دینی اداروں میں طبی شفاخانوں كا قیام

ڈاكٹر عبدالملك رسولپوری

آج كے مضمون كا آغاز چھ روپے میں بخار اور پانچ روپے میں پھنسی كے علاج سےكیا جاتا ہے۔ دو ہفتے قبل كی بات ہے كہ راقم كے بائیں پیرمیں ایك ہلكی سی پھنسی نے سرابھارنا شروع كیا ‏، پھنسی كی ساخت اور ضخامت تو محبوب كے تل كی طرح تھی ہی‏، اس كی سفاكیت بھی اس تل سے كچھ كم نہ تھی بس تل كا اثر قلب پر مرتب ہوتاہے اوریہ پھنسی دماغ میں نشتر چبھورہی تھی۔ كہیں پڑھا تھا كہ بعد از قیامت اہل جہنم آگ كے انگاروں پر چلیں گے تو شدت تپش كی وجہ سے ان كے سر كھول رہے ہوں گے‏، مختصر سی وہ پھنسی پیر اور دماغ كے اس مضبوط رابطےكا پتہ دے رہی تھی۔ تكلیف كی اسی شدت میں ایك اہم كام كی وجہ سے دیوبند كا سفر ہوگیا ‏ ‏، جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی اچھا خاصا پا پیادہ چلنا پڑا اور ہر قدم پر پیر كی شہ رگ پر نكلنے والی اس تل نما پھنسی كی سفاكیت بڑھتی جارہی تھی‏‏‏، ہمارے عزیز مولانا شفیق سلطان پوری نے یہ صورت حال دیكھی تو وہ ہمیں اپنے پٹرول گھوڑے پر بٹھائے دارالعلوم دیوبند كے عظمت اسپتال لیے چلے گئے۔ یہ بھی ایك طرفہ تماشا تھا كہ دور ان طالب علمی ہمیشہ اس شفاخانے سے بُعد بنا رہا اور اب جب كہ معالجے كی ذمہ داری دوسری كمپنیوں نے اٹھاركھی ہے عظمت اسپتال كا مرہم ہمارے پیر كے ملحمے كے لیے سراپا شفا بنا ہوا تھا۔

دینی اداروں میں طبی شفاخانوں كا قیام
دینی اداروں میں طبی شفاخانوں كا قیام

اسپتال پہنچے تو اتفاق سے معالج بھی پرانے شناسا‏، ہمارےہی وطن كے نظر آئے ‏،جو ایك بچے كے لیے بخار كی دوا تجویز كررہے تھے ‏،نسخہ لكھنے كے بعد جب بچے كی والدہ نےدواؤں كے صرفے كے بارے میں دریافت كیا تو ڈاكٹر صاحب نے جوابا عرض كیا: چھ روپیے‏‏، یہ سن كر خاتون تو پرس سے پیسے نكالنےلگیں؛ البتہ ہمارے ذہن میں فورا ایك استعجابی ترنگ نے جنم لیا كہ تین روز كی دوا اور محض چھ روپیے؟!!كیا یہ ممكن ہے؟!!! ابھی اسی حیرت واستعجاب كی كیفیت میں محو تھے كہ ڈاكٹر صاحب نے ہم سے دریافت كیا كہ فرمائیں كیا حال ہے ‏؟ راقم نے پیر كی پھنسی دكھلائی اور اس كی سفاكیت بتلائی‏، تو كہنے لگے كچھ نہیں ابھی ڈریسنگ كیے دیتے ہیں صبح تك ان شاء اللہ افاقہ ہوجائے گا ‏، انھوں نے ایك پرچی لكھ كر ہمارے ہاتھ میں تھمائی كہ چلتے ہیں جراح كے پاس ڈریسنگ كروادیتے ہیں ۔ ان خاتون كی طرح ہم نے بھی سوال كیا كہ كتنے پیسے دیے جائیں ‏،تو كہنے لگے پانچ روپیے ‏، آندھی كے بگولے كی طرح تیزی سے بڑھنے والی آج كی گرانی میں اس ارزانی نے اور بھی حیرت زدہ كردیا اور تنقیدی مطالعے اور تخلیقی ذہنیت كا حامل یہ دماغ ایك بار پھر حیرت واستعجاب كی ترنگوں پر سوار فكری تانے بانے بننے میں گم ہوگیا۔

سفر كی داستان سنائی جاے تو مضمون طویل ترہوجائے گا؛ كیوں كہ اس میں مرشد كی صدارت میں چھتہ مسجد كی میٹنگ كا بھی ذكر آئے گا اور بعد از میٹنگ دیگر احباب كی خوش گپیوں اور مجلسی چٹخاروں كا بھی تذكرہ ہوگا۔ وہ چٹخارے حباب دریا تھے اشغال كی موجیں كب كی انھیں اپنے ساتھ بہا كر لے جا چكی ہیں ؛اس لیے آئیے اب ایك سنجیدہ فكر كو لفظوں كی زنجیر میں پرویا جائے۔

یہ حقیقت تو جگ ظاہر ہے كہ معاصر دور كے انگریزی اسپتالوں میں علاج كا مقصد خدمت خلق نہیں كسب معاش ہےاور محض كسب ہی نہیں بلكہ لوٹ ہے ۔ یہأں سردر د كے علاج كے لیے دماغ كا آپریشن كردیا جاتا ہے اور پِت كے معالجے میں گردہ بھی نكال كر فروخت كردیا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی واضح ہے كہ ایك عام انسان اپنے كنبے كے معاشی مسائل كو اپنی جفاكشی اور جدوجہد سے حل كرسكتا ہے؛ لیكن گاہے گاہے كی بیماریاں نہ صرف اس كی جمع پونچی كو ٹڈی كی طرح لمحوں میں نگل جاتی ہیں ؛بلكہ بسا اوقات اس كو سودی قرضوں كے بوجھ تلے دبا كر ایك كرب مسلسل كا شكار بنادیتی ہیں ‏،جس كے بعد اس كی جسمانی جفاكشی یا ذہنی مغز ماری اور دماغ سوزی كا ماحصل مہاجن كے سود یا كسی خیرخواہ كے قرض كی ادائیگی میں صرف ہوتا رہتاہے اور كنبے كی اقتصاد ی فلاح وبہبود اور اہل وعیال كی تعلیمی نشو ونما بڑے دن كا خواب بن جاتی ہے ۔

ملت اسلامیہ كے اس مجبور فرد كو كیا اس دلدل سے نكالا جاسكتا ہے؟ اور كیا قوم كے اس رستے ہوئے ناسور پر مرہم ركھا جاسكتا ہے؟ كیا كوئی ایسا نظام ترتیب دیا جاسكتا ہے كہ علاج ومعالجے كے سلسلے میں ملت اسلامیہ خود كفیل ہوجائے‏ اور قوم كا غریب ترین انسان اسی طرح چھ روپیوں میں بخار كی دوا لے كر شفایا ب ہوجائے؟

اسلامی تعلیمات كی روشنی میں اگر تاریخ كا مطالعہ كیا جائے تو یقینا اس مشكل كا حل تلاش كیا جاسكتا ہے۔ جب ہم نبوی ہدایات كا مطالعہ كرتے ہیں تو ہمیں مرض اور علاج كے تعلق سے دو اہم ہدایات نظر آتی ہیں: اولا احتیاطی پیش بندیاں جیسے طہارت ونظافت ‏، خوش خواركی‏،جسمانی ورزش ‏،آب ہوا اور ماحولیاتی پاكیزگی وغیرہ ۔ان سب عنوانات پر احادیث كے ضخیم ذخیرے موجود ہیں‏، اسی كے ساتھ دوسری اہم ہدایت یہ ہے كہ خدانخواستہ اگر مرض لاحق ہی ہوجائےتو علاج میں كوتاہی نہ كی جائے ‏، اسلامی تعلیمات میں نہ صرف اس كے لیے طبی مشورے موجود ہیں؛ بلكہ شفاخانوں كے قیام اور علاج و معالجے كا عملی سلسلہ بھی قائم نظر آتا ہے۔

تاریخ تو یہ كہتی ہے كہ اسلام كا اولین شفاخانہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملك نے تعمیر كروایاتھا ؛البتہ اسلامی تعلیم یہ بتاتی ہے كہ اسلام كا اولین شفاخانہ حضرت رفیدہ رضی اللہ تعالی عنہا كا وہ وسیع خیمہ تھا‏، جسے انھوں نے مسجد نبوی كے اندر صحن میں لگایا تھا ‏،جہاں ان كے ساتھ كئی دیگر صحابیہ نرسیں دواسازی میں معاونت كیا كرتی تھیں اور جہاں حضرت سعد بن معاذ جیسے عظیم صحابی كا علاج حضرت رفیدہ ہی كے ذریعہ عمل میں آیاتھا۔بعد كے ادوار میں ایران كے ساسانی حكمرانوں كے طرز پر ہارون رشید نے بغداد میں شفاخانے قائم كیے‏، ان كے وزیر یحی بن خالد برمكی نے اپنے ذاتی صرفے سے بیمارستان برامكہ قایم كیا‏، جس كا نگران اعلی ایك ہندوستانی طبیب كو بنایا گیا تھا۔ خلیفہ معتضد نے بھی ایك بیمارستان بنوایاتھا۔ یوں عباسی عہد تك پہنچتے پہنچتے بیمارستان حربیہ‏، بیمارستان السیدۃ‏، بیمارستان المقتدری ‏،بیمارستان ابن الفرات‏،بیمارستان عضدی جیسے بہت سے شخصی اور حكومتی شفاخانے قائم ہو چكے تھے۔اور جوں جوں اسلامی قلمرو كا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا‏،نئے نئے شہروں میں مختلف بیمارستان ‏،مارستان ‏،دارالشفا‏، دارالعافیہ اور تیمارخانے قائم ہوتے جا رہے تھے۔ان تمام شفاخانوں میں دو ایسے بھی شفاخانے نظر آتے ہیں‏، جنھیں تعلیمی اداروں میں طلبہ كے علاج ومعالجے كے لیے قائم كیا گیا تھا ‏،ایك تو وہی ساسانی شفاخانہ جسے جندیشاپور كے مدرسے میں قایم كیا گیا تھا۔ اور دسرا عہد عباسی كی مشہور تعلیم گاہ مدرسہ مستنصریہ میں برسر عمل شفاخانہ جسے خلیفہ وقت مستنصر بااللہ نے بغداد میں قایم كیاتھا‏، جہاں طلبہ كے ساتھ دیگر باشندگان شہر كا بھی علاج كیا جاتا تھا۔ ان تمام شفاخانوں میں كوئی فیس نہیں وصول كی جاتی تھی‏، علاج معالجے كا سارا خرچہ اوقاف سے پورا كیا جاتا تھا۔ عہد سلطنت كے ہندوستانی شفاخانوں میں داخل مریضوں كے لیے انواع واقسام كے لذیذ كھانے ‏،بہترین میوےاور پھل ‏،قسم قسم كے مشروبات فراہم كیے جاتے تھے‏، جنھیں دیكھ كر كوئی بھی تندرست وتوانا آدمی بیمار بن جاتا۔

ان سب گزارشات كے بعد عرض یہ كرناتھا كہ اگر ہم حضرت رفیدہ رضی اللہ تعالی عنہا كے اسلامی شفاخانے یا جندیشاپور اورمدرسہ مستنصریہ كے شفاخانوں كے طرز پر اپنے دینی مدراس میں شفاخانوں كا نظام ترتیب دے لیں تو نہ صرف مدرسے سے مربوط طلبہ واساتذہ مستفید ہوں گے؛ بلكہ باشندگان شہر اور قرب جوار كے اہل قریہ بھی مستفید ہوں سكیں گے۔ یہ شفاخانے نہ صرف ملت اسلامیہ كی طبی ضروریات كی تكمیل كا ذریعہ ہوں گے؛ بلكہ دیگر اقوام كی تالیف قلب اور عوامی رابطے كا ایك بہت بڑا وسیلہ ہوں گے؛ كیوں كہ یہ تو خدائی فرمان ہے كہ جو شخص خلق خدا كے لیے نفع بخشی كی مہم چلائے گا اللہ رب العزت اس كی خیر وبركات كو دوام بخش دیں گے۔ اس نفی بخشی سے مستفیدین كے قلوب مدارس اور اہل مدارس كےلیے مسخر ہوجائیں گے اور وہ خیر وثواب كے ان كاموں میں آگے بڑھ كر دامے درمےاور سخنے تعاون كر كے خود كو سعید اور نیك بخت تصور كریں گے۔

اس نیك كام كی امید دنیوی مشاغل میں مصروف دیگر اہل خیر سے نہ باندھ كر صرف ارباب مدارس ہی سے كیوں باندھی جارہی ہے اس كی دو وجہیں ہیں اولا تو یہ اسی اسلامی نظام كا حصہ ہے جسے مسجد نبوی سے فروغ دیا گیا اب اگر یہ مدارس مسجد نبوی سے روشن ہونے والی شمع اسلامی كی كرنیں ہیں تو انھیں سے یہ توقع ركھی جائے گی كہ مسجد نبوی كے صفے كے ساتھ جو شفاخانہ ہواكرتا تھا وہ آج كے صُفُّوں میں بھی قائم ہوجائے۔ دوسری وجہ یہ ہے كہ ثواب كی نیت سے كارہاے خیر كے لیے مالیہ كی فراہمی اہل مدارس كے لیے جتنی آسان ہے ‏،غیروں كے لیے اتنی ہی مشكل نظر آتی ہے۔

بیماریوں پر نظر كی جائے تو مشاہدہ یہ ہوتا كہ زیادہ تر لوگ موسمی بخار‏،نزلہ اور كھانسی جیسے عمومی امراض كے شكار ہوتے ہیں ؛ ایسی تعداد كم ہوتی ہے جو اعضائے رئیسہ كے امراض سے دوچار ہوں؛ اس لیے ان شفاخانوں كا نظام كچھ اس طرح ترتیب دیا جاسكتا ہے كہ ضلعی سطح كے مدارس میں پرائمری ہیلتھ سینٹر یا چھوٹے نرسنگ ہوم كا قیام عمل میں لایاجائے‏، جس میں دو ڈاكٹر دو نرسیں اور ایك دو معاون اسٹاف پر مشتمل عملہ ہو‏، خون اور پیشاب كی جانچوں كے علاوہ اكسرے اور الٹرا ساؤنڈ وغیرہ كا نظم ہو اورساتھ ہی میڈیكل ڈسپنسری ہوجہاں دواؤں كے خرید ریٹ پر معمولی نفع كے ساتھ مریضوں كو دوائیں فراہم كی جائیں۔علاج ومعالجے كے ان ابتدائی شفاخانوں میں ایسا بھی كیا جاسكتا ہے كہ ہم مخصوص امراض كے معالجے كے لیے ہفتے كے كسی ایك دن كو مخصوص كردیں كہ فلاں روز آنكھوں كے علاج كے لیے خاص ہے اور فلاں روز دانتوں كے علاج كے لیے ۔ پھر اسی مناسبت سے قرب وجوار كے بڑے شہروں سے ان امراض كے ماہر ڈاكٹروں كو متعینہ دن میں بلایا جائے۔ یقینا یہ ڈاكٹر اپنی اپنی جگہوں پر پہلے ہی سے وہاں كے باشندگان كی نفع رسانی میں مصروف ہوں گے؛ البتہ معاصر رواج كی پیروی كرتے ہوئے انھیں مدارس كے شفاخانوں میں بھی یومیہ اجرت یا مریض كے اعتبار سے اكرامیے پر بلایاجاسكتا ہے اور اگر كوئی پھر بھی نہ آئے تو ہم ثواب كا وہی سبق پڑھائیں جومخیر حضرات سے چندہ وصول كرتے وقت پڑھاتے ہیں كہ جنت میں جانے كا واحد راستہ یہی ہے اور اگرخلق خدا كو نفع پہنچانے كے لیے مثبت طور پر مذہب كا استعمال كربھی لیا جائے تو اس میں برائی ہی كیا ہے۔

بڑے ادارے جن كے یہاں مالیہ كی فراہمی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے‏، ان كی عظیم خدمات كی وجہ سے عوام كے مابین انھیں اتنا مخلصانہ اعتماد حاصل ہے كہ اگر وہ كوئی پروجیكٹ بنا كر عوام كے سامنے پیش كرتے ہیں تو انھیں اس مخصوص پروجیكٹ كے لیے وسائل كی فراہمی میں زیادہ مشكلیں نہیں پیش آئیں گی ۔ ایسے اداروں كو چاہئے كہ وہ نرسنگ ہوم سے اوپر اٹھ كر بیس پچیس بیڈ والا مكمل اسپتال بنائیں‏، جسں میں مشكل اور پیچیدہ امراض كے ساتھ میٹرنٹی كی بھی عمدہ سہولیات دستیاب ہوں۔

ہمیں دارالعلوم دیوبند كی عظیم علمی خدمات كے ساتھ اس كی طبی سہولیات كا بھی اعتراف ہے؛لیكن دارالعلوم كی عالمی عظمت كے سامنے اس كا عظمت اسپتال بہت بونانظر آتا ہے۔ اللہ رب العزت نے بانیان كی للہیت اور خلوص كی وجہ سے دارالعلوم دیوبند كو اتنی مقبولیت اور مرجعیت سے نوازا ہے كہ اگر وہ اس عظمت شفاخانے كو پچیس بیڈ كا ایك بڑا اسپتال بنانے كا كوئی عمدہ منصوبہ بناتا ہے تو وسائل كی فراہمی میں ان شاء اللہ كوئی بھی مشكل نہیں پیش آئے گی۔ بس ایك مخلصانہ ارادے اور منصوبہ بندی كی ضرورت ہے‏، بعد ازاں اللہ رب العزت اپنے خاص بندوں كو مسخر فرمادیں گے اور منصوبہ تكمیل آشنا ہوجاے گا۔ اور دارالعلوم دیوبند ہی كیا سہارن پور میں مظاہر العلوم ‏،مرادآباد میں مدرسہ شاہی‏، لكھنؤ میں ندوۃ العلماء‏، اعظم گڑھ میں بیت العلوم‏،جون پور میں مدرسہ حسینیہ ان كے علاوہ بہت سے دیگر صوبوں كے بڑے مدارس میں اس طرح كے بڑے اسپتال قایم كیے جاسكتے ہیں‏۔ اور بہت سے مدارس میں ماشاء اللہ یہ نظام پہلے ہی سے قائم بھی ہے۔

یقینا ان شفاخانوں كے قیام میں مالی مشكلات كے ساتھ طبی عملے كی فراہمی كا مسئلہ پیدا ہوگا ؛لیكن ہر مشكل كا كوئی نہ كوئی حل ضرور ہوتا ہے ‏،بس ہمیں كوشش كرنا ہوتی ہے‏‏، اللہ رب العزت انسانی كاوشوں كوبے سود ضائع نہیں ہونے دیتے ہیں‏۔ سب سے پہلے بہترین منصوبہ بندی كی جانا چاہئے پھرگر اس كا پر كشش پروجیكٹ بنا كر ملت اسلامیہ كے مخیر حضرات كے سامنے پیش كیا جائے تو یقینا راستے ہموار ہوجائیں گے۔ اور مفاد عامہ كے ان اداروں میں تو انٹریسٹ كی وہ رقم بھی صرف كی جاسكتی ہے‏، جو رمضان میں حاصل شدہ صدقات كو بینك میں جمع كرنے سے ملتی ہے‏، جسے بہت سے دینی ادارے بینك ہی میں چھوڑے رہتے ہیں ۔ بڑے اداروں میں اس انٹریسٹ كی رقم بہت بڑی ہوتی ہے۔

جس طرح ماضی كی مسلم حكومتوں كے ذریعہ قائم كیے جانے والے شفاخانوں میں علاج كی عام اجازت تھی ‏، اس میں بلا تفریق مذہب وملت اور رنگ ونسل ہر طرح كے مریض داخل ہوسكتے تھے ‏،مناسب ہوگا كہ دینی اداروں كے ان شفاخانوں میں بھی اسی طرح كی عام اجازت ہو تا كہ خلق خدا بلا كسی امتیاز كے نفع حاصل كرسكے۔اسی طرح عہد اسلامی كے تاریخی شفاخانوں میں مریضوں سے فیس نہیں وصول كی جاتی تھی ؛ لیكن جمہوری عہد كے چھوٹے بڑے دونوں مجوزہ شفاخانوں میں فیس كا طریقہ یہ ہونا چاہئے كہ طلبہ كے لیے علاج كی یہ سہولت مفت دستیاب ہو‏، اساتذہ اور مدرسے سے مربوط ملازمین كے لیے بازار كی مناسبت سے ایك تہائی اور دیگر مستفیدین كے لیےبازار كی نصف مقدارسے نہ اتنی زیادہ ہو كہ مریضوں كو علاج كے لیے قرضوں كا سہارا لینا پڑے اور نہ اتنی كم ہو كہ اسپتال كے صرفوں كی تكمیل ہی مشكل ہوجائے۔

اگر اس تجویز پر عمل ہوجاتا ہے اور اللہ رب العزت ہمارے مہتمم حضرات كے پاكیزہ قلوب میں اس طرح كا كوئی نیك خیال القاكردیتے ہیں تو اس چھوٹی سی كوشش سے ایك عظیم انقلاب برپا ہوسكتا ہے اور ہندوستان كی ملت اسلامیہ خود كفیل ہونے كی جد وجہد میں ایك منزل طے كرسكتی ہے۔ اس تجویز كی اہمیت كا اندازہ درج ذیل دو واقعات سے بھی لگأیا جاسكتاہے۔

كئی برس پہلے كی بات ہے تمل ناڈ كے ایك شہر میں مدرسے كے قریب ایك غریب كنبہ سكونت پذیر تھا‏، ایك رات گھر كی خاتون كو اچانك مرض لاحق ہوا ‏،اسپتال لے جانے كے لیے كوئی سواری نہیں تھی‏، تعاون كے لیے مدرسے میں فون كیا گیا ‏، ارباب مدرسہ نے گاڑی بھیجنے سے منع كردیا‏، اسی دوران ایك صاحب نے یہ كہتے ہوئے ایك رابطہ نمبر فراہم كیا كہ اس پر رابطہ كریں امید ہے كہ تعاون مل جائے گا؛ حسب مشورہ رابطہ كیا گیا تو ایك ایمبولینس آئی ‏اورمریض كو اسپتال پہنچاكر علاج بھی كرایا ۔ یہ ایك عیسائی چرچ كا نمبر تھا‏،وہیں كی ایمبولینس تھی‏ اورانھیں كا اسپتال تھا۔ مشكل كی گھڑیوں میں اس معمولی تعاون كا نتیجہ یہ نكلا كہ پورا كنبہ عیسائی بن گیا۔

دوسری طرف ملك كے متعدد فرقہ ورانہ فسادات میں یہ دیكھا گیا ہے كہ دوران فساد موت كا شكار ہونے والے افراد كی تعدادكم ہوتی ہے ؛ البتہ فسادات میں زخمی ہوجانے والے زخمیوں كو صحیح وقت پر علاج نہ مل پانے كی وجہ سے اموات كی تعداد میں دوگنا اور سہ گنا اضافہ ہوجاتا ہے‏، دہلی كے فساد میں اس كا مشاہدہ كیا گیا ؛كیوں اولا تو اس علاقے میں شفاخانے نہیں ہیں اور جو ہیں بھی ان كے مالك غیر مسلم حضرات تھے ۔ نفرت كی وقتی لہروں میں فسادات كی صورت میں ہر شخص اپنے قریبی كا خیال ركھتا ہے اور غیر قریبی ثانوی حیثیت اختیار كرلیتا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply