خاکۂ حیات علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری
(1292 ھ 1875 م – 1352 ھ 1933 م )
بقلم : اشتیاق احمد قاسمی
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور چوتھے صدر المدرسین ، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ علمائے دیوبند میں عظیم ترین شخصیت کے حامل ہیں ، ان کی عبقریت کو عرب اور عجم سب نے تسلیم کیا ہے ، وہ بیک وقت محدث ، مفسر ، فقیہ اور ادیب تھے ۔ زبردست حافظہ کے مالک تھے ۔ علمِ حدیث میں نہایت ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ عربی اور فارسی زبان میں برجستہ اشعار نظم کرنا ، قصیدے کہنا ، ان کے لیے ہر وقت ممکن تھا ، ان کے عربی قصائد اور منظومات میں اشعار کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔
ان کی تصانیف میں « النور الفائض علی نظم الفرائض » ان کی فارسی ادبیات کا شاہکار ہے ، یہ ایک نایاب منظومہ ہے ، اس میں صرف ترانوے (93 ) اشعار میں "علم فرائض” کے پورے سمندر کو سمو کر رکھ دیا ہے ، میراث کی تقسیم کو مشکل مانا جاتا ہے ، اس فن کو ضبط کرنا ہی مشکل ہے ، چہ جائے کہ اس کو نظم کرنا اور پھر فارسی زبان میں ؛ اس کا اندازہ اہلِ علم ہی کر سکتے ہیں ۔ متن نویسی نثر میں بھی مشکل ترین کام ہے ، نظم میں متن نویسی کا بیانیہ کس قدر فقہ و ادب پر گرفت کی دلیل ہے اور اس سے صاحبِ نظم کی عبقریت کس طرح کھل کر سامنے آتی ہے ، بیان نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت علامہ کشمیری رح کو یہ مقامِ بلند اپنے استاد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کے بعد حاصل ہوا ۔ اور فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی فیض نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیے ، فقہ حنفی کو قرآن و سنت سے مدلل کرنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ صحیح بخاری کا سبق بہت عمدہ اور آفاقی ہوتا تھا ۔ «فیض الباری» کی چار جلدیں اس پر شاہدِ عدل ہیں ۔ دو ہزار سے زائد طلبہ نے آپ سے کسبِ فیض کیا ، سندِ حدیث حاصل کیا ، تحریکِ آزادی ہند میں بھی آپ نے حصہ لیا ، تحفظِ ختمِ نبوت میں آپ کا کارنامہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ مدرسہ امینیہ دہلی میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز رہے ۔ اپنے وطن کشمیر میں "مدرسہ فیض عام” قائم کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں حضرت علامہ تنخواہ کے بغیر خدمت انجام دیتے تھے ۔ ان سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے والے طلباء میں مشہور ترین شخصیات ہیں : ان میں سے ممتاز شخصیات کے نام درج ذیل ہیں :
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی ، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند ، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ، حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی ، حضرت مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی ، حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی اور حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہم اللہ تعالیٰ ۔ ان سارے تلامذہ نے اپنے اپنے میدانِ عمل میں امتیاز حاصل کیا ، تصنیفی ، تالیفی ، تحقیقی ، سیاسی ، فقہی اور دفاعِ اسلام کی خدمات کے حوالے سے ان سب کو دنیا جانتی ہے ۔ علامہ کشمیری کی تصانیف کی صحیح تعداد مجھے معلوم نہیں ؛البتہ ان میں اہم کتابیں اور رسالے درج ذیل ہیں :
فیض الباری شرح صحیح بخاری ، انوار الباری شرح صحیح بخاری ، العرف الشذی شرح جامع ترمذی ، مشکلات القران ، اِکفار الملحدین ، عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسی علیہ السلام ، تحیۃ الاسلام فی حیات عیسی علیہ السلام ، التصریح بما تواترَ فی نزولِ المسیح ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ، فصل الخطاب فی مسئلۃ اُمِ الکتاب ، خاتمۃُ الخطاب فی فاتحۃ الکتاب ، نیل الفرقدین فی مسئلۃ رفع الیدین ، بسط الیدین لنیل الفرقدین ، کشف الستر عن صلاۃالوتر ، ضرب الخاتم الی حدوث العالم ، مرقاۃ الطارم لحدوث العالم، اِزالۃ الرین فی الذب عن قرۃ العینین اور سہم الغیب فی کبد اہلِ الریب ۔۔۔۔ وغیرہ
1927 عیسوی کی ابتداء میں ناگہانی انتظامی اختلاف کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند سے استعفاء دے دیا اور” مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل” چلے گئے، تقریباً پانچ سال تک وہاں اپنا فیض پھیلاتے رہے ، پھر علالت کی وجہ سے دیوبند تشریف لائے ، علاج ہوتا رہا ؛مگر وقتِ موعود آچکا تھا ؛ چنانچہ 28 مئی 1933 عیسوی کو آپ نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیا ۔ دیوبند میں عیدگاہ کے جنوب میں آرام فرما ہیں ۔ عرب و عجم میں علمائے دیوبند کو جو وقار اور علمی اعتبار حاصل ہوا ہے ، اس میں علامہ کی تصانیف ، شاگردان اور ان کی ملکی و ملی خدمات سب کو دخل ہے ، علمِ حدیث سے علامہ اور ان کے شاگردوں کو جو حصہ ملا ہے ، وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ، اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائیں گے، درجات بلند فرمائیں اور جنت الفردوس میں ہمیں بھی ان کی ہم نشینی عطا فرمائیں !