ وہ روزہ رکھتے تھے،گویا سال کا ایک تہائی حصہ انکا روزے کی حالت میں گذرتاتھا،شہرسے دور چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات کا سفرکرتے،ناخواندہ لوگ،بےجا رسم ورواج میں ڈوبا سماج،جہالت وگمراہی میں بھٹکتی انسانیت،جہالت وبدعقیدگی کی کثرت اورسیلاب کے درمیان وہ لوگوں کی اصلاح کرتے، غلط رسم ورواج کی نشاندہی کرکے اس سے روکتے، اسلام کی درست تعلیمات کی رہنمائی کرتےاور اس پر عمل پیراہونے کی تبلیغ وتلقین کرتے، شراب وجوا کے کاروبار سے نفرت دلاتے اوروعیدیں سناتے تھے اسطرح ایک بڑے حلقے کو انھوں نے راہ راست پرلایا، وہ بلاکسی معاوضے کےتعویذ وغیرہ کے ذریعے بھی لوگوں کے مسائل حل کرتے، اللہ تعالی نے انکے ہاتھ میں بڑی شفاء رکھی تھی، انسانیت کی بنیاد پر وہ ہندو مسلم سب کی خدمت کرتے اورسب کے مسائل حل کرتے،اسی وجہ سے لوگوں میں انکی بڑی مقبولیت ہوگئی تھی، جس علاقے میں جاتے انکی آمد کی اطلاع لوگوں کو ہوجاتی تو ملاقات کےلئے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے، بھاگل پور اور اطراف کے علاقوں میں خاص طورسے انکی نمایاں خدمات رہیں، کئی گاؤں میں مساجدومکاتب کا نظام انکی تحریک اورنگرانی میں قائم ہوا، کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں ایسے تھے جہاں مسلمان تو تھےلیکن مساجد نہیں تھی، انھوں نے وہاں مساجد تعمیرکرائی،اسطرح وہ دینی، تعلیمی، اصلاحی، مذہبی اورسماجی خدمات انجام دیتے رہے، چھتیس گڑھ کا ایک بڑا شہر امبیکاپور کے نام سے ہے،جہاں آج ایک درجن سے زائد مساجدہیں، کئی ادارے ہیں، یہاں کا ایک ہندو مہاراجہ تھا، اسکو کمر صاحب کے نام سے لوگ جانتے تھے، اسکی کوئی اولاد نہیں تھی، اولاد کے حصول کےلئے اس نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا، کوئی اولاد نہیں ہوئی، اس مہاراجہ کے یہاں مولانا یسین صاحب کے جاننے والے کچھ مسلمان بھی کام کرتے تھے، انھوں نے مہاراجہ سے کہاکہ ہمارے ایک مسلمان بابا (گروجی) ہیں آپ ان سے ملئے تو آپ کی یہ پریشانی دورہوجائے گی، مہاراجہ نے مولاناکو اپنے یہاں بلوایا اور پھر حضرت مولانا کے ذریعے کچھ دنوں کے اندر اللہ تعالی نے اس مہاراجہ کو اولاد عطاکردیا، اس سے مہاراجہ بہت خوش ہوا اورحضرت مولانا کا ہمیشہ کےلئے معتقد ہوگیا اوربے انتہاعزت وتکریم سے پیش آنےلگا، اسکے بعد سے جب کبھی مولانا کا مہاراجہ کے دربار میں جانا ہوتا تو مہاراجہ باضابطہ اپنی سواری مولانا کے گھرپر بھیجتا اورپھر مولانا اسکے گھوڑے پر سوار ہوکرشاہانہ انداز میں اسکے پاس جاتے، ایک دن مہاراجہ، حضرت مولانا سے کہنے لگا گروجی! آپ نے میری بڑی پریشانی دورکردی، آپ نے میرا بڑا ہیلف کیا، بتائیے اسکے بدلے میں آپ کو کیا چاہئے؟ حضرت مولانا نے جواب دیا "مجھے کچھ نہیں چاہئے، میں تویہ سب کام صرف اللہ کےلئے اور اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے کرتاہوں” لیکن اسکے باوجود مہاراجہ نے زبردستی مولانا کو زمین کا ایک بڑا رقبہ اور کئی ایکڑ زمین دیناچاہا لیکن مولانا نے اسے قبول نہیں کیا، باوجوداسکےمہاراجہ کے کچھ قریبی لوگوں نے مولانا کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ یہ زمین ہم آپ کو نہیں بلکہ آپ کے بچوں کو دے رہے ہیں، اور پھر کئی بیگھوں پر مشتمل کھیتی کی یہ زمین انکے بچوں کے حوالے کردیاگیا، کافی دنوں تک یہ زمین مولانا کی اولاد کے پاس رہی بعد میں فروخت کردی گئی اب شاید کچھ حصہ باقی ہو، اسی امبیکاپور شہر میں ایک مرتبہ ہندو مسلم کے درمیان اس بات پر اختلاف ہوگیاکہ مسجدوں میں جیسے ہی فجر کی اذان شروع ہوتی ہے، مندروں میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں، یہ اختلاف شدت اختیارکرگیا، معاملہ اس ہندو مہاراجہ کے دربار میں پہونچا، ہندو فریق نے اپنا موقف رکھا اور مسلم فریق نے اپنا موقف، مہاراجہ نے دونوں فریق کو سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایاکہ کل صبح مسجد یا مندر جہاں سے پہلے آواز آئے گی اسی کو اجازت ہوگی، جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے ایک مسجدمیں جاکرمولانا یاسین صاحب نے اذان دیدی، مسجد سے اذان کی آواز پہلےآئی، مہاراجہ نے پورے شہرمیں اعلان کرادیاکہ مساجد میں اذان ہوتی رہے گی اور مندروں میں گھنٹی نہیں بجے گی اس پرپابندی رہےگی، آج بھی اس شہرمیں یہی معمول ہے کہ اذان کے وقت کسی مندر میں گھنٹی نہیں بجتی ہے، اذان کے ختم ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔
ایک دفعہ حضرت مولانا یسین صاحب کو ایک لمبا سفر درپیش تھا اور پیدل جاناتھا، راستے میں ایک بڑاجنگل کا علاقہ پڑتا تھا،دوسرا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اسی جنگل کو عبور کرکے منزل پر پہونچناتھا،اس جنگل میں بڑے بڑے جنگلی جانورتھے، ڈراورخوف کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اس راستے سے جانے کی، لیکن مولانا اس راستے سے جانے کےلئے تیارہوگئے، لوگوں نے سمجھایا، منع کیا کہ مت جائیے، خطرناک جنگل ہے، لیکن مولانا نے لوگوں کی ان باتوں کوٹھکرادیا، اورکئی لوگوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ اسی جنگل کے راستے پیدل سفرکےلئے نکل پڑے، کئی گھنٹوں کے بعد جیسے ہی اس جنگل میں پہونچے، رات کا وقت تھا، تیز بارش شروع ہوگئی، بارش سے بچنے کےلئے اس جنگل میں کافی دیرٹہرناپڑا، کچھ دیرکے بعد بوسونگھتے ہوئے جنگل کے کئی خطرناک جانور انکے پاس آگئے، مولاناکے ساتھ جولوگ تھے وہ بالکل ڈرگئے، خوف ودہشت کی وجہ سے بعض رونےلگےلیکن مولانا نے اپنے ساتھیوں کو ہمت دلائی اور ان جانوروں سے کہاکہ”ہم لوگ رسول اکرم ﷺ کے امتی ہیں، مسافر ہیں اورکچھ پڑھکر پھونک مارا” اتنے میں وہ سارے جانور وہاں سے رخصت ہوگئے،کسی کو کچھ نقصان نہیں پہونچا،اور مولانا کا یہ قافلہ صحیح سالم منزل پر پہونچ گیا، پھر اسی راستے سے واپس بھی ہوا الحمدللہ۔
حضرت مولانا یسین صاحب نے جدوجہد سے بھرپور،درویشی کی زندگی گذاری،گھرمیں ہی ایک دن چارپائی اٹھاتے ہوئے زمین پرگرگئے جسکی وجہ سےکولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی،کئی ماہ صاحب فراش رہے،لیکن نماز سے کبھی غافل نہیں ہوئے،بسترپرلیٹے لیٹے ہی نمازاداکرتے،دوران علالت 1987ء میں مغرب کی نماز پڑھکر انھوں نے اپنی جان، جان آفریں کے سپردکردی اورہمیشہ کےلئے اس دنیاسے رخصت ہوگئے،115 سال کی طویل عمرپائی،نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعدگرہاکے اسی آبائی قبرستان میں اور ایک جم غفیرکی موجودگی میں انھیں سپرد لحدکردیاگیا، انکے انتقال سے پوراعلاقہ سوگوارہوگیا،مولانایسین صاحب کی کل سات اولادیں ہوئی تین لڑکے، حافظ محمد طاہر مرحوم، محمد محیب اللہ اورمولانا مجیب اللہ رحمانی اورچارلڑکیاں ہیں، اب صرف انکے چھوٹے فرزند مولانا مجیب اللہ رحمانی جوعالم، فاضل ہیں اور مدرسہ عبدالرب دہلی سے 1963 کے فیض یافتہ اورفارغ التحصیل ہیں ابھی باحیات ہیں۔
حضرت مولانایسین صاحب جیسے لوگ اب کہاں ملیں گے؟جنکے اندر واقعی قوم وملت کا درد بھراپڑاتھا،دنیا ومافیہا سے بالکل الگ یہ لوگ اپنے دھن اور اپنے مشن میں مگن تھے یہی وجہ ہےکہ وہ ہر راستے کو عبورکرتے چلے گئے،اب توصرف ایسے لوگوں کا تذکرہ اور نام ہی سنکر دلوں کو بہلایاجاسکتاہے،بہار کی سرزمین نے کیسے کیسے لعل وجواہر پیداکئے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہےکہ ہم انھیں محفوظ تک نہیں رکھ سکے،بہار کے بارے میں حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رح کا یہ اعتراف کتناسچا اور ناقابل انکار حقیقت ہےکہ”بہار کی سرزمین آج سے نہیں گوتم بدھ کے زمانے سے پربہار چلی آرہی ہے،کیسے کیسے عالم،درویش،حکیم،ادیب،مؤرخ اورشاعر اسی خاک سے اٹھے،وہی بہار جسکا پانی کوئی غبی (کندذہن) پئے تو ذہین ہوجائے،یہ گیان کی سرزمین رہی اور یہاں آکر لوگوں نے گیان حاصل کی ہے،ہاں یہ ضرورہے کہ یہاں بہت سے لوگ پیداہوئے اور یہیں کی خاک میں مل کر رہ گئے کہ انھیں دنیا جان نہ سکی،وہ خودبھی یہی چاہتے تھے اور دور دراز سے آنے والے دعوت ناموں کے جواب میں بھی بس اتنا کافی سمجھاکہ
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
چنددنوں قبل تذکرہ علمائے بہار کے مصنف حضرت مولاناابوالکلام شمسی قاسمی صاحب سے گفتگو ہوئی،انھوں نے بتایاکہ تذکرہ علمائے بہار کے تیسری جلد کی تیاری چل رہی ہے، آپ بھی کچھ مواد فراہم کردیں، میں نے کچھ لوگوں کاتذکرہ انھیں دیدیا، مولانا یاسین صاحب کا ذکرمیں نے ان سے کیا تو فرمانے لگے کہ انکے بارے میں کوئی مختصر تحریر آپ ہی لکھکر بھیج دیجئے، تاکہ اسے شامل کتاب کیاجاسکے، انکے اصرار پراورانکے حکم کی تعمیل میں جلدی جلدی میں یہ تحریر حاضرخدمت ہے، رب کریم تمام بزرگوں کی مغفرت فرمائے، انکی خدمات کوقبول فرمائے اور اپنی شایان شان بدلہ عنایت فرمائے۔