بہارشریف کی تاریخی عظمت

طلحہ نعمت ندوی

[۴اپریل ۲۰۱۶ کو علامہ سید سلیمان ندوی کی ادبی خدمات پر سیمینار منعقدہ بہارشریف میں پیش کیا گیا ]
اس تاریخی شہر اور ارباب فضل وکمال کی اس سرزمین پر جو اہل کمال کا منبع، اہل دل کی خلوت گاہ اور ارباب وفا کا مخزن ومدفن رہی ہے ہمیں اپنے معزز ومحترم مہمانوں کا جن میں علم وفضل کی مقتدر شخصیات اور گرامی قدر ہستیاں شامل ہیں خیرمقدم کرتے ہوئے بے حد مسرت اور بے پناہ خوشی ہورہی ہے، اور ہمارے دل آپ تمام حضرات کے تئیں تشکروامتنان کے جذبات سے لبریز ہیں کہ آپ نے دوردراز سے زحمت سفر برداشت کرتے ہوئے اس دور افتادہ شہر کو جو تمدنی سہولتوں سے بہت حد تک محروم ہے اپنی آمد باوقار سے زینت بخشی اور تمام مشغولیات پر ہماری حقیر عوت کو ترجیح دی اور اس سیمینار میں شرکت فرمائی جو اس شہر کے مضافات کی ایک مردم خیز وعلم بیز بستی دیسنہ کے ایک عظیم سپوت، ایک نامور شخصیت، اور نہ صرف ہم سب کے لیے ،نہ صرف اس صوبہ کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے سرمایۂ فخر ہستی یعنی حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ادبی خدمات پر منعقد ہورہا ہے۔
بہارشریف کی تاریخی عظمت
بہارشریف کی تاریخی عظمت

سامعین گرامی قدر!

صدیوں نہیں ہزاروں سال کی تاریخی عظمت کا امین یہ شہر بہارشریف اپنے جلو میں اقدار وروایات، تمدن وثقافت اور تہذیبی تنوعات کی ایک دنیا رکھتا ہے، اس کے سینہ میں مختلف مذاہب وادیان کے عروج وزوال کی دلچسپ داستانیں محفوظ ہیں، دنیا میں بہت کم ایسے خطے اور شہر ہوں گے جہاں ان کے عہد آغاز سے علم وفضل کا تسلسل قائم ہو، اور اس کا نام خود علم ومعرفت کا رمز ہو، ۷۵۰؁عیسوی میں بنگال کے راجا گوپال نے اپنے مقبوضہ علاقہ میں اودانت پوری نامی ایک بستی میں ایک بڑا ویہارہ یعنی دانش گاہ علم ومعرفت تعمیر کروائی اور بدھ مذہب کے حریف اس کی قدیم دانش گاہ نالندہ کے مقابلہ میں اس کے فروغ کی پوری کوشش کی، بالآخر اس کے اخلاف نے اسی شہر کو اپنا دارالحکومت بنالیا اور اس طرح رفتہ رفتہ مگدھ کے نام پر یہ نام غالب آیا، اور اس ویہارہ نے بہار بن کر مگدھ و ترہٹ کو جلد ہی اپنے دامن میں سمیٹ لیا، ماقبل اسلام کی تاریخ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں اس لیے ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دور اسلام کے آغاز کا تذکرہ کرتے ہیں، اس شہر کی تعمیر کے چارسو سال کے بعد باہرہویں صدی عیسوی اور چھٹی صدی ہجری کے اواخر میں ترکستان کے جواں مرد کشورکشا اختیارالدین محمد بن بختیار خلجی نے اس شہر پر اپنی فتح کا علم بلند کیا، اور دارالحکومت کی حیثیت سے اپنی ساری توجہ اسی پر مبذول کی، اور بالآخر بنگال وتبت کی مہم سے واپس ہوکر اسی سرزمین میں پیوند خاک ہوا، اس شہر کے ایک محلہ عمادپور میں اس کی قبرموجود ہے۔ اسلام کے زیرنگیں آجانے کے بعد عہدسلطنت کے طویل دور میں بھی اس کی مرکزی حیثیت برقرار اور دارالحکومت کی حیثیت سے اس کی رونق قائم رہی، چناںچہ اس کی مرکزی حیثیت نے وقت کے ممتاز علماء وارباب کمال کو اپنی طرف کھینچا، سلاطین وامراء اور شاہان دہلی بھی یہاں تشریف لاتے رہے، بنگال جاتے اور آتے ہوئے فیروزشاہ تغلق کا قیام شاید اس کی اسی مرکزی حیثیت کی بنا پر تھا، پھر شیرشاہ سوری جیسے ہندوستان کے نامور شہنشاہ نے اسی شہر میں اپنی نانہال میں نشوونما پائی، اور بعض روایت کے مطابق اسی کے مضافات کی ایک بستی کو اس کا مولد بھی کہا جاتا ہے، اسی طرح ایک دوسری بستی جانا کی مسجد میں اس کے کئی مہینوں تک بحیثیت مؤذن قیام کی روایت بھی ذکر کی جاتی ہے، شیرشاہ سوری نے شاید سہولت کے پیش نظر صوبہ کا پایۂ تخت یہاں سے پٹنہ منتقل کردیا۔ پھر جب اس ملک کی قیادت شہنشاہ اکبر کے حصہ میں آئی تو اس نے بہار کو سات سرکاروں میں تقسیم کیا جس میں یہ شہر بھی شامل تھا۔
معزز حاضرین! یہ ساری تاریخی سیاسی داستان تسلسل واقعات کے پیش نظر ذکر کردی گئی، لیکن اس شہر کی حقیقی عظمت بیت المقدس میں ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مدفن شہر الخلیل سے ہجرت کرکے قصبہ منیر میں اقامت گزیں ہوکر اس خطہ کو نورایمان سے منور کرنے والے ہاشمی خاندان کے اس عظیم ونامور سپوت یعنی حضرت مخدوم الملک شرف الدین احمد بن یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کی رہین منت ہے جنہوں نے طویل ریاضات شاقہ اور راجگیر وبہیا کے خلوت کدوں میں اسرار معرفت کا محرم راز بن جانے کے بعد ارشاد وہدایت کے لیے اس سرزمین کا انتخاب فرمایا اور اپنی شعلہ نفسی اور قوت باطنی سے پورے ملک کے مخدوم بن کر اس شہر کو شہرت وعزت اور عظمت ووقار کے خلعت دوام سے اس طرح سرفراز فرمایا کہ آج سات صدی کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس شہر بہار کا نام ’’شریف‘‘ کے لاحقہ کے ساتھ بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ حضرت مخدوم الملک کے بعد ان کے باکمال جانشینوں کا دریائے فیض اسی طرح جاری رہا، اور حضرت مظفر شمس بلخی، شیخ حسین نوشہ توحید بلخی، شیخ احمد لنگر دریابلخی، مخدوم احمد چرم پوش جیسی عظیم المرتبت روحانی شخصیات بادۂ حقیقت ومعرفت تقسیم کرتی رہیں، اور تشنگان معرفت آآکر سیراب ہوتے رہے۔
سلسلۂ مخدومیہ کے علاوہ عہد مغلیہ میں بھی ہمیں متعدد باکمال ارباب علم وفضل نظر آتے ہیں جن کا آشیانہ اسی سرزمین کا ویرانہ تھا، اورنگ زیب عالمگیر کی تعلیم کے لیے ملا محی الدین عرف ملا موہن بہاری اسی شہر سے بلائے گئے تھے، اور عہد عالمگیری کے ممتاز عالم وقاضی اوراورنگ زیب کے جانشیں شاہ عالم کے عہد میں متحدہ ہندوستان بشمول افغانستان کے شیخ الاسلام قاضی محب اللہ بہاری کا مولد اسی شہر کا ایک مضافاتی قریہ کڑاہے،اپنے وقت کے اس شیخ الاسلام نے اس دور کے سب سے بڑے اعزاز کے حصول کے بعد ابدی راحت کے لیے اپنے اسی آبائی وطن کو ترجیح اور وفات سے چند ماہ قبل وطن میں گوشہ گیر ہوکر یہیں وفات پائی، اور اسی شہر کے محلہ چاند پورہ میں محوخواب ہیں، ان کی دو شہرۂ آفاق کتابوں سلم العلوم اور مسلم الثبوت نے پورے عالم اسلام کے نصاب کا حصّہ بن کر تقریباً سو سال تک مصر وشام اور ہندوستان کے علماء کی ذہنی جولان گاہ بنی رہیں۔ عہد اکبری کے نامور محدث اور حضرت شاہ عبدالحق دہلویؒ کے شاگرد رشید حضرت سید یٰسین گجراتی ثم سامانوی نے پنجاب وبنگال کے مختلف علاقوں اور اس صوبہ کے مختلف شہروں کی رہ نوردی کے بعد یہیں رخت سفر کھولا اور ایک عرصہ تک ارشاد ومعرفت میں مشغول رہ کر یہیں بمقام خندق سپرد خاک ہوئے۔
سامعین! یہاں کے رجال وشخصیات کے مفصل تعارف کی نہ یہاں گنجائش ہے نہ موقع، نیز اس کے مضافات کی مردم خیز بستیاں خود ایک مستقل بحث وتحقیق کا موضوع ہیں، بس اتنا عرض کرنا ہے الحمدللہ ہمیں بیسویں صدی تک علم وفضل کا یہ سلسلہ پوری طرح جاری وساری نظر آتا ہے، اور حدیث نبوی خیارھم في الجاھلیۃ خیارھم في الإسلام کے بموجب عہد ماقبل اسلام سے اب تک اس کی مردم خیزی برقرار ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نامور رجال میں مولانا سید سلیمان اشرف بہاری استاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، حضرت شاہ امین ثبات فردوسی صاحب سجادہ بہارشریف، اور بہار کے محسن وکرم فرما حضرت مولانا ابوالمحاسن، محمد سجاد بہاری علیہ الرحمۃ( جن کا وطن گو یہاں سے قریب پنہسہ نامی ایک گاؤں ہے لیکن ان کا زیادہ وقت یہیں گزرا،) مولانا محمد حسن معصومی اور ان کے دو نامور فرزند، ڈاکٹر صغیر حسن معصومی رکن مجمع اللغۃ العربیہ دمشق وڈائرکٹر ادارہ ثقافت اسلامی کراچی اور دوسرے عظیم المرتبت فرزند، ممتاز محقق ومحدث وادیب اور عربی زبان کے رمز شناس مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی، مولانا اصغر حسین بہاری اور ممتاز مصنف اور علم حدیث کے خادم مولانا ابوسلمہ شفیع بہاری کا نام دنیائے علم میں کسی طرح محتاج تعارف نہیں۔ شاید شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ کا مشہور جملہ ’’بلدۂ بہار کہ مجمع علماء بود‘‘ اسی شہر کے لیے کہا گیا تھا۔

سامعین!

آج ہم جس شخصیت کی یاد میں یہاں یکجا ہوئے ہیں وہ جس ادارہ کی پروردہ، اس کی ترجمان، گل سرسید اور سیدالطائفہ ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر سے اس ادارہ کی وابستگی کا بھی تذکرہ کردیا جائے، عظیم آباد اور اس کے مضافات کے شرفاء کا ندوۃ العلماء کی تحریک سے جو گہرا تعلق اور فکری لگاؤ رہا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے، لیکن مضافات عظیم آباد میں اس شہر اور اس سے متصل دور زخیر بستیوں استھانواں اور دیسنہ کی تحریک ندوۃ العلماء کی تائید وحمایت اور اس کے دور آغاز سے اس سے ذہنی وفکری وابستگی کی داستان یہاں کی علمی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے، اس کے ابتدائی سرگرم اراکین میں یہاں کی کئی ممتاز شخصیتوں کے نام نظر آتے ہیں، ۹۸-۱۸۹۷ء؁ میں ندوۃ العلماء کا ایک وفد جو ملک کے ممتاز علماء واہل علم پر مشتمل تھا مختلف شہروں کا دورہ کرتا ہوا عظیم آباد آیا تو اس نے اس شہر کو بھی اپنی حاضری کا شرف بخشا، اور یہاں محلہ میرداد میں خانقاہ مخدوم الملک کے زیب سجادہ حضرت شاہ امین فردوسی کی صدارت میں اس کا اجلاس منعقد ہوا، نیز ندوۃ العلماء کے سب سے پہلے اجلاس کانپور ۱۸۹۴ء؁ میں جب کہ ندوۃ العلماء کی تحریک زیر تجویز تھی، دیگر بزرگوں کے ساتھ ہمیں مولانا سید تجمل حسین دسنوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نظر آتا ہے جو تا زندگی ندوۃ العلماء کی ترجمانی کی خدمت انجام دیتے رہے، دوسری طرف مولانا سید محمد احسن استھانوی، بانی ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے دست راست کی حیثیت سے اس تحریک میں سرگرم عمل تھے، ۱۹۰۰ء؁ میں جب عظیم آباد میں ندوۃ العلماء کا تاریخ ساز اجلاس منعقد ہوا تو اس میں بھی اس شہر اور ان دونوں بستیوں کے شرفاء سرگرم عمل تھے، اس اجلاس کے ایک سرگرم رکن مولانا سید رحیم الدین استھانوی ایڈیٹر ہفتہ وار اخبار الپنچ بانکی پور نے اپنے اخبار کا ایک کالم تحریک ندوۃ العلماء کے آغاز ہی سے اس کی تائید وحمایت کے لیے خاص کر رکھا تھا اور اپنی زندگی تک یہ اخبار اس تحریک کی تائید وحمایت میں پوری طرح سرگرم رہا، عظیم آباد کے اجلاس کی کارروائی مولانا سید رحیم الدین ہی کے قلم کی یادگار ہے، ان کے برادر زادۂ عزیز مذکور الصدر مولانا محمد احسن استھانوی نے حضرت مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں تحفۂ محمدیہ نکالا، جس کے ہرشمارہ کے کچھ صفحات ندوۃ العلماء کے لئے ضرور وقف ہوتے جو بیشتر مولانا محمد احسن ہی کے قلم سے ہوتے، ندوۃ العلماء کے اجلاس سوم منعقدہ بریلی کی مفصل رپورٹ انہیں کے قلم کی یادگارہے ، افسوس کہ صرف تیس سال کی عمر پاکر عین عالم شباب میں انہوں نے اس دنیا کو الوداع کہا، ندوۃ العلماء کی تحریک اپنے دور آغاز سے جس طرح ان دونوں بستیوں میں مقبول ہوئی اور فکری وثقافتی ہرحیثیت سے اس نے ان دونوں بستیوں پر جو اثر ڈالا اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ افراد میں فضلائے ندوۃ العلماء کا تناسب کم از کم چالیس فی صدی ہوگا، مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ کے بقول وہ جب اپنے زمانۂ طالب علمی میں ایک بار ندوۃ العلماء حاضر ہوئے تو دسنوی طلبہ کی تعداد اس وقت سترہ تک پہنچی ہوئی تھی، افسوس کہ تقسیم ہند کے اس ادارہ سے یہ تعلق باقی نہ رہ سکا، انہیں کے درمیان دسنہ سے اٹھنے والی امام الندویین، سید الطائفہ اور ندوۃ العلماء کے امین وترجمان کی وہ عظیم ہستی بھی ہے جن کی یاد میں آج ہم یہاں جمع ہیں، ایک ممتاز ندوی فاضل مولانا ڈاکٹر سید تقی الدین فردوسی ندوی کے بقول
بہار ہی میں ہے دسنہ کا وہ عظیم مقام
جہاں کی خاک سے اٹھے تھے ندویوں کے امام
حضرت سید صاحب کی شخصیت کے علاوہ دسنہ کے عظیم ممتاز ندوی فضلاء میں آپ کے برادر زادہ عزیز مؤرخ ہند مولانا سید ابوظفر ندوی، مولانا سید نجم الہدیٰ ندوی، مولانا سید عبدالباری ندویؒ، مولانا سید محمد قاسم ندوی بن مولانا سید تجمل حسین دسنویؒ، مولانا سید فخر الملک ندویؒ، مولانا سید عبدالحفیظ ندوی، نامور مصنف سید نجیب اشرف ندوی، پروفیسر سعید رضا ندوی سینٹ زیورس کالج بمبئی، ان کے فرزند عبدالمحی رضاندوی، سید عبدالسبحان ندوی، مولانا مصطفی کریم ندوی پروفیسر متھلا یونیورسٹی دربھنگہ، اور استھانواں کے ممتاز ندوی فضلاء میں حضرت سید صاحب کے پھوپھی زاد بھائی مذکور الصدر مولانا سید محمد احسن استھانویؒ کے فرزند ممتاز عالم اور علم حدیث کے متعدد بلند پایہ کتابوں کے مرتب ومحقق مولانا سید ہاشم ندوی سابق ناظم دائرۃ المعارف حیدرآباد، مولانا سید عبدالغفور شرر ندوی معاون ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید رحیم الدین استھانوی کے دو فرزند مولانا سید محمد ندوی ناظم مدرسہ محمدیہ استھانواں ومولانا سید احمد ندوی، مولانا سید افتخار احمد ندوی، عربی اور اُردو میں متعدد کتابوں کے مصنف مولانا حاجی معین الدین رفیق دارالمصنفین وپرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ، مولانا محمد قاسم ندوی ناظم اوّل مدرسہ محمدیہ استھانواں، مولانا محمد اسحاق ندویؒ اور اس سلسلہ کی آخری کڑی مولانا ڈاکٹر سید ابراہیم ندوی بن مولانا سید ہاشم ندوی صدر شعبۂ عربی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے نام حافظہ میں آتے ہیں۔(ہمیں خوشی ہے کہ مولانا سید ابراہیم ندوی کے فرزند مولانا سید راشدنسیم ندوی اس وقت ہمارے درمیان موجود ہیں۔) اس شہر میں سلسلۂ فردوسیہ کے متعدد ندوی فضلاء کے علاوہ جن میں متعدد کتابوں کے مصنف ومترجم بھی ہیں ندوۃ العلماء کے دو ممتاز فاضل، عربی زبان وادب کے رمز شناس اور اس اداہ کے قابل فخر فرزند مولانا مسعود عالم ندوی اگانوی اور مولانا محمد ناظم ندوی علی نگری مونگیری نے بھی اپنے ابتدائی ایام اپنے اہل خاندان کے ساتھ یہیں گزارے اور یہیں مدرسہ عزیزیہ میں عالمیت کی تکمیل کے بعد ندوۃ العلماء کے شعبۂ ادب میں داخلہ لیا اور اس کے لیے سرمایۂ فخر بنے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply