عربی کی ایک خود نوشت کا اجمالی تعارف

طلحہ نعمت ندوی

ہماری اردو زبا ن کا المیہ ہے کہ اس کے کلاسیکل ادباء کی ساری توجہ مغربی ادبیات کی طرف ہے ،مشرقی ادبیات میں کیا کچھ لکھا جارہا ہے اس کو اردو زبان میں متعارف کرانے یا ترجمہ کرنے کی کوشش نہ کے برابر ہے ،جب کہ عربی زبان میں اردو ادبیات کے تعارف وترجمہ کا کام خوب ہورہا ہے۔عربی جاننے والے جو چند فضلاء کسی قدر اس کام کو انجام دے رہے ہیں ان کا اسلوب کلاسیکی نہیں،اور خالص ادباء کے حلقے میں ان کی کوئی پذیرائی نہیں ہوتی، ہمارے عربی کے واقف کار اردوکے ماہرین عربی فارسی کے جدید ادبیات کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔عربی کے غیر افسانوی ادب میں جو کام ہورہا ہے بالخصوص خود نوشت اورسوانحی ادب ضرورت ہے کہ ان کے ترجمہ وتعارف کی طرف توجہ کی جائے تاکہ عربی ماحول کا پس منظر اور تاریخ بھی اسی طرح ہمارے سامنے رہے جس طرح مغربی ماحول اور معاشرہ سے ہم واقف ہیں۔اسی طرح کے ایک عربی خودنوشت کا ہم ذیل میں تعارف پیش کررہے ہیں۔

عربی کی ایک خود نوشت کا اجمالی تعارف 
عربی کی ایک خود نوشت کا اجمالی تعارف

ترکی کی مشہور شخصیت شیخ سعید نورسی کا نام محتاج تعارف نہیں،انہوں نے اپنے اصلاحی وعلمی رسائل کے ذریعہ اصلاح کا اہم کام انجام دیا ہے،جو اب رسائل نور کے نام سے مشہور ہیں۔شیخ نے بیشتر رسائل ترکی زبان میں تحریر کئے تھے ،چند رسائل عربی میں تھے ،ان تمام ترکی رسائل کو فصیح عربی میں منتقل کرنے کی خدمت عراق کے شہر کرکوک کے ایک ممتاز فاضل استاد احسان قاسم صالحي نے نہایت کامیابی سے انجام دی ،اور جو عربی رسائل تھے ان کی تحقیق کی ،اس طرح تقریباً دس جلدوں میں شیخ نورسی کی تحریروں کی کلیات پیش کی۔

مترجم رسائل استاد احسان قاسم جوانی بلکہ دور طالب علمی ہی سے اس تحریک سے وابستہ ہوچکے تھے ،اور پوری زندگی اسی کی خدمت میں گذاری۔اب جب کہ موصوف کی عمر نوے سال کو پہنچ چکی ہے وہ استنبول (ترکی) میں مقیم ہیں ،اور اس جماعت کے چند منتخب بزرگوں میں شمار کئے جاتے ہیں جو اس تحریک اور اس کے لٹریچر پر عالمانہ نظر رکھتے ہیں۔موصوف سے وابستگان تحریک نے گذارش کی تھی کہ اس تحریک سے اپنی وابستگی کی داستان اور جو کچھ شیخ احسان کے شاگردوں سے براہ راست سنا وہ قلمبند کردیں ،چنانچہ موصوف نے ان کی درخواست قبول کرلی اور رحلتی مع رسائل النور کے عنوان سے ایک مفصل کتاب مرتب کی ،جس کی ابتدا ان کی سوانح زندگی زندگی کی سرگذشت سے ہوتی ہے۔موصوف کردی النسل ہیں ،اسی وجہ سے ترکی میں جہاں کردوں کی بڑی آبادی ہے ان کی قرابتیں پہلے سے تھیں ،پھر ان کے اور اعزہ بھی آکر رہنے لگے تھے اس لئے بالکل ابتدائی دور سے ہی عراق سے ترکی ان کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا ۔

عجیب بات ہے کہ استاد علوم شرعیہ کے طالب علم نہیں رہے،بلکہ علم حیات (بایولوجی)میں گریجویشن کیا ہے،لیکن شیخ نورسی کے خالص علمی رسائل کو نہایت کامیابی سے فصیح عربی زبان میں منتقل کیا،اورعلوم شرعیہ کے مباحث کی تحقیق میں دیدہ ریزی کا ثبوت دیا ہے۔ عربی زبان اور اس کے اصول وقواعد پر موصوف کی عالمانہ نظر ہے، اس لئے جابجا قواعد کا محاکمہ بھی کیا ہے،اس طرح موصوف عصری اور دینی مخلوط تعلیم کا کامیاب نمونہ ہیں۔

ان کی اس کتاب میں عراق میں جو سخت حالات پیش آئے تھے،لادینیت کا جو دور گذرا تھا اس کا بھی تفصیلی تذکرہ ہے،اس کے ابتدائی چند اوراق کا ترجمہ جو موصوف کی کتاب زندگی کے بھی ابتدائی ہیں ذیل میں پیش خدمت ہے،اس کے بعد کتاب کے مشمولات کا اجمالی تعارف کرایاجائے گا۔

میرا نام احسان اور میرے والد ماجد کا نام قاسم بن مصطفیٰ صالحي ہے، میں عراق کے شہر کرکوک میں سنہ 1937 میں پیدا ہوا، ہمارے گھر میں میرے والد ہی ہمارے لئے سب کچھ تھے ،ہمارے دل میں ان کے لئے بے پناہ محبت کا جذبہ تھا،وہ بہت باوقار،وضع دار اور بارعب انسان تھے،لیکن ساتھ ساتھ بہت مشفق بھی تھے ،ہمیں ہمیشہ ان کی شفقتیں اورعنایتیں حاصل رہتیں،وہ ہم سے بہت زیادہ گھل مل کر نہیں رہتے ،تنہا ہی کھانا تناول فرماتے ،3جون 1963 کو تقریبا پچھتر سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا.وہ عربی زبان وادب کے ماہر تھے ، اور اس کی تمام شاخوں پر گہری نظر رکھتےتھے،ادب اور نحو وبلاغت اوردیگرفنون میں درک تھا ،جاڑے کی راتوں میں ہم کو انگیٹھی کے قریب بٹھا کر قصے سناتے،اس وقت ہمیں ان قصوں کی حقیقت زیادہ نہیں سمجھ میں آتی تھی، لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو سمجھ میں آیا کہ ان قصوں میں کیا حکمت وبصیرت کی باتیں پنہاں تھیں،ان میں ایک قصہ جو میرے حافظہ میں رہ گیا ہے میں یہاں بیان کرتا ہوں،انہوں نے بتایا کہ شہر کرکوک میں ایک عظیم المرتبت عالم تھے ،ان کی صلاحیت بھی بے مثال تھی ،لیکن دنیا وی ساز وسامان سے بالکل خالی تھے، ایک مسجد کے حجرہ میں رہتے تھے ، چند دنوں کے بعد ان کو مسجد سے نکال دیا گیا ،اب ان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ کہاں جائیں،چنانچہ وہ اپنی کتابوں کا ایک چھوٹا سا صندوقچہ لے کر بازار چلے گئے ،وہاں لوگوں نے ان کو دیکھا کہ وہ آواز لگارہے ہیں ،‘‘نابم’’ کردی زبان میں اس کا مطلب ہے ، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، جب چند دن گذرگئے تو کسی جاننے والے نے ان سے اس جملہ کا مطلب اور اس کے کہنے کی وجہ معلوم کی ،تو انہوں نےفرمایا کہ میرے سامنے حماد بازی گر کی تصویر گردش کرنے لگی تھی ،یہ وہ شخص تھا جس نے لوگوں کا مال لوٹ لوٹ کر اور مختلف حیلوں سے ہڑپ کرکے بہت مالدار بن گیاتھا اور کئی گھر بھی بنالئے تھے،مجھے ایسا لگا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ اسی کی طرح تم بھی کرو ،تمہیں بھی مال مل جائے گا،تو اس وقت میں نے کہا میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔

اس قصہ کاہم بھائیوں کا پر یہ اثر پڑا کہ اس کے بعد ہم نے بھی طے کرلیا کہ اور تک ہم اس پر قائم ہیں کہ عراق میں جو بھی دنیاوی سیاسی جماعتیں اور تحریکیں وجود میں آئیں ،ان کے مذہبی ناموں کے باوجود ہم ان کے نہیں ہوں گے۔اسی طرح والد صاحب سے بچپن کے سنے ہوئےجو واقعات ہمیں یاد رہ گئے لیکن ان کی حقیقت تک رسائی رسائل النور کے مطالعہ کے بعد ہی ہوئی وہ یہ کہ اسباب خود سے عمل نہیں کرتے ،بلکہ مسبب الاسباب کے حکم سے عمل کرتے ہیں،اس لئے اصل مطالبہ مطالبہ مسبب الاسباب ہی سے ہونا چاہئے۔حالانکہ یہ واقعہ اسرائیلی روایت پر مبنی ہے لیکن بہت ہی گہری حکمت وبصیرت پر مبنی ہے،بالخصوص ان لوگوں کے لئے بہت ہی عبرت خیز ہے جن کے ذہنوں میں مادہ پرست مدارس اور دانش گاہوں نے یہ راسخ کردیا ہے کہ مسبب الاسباب کے بجائے اسباب ہی اصل موثر اور کارساز ہے، انہیں یہ نہیں سکھایا گیا کہ مسبب الاسباب رب العالمین ہے۔

بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ رب العزت سے دعا کریں کہ بالیوں کو آدمیوں کے قد کا بنا دے،حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ،جب بالیاں بڑھ کر تیار ہوگئیں تو انہوں نے جشن منایا ،اور شادیانے بجائے،لیکن جب کاٹنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ یہ بالیاں دانوں سے خالی ہیں،انہوں نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تاکہ وہ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں،اللہ عزوجل نے فرمایا کہ تم نے بالیوں ہی میں رزق کی حقیقت سمجھی اور اسی لئے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں آدمیوں کے قد کا کردیا جائے تو ہم نے کردیا اگر تم نے رزق میں برکت مانگی ہوتی تو اسی کے مطابق تمہیں غلہ حاصل ہوتا۔

ہم نے اپنے والد سے کبھی ڈانٹ ڈپٹ یا ایسی کوئی چیز نہیں سنی ،حالانکہ ہم سے بہت بچپنے کی نامناسب حرکتیں بھی ہوجاتی تھیں،ان کی تربیت سے ہمیں اس کا سبق ملتا کہ وہ ہمارے لئے نمونہ ہیں،اور تربیت کا پورا مرحلہ مکمل شفقت ومحبت کے ماحول میں ہوتا،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا جو مقصد تھا وہ ہمارے ذہن میں جاں گزیں ہوگیا،اور ہماری زندگی کا حصہ بن گیا،مثلاََوفاداری، اخلاق ومحبت ،بڑوں کا اکرام ،مخلوق پر شفقت،علم سے محبت اور محنت کے ساتھ علم کاحصول ،نگاہ کی پاکیزگی اور زبان کی طہارت وغیرہ جیسے اوصاف ہمارے اندر آئے،اس طرح کی باتیں وہ ہمیں بالجبر نہیں بلکہ نمونہ بن کر سکھاتے،اور آیات کریمہ اور احادیث نبویہ کے ذریعہ اس کی تلقین فرماتے۔وہ اکثر احمد امین کے مجلہ الثقافۃ اور احمد حسن زیات کے الرسالہ اور الہلال خریدنے کے بڑے شائق تھے اور اسے اہتمام سے پڑھتے لیکن الہلال کی باتوں پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ اس کی غلط بیانیوں کی وضاحت کرتے ۔یہ سارے مجلات ورسائل ہم بھی پڑھتے تھے بلکہ صحیح لفظوں میں ان کی ورق گردانی کرتے تھے،میں ان مقالات کے عناوین کو ایک نظر دیکھ کر ان کے قلم کاروں سے متعارف ہوتا۔چنانچہ ان ادبائے کرام علی طنطاوی، رافعی،عقاد،اور طہ حسین سے محبت بچپن سے رہی ہے،طہ حسین کو والد محترم بہت زیادہ پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس کی کتابیں الایام اور الفتنۃ الکبریٰ وغیرہ ان کے کتب خانہ میں موجود تھیں،علی طنطاوی کےمتعلق والد نے یہ بتایا تھا کہ وہ ان کے ساتھ شریک تدریس بھی رہے ہیں، وہ ان کے پاس چند سوری اساتذہ ومعلمین کے ساتھ تدریس کے لئے آئے تھے،جب ان سے کسی نے ایک سوال کیا تو انہوں نے جواب میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وھل یفتیٰ ومالک فی المدینۃ کیا مالک کے مدینہ میں رہتے ہوئے کوئی اور فتویٰ دے؟اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایک دن کسی شخص کے پاس جانے کے متعلق مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے کہا تھا مت جائیے،واپسی کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے مشورہ پر کو نہ مان کر مجھے بہت ندامت ہوئی ،وہ شخص بالکل جاہل ہے۔اس وقت ہمیں بہت سے شعراکے نام بھی یاد ہوگئے تھے،لیکن صرف ان کے نام ہی تک واقفیت محدود تھی ،اس سے زیادہ کچھ علم نہ تھا،جیسے متنبی ،ابن الرومی،بحتری،بشار بن برد،اور امرؤالقیس وغیرہ کے نام ۔

رہی بات میری والد ہ کی تو وہ زندگی بھر بیمار رہیں،وہ کہا کرتی تھیں کہ یہ بیماری مجھے اللہ کا عطیہ اور اس کی طرف سے انعام ہے،نماز وتسبیح کے علاوہ ان کااور کوئی کام نہیں تھا،میں نے بھی اپنی زندگی کی پہلی نماز انہیں کے ساتھ پڑھی تھی،اور اپنے فطری تقویٰ وپرہیزگاری کی وجہ سے وہ دیوارپر لگی ہوئی گھڑی بھی اس کے بعد سے نہیں دیکھنے لگی تھیں جب ہم نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر برطانیہ کے بادشاہ اور اس کی ملکہ کی تصویر تقسیم ہوئی تھی اسے لاکر اس گھڑی پر چسپاں کردیا تھا، چنانچہ وہ ہم سے پوچھتی تھیں کہ کیا وقت ہوا،پھر جب ہم نے ان دونوں کی تصویریں ہتادیں تو دیکھنے لگیں،وہ اسی طرح اپنے اذکار واوراد میں مشغول رہیں یہاں تک کہ 5اگست 1968 کو اللہ تعالی ٰ نے انہیں نماز ظہر کے سجدہ کی حالت میں اٹھا لیا۔

میری بڑی بہن ہی نے میری بچپن سے تربیت کی ،اور وہ ہمارے ایک مشفق ماں بن کر رہیں،اور ہمارے نشو ونما اور تربیت کے لئے اپنی زندگی قربان کردی،یہاں تک ہماری اولادوں کی بھی تربیت کی،آج بھی ان کی آواز کانوں میں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے،جیسے وہ میرے متعلق خوف زدہ ہوکر مجھے پکاررہی ہوں احسان احسان، اور مجھے گلے لگانے آرہی ہوں۔یہ اس وقت کی بات ہے جب میں چار پانچ سال کا بچہ تھا،اور ایک دوسرے کمرے میں سورہا تھا ایک طیارہ بالکل صاف نیچے سے جاتا ہوا نظر آیاکہ اس کی آواز سے اکثر لوگوں میں دہشت پھیل گئی تھی ،یہی میرے متعلق ان کے خوف کا سبب تھی ،یہ رشید عالی گیلانی کا دور تھا اور دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا،1 اپریل 1980 کو میری ہمشرہ صاحبہ کا انتقال ہوا۔میرے بڑے بھائی ہاشم (پیدائش 1927) تھے ،وہ ہمیں عوامی ترکی اخبارات ورسائل اورکارٹون والے بچوں کے پرچے خرید کر لا کر دیتے،ترکی ادب کاخوب مطالعہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں وہ اس زبان کے اہم اور ممتاز انشائ پرداز بن گئے تھے ،اورچھوٹے چھوٹے قصوں اور کہانیوں کی ان کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔15 جون 2015 کو 88 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔شہر کرکوک کے ایک کتاب فروش عثمانی زبان میں لکھی ہوئی ترکی کتابیں لے کر آتے اور ہم انہیں بہت ہی سستے داموں میں خرید لیتے،چنانچہ اسی وقت سے ہم حسین رحمی ،رشاد نوری اور یعقوب قدری جیسے ادیبوں کے افسانے پڑھنے لگے تھے ۔جب مجھ سے بڑے بھائی صباح(پیدائش 1933) ثانوی درجات میں پہنچے تو مشہور افسانہ نویس محمود تیمور سے خط وکتابت شروع کردی، وہ انہیں اپنے ہر نئی کتاب بھیجتے جس پر ادبی عبارتیں لکھی ہوتیں،انہی کتابوں میں سلوی فی مہب الریح حوا الخالدہ اور عطر ودخان وغیرہ تھیں۔مجھ سے چھوٹا بھائی نجدت (پیدائش 1946) جامعہ مستنصریہ ( مستنصر یونیورسٹی) میں لکچرار اور فن تربیت کا ماہر تھا،اسے دہشت گردوں نے عراق کے حادثہ میں 19 رمضان 1427 کو اغوا کرلیا ،اور آخری عشرہ میں 25 رمضان مطابق 16 اکتوبر 2006 کو اسے شہید کردیا گیا اور اس کی لاش سڑک پر پھینک دی گئی ،وہ مستند ادیب اور اپنے فن اختصاص کے بہت ماہر تھے۔عراق پر معاشی ناکہ بندی کے زمانہ میں میں نے ان کو بہت ہی معمولی ہدیہ بھیجا تھا اس پر اس نے حسب ذیل الفاظ میں مجھے خط لکھا

بھائی احسان !

جس کا ہاتھ احسان مین کوتاہ ہو اس کی زبان سے شکر کے کلمات اادا ہوتے ہیں،شکر بے پایاں ان پھواروں پر جو ایک چٹیل زمین پر برسے ،للہ تعالی تمہاری عمر میں برکت دے،اور شکر کے ادا کرنے کی توفیق بھی ،اور ایک انعام کے بعد مسلسل دوسرا انعام تم پر ہوتا رہے۔

خلاصہ یہ کہ ہم نے گھر کے اندر تہذیب وثقافت اور ادب واخلاق کے جس ماحول میں نشو ونما پائی اس ماحول کو پوری طرح اپنے اندر جذب کرلیا تھا جب کہ اسی دوران کتنے ہمارے ہم عمر ایسے تھے جو جاہلیت کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔گھر کے باہر جانا ہمارے لئے سوائے عید کے دن کے کم ہی ممکن ہوتا ،عید کے دن ہم بڑے سڑک پر نکلتے۔

اس کے بعد انہوں نے ماقبل الجامعہ ومابعدھا کا عنوان قائم کرکے خطاطی سیکھنے کا ذکر کیا ہے ،اس کے بعد ایک صاحب کے ذریعہ دین سے وابستگی ،پھر اخوان المسلمون کے درس میں شرکت ، اس کے بعض افراد سے ملاقات اور ان کی صحبت وتربیت سے دینی ذوق کے نشو ونما کا ذکر کیا ہے ،خاص طور پر انہوں نے سلیمان محمد امین القابلی کی شخصیت اور اپنے اوپر ان کے اثرات کا ذکر کیا ہے ،اسی دوران جب کہ وہ بائیولوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے انہیں بعض احباب کے ذریعہ شیخ سعید نورسی کے رسالہ الطبیعہ کے مطالعہ کا موقع ملا ،اس کے بعد انہوں نے شیخ احمد رمضان کا مفصل ذکر کیا ہے جن کا ان کی شخصیت کی تعمیر میں بہت اہم حصہ رہا ،اسی دوران چند احباب کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک دینی تنظیم جمعیۃ الامانی قائم کی ،اور عراق کے مختلف شہروں کا دورہ بھی کیا ،۱۹۶۶ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ۔

اس کے بعد سے نورسی تحریک سے ان کی وابستگی ،جماعت النور سے ملاقات اور اخیر تک اس سلسلہ کی سرگرمیوں کا ذکر ہے ،اور یہ کتاب درحقیقت اسی مقصد کے پیش نظر لکھی ہی گئی ہے ،لیکن یہ مصنف کی آپ بیتی بھی ،رسائل النور کا شغف ،اس کے مطالعہ کا شوق ،اس سے ذہنی وفکری وابستگی ،اس کی طباعت کی فکر ،ہم مزاج احباب پھر اس کے عربی ترجمہ اور پھر تحریک کے تعار ف کے لئے ملکوں کا سفر اور رسائل النور پر ہونے والے بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت اس کتاب کے خاص موضوعات ہیں ،اس میں صدام حسین کےد ور میں عراق کی صورت حال پر بھی بجا بجا ضمنی تبصرے آئے ہیں ،مصنف نے اپنی اہلیہ کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔الغرض یہ کتاب عربی داں حضرات کے لئے قابل مطالعہ ہے اور اس لائق ہے کہ اسی معیاری زبان میں اردو داں حضرات کے لئے اس کا ترجمہ کیا جائے ۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare