جنوب ہند کا پانچ روزہ سفر (دوسری قسط)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ کی قیمتی نصیحتیں اور کرنول و مضافات کے کچھ اداروں کا مختصر تعارف

تحریر : بدرالاسلام قاسمی

المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد میں بانیٔ ادارہ، صدر مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم سے یادگار ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے ہماری درخواست پر کچھ نصیحتیں فرمائیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

جنوب ہند کا پانچ روزہ سفر
جنوب ہند کا پانچ روزہ سفر ۲

علماء پر جہاں بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان میں نہایت اہم ذمہ داری ہے "عوام کی اصلاح”، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سالہا سال کسی عالم کے پیچھے نماز پڑھنے والا شخص بنیادی عقائد و احکام سے نا واقف رہے، وقتا فوقتاً امام کو چاہیے کہ وہ نماز وغیرہ کے مسائل آسان انداز میں عوام کے سامنے بیان کرتا رہے. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ سے ہمیں اس کی ہدایت ملتی ہے، کہ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم گوشۂ چشم سے صحابہ کرام پر نظر کرتے رہتے تھے تاکہ حسب موقع ارکانِ نماز میں ہونے والی خطاؤں پر متنبہ کر سکیں، یہی رویہ ہمارا بھی ہونا چاہیے کہ حکمت کے ساتھ عوام کی اصلاح کے فرائض انجام دیتے رہیں. اس کے لیے ائمہ حضرات کو چاہیے کہ وہ فقط نماز پڑھانا اپنی ذمہ داری نہ سمجھیں، بلکہ نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں رکیں، عوام کو خود سے مربوط رکھیں، تاکہ وہ اپنے پیش آمدہ مسائل میں ان کی درست رہنمائی حاصل کر سکیں.

حضرت نے ایک بہت اہم واقعہ سنایا کہ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ پہلے کے فضلاء اور اب کے فضلاء کی فکر اور جذبۂ عمل میں اتنا فرق کیوں ہے؟ جواب دیا کہ قدیم دور کے اساتذہ تدریس کو عبادت سمجھتے تھے اور آج کل اس کو پیشہ سمجھ لیا گیا ہے، یہ بنیادی فرق ہے.

پھر فرمایا کہ "اخلاص” فرائض کی انجام دہی میں سامنے نہیں آتا، بلکہ ان فرائض کو کما حقہ ادا کرنے سے معلوم ہوتا ہے، مثلاً جو طالب علم جماعت میں کمزور ہو اسے فقط درس گاہ میں پڑھانے پر اکتفا کرنا پیشہ اور ڈیوٹی ہے، جب کہ اس پر خارجی اوقات میں محنت کر کے اس کی خامیوں کو دور کرنا اخلاص ہے۔

ایک نصیحت یہ فرمائی کہ علمائے کرام، بالخصوص ائمہ و خطباء اپنی تقریر و خطابت میں مستند باتیں ہی بیان کریں، غیر مستند واقعات و روایات بیان کرنا بہت بڑی نادانی اور نقصان دہ معاملہ ہے، جو بھی بات کہیں معتبر کہیں، تحقیق کے بعد کہیں، ضروری نہیں کہ جو روایت یا مسئلہ کسی اردو کتاب میں تحریر ہے وہ معتبر بھی ہو، اسے معتبر کتب سے رجوع کرنے کے بعد ہی بیان کرنا چاہیے۔

ہم نے اللہ سے مانگنا چھوڑ دیا ہے، حالانکہ اپنی تمام ضروریات ہمیں اولا بڑے اہتمام سے اللہ سے مانگنی چاہئیں، اس کے بعد اسباب اختیار کرنے چاہئیں۔

یہ قیمتی نصیحتیں ان کی زبان سے نکلیں جو بلا شبہ ہمارے اس سفر کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔

المعھد العالی الاسلامی سے نکلنے والے تھے کہ ادارے کی نہایت خوبصورت و پرکشش مسجد پر نظر پڑی، جس کا نام مسجد ابراہیم خلیل اللہ ہے۔

وہاں مجھے اپنے ذوق کے مطابق ایک نہایت پر کشش چیز نظر آئی، مدرسے کی باؤنڈری پر اندر کی سمت بہت ہی ماہر خطاط کی تحریر میں مختلف اشعار پینٹ کیے گئے تھے. طلبہ کو وقت کی اہمیت اور کاروانِ علم کو مہمیز کرنے والے، انھیں شوقِ عمل دلانے والے اور درود و سلام وغیرہ پر مشتمل اشعار کا انتخاب اور تحریر دونوں ہی جاندار، شاندار اور لاجواب محسوس ہوئے.

یہیں پر تکمیل افتاء کے ایک طالب علم زاہد یمان رانچی سے مختصر سی ملاقات ہوئی جو فاضل دارالعلوم ہیں اور پچھلے دنوں النور اسلامک اکیڈمی اور مکتبہ النور دیوبند کی جانب سے منعقدہ کل ہند مسابقۂ مضمون نگاری میں تیسری پوزیشن حاصل کی. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!!

یہاں سے ہمارا ارادہ حیدرآباد کے چند دیگر مرکزی مدارس جانے کا تھا، مثلاً دارالعلوم رحمانیہ، دارالعلوم حیدرآباد، ادارہ اشرف العلوم، دعوہ اسلامک اکیڈمی، لیکن معلوم ہوا کہ ششماہی امتحان کی تعطیل کی وجہ سے ابھی تعلیم و تعلم کا سلسلہ موقوف ہے، اداروں کی اصل رونق انھیں طلبہ و اساتذہ سے ہوتی ہے، ورنہ سنسان عمارتیں ہمیں اپنی جانب مائل نہیں کرتیں، اسی وجہ سے ان اداروں میں جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا گیا.

3. جامعۃ الطاھرات ہاشم آباد

اس ادارے کو 1990 میں ملت کا درد رکھنے والی ایک شخصیت محترم الحاج سید امام الدین صاحب نے قائم کیا تھا جو فرماتے تھے کہ خواتین کا علم دین سے آراستہ ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بہت بہتر انداز میں دین کی دعوت عام کر سکتی ہیں اور کامیاب داعیہ کی حیثیت سے زندگی گزار سکتی ہیں. یہ ادارہ پہلے جامعہ عائشہ نسواں کے نام سے قائم ہوا تھا.

اس ادارے میں شعبۂ ناظرہ، شعبۂ حفظ، اور عالمیت و فضیلت وغیرہ کے شعبے قائم ہیں جس سے تقریباً پانچ سو اقامتی وغیرہ اقامتی طالبات استفادہ کر رہی ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ عالمیت کے ساتھ ساتھ دسویں کلاس کی عصری تعلیم بھی مکمل ہو جاتی ہے.

فی الحال ادارہ کے انتظامی امور بانی ادارہ کے بڑے فرزند حافظ سید عتیق صاحب سے متعلق ہیں، جب کہ مولانا محمد توفیق قاسمی صاحب (فاضل دارالعلوم وقف دیوبند) ان کے معاون و منتظم ہیں.

ادارے میں وقتا فوقتاً مقامی علماء کی آمد ہوئی ہے اور اس کی کارکردگی پر اعتماد کا بھی اظہار کیا ہے، فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ بھی ادارے میں تشریف لا چکے ہیں.

حیدرآباد کے مذکورہ بالا مدارس اور کچھ مشہور مقامات کی زیارت سے فارغ ہو کر ہمارا قافلہ 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کرنول کی جانب روانہ ہوا، ہلکی ہلکی بارش اور ٹھنڈی ہواؤں میں طے ہونے والا سفر یادگار ثابت ہوا.

تعارف حضرت مولانا حمیداللہ قاسمی

بانی و مہتمم دارالعلوم انوار انوری لکشمی پورم، کرنول

آندھراپردیش کے ضلع کرنول سے تعلق رکھنے والے مولانا حمید اللہ قاسمی صاحب حیدرآباد کے مرکزی اداروں ادارہ اشرف العلوم اور دارالعلوم سبیل السلام سے ہوتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند پہنچے، یہاں عربی ہفتم و دورۂ حدیث کی تعلیم حاصل کی، ۲۰۰۳ء میں فارغ ہوئے، راقم کے والد مرحوم سے مسلم شریف جلد دوم پڑھی، اس دوران اپنی ذہانت و فطانت، یکسو مزاجی اور ذوقِ مطالعہ کی بنا پر فخرالمحدثین حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کا قرب حاصل کیا۔ چناں چہ دارالعلوم وقف اور معہد الانور میں ۲۰۰۶ء تک تدریسی خدمات انجام دیں، اس دوران سادگی پسند اور بے تکلفانہ زندگی جینے کے لیے معروف رہے، اور فنی کتابوں کو تحقیق و تدقیق کے ساتھ پڑھانے کی وجہ سے طلبہ میں مقبول بھی۔ دیوبند کی تدریس اور شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے اعتماد کے باوجود علاقے میں رہ کر دینی خدمت اور اصلاحِ معاشرہ کو ترجیح دیتے ہوئے ایک وادیٔ غیر ذی ذرع میں ’’دارالعلوم انوارِ انوری‘‘ قائم کیا، جس علاقے میں لوگ دین کی بنیادی تعلیمات سے ناآشنا تھے، نہ عقائد درست تھے اور نہ ہی اعمالِ صالحہ کی کوئی رغبت، وہاں پر چھوٹے چھوٹے بچوں بچیوں پر اتنی محنت کی کہ آج وہ علاقہ اس ادارے کے فیضان سے پُرنور ہے۔ مسجدیں آباد ہیں، گھرانے دین کی جانب راغب اور خواتین میں پردے کا رجحان، بلاشبہ یہ اُن کی مخلصانہ جدوجہد اور دن رات کی نہایت پُرمشقت محنتوں کا ثمرہ ہے۔

آج اس ادارے میں بچوں اور بچیوں کے لیے معیاری تعلیم کا نظم ہے، بچوں کے لیے شعبۂ ناظرہ و حفظ سرگرم ہے، جب کہ بچیوں کے لیے پنج سالہ عالمہ کورس جاری ہے۔

الجامعۃ الطیبہ دارالعلوم، پکی مسجد، زہرہ پور، کرنول

تین جانب سے ہریالی اور ایک جانب میں کافی بڑی ندی "تُنگا بدرا” کی بہترین جائے وقوع پر موجود یہ ادارہ محترم جناب مفتی منصور قاسمی صاحب نے 2004ء میں قائم کیا تھا، فی الحال یہاں تقریباً دو سو طلبہ زیر تعلیم ہیں، ناظرہ و حفظ کی متعدد درس گاہیں موجود ہیں، ساتھ ہی اعددادیہ تا عربی چہارم عالمیت کی جماعتیں بھی نظر آئیں، بانئ ادارہ کے مطابق عربی اول تا عربی چہارم کا نصاب کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ یہاں سے چہارم پڑھنے والے طلبہ دارالعلوم دیوبند کے عربی ششم میں داخلہ لے سکتے ہیں. اس کے لیے نصاب میں جزوی ترمیم بھی کی گئی ہے.

شام کے وقت بنگلور جاتے ہوئے سرسری طور پر دو اداروں میں جانا ہوا،

کرنول سے تقریباً 60 کلومیٹر دور شہر ڈونڈ میں واقع مدرسہ معھد العلوم الاسلامیہ پلمنیر کی شاخ ہے، یہاں ناظرہ و حفظ کی متعدد درسگاہیں سرگرم ہیں، زیر تعمیر وسیع مسجد تکمیل کے بعد توجہ اور کشش کا سبب ہوگی. ان شاء اللہ پہاڑی کے نشیب میں واقع اس ادارے کا جائے وقوع بڑا شاندار ہے.

مدرسہ ضیاء العلوم اننت پور

یہاں عصر کی نماز کے لئے رکنا ہوا، گیٹ پر لگے کتبے سے معلوم ہوا کہ یہ ادارہ 1982ء میں قائم ہوا تھا، وسیع و عریض کشادہ میدان، تین جانب دارالاقامہ اور درسگاہوں کی جاذب نظر عمارت، ایک جانب مسجد و متعلقات، معلوم ہوا کہ یہاں بھی ناظرہ و حفظ کی تعلیم ہے. ایک بات جو باعث حیرت تھی وہ یہ کہ اتنے وسیع و عریض اور کھلے میدان میں طلبۂ عزیز ریاضت اور جسمانی محنت پر مشتمل کسی کھیل مثلاً فٹ بال، والی بال یا کرکٹ کے بجائے گولیاں (کنچے) کھیل رہے تھے. اس جانب انتظامیہ کی توجہ کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ طلبہ کو مفید کھیل کی ترغیب دیں.

دوسری قسط مکمل ہوئی.

(تیسری قسط میں یک روزہ سفر بنگلور کی روداد، تمل ناڈو کے قصبہ پرنامبٹ میں واقع خانقاہ زکیہ کا مختصر تعارف، اور بھی بہت کچھ، عنقریب ان شاء اللہ)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare