حضرت مولانا ندیم الواجدی رحمہ اللہ
ایک ہمہ جہت شخصیت
تحریر: بدرالاسلام قاسمی
سرزمین دیوبند کے سپوت
’’دیوبند‘‘ کہنے کو ایک قصبہ، ہندوستان جیسے عظیم ملک کے ایک صوبے کی چھوٹی سی بستی، آبادی لاکھ کے قریب، سڑکیں کہیں چوڑی اور کہیں سنکری، بعض گلیاں اتنی تنگ کہ جانبین سے رکشہ نہ گزر سکے، زمین بھی ہموار نہیں، کچھ محلے بلندی پر تو بعض نشیب میں، نہ اعلیٰ شہری سہولیات فراہم اور نہ ہی ترقیاتی امور میں حکومت کی کوئی خاص توجہ حاصل؛ لیکن دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اس کے نام لیوا نہ ہوں، اس کا نام سن کر ان کی رگِ عقیدت نہ پھڑکے، اس چھوٹی سی بستی پر بارہا ان شخصیات کا بھی ورود ہوا جن کے دیدار اور ایک جھلک پانے کو لوگ حاصلِ زندگی تصور کرتے ہیں، کبھی عالمی شہرت یافتہ قاری شیخ عبد الباسط مصری آ رہے ہیں، کبھی ائمہ حرم شیخ سدیس، شیخ شریم اور شیخ صالح کی تشریف آوری کا موقع ہے، کبھی شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جلوہ افروز ہیں تو کبھی محبوب العلماء و الصلحاء حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم کی روحانی مجالس میں لوگوں کی آنکھیں نم ہیں، انتخابات کے وقت سیاسی بازیگر یہاں کی گلیوں میں، ملک میں جہاں کوئی ملی تحریک سرگرم ہوئی حکومتی نظریں اسی بستی پر، ان سب کی وجہ فقط ایک ’’دارالعلوم دیوبند‘‘
جسے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی و دیگر بانیان نے اخلاص و للہیت پر قائم کیا، فقیہ النفس، شیخ الہند، امام العصر، حکیم الامت، شیخ الاسلام اور مجاہد ملت جیسی عبقری اور تاريخ ساز شخصیات نے اس کارواں کو استحکام و استناد بخشا اور ترجمان مسلک دیوبند، جانشین فکر ولی اللہی، حکمت نانوتوی کے امین، فکر تھانوی کے نقیب اور علوم کشمیری و عثمانی کے جانشین، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ نے نصف صدی سے زائد اپنے خونِ جگر سے سینچا، ان کے دور اہتمام میں یہ ادارہ مدرسہ سے جامعہ بنا، ملکی سے عالمی بنا اور اس کی معتدل فکر نے مسلک اہل سنت و الجماعت کی ایسی ترجمانی کی کہ ’’مسلک دیوبند‘‘ دنیا بھر میں ’’مسلک اہل سنّت والجماعت‘‘ کا مترادف لفظ بن گیا۔محترم جناب مولانا ندیم الواجدی صاحب علیہ الرحمہ اسی مادر علمی کے نہایت قابل و باصلاحیت فاضل، اسی معتدل فکر کے ترجمان، افراط و تفریط کے درمیان شائستہ و شستہ لب و لہجے میں اپنی بات پیش کرنے والے، زبانِ قلم پر کامل قدرت رکھنے والے ایک مایہ ناز فرد تھے، جو مؤرخہ 14 اکتوبر 2024 ء کو دیوبند سے ہزاروں کلومیٹر دور شکاگو میں مختصر سی علالت کے بعد وفات پا گئے۔
مولانا مرحوم نے جس انداز میں ایک معتبر مترجم، مستند قلم کار، درجنوں مقبول کتابوں کے مصنف، کامیاب تاجر، مثالی باپ، بے تکلف دوست اور ملی درد رکھنے والے انسان کی حیثیت سے زندگی گزار ہے بلاشبہ یہ ہر ہر گوشہ مستقل تحریر کا متقاضی ہے، جن پر خوب لکھا جا رہا ہے، تعزیتی جلسوں اور نشستوں میں بیان کیا جا رہا ہے، ان کے فیض یافتگان انھیں یاد کرکے اشکبار ہو رہے ہیں اور یہ ہونا بھی ضروری ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک موجود ہے :
’’ اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ .‘‘(ابوداؤد، حدیث نمبر ۴۹۰۰)
(تم اپنے مُردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے بچو ۔)
جاذب و پُرکشش شخصیت
مولانا مرحوم سے باضابطہ تعارف کب ہوا یہ تو یاد نہیں، لیکن ان کے نام اور کام یعنی کتب خانہ سے شناسائی بچپن سے رہی،انھیں مختلف جلسوں اور علمی محفلوں میں موجود پایا۔لمبا قد، سفید رنگت، اس پر نہایت خوبصورت و پرکشش سرخ داڑھی، عمدہ پوشاک، کپڑے عموماً سفید اور نہایت نفیس، سردی میں شیروانی زیب تن، اسی کے مطابق سر پر دیوبندی ٹوپی، سردی زیادہ ہوتی تو کشمیریوں والا پیرہن (جس کو استاذ گرامی، حضرت مولانا غلام نبی کشمیری علیہ الرحمہ ’’ساتر العیوب‘‘ کہتے تھے)، عموماً یہ لباس لوگوں پر کم جچتا ہے، لیکن مولانا مرحوم کی شخصیت اتنی پرکشش اور وجیہ تھی کہ اس لباس میں وہ وجاہت دو چند ہو جاتی، سر پر اکثر لال رومال، اصول پسند اور وقت کے نہایت پابند، متعین وقت پر گھر سے نکلتے، بغل میں ایک چھوٹا سا بیگ جس میں موبائل اور دکان کی چابیاں، سرما و گرما کے متعینہ اوقات کے مطابق ان کا تجارتی و اشاعتی مرکز دارالکتاب کھلتا، مولانا پہلے تو باقاعدہ مصحف میں تلاوت فرماتے، بعد میں کئی مرتبہ انھیں موبائل میں تلاوت کرتے ہوئے پایا۔
سہل الاستفادہ عالم دین
ابتدا میں یقیناً یہ کتب خانہ ان کا میدان جہد و عمل رہا، ان کی شبانہ روز محنتوں نے اس مکتبہ کو دیوبند بلکہ ہندوستان کے مشہور و معتبر اشاعتی مراکز میں شمار کرایا، تاہم اخیر عمر میں یہ جگہ اکثر و بیشتر یہ ان کی بیٹھک کی شکل اختیار کر لیتی جہاں آنے جانے اور ملاقات کے لئے کسی خاص پروٹوکول اور ضابطہ پر عمل لازم نہ ہوتا، دارالعلوم چوک چوں کہ دیوبند کا مصروف ترین علاقہ ہے، یہیں پر دارالعلوم کا مہمان خانہ بھی واقع ہے، تو کوئی نہ کوئی مولانا کے ارد گرد ضرور نظر آتا۔ان کی شخصیت بھی کثیر الجہات تھی، کتب خانے کے ملازمین ہوں یا شہر کی کوئی معزز شخصیت، طلبۂ مدارس ہوں یا اساتذہ، ملی رہنما ہوں یا کوئی عام آدمی، وہ ہر ایک کی دسترس میں تھے،سہل الاستفادہ و کثیر الافادہ تھے۔ ملازمین و خریداران ان سے کتابوں کی تفصیلات معلوم کرتے وہ ان کی زبان پر ہوتیں، کوئی معزز شخصیت سامنے جلوہ افروز ہو تو گفتگو میں متانت و سنجیدگی، طلبہ ان سے عموماً مضمون نگاری میں ماہر بننے کے گر معلوم کرتے، کوئی تحریری مسابقہ چل رہا ہوتا تو عنوان کے مراجع کی نشاندہی کی درخواست کرتے، اساتذہ ان سے درسی کتب کا انداز تدریس پوچھ رہے ہوتے بالخصوص عربی زبان و ادب کے تعلق سے ان کے ہر ہر جملے کو محفوظ کر رہے ہوتے، ملی رہنما و قائد کے سامنے ملکی و ملی مسائل پر اپنے طویل تجربات اور وسیع مطالعے کی روشنی میں تبادلہ خیال فرماتے، کوئی اخباری نمائندہ سامنے ہوتا تو مشکل سے مشکل اور حساس و پیچیدہ مسائل پر اس طرح اپنی رائے دیتے کہ سامنے والا چاہ کر بھی کوئی کمزور پہلو نہ نکال پاتا۔
ماہنامہ ’’ترجمانِ دیوبند‘‘
خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ماہنامہ ’’ترجمانِ دیوبند‘‘ کا بڑا شہرہ تھا۔موبائل کی مضر صحبت سے لوگ محفوظ تھے۔ با ذوق افراد اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے، بالخصوص دیوبند سے باہر اس کی بڑی مقبولیت تھی، رسالے کے بیشتر مضامین مولانا مرحوم کے گہربار قلم سے ہی نکلے ہوتے، تاہم بسا اوقات وہ دیوبند کے کچھ نوجوان فضلاء کی تحریر بھی اس میں شائع کرتے، غالباً ان کے پیش نظر مضمون نگار کی حوصلہ افزائی رہتی ہوگی۔راقم کا بھی ایک مضمون حضرت مولانا مفتی مشتاق احمد قاسمی استاذ تفسیر دارالعلوم وقف دیوبند کی شخصیت سے متعلق مولانا مرحوم نے اپنے ماہنامہ میں شائع کیا تھا۔
راقم کو مولانا کی کچھ نصیحتیں
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند سے راقم جب بطور مدرس وابستہ ہوا تو گرافکس ڈیزائننگ کو بھی اپنی مصروفیات کا لازمی حصہ بنایا، کہ اول الذکر خدمت دین کا ذریعہ ہے اور ثانی معاشی سہارے کا۔دیوبند کے مختلف کتب خانوں سے ان دنوں رابطے کیے، کچھ نے حوصلہ افزائی کی، کچھ نے ٹال دیا، جب کہ بعض نے مکمل انٹرویو ہی لے ڈالا۔ہم (راقم اور شاہ عالم قاسمی جو اُن دنوں ڈیزائننگ کے کام میں میرے شریک کار تھے، اب بفضل الٰہی النور اسلامک اکیڈمی دیوبند کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس ادارے سے استفادہ کر رہی ہے) مولانا مرحوم کے مکتبہ پر بھی پہنچے اور ان سے ڈیزائن کا کام مانگا۔انھوں نے فورا کچھ ٹایٹل (کتابوں کے سرورق) ہمیں دیے، ڈیزائن فائنل ہونے کے بعد مولانا نے کہا ان ٹائٹل کو جلد از جلد چھپوا دیں۔چوں کہ ہم اس میدان میں ابھی نئے تھے اور پرنٹنگ کا کام دہلی میں ہوتا تھا، ابھی ہمارے روابط اتنے مستحکم نہ تھے کہ فقط ہمارے قول پر اعتماد کرتے ہوئے ہزاروں کا کام ہو جائے اور رقم بعد میں ادا ہو، ہم تو ایسے موقع پر رقم ایڈوانس لیتے اور ٹائٹل طبع کرا کر دے دیتے۔اسی کے پیش نظر ہم نے مولانا مرحوم سے ایڈوانس رقم کا مطالبہ کیا اور پوری تفصیل ان کے گوش گزار کی۔اس موقع پر ان کی مشفقانہ اصول پسندی کا ہم نے مشاہدہ کیا، انھوں نے فرمایا:
’’بھائی بدر! کوئی بھی کام ایسے نہیں ہوتا، روپیہ روپیہ کو کھینچتا ہے، کام کرنے کے لیے پہلے خود کا سرمایہ لگانا ہوتا ہے، پھر اس میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتے ہیں۔ تم از خود رقم لگاؤ، اگر اتنی رقم نہیں ہے تو کہیں سے نظم کرو، ہماری جانب سے پیمنٹ کی کوئی فکر نہ کرو، جس دن ٹائٹل طبع ہو کر آئے اسی دن اپنی مکمل رقم لے کے جانا۔‘‘
معاملات میں کھرے
واقعی ان کی یہ نصیحت ہمیں مستقبل میں بہت کام آئی اور پھر ایک طویل زمانے تک ہم نے دارالکتاب کی یہ خدمت انجام دی، اس دوران مولانا مرحوم سے بارہا گفتگو کا موقع ملا، انھیں قریب سے دیکھا اور پرکھا، بات چیت میں انھیں بےتکلف اور کھرا پایا، وہ ہم خردوں سے بھی برادرانہ انداز میں گفتگو کرتے، ماضی کے واقعات سناتے۔ معاملات میں وہ نہایت کھرے تھے، اِدھر کام ہوا اور اُدھر اجرت آپ کی جیب میں، شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی کو ان کے دور میں دارالکتاب سے واجبی رقم وصولنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ یہی معاملات ان کے اپنے ملازمین کے ساتھ بھی تھے۔مشہور تھا کہ انھوں نے کبھی کسی ملازم کو از خود برخاست نہیں کیا، اگر کبھی کوئی علاحدہ بھی ہوتا وہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا۔
چالیس سال میں کبھی تنخواہ میں تاخیر نہیں!
ان کی وفات پر منعقد دیوبند میں ایک تعزیتی اجلاس کے بعد ان کے معتمد خاص بھائی عامل صاحب (رکن اساسی دارالکتاب) نے مجھ سے بتایا کہ تقریباً چالیس سالوں سے ان کے ساتھ کام کیا، اس دوران کبھی بھی تنخواہ ایک دن بھی تاخیر سے نہیں ملی، بلکہ اگر پہلی تاریخ اتوار کو ہوتی تو وہ ہفتے کے روز ہی اس فریضہ سے سبکدوش ہو جاتے۔ ایک مرتبہ تو وہ سفر (حج یا عمرہ) سے ایک تاریخ کی شام میں دیوبند پہنچے تو اپنے معتمد ملازم سہیل بھائی کو فون کرکے تمام ملازمین کو گھر بلا کر تنخواہ دی۔ اسی طرح لاک ڈاؤن کے سخت ترین دور میں بھی انھوں نے تمام ملازمین کو حسب سابق ہی مشاہرہ دیا۔
یوں تو مولانا مرحوم اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے جامع الکمالات اور اپنی خوبیوں کے اعتبار سے مجموعۂ حسنات تھے، تاہم صفائی معاملات ان کا وصف خاص اور دیوبند کی مارکیٹ میں ان کا ما بہ الامتياز سمجھا جاتا تھا۔
نہایت مفید نظریہ
دیوبند کے مدارس میں سالانہ امتحان سے پہلے جلسہ انعامیہ کی روایت رہی ہے، جس میں طلبہ کو حسب کارکردگی کتابوں کی شکل میں انعامات سے نوازا جاتا ہے، یہی طریقہ یہاں کی صوبائی اور ضلعی انجمنوں کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں وہ عموماً کتب خانوں سے رابطہ کرتے، ان کے سامنے اپنی سالانہ کارکردگی رکھتے اور حسب سہولت ان سے کتابوں کی شکل میں تعاون کی اپیل بھی کرتے ہیں۔کئی مرتبہ راقم نے مولانا مرحوم کو اس بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ تعمیرات، تعلیمات اور مطبخ وغیرہ کی طرح کتابوں کی خریداری کے لئے اداروں کا سالانہ بجٹ – خواہ ان کے سالانہ بجٹ کا چند فیصد ہو- مخصوص ہونا چاہیے، تبھی طلبہ کو معیاری اور عمدہ کتابیں انعام میں مل سکیں گی جو ان کے ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانے اور ٹھوس علمی لیاقت میں معاون ثابت ہوں گی۔اسی کی برکت سے ہر سال نئی کتابوں کی خریداری ہونی چاہیے تاکہ مدرسے کی لائبریریوں اور انجمنوں میں بھی معیاری کتب کا ذخیرہ پہنچ سکے۔ یوں فقط ناشرین کتب کے تعاون پر انحصار سے وقتی ضرورت یعنی اجلاس اور انعامات کی تقسیم وغیرہ کے مراحل تو انجام پا سکتے ہیں لیکن اس سے دیر پا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ظاہر ہے کہ بیشتر ناشرین یہ تعاون بمد زکاۃ کرتے ہیں، جس میں عموماً متوسط اور ناقص کتب دیے جانے کا ہی معمول ہے۔
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند سے تعلق
یوں تو مولانا ندیم الواجدی صاحب کا سرزمین دیوبند اور اہل دیوبند سے بہت گہرا تعلق تھا، تقریباً ہر اجلاس میں وہ مدعو ہوتے، اور اپنی جاذب شخصیت سے پروگرام کو وقار بخشتے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل میدان تحریر و صحافت کا تھا، وہ اسٹیج کے ان عوامی مقررین میں کبھی شامل نہ ہوئے جو جوشِ خطابت اور سحر انگیز تقریر کے لیے شہرت رکھتے ہوں، واقعات و لطائف کا سہارا لے کر معمولی سی بات کو گھنٹوں میں بیان کرتے ہوں۔مولانا ندیم الواجدی کی بہت سی تقریریں میں نے سنی، وہ نہایت سنجیدگی و متانت کے ساتھ سامعین سے مخاطب ہوتے، کوئی واقعہ ذکر کرتے تو کوئی نہ کوئی حوالہ بھی ساتھ ہوتا، ان کی گفتگو میں طویل تجربات و مشاہدات کی روشنی میں مختصر اور جچی تلی باتیں ہوتیں جن سے زیادہ فائدہ اہل علم سامعین ہی کو ہوتا۔
فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ سے ان کا خاص تعلق تھا، چنانچہ جب شاہ صاحب کی سرپرستی میں معہد الانور (موجودہ نام ’’جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند‘‘) نامی ادارہ قائم ہوا اور اس کی انجمن ’’کواکبِ انور‘‘ کے سالانہ اجلاس کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا ندیم الواجدی صاحب معہد کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں ضرور شرکت فرماتے۔ راقم السطور کے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی، ادیب اریب حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، استاذ گرامی قدر حضرت مولانا عبد الرشید بستوی اور مولانا ندیم الواجدی صاحبان کا تعلق بہت مستحکم اور گہرا تھا، یہ چاروں اربابِ علم و ادب بیک وقت معہد الانور کے اکثر و بیشتر پروگراموں میں شامل ہوتے۔
چار اساطین علم و فن
اجلاس میں ناظم تعلیمات حضرت مولانا عبد الرشید بستوی کی شاندار نظامت ہوتی، جس میں وہ تعلیم و تعلّم کی اہمیت اور اس کے فضائل بیان فرماتے، حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اپنی شعلہ بیانی، سلاست و روانی، مسجع و مقفع جملوں کی چاشنی اور اپنی گرجدار آواز میں چند منٹوں میں مجمع پر چھا جاتے، والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی دارالعلوم دیوبند کی تاریخ بیان کرتے، امام العصر علامہ کشمیری کی عبقریت کو واضح فرماتے، جب کہ حضرت مولانا ندیم الواجدی لہجے میں نہایت ٹھہراؤ اور سنجیدگی کے ساتھ اظہار خیال کرتے۔افسوس کہ یہ چاروں افراد دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، جہاں ان کی رحلت سے دیوبند اور اہل دیوبند کی جانب سے منعقد جلسوں میں خلا پیدا ہوا، وہیں دوسری جانب شاہ صاحب کا قائم کردہ معہد الانور اپنے چار مخلصین و محبین سے محروم ہو گیا۔
تدریس یا تجارت! مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ کا مشورہ
راقم کے والد گرامی اور مولانا مرحوم چوں کہ ہم عصر تھے، ابو کی فراغت 1971 کی ہے، جب کہ مولانا نے 1974 میں دورہ حدیث کیا، دونوں کے اساتذہ بھی تقریباً ایک ہی تھے۔دونوں ہی شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی علیہ الرحمہ کے خصوصی تربیت یافتہ تھے۔ اسی وجہ سے راقم پر مولانا کی شفقتیں بھی رہیں، بسا اوقات ان کے کتب خانے پر حاضری ہوتی تو وہ بیٹھنے کو کہتے، باتیں کرتے، مجھے بھی تجربہ کار لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کے ماضی کے احوال سننے کا بڑا شوق ہے۔
اسی طرح ایک دن مولانا نے بتایا کہ جب دارالکتاب ابتدائی مراحل میں تھا، تو ایک دن استاذ گرامی حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کی خدمت میں حاضری ہوئی، ان سے پوچھا کہ تدریس اور تجارت میں سے مجھے کس ڈگر پر چلنا چاہیے؟ استاذ گرامی نے فوراً کہا جس روش (تجارت و صحافت) پر ہو اسی پر رہو، وہی تمھارے لیے بہتر ہے۔مولانا مرحوم نے مجھ سے بتایا کہ میں اس مجلس سے اٹھا تو دل کو ایک اطمینان اور شرح صدر کی کیفیت حاصل ہوئی اور پھر کبھی کسی پس و پیش میں مبتلا نہیں ہوا۔
والد گرامی کی وفات
16 جون 2023ء کو جب والد گرامی کی وفات ہوئی تو اس پر مولانا ندیم الواجدی صاحب نے نہایت تسلی بخش جملے کہے، اس کے بعد بارہا ان سے ملاقاتیں ہوئیں، جب میں نے ان کے سامنے والد گرامی کی سوانح مرتب کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو بہت خوش ہوئے۔راقم کی ایماء پر والد گرامی سے متعلق ۱۱؍صفحات پر مشتمل ایک وقیع و مفصل مضمون بھی تحریر فرمایا، کچھ دنوں بعد ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ بہت دنوں سے شخصیات پر کچھ لکھا نہیں تھا، جب سے تمہارے والد صاحب پر لکھا ہے اُس دن سے مضمون کے کئی مطالبات پورے کر چکا ہوں۔ تمہارے والد صاحب والا مضمون میرے سوانحی و تأثراتی تحریروں کے اگلے مجموعہ ’’خدا بخشے‘‘ میں ضرور شامل ہوگا۔ واضح ہو کہ مولانا ندیم الواجدی صاحب کی سوانحی تحریرات کا پہلا مجموعہ ’’خدا رحمت کند‘‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے۔
والد گرامی پر مضمون کے اہم اقتباسات
والد گرامی پر اُن کے مضمون کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں :
’’دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز اور قابل فخر فرزند، درسِ نظامی کے عظیم اور قدیم مدرس، اُردو اور عربی زبانوں کے بےمثال خطیب اور قلم کار سب سے بڑھ کر یہ کہ انتہائی خلیق، متواضع اور ملنسار انسان مولانا محمد اسلام قاسمی بھی دنیا سے رخصت ہوگئے، وہ ایک لمبے عرصے سے بیمار تھے، لقوہ اور فالج سے ان کا جسم تقریباً مفلوج ہوچکا تھا، زبان تک متأثر تھی، کئی مرتبہ ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت والے شعبے میں بھی داخل رہے، لیکن کوئی علاج کارگر نہ ہوسکا، بالآخر اپنی عمر کے ستر سال پورے کرکے اُس عالم کی طرف سدھار گئے جہاں سب کو جانا ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ طویل بیماری ان کے لیے کفارۂ سیئات اور رفع درجات کا سبب بنے گی۔‘‘
’’ ———اس وقت ’’الداعی‘‘ پندرہ روزہ تھا اور بڑے سائز میں چھپا کرتا تھا، اس کی کتابت اور تزئین کا تمام کام مولانا مرحوم کے ذمے تھا، مولانا اسلام قاسمی تخلیقی ذہن رکھتے تھے، اس لئے ’’الداعی‘‘ میں ان کی خطاطی کے دل کش نمونے جا بہ جا بکھرے نظر آتے تھے، عربی زبان وادب کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہم بھی الداعی کے مستقل قاری تھے اور ان کی خطاطی کے نمونوں سے حظ اٹھاتے تھے۔‘‘
’’———دوسری شخصیت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کی ہے، دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم، بزرگوں کی یادگار، بے مثال خطیب، باکمال مصنف، حسن انتظام میں اپنی مثال آپ، بے پناہ خوبیوں کے مالک، افسوس بعض طالع آزماؤں نے ان کی قدر نہ کی، اور عمر کے آخری حصے میں ان کو ذہنی اذیتیں دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، مولانا اسلام قاسمیؒ نے پہلی مرتبہ احاطۂ دار العلوم میں ان کو دیکھا تو گرویدہ ہوگئے، لکھتے ہیں کہ ’’میں پہلے ان سے متأثر ہوا، پھر ان کا معتقد ہوگیا‘‘، حضرت حکیم الاسلام کی ذات گرامی سے اعتقاد اور تعلق خاطر کا یہ سلسلہ ان کی زندگی تک بلکہ خود اپنی زندگی تک اسی طرح برقرار رہا، انہوں نے حضرت والاؒ پر متعدد مضامین سپرد قلم کئے اور ان کو ایک مجموعے کی شکل میں شائع بھی کیا، حضرت کی وفات کے بعد مولانا اسلام قاسمی نے اپنے عربی ماہ نامے ’’الثقافہ‘‘ کا ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا جو معمول سے کئی گنا ضخیم تھا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربی زبان میں یہ پہلا مجموعۂ مضامین تھا جو حضرت حکیم الاسلامؒـ کی شخصیت، خدمات اور کارناموں پر شائع ہوا۔‘‘
’’ ۱۹۸۲ء میں دار العلوم دیوبند اصحاب سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا، اور دو ٹکڑوں میں تبدیل ہوگیا، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کو سبک دوش کردیا گیا، ان کے ساتھ دار العلوم دیوبند کے پچاسی مدرسین اور ملازمین باہر آگئے، ان میں مولانا اسلام قاسمیؒ بھی تھے، ان کے سینئر مولانا بدر الحسن قاسمی دربھنگوی کویت چلے گئے، مولانا اسلام قاسمی بھی ایسا ہی کوئی قدم اٹھا سکتے تھے، لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ کی عقیدت ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی، اکثر ملازمین اور مدرسین جو حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ دار العلوم دیوبند سے باہر آگئے معاشی بدحالی کا شکار ہوئے، مگر مولانا اسلام قاسمی کو اللہ نے جس فن سے نوازا تھا اس نے ان کی دست گیری کی، دیوبند جیسی جگہ پر جہاں قدم قدم پر کتب خانے اور چھاپے خانے ہیں کوئی ماہر فن خطاط معاشی مشکلات کا شکار ہو بھی نہیں سکتا تھا، دار العلوم کے حالات کا مولانا کے ذہن پر بڑا اثر تھا، اپنے اس کرب کا اظہار انہوں نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے۔‘‘
’’مولانا اسلام قاسمی باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے، دیوبند کی کئی مجلسوں کے روح رواں تھے، اور دوستوں کی بہت سی محفلیں ان کے دم سے آباد تھیں جو اب بے رونق ہوچکی ہیں، راقم السطور سے ان کا مجلسی تعلق نہیں تھا، البتہ ایک زمانے تک ہم دونوں کی ملاقاتیں سعیدیہ ہوٹل اور مرغوب ہوٹل میں ہوتی رہیں جہاں ہم لوگ چائے نوشی کا شغل کرتے تھے، ان ملاقاتوں میں ان کی پُربہار شخصیت کے کئی پہلو نظروں کے سامنے آئے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حوالے سے بھی ان کا مجھ سے ایک خاص ربط رہا، ہم دونوں ہی اس کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے، میری کوشش ہوتی تھی کہ میں ان کے ساتھ ہی قیام کروں اور ان کے قریب ہی بیٹھوں، چناں چہ بمبئی، اجین، اور دوسرے کئی شہروں میں ہمارا قیام ایک ہی کمرے میں رہا، شاہ ولی اللہ اکیڈمی دہلی کے مولانا عطاء الرحمٰن قاسمی، اور امارت شرعیہ کے مولانا انیس الرحمٰن قاسمی بھی ساتھ ہوتے تھے، اس طرح رات رات بھر ہماری باتوں کا سلسلہ جاری رہتا، کبھی ہم سنجیدہ علمی مباحث میں مصروف ہوجاتے اور کبھی لطیفوں اور قصوں سے ہمارے کمرے میں قہقہے گونجنے لگتے، ان ملاقاتوں میں بھی ان کی دلآویز شخصیت نکھر کر سامنے آئی۔‘‘
’’میں بہت پہلے یہ مضمون لکھنا چاہتا تھا، مگر لکھ نہ پایا، مولانا کے انتقال کے بعد ہی سے ان کے لخت جگر کا تقاضہ رہا کہ مضمون لکھ دوں، جون میں ان کی وفات ہوئی، اس وقت میں دیوبند میں تھا، جنازے میں بھی شرکت رہی، اس کے ایک دو دن بعد میں امریکہ چلا گیا، ۱۵/ جولائی کو مولانا بدر الاسلام قاسمی نے مجھے ایک خط لکھا، اس کے جواب میں میں نے انہیں یہ صوتی پیغام بھیجا جو میرے موبائل میں محفوظ ہے:
’’آپ کا خط مل گیا، جزاک اللہ، میرا خود ہی لکھنے کا ارادہ ہے، لکھوں گا ، ضرور ان شاء اللہ، میں نے یہاں آکر دو مرتبہ انہیں خواب میں دیکھا ہے، ایک مرتبہ تو میں نے دیکھا کہ لال مسجد کا جو راستہ قاضی مسجد کے سامنے سے جارہا ہے وہاں اس گلی میں میں اُدھر سے آرہا ہوں اور وہ ادھر سے جارہے ہیں، وہ مجھے اکثر مولوی ندیم کہا کرتے تھے، وہاں روک کر انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ کیا بات ہے مولوی ندیم !تم نے اب تک مجھ پر مضمون نہیں لکھا۔ ماشاء اللہ بہت اچھی حالت میں تھے، خوش وخرم تھے، دوسری مرتبہ کا خواب مجھے یاد نہیں، بہ ہر حال یہ مولانا کی بھی فرمائش ہے اور میرے دل کا تقاضا بھی ہے، میں مضمون ضرور لکھوں گا۔‘‘
واضح رہے کہ یہ مکمل مضمون والد گرامی کی زیر ترتیب سوانح کا اہم حصہ ہے، یہ بارہ سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہوگی جس میں جلد اوّل ولادت تا وفات کے مکمل حالاتِ زندگی بیان کرے گی، جب کہ دوسری جلد میں تأثراتی و سوانحی مقالات شامل ہوںگے۔ امید ہے کہ سوانح حیات مع والد گرامی کی پانچ دیگر کتابوں کے؛ نومبر کے اخیر یا دسمبر کے شروع میں منظر عام پر آجائیں گی۔ ارادہ تو یہی تھا کہ ان کتابوں کی تقریب ِ رسمِ اجراء کے موقع پر مولانا ندیم الواجدی مرحوم بھی رونقِ محفل ہوں اور اس بزم کو وقار و اعتبار بخشیں ، لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا!بسا آرزو کہ خاک شد
تعزیت کس سے کریں!!
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب ؒ کی اچانک رحلت سے کچھ دنوں تک عجیب سا سناٹا محسوس ہوا، سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ تعزیت کس سے کی جائے۔ دارالکتاب کی پُررونق مجلس کے وابستگان سے، اُن کے احباب و معاصرین سے، ان کی شفقتوں اور عنایتوں سے مالامال اُن کے ملازمین سے، اُن فضلاء سے جنھوں نے دورانِ طالب علمی مولانا سے کسب ِ فیض کیا، مضمون نگاری کے نوک و پلک سنوارے، مقالات تحریر کیے، اُن اربابِ انتظام و اہتمام سے جو موقع بہ موقع مولانا سے مشورے کرتے، اُن کی ہدایات پر عمل کرکے اپنا معیارِ تعلیم بلند کرنے کی کوشش کرتے، دیوبند کی ہر علمی اور ادبی شخصیت سے کہ جن کی مجلسوں اور محفلوں کی رونق مولانا کے دَم سے تھی، یا اُن کے گھر ’’عفت مآب‘‘ سے ’’دارالکتاب‘‘ تک بسنے والے ہر اُس شخص سے جو علم و ادب کے اس بحر ذخار، تحریرو صحافت کے عظیم شناور، درجنوں کتابوں کے مصنّف اور ایک کامیاب تاجر کو جو صبح و شام اپنے معمول کے مطابق متعینہ وقت میں اس راہ پرگزرتے دیکھتے تھے۔ یا پھر مولانا کے حقیقی و علمی جانشین ، ہزاروں افراد کے لیے سبب ِ ہدایت، بلا مبالغہ لاکھوں نوجوانوں کے لیے رول ماڈل، محترم جناب مولانا مفتی یاسر ندیم الواجدی حفظہ اللہ سے جن کی وسیع اور ہمہ جہت ایمانی خدمات بلاشبہ اپنے والد مرحوم کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ ہیں، جن سے امید بلکہ قوی یقین ہے کہ وہ اپنے عظیم والد کی زندگی کے ہر ہر گوشے پر مشتمل ایک مفصل سوانح حیات مرتب کریں گے جو نسلِ نو کے لیے بہترین رہنما ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنّت الفردوس کی راحتیں بخشے اور اُن کے جملہ متعلقین کو صبر و سکون نصیب فرمائے۔ آمین