حافظ محمد شمیم جامعی رحمۃ اللہ علیہ جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی!
اسلم رحمانی
دِن، ہفتے، مہینوں اور سالوں کی گردانی میں صدیاں گذر جاتی ہیں اور انسانی حیات کی کہانی بنتی اور مٹتی رہتی ہے۔ وقت کی اسی گردش میں اللہ جانے کتنے لوگوں کی کہانیاں زمانے کی گردش کی دھول میں دھندلی پڑتی پڑتی مِٹ جاتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انسان ایسے اپنے کتنے محاسن کو اپنے ذہنی گوشوں سے بھی مِٹا دیتا ہے۔لیکن ان میں سے کچھ لاکھ کوشش اورزمانے کی بے مروتیوں کے باوجود ذہن کے دریچوں میں جھلکتے رہتے ہیں۔انہیں میں سے ایک استاد محترم حافظ محمد شمیم جامعی ؒ بھی ہیں۔ جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔
آپ کی ولادت 1959ء میں ریاست بہارضلع مظفرپور کے پارو تھانہ حلقہ کے واقع مجھولیا گاؤں میں ہوئی، آپ کی وفات 15/ نومبر 2015 کو مجھولیا گاؤں میں ہی ہوئی، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی، حفظ قرآن، اردو، فارسی، حساب وغیرہ کی تعلیم آپ نے مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم چندوارہ مظفرپور سے حاصل کی۔ حافظ شمیم جامعی ؒ نے مجھولیا گاؤں سے جہالت اور تاریکی دور کرنے کے لئے دار ارقم کی سنت کے مطابق مدرسہ ملیہ اسلامیہ کو اپنا مسکن بنایا، جس سے آج بھی گاؤں سمیت دوسرے علاقے کے سیکڑوں نونہال علمی پیاس بجھارہے ہیں، یقیناً یہ قابل تحسین قدم ہے، حافظ شمیم کی علمی، ملی سماجی اور فلاحی خدمات تعارف کا محتاج نہیں ہے، حقیقت تویہ ہے کہ حافظ شمیم ایک تحریک اور انجمن کانام تھا.گاؤں اور سماج کی تعمیر وترقی اور فلاح وفلاح بہبود کے لئے آپ نے کئی ایسے کام کئےجوسنہرے حروف سےلکھنے کے قابل ہے مدرسہ ملیہ اسلامیہ کے ماتحتی میں غریب اور ناخواندہ بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی فکر یہ تھی کہ تعلیم ہرانسان کابنیادی حق ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے تعلیم بہت ضروری ہے، آپ کے اندر یہ خوبی بھی تھی کہ تمام مصروفیات کے ساتھ جب وہ سماج میں پھیلے برائیوں کوروکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے، منکر اور برائیوں کاخاتمہ اپنے بساط بھر کرتے، کبھی کبھار گاؤں اور سماج کے جھگڑے، دوفریق کے درمیان مصالحت، مظلوموں کوانصاف دلانا ان کااہم کام تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ مظلوموں، غریبوں اور دبےکچلے لوگوں کےلئے ایک مضبوط آواز تھے، ایسے لوگ ان کے انتظار میں رہتے، چونکہ میرا تعلق اسی گاؤں سےہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ پرانا سے پرانا جھگڑا اور مقدمہ وہ آسانی سے سے حل کردیتے اور حقدار کوحق دلادیتے، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حافظ شمیم جامعی ؒ اہالیان مجھولیا کےلئے سروں کےتاج تھے،مجھولیا کوشناخت اورپہچان دیا علم سے، مدرسہ سے، خوبصورت اور دلکش تعمیرات سے مزین مسجد سے یہ ان کے لئے تاقیامت صدقہ جاریہ ہے، حافظ شمیم اپنے طلبہ کی شکل میں گاؤں کی آبیاری اور نبوی مشن کی تبلیغ واشاعت کےلئے جو افراد چھوڑ کر گئے ہیں یقین کامل ہےکہ یہ مشن بحسن وخوبی جاری رہے گا۔وہ قوموں کے عروج وزوال کی داستانوں سے واقف تھے، حفظ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب آپ گاؤں واپس ہوئے تو آپ نے مشاہدہ کیا کہ ہماری قوم زوال پذیر ہے جس کا اظہار آپ بارہااپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے۔وہ حالات کا جائزہ لیکر قوم کی بدحالی ،پستی کے اسباب وعلل تلاش کرنے کے ساتھ قوم کے مرض کی شناخت کی، اور اس کے لئے دواء شافی تجویز کیا، تعلیمی میدان میں اعلی مقام حاصل کرنے کی راہیں تلاش کرنے کا مشورہ دیا،اہالیان مجھولیا کے دل میں ایک جگہ بنائی، اور جدید مجھولیا کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔
مدرسہ اور مسجد آپ کی شاہکار کاوش:
مدرسہ ملیہ اسلامیہ مجھولیا بچلا ٹولہ، ڈاکخانہ پارو، ضلع مظفرپور، بہار علاقےکا 42 سالہ قدیم ادارہ ہے۔اس کی بنیاد 1980 میں ڈالی گئی، اس ادارے نے اپنے قیام سے اب تک نامساعد حالات کے باوجود مسلسل ترقی کی منازل طے کیں۔ حافظ شمیم جامعی کی انتھک کوششوں سے رفتہ رفتہ یہ مکتب مدرسہ کی شکل اختیار کی اور باضابطہ حفظ وقرات کیلئے اقامتی درسگاہیں بنائی گئیں۔آپ نے محنت ولگن اور اچھے و با صلاحیت اساتذہ کا انتخاب کر کے بڑی تندہی کے ساتھ ادارہ کو بام عروج پر پہنچایا۔ اسی بنا پر یہ ادارہ خصوصاً حفظ وقرات کے حوالے سے صرف مجھولیا گاؤں ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں منفرد وممتاز ہے۔ اسی طرح مجھولیا بچلا ٹولہ کی جامع مسجد کی توسیع بھی آپ کی لائق تحسین کاوش ہے۔
معمولات زندگی اور طرز درس و تدریس:
تقریبا چار دہائیوں تک آپ درس و تدریس سے وابستہ رہے، آپ کا معمول یہ تھا کہ فجر کی اذان سے قبل آپ بیدار ہوجاتے اور گھر سے نکل کر آپ مسجد تشریف لے جاتے (چوں کہ آپ کا گھر مسجد کے قریب ہی بائیں جانب ہے) اکثر و بیشتر فجر کی اذان بھی آپ ہی دیتے۔ کئی بار تو راقم السطور نے اپنی آنکھوں سے حافظ شمیم ؒ کو تہجد کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، تجہد کے بعد آپ اپنی نشست پر بیٹھے رہتے اذان ہوتی آپ سنت ادا کرتے۔امامت کا فریضہ تو آپ ہی کے ذمے تھا۔ آپ کی ہشت پہلو نگینہ اور فقیدالمثال شخصیت کی سب بڑی بات یہ ہے کہ پوری زندگی بغیر تنخواہ کے آپ مسجد میں پنچ وقتہ نماز کی امامت کے فرائض کو انجام دیتے رہے، مدرسہ کی تنخواہ سے ان کے گھر کا خرچ چلتا تھا، آپ ایک خوش الحان قاری قرآن تھے۔ جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے تو سننے والے کا دل خوش ہوجاتا تھا۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھے رہتے پہلے سورۂ یسن کی تلاوت کرتے پھر اشراق تک تسبیح و تحلیل میں مصروف رہتے، جب سورج روشن ہوجاتا تو آپ مسجد سے باہر تشریف لاتے اور مدرسے کے دوسرے اساتذہ کے ہمراہ چہل قدمی کےلئے چوک کی طرف جاتے یہاں حسب معمول محمد تعلیم کے ہوٹل میں چائے نوش کرتے اور محمد علم تاج،مرحوم ہُدی اور مرحوم وکیل وغیرہ کی پان کی دکان سے پان لیکر پھر مدرسہ لوٹ جاتے۔ ادھر رفتہ رفتہ گاؤں کے بچے سینے میں قرآن چپکائے، بغل میں بورا دبائے جوق درجوق مدرسہ پہنچ جایا کرتے تھے مختصر وقفے ہی میں مدرسہ کے دونوں طرف کا حصہ بھر جایا کرتا تھا۔ حافظ شمیم ؒ اپنی نشست پر بیٹھ جاتے تھے اور بچے سبق میں غلطی کے خوف سے ڈر ڈر کر سبق سنانے کےلئے حاضر ہوتے آپ انہماک سے پہلے ناظرہ قرآن والے بچے کا سبق سنتے، پھر حفظ کرنے والے بچوں سے سبق سنتے اس کے بعد یسرن القرآن اور بغدادی قاعدہ والے بچوں کا سبق سنتے اس اثنا میں اسکول جانے والے بچوں کی اردو بھی سن لیا کرتے تھے، تقریبا 9/ بجتے ہی ناشتے کی چھٹی ہوجاتی تھی، اس قبل ایک دو طالب علم حافظ شمیم ؒ کے گھر سے اور دوسرے اساتذہ کےلئے گاؤں سے ناشتہ لانے کےلئے روانہ ہوجاتے تھے۔ ناشتہ آتے ہی تمام بچوں کو ناشتے کی چھٹی دے دی جاتی تھی، ہاں حفظ کرنے والے جن بچوں کو سبق یاد نہیں رہتا انہیں ناشتے کی چھٹی نہیں دی جاتی تھی راقم السطور بھی کبھی کبھار اس سزا کا شکار ہوجایا کرتا تھا، ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ایک بار پھر آپ ایک مخصوص شیشے کی گلاس میں چائے منگواتے چائے نوش کرنے کے بعد اردو سننے کا دور شروع کردیتے تھے، تقریبا گیارہ یا بارہ بجے چھٹی کردیتے تھے، اس کے بعد آپ خود آرام فرماتے، یا گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتے، ظہر کی اذان ہوتے ہی آپ مسجد تشریف لے جاتے نماز ادا کرنے کے بعد ظہرانہ تناول کرتے اور پھر مدرسہ تشریف لاتے اب بچوں کو اردو املا لکھواتے اور حساب بھی پڑھاتے۔ساتھ ہی درجہ حفظ کے بچوں کا آموختہ سنتے۔ عصر کی اذان ہوجاتی، نماز ادا کرتے پھر گھر کی سبزی کےلئے چوک کی طرف تشریف لے جاتے لوگوں سے مل کر حال احوال دریافت کرتے مغرب کی اذان سے قبل ہی مسجد تشریف لاتے نماز کےبعد پھر وظائف میں مشغول رہتے ادھر مغرب کی نماز کے بعد کچھ بچے مدرسہ میں سبق یاد کرنے کےلئے پہنچ جاتے ، آپ مسجد سے نکل کر مدرسہ پہنچتے اور بچوں کو مختصر نصیحت کرتےکہ سبق یاد کر لجیے نہیں تو صبح میں آپ کو مٹھائی کھلائی جائے گی۔ عشاء کی اذان تک مدرسے میں رہتے تھے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لے جاتے اپنی والدہ کی خدمت میں دیر رات تک مصروف رہتے۔ آپ ایک کہنہ مشق استاد، حافظ قرآن، امام وقت، مصلح قوم و ملت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے کاشتکار بھی تھے دھان بوائی کے زمانے میں دھان روپنے میں آپ کا کو کوئی ثانی نہیں تھا۔اکثر جمعرات یا جمعہ کو ذاتی ،مدرسے یا اپنے کسی قریبی کے کام سےآپ مظفرپور شہر تشریف لے جایا کرتے تھے، جمعہ کو مغرب سے واپسی تک طلبہ و طالبات کےلئے چاند رات جیسی خوشی رہتی تھی کہ حافظی نہیں ہیں، کل سبق نہیں سنائیں گے لیکن جیسے ہی عشاء کی اذان ہوتی آپ کو مدرسے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر طلبہ چیخ چیخ سبق یاد کرنے میں مصروف ہوجاتے تھے۔
بے شک اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ انسان سے غلطیاں اور کوتاہیاں سر زد ہوتی رہتی ہیں۔ جوانسان کی عملی زندگی کا ایک حصہ ہیں۔مکمل تو کوئی بھی انسان نہیں ہے، ہر انسان میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ بہت سی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر انسان کی اپنی ایک زندگی ہے جسے وہ اپنی مرضی کے حساب سے اور من پسند طریقوں سے گزارنا چاہتا ہے لیکن ہر بار ہر کام میں کامیابی حاصل ہونا بھی ممکن نہیں۔ کبھی کبھی انسان بہت سوچ سمجھ کر کام کرنے کے باوجود بھی ناکامی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ شاید وہ کام عملی طور پر انجام دینے سے پہلے اس کے تمام پہلوﺅں پر مکمل سوچ بچار نہ کیا گیا ہو۔ یا شاید کہیں کسی مشورے کی ضرورت پڑی ہو لیکن کوئی مشورہ دینے والا میسر نہ ہو یا پھر کوئی میسر ہو بھی تو اپنی ذاتی انا آڑے آگئی ہو۔ یا راز داری برتنے کی وجہ سے انسان کسی سے مشورہ نہ کر پایا ہو، یا شاید وہ کام مکمل ذہنی آمادگی کے ساتھ نہ کیا گیاہو جس کے باعث ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ گیا ہو۔ لہذا اختلاف کے قطع نظر یہ حقیقت روز روشن کی عیاں ہے کہ حافظ شمیم ؒ کی عبقری شخصیت بلا تفریق مذہب وملت ہر ذی شعور کے لیے علم وآگہی کا روشن منارہ تھی۔حقیقت یہ ہے کہ حافظ شمیم ؒ ایک باغ وبہار شخصیت کے حامل تھے۔ آپ نفرتوں کے اس خون آشام وخونخوار دور میں مسلکی تعصب سے ماورا اور مافوق شضصیت کے حامل تھے۔
شخصیت، وضع قطع اور لباس:
حافظ شمیم ؒ ایک پر کشش اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک انسان تھے۔ سادگی اور زہدوتقویٰ میں سلف کی یاد گار تھے ۔سفید سیدھے بالوں والی داڑھی ،گندمی رنگت، خوبصورت پرکشش چہرہ جس پر ہمیشہ نور اور مسکراہٹ ہوتی۔ زیادہ تر سفید لباس پسند فرماتے ۔سر پر ہمیشہ ٹوپی ہوتی۔ لباس اور دوسری تمام چیزوں میں صفائی و طہارت کا بہت ہی زیادہ خیال رکھتے۔حافظ شمیم ؒ کشادہ پیشانی ،گول چہرہ، میانہ قد، سر مگیں آنکھیں، چمکیلے دانت ، صاف رنگ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ وہ سلف صالحین کا نمونہ تھے۔ سچے عاشق رسول اور اخلاق و اوصاف میں اپنے اسلاف و اکابر کی یادگار تھے۔
اقبال کے شیدائی:
حافظ شمیم ؒ کو مطالعہ کا بھی بے حد شوق تھا۔ آج بھی ان کی ذاتی کتابیں مدرسے میں موجود ہے۔آپ
علامہ اقبال کے شیدائی تھے۔ انہیں کلام اقبال سے بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔ گاؤں کی خوبصورت اور پرشکوہ جامع مسجد کو آباد رکھنے کے بجائے مقامی مسلمانوں کو بازاروں اورہوٹلوں کی رونق بنتے اور گھروں میں میٹھی نیندسونے کوترجیح دیتے دیکھ کر آپ کا دل روتا تھا،اپنے دل کا درد مٹانے کےلئے اکثر و بیشتر آپ علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
مسلمانان مجھولیا کو تعلیم سے بہرہ مند دیکھنا حافظ شمیم جامعی ؒ کی اولین خواہش تھی اس لیے انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ گاؤں کے نوجوان اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں کیونکہ تعلیم ہی ترقی کی کنجی ہے۔ حافظ شمیم جامعی ؒ کے ادھورے مشن کی تکمیل کے لیے گاؤں اور علاقائی سطح پر ایسا نظام تعلیم رائج کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے طلبہ و طالبات کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں اور ہر طالب علم کو اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق اپنے جوہر پنہاں کی تربیت کے مواقع میسر ہوں۔
٭٭٭