حضرت مولانا ابو اختر قاسمی کی رحلت: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

 ازقلم: احمد حسین قاسمی

حضرت مولانا ابو اختر قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے منفرد لب و لہجے کے بے مثال خطیب اور بے بدل عالم دین تھے ؛ جو میدان خطابت میں مجمع پہ چھا جانےکا ہنراور پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو نہایت سہل انداز میں حل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ اب ایسی شخصیت اور ایسے دین کے خادم مسلمانوں کے درمیان خال خال ہی نظر آتے ہیں،ہماری نظریں دیکھ رہی ہیں کہ علم و عرفان کے پرانے بادہ خوار بڑی تیزی سے اٹھتے جا رہے ہیں اور ملت ان کے پاکیزہ سائے اور مقبول خدمات سے محروم ہوتی جا رہی ہے، آپ عرب و عجم کےعظیم محدث اور جنگ آزادی کے سرخیل حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کہ خاص تلامذہ میں سے ایک تھے۔

حضرت مولانا ابو اختر قاسمی کی رحلت: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
حضرت مولانا ابو اختر قاسمی کی رحلت: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

آپ بہار کی عظیم دینی درسگاہ اور روحانی مرکز جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے باکمال اور بافیض استاذ رہ چکے تھے۔

آپ کے سینکڑوں نامور شاگرد ہیں ؛ جن میں حضرت امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ کا اسم گرامی شامل ہے، اس کے بعد آپ نے اپنی دینی خدمات کا سلسلہ شمالی بہار کے مرکزی شہر اور قدیم ضلع دربھنگہ سےشروع کیا اور وہاں کی نہایت قدیم دینی درسگاہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کو اپنا مسکن بنالیا،حالانکہ آپ کا آبائی وطن ضلع بیگو سرائے تھا ؛مگر دینی خدمت کے پیش نظر آپ نے اس ادارے کو مرکز بنا کر اسی شہر کے ہو گئے،جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے،آپ نے یہیں سےپورے شمالی بہار میں بستی بستی قریہ قریہ تمام چھوٹے بڑے دینی و علمی اجلاس کے ذریعے اپنے اچھوتے اور منفرد انداز بیان سے مسلمانوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا، زمانہ طالب علمی سے آپ کے زمانہ صحت تک آپ کی بے شمار تقریروں سے استفادہ کا موقع میسرآیا۔

2011 میں جب بندہ نے اپنی خدمت کا محور دربھنگہ شہر کو بنایا ؛تو وہاں کے نامور علماء کرام میں آپ کا شمار ہوتا اور آپ سرزمین دربھنگہ کی علمی شخصیات میں سر فہرست نظر آتے ۔ آپ نےایک نووارد شہر اورمجھ جیسے کم مایہ طالب علم کو اپنے حوصلہ افزا کلمات سے اور میدان عمل میں حاصل کیے ہوئے اپنےقیمتی تجربات سے غیر معمولی توانائی اور تقویت بخشی، آپ کی علمی و عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا برادرگرامی ومعروف صحافی جناب محمد عارف صاحب نے بڑی خوش اسلوبی سے احاطہ کیا ہے، اس طرح آپ کی سوانح حیات آپ کی زندگی ہی میں کتابی شکل میں شائع ہوکر منظر عام پر آگئی۔

دربھنگہ شہر میں آپ تمام اکابر علماء کرام کے مرکز تھے، ایک لمبی عمر تک آپ نے جمعیت علمائے ہند کی مقامی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کیا اور ملی خدمات کا فریضہ انجام دیتے رہے، ایک طویل عرصے تک امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے دربھنگہ دارالقضا اور مدرسہ امدادیہ کے دارالافتاء کی بلند و بالا علمی خدمات آپ سے متعلق رہیں، خاص کرآپ اپنے اعلی اخلاق اور اچھوتے انداز بیان کی وجہ سے شمالی بہار کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بنے رہے، آپ کے شاگردوں اور فیض یافتگان کی ایک لمبی فہرست ہے، متھلانچل اور خاص کر سرزمین دربھنگہ آپ کی دینی و ملی خدمات کا ہمیشہ مقروض رہے گا، آپ نے اپنی زندگی کے اخری ایام میں سب سے نمایاں، نہایت اہمیت کا حامل اور غیر معمولی دینی کام یہ کیا کہ دربھنگہ شہر کی تاریخی "جھگڑوا مسجد” اندرون قلعہ جو مسلمانوں کی نقل مکانی کے باعث غیر آباد ہو چکی تھی، آپ نے ایک شاندار عمارت میں مدرسہ اسلامیہ کو نئی زندگی دے کر ہمیشہ کے لیے طالبان علوم نبوت کے ایک جیتے جاگتے قافلہ سے آباد فرما دیا، دربھنگہ شہر میں آج یہ مدرسہ سالانہ کئی درجن حفاظ کو تیار کرنے کا واحد مرکز بنا ہوا ہے،جس کی خدمت اج کل جناب مولانا وقاری نسیم احمد قاسمی انجام دے رہے ہیں، آپ نے اپنے محبین کو اس جانب متوجہ کر کے ایک دوسرا اسلامی قلعہ تعمیر کر دیا ہے ؛جو ضلع دربھنگہ اور شہر کے مسلمانوں کے لیے تمغہ امتیاز ثابت ہو رہا ہے۔

دربھنگہ کے آپ وہ واحد عالم دین تھے، جن سےتمام مسالک کے مسلمان بے پناہ محبت کرتے اور ہر طبقے میں آپ کی مقبولیت یکساں تھی، اللہ تعالی نے آپ کو یہ خاص ملکہ عطا فرمایا تھا کہ بڑے سے بڑا مضمون اور اہم سے اہم بات کو بڑی عمدگی و سلیقگی سے چندمنٹوں میں بیان کر دیتے اور مجمع و حاضرین مطمئن ہو جاتے ،ریاست کے ایک بڑے حلقے میں کسی بھی طرح کی مجلس، اجلاس اور کانفرنس ہو اس میں آپ کی شرکت اس کی کامیابی کی بھرپور ضمانت ہوتی ۔

اللہ تعالی آپ کی تمام تر دینی علمی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ، آپ کے تلامذہ کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ فرمائے ، آپ کی تقصیرات سے رب کریم صرف نظر فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare