صاحبِ نسبت بزرگ اور بافیض عالم دین حضرت مولانا منیر احمد بستوی
از: محمد ساجد کُھجناوری
مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
آج 7/ رمضان المبارک 1445 مطابق 18/مارچ 2024 جبکہ رحمتوں اور برکتوں سے عبارت ماہ صیام کا یہ پہلا عشرہ ختم ہونے کی طرف تیزی سے گامزن ہے عروس البلاد ممبئی کی ہر دل عزیز روحانی شخصیت حضرت مولانا منیر احمد صاحب بستوی طویل علالت کے بعد جوار رحمت میں منتقل ہوگۓ، انا للہ واناالیہ راجعون ۔
وہ جو بیچتے تھے دواۓ دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے
بقیة السلف حضرت مولانا منیر احمد اپنے علم وفضل، تقوی وطہارت ،اتباع سنت وشریعت اور کمال تواضع و اخلاق کی ایسی ملی جلی تصویر تھے جہاں کردار و عمل کا بسیراتھا ، وہ مرشد زماں حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم جون پوری قدس سرہ کے دست گرفتہ اور ان کی دکان معرفت کے امین تھے ، علم اور عمل کے اجتماع نے ان کی شخصیت کو اجالا ،انجذاب الی اللہ کی کیفیات نے سلوک واحسان کے مراحل سے گزارا جس کا ثمرہ معرفت ربانی کی شکل میں انھیں میسر آیا ، اللہ بزرگ وبرتر نے ان میں محبوبیت کی شان رکھ دی تھی ، ان کے چہرہ بشرہ سے یقین ومعرفت کے آثار جھلکتے تھے ، ایسی آئینہ دل شخصیت کو دیکھ کر احتساب وعزیمت کی جنس بیدار ہوتی تھی ۔
کم وبیش سات آٹھ سال پیش تر کی بات ہے جب پہلی اور آخری مرتبہ انھیں جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں طلبہ اور مدرسین کے جھرمٹ میں دیکھا ، استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ یہی حضرت مولانا منیر احمد صاحب ہیں جو کالینا ممبئی کے صاحبِ ارشاد بزرگ ہیں ۔ چوں کہ کان پہلے سے آشنا تھے، نام سنا تو اس خدامست بزرگ سے سلام و مصافحہ اور پھر دعائیں لینے تحریک ہوئی ، ہاتھ بڑھایا تو مسکراتے ہوۓ علیک سلیک ہوئی ، تعارفی کلمات کے ذیل میں ہی بندہ نے یہ بھی عرض کردیا کہ صاحبزادۀ مکرم مفتی عبد الرشید شیدا سے دارالعلوم دیوبند میں پانچ چھ سال درسی رفاقت رہی ہے اس اضافی نسخہ سے مولانا کی توجہ مزید بڑھ گئی اور محبتوں سے نوازا، بعد ازاں جامعہ کی زکریا مسجد میں آپ کا خطاب ہوا ، شیخ الجامعہ نے والہانہ انداز میں آپ کے تعلق سے خیرمقدمی کلمات کہے اور آپ کی آمد کو نعمت غیرمترقبہ سے تعبیر کیا ۔
حضرت مولانا پرجوش خطیبوں کی طرح نہ گرجے نہ برسے نہ قیل وقال کے غیر ضروری تکلفات کام میں لاۓ ، اس کے باوجود پورا مجمع ہمہ تن گوش تھا ، بلکہ دل کے کانوں سے آپ کی باتیں سماعت کی جارہی تھیں ۔ طلبہ وعلماء کا اجتماع تھا تو حضرت بھی بہت منشرح طبیعت کے ساتھ ان کے مقام ومرتبہ اور حقوق وفرائض پر ہمدردانہ لب ولہجہ میں گفتگو کررہے تھے ، دل چاہتا تھا کہ وہ گھنٹوں ہمارے درمیان رہیں اور دل بنانے کے نسخے فراہم کریں لیکن یہاں آپ کی آمد ضمنی تھی اس لۓ ناشتہ وغیرہ کرکے آپ آگے بڑھ گۓ ۔
آج جب سے آپ کے سانحۂ وفات کی خبر ملی ہے تو دل مضطرب ہے ، استرجاعی کلمات بار بار نوک زباں پر ہے۔ حضرت کا مسکراتا ہوا چہرہ گویا سامنے ہے ، واپسی پر کار میں بیٹھتے ہوۓ آپ نے فرمایا تھا کہ مولوی عبد الرشید آپ کے ساتھی ہیں تو ملاقاتوں کی ایک راہ یہ بھی ہے کیا پتہ تھا کہ اس فانی دنیا میں اس کے بعد زیارت و ملاقات کا کوئی دوسرا موقعہ نہیں ہوگا ،اس وقت دارالعلوم محمدیہ بنگلور کے مہمان خانہ میں بیٹھا ہوں ، فاصلہ اتنا کہ آپ کے جنازہ کو کندھا بھی نہیں دے سکتا ، ہاں دعاۓ مغفرت اور ایصال ثواب کرکے اس داغ فراق کو دھونے کی اپنی کوشش ضرور جاری ہے ، تمام اہل تعلق خصوصا رفیق مکرم مولانا مفتی عبدالرشید شیدا کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس محبوب بندہ کو اپنے شایان شان اجر و ثواب سے نوازیں ، فردوس بریں آپ کا مستقر ہو اور تمام لواحقین ، متعلقین اور پسماندگان کو صبر و شکیبائی موفق ہو۔